یادِ رفتگاں

ناصر احمد قریشی صاحب۔میرے شریکِ حیات

(امۃ الباری ناصر)

ابتدا ناصر صاحب کے بارے میں حضورانور کے خطبہ میں ارشاد فرمودہ بابرکت الفا ظ سے کرتی ہوں۔ فرمایا:’’…مکرم ناصر احمد قریشی صاحب امریکہ …کی بھی گزشتہ دنوں اٹھاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ امۃالباری ناصر صاحباگرہ کے یہ شوہر تھے جو کہ لمبا عرصہ لجنہ اماء اللہ کراچی کی سیکرٹری اشاعت رہی ہیں۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کا ایک نواسہ وقاص خورشید مربی ہے اور ایک پوتا ان کا جامعہ احمدیہ کینیڈا میں پڑھ رہا ہے۔ ان کے والد کا نام مکرم محمد شمس الدین بھاگلپوری صاحب تھا اور ان کے خاندان میں احمدیت 1913ء میں آئی جب محترم مولوی عبدالماجد صاحب والد حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس علاقے میں ایک جلسہ کیا اور صداقت مسیح موعود کے دلائل بیان کیے۔ ان کے والد صاحب بہت متاثر ہوئے۔ سٹیج پر جا کر ملاقات کی۔ لٹریچر دیا گیا جسے پڑھ کر احمدیت کے لیے جوش پیدا ہوا۔ انہوں نے دعائیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک خواب میں حضرت اقدسؑ کی شبیہ مبارک دکھائی اور بھی مبشر خواب آئے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیعت کا خط لکھ دیا۔ آپؓ کی بیعت کی۔ اس طرح بھاگل پور کے اوّلین احمدیوں میں شامل ہوئے۔ شدید مخالفت کی وجہ سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہجرت کر کے قادیان آ گئے اور وہاں اخلاص و محبت میں ترقی کرتے چلے گئے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے کار ڈرائیور کے طور پر بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ناصر قریشی صاحب قادیان میں پیدا ہوئے تھے۔ پارٹیشن کے بعد کراچی میں رہائش اختیار کی۔ یہیں تعلیم پائی۔ بڑی محنت اور لگن سے نامساعد حالات کے باوجود پڑھتے رہے۔ بی ای الیکٹریکل انجنیئرنگ کی اور پھر اس کے بعد اپنے محکمہ ٹیلیفون میں ملازمت اختیار کی۔ جنرل مینیجر کے عہدے تک ترقی کی۔ ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے تو بڑے محنتی اور ایماندار افسر کی شہرت کے ساتھ ریٹائرمنٹ حاصل کی۔ جماعت احمدیہ کراچی کے حلقہ ناظم آباد میں صدر حلقہ اور جہاں بھی رہے دوسری جگہ میں بھی صدر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ان کی اہلیہ امۃ الباری صاحبہ لکھتی ہیں کہ ہمیشہ ان کو میں نے صوم و صلوٰة کا پابند پایا۔ مسجد میں دل اٹکا رہتا تھا۔ ذمہ دار شوہر، بچوں کی تعلیم و تربیت کابہت خیال رکھنے والا پایا۔ ضرورتمندوں کی مدد کی توفیق ان کو ملتی تھی۔ خلافت سے والہانہ محبت کرنے والے تھے۔ صاف سیدھی سچی اور کھری بات کہتے تھے اور خدا کے فضل سے موصی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۵؍اگست ۲۰۲۳ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍ستمبر ۲۰۲۳ء)

خاندان کا تعارف: آپ کے دادا کا نام قدرت اللہ تھا۔ ان کے دو بیٹے تھے مکرم محمد عامل اور مکرم محمد شمس الدین۔ اپنے ایک مضمون ’’میرا سسرال ‘‘ (مطبوعہ الفضل آن لائن ۱۱؍جون، ۲۰۲۱ء )میں دونوں بھائیوں کے قبول احمدیت اور بھاگلپور سے قادیان ہجرت کے واقعات لکھ چکی ہوں۔

ناصر صاحب کے تایا مکرم محمد عامل قریشی ۱۹۱۰ء میں ہجرت کرکے قادیان آگئے تھے۔ان کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں :شفیع احمد۔نذیر احمد، محمد احمد ، ’عزیز احمد‘، علیمہ ’سلیمہ‘، سکینہ اور امۃ الحئی۔ ناصر صاحب کے والد محمد شمس الدین فوج میں ملازم تھے۔ والدہ صاحبہ کا نام سیدہ صدیقہ بیگم تھا۔ نانا کا نام مولوی سید عبداللطیف تھا جو سکول میں پڑھاتے تھے اور نانی کا نام شریفن بی بی تھا جو بھیکن پور، بھاگلپور میں رہتے تھے۔ دو ماموں تھے جن کے نام سید انیس اور سید جلیس تھے۔ ایک خالہ کا نام انیقہ تھا۔ ابا کے احمدی ہونے پر سب نے بہت مخالفت کی اور اصرار کیا کہ واپس چلو یہ کافر ہوگیا ہے اس کو چھوڑ دو ہم اچھی جگہ شادی کرادیں گے۔ اماں نے کہا کہ ہمیں کافر اچھا ہے۔ ہمارے ساتھ پہلے سے اچھا سلوک ہے پہلے غصہ ناک پر دھرا رہتا تھا اب مجھ سے پہلے سلوک کی معافی مانگتے ہیں قرآن اور نماز پڑھتے ہیں میں تو ان کے ساتھ ہی رہوں گی۔اماں ثابت قدم رہیں۔ خود بھی تحریری بیعت کرکے احمدیت قبول کرلی۔ قادیان آکر دوبارہ بیعت کی۔ اس پاک بستی میں رہتے ہوئے نہ صرف وطن سے دوری کی قربانی دی بلکہ خاندان بھی چھٹ گیا۔والد کی وفات کی خبر ملی تھی مگر جا نہ سکیں۔صرف ایک دفعہ ۱۹۳۸ء میں اپنی والدہ سے ملنے واپس بھاگلپور گئیں۔ تقسیم بر صغیر سے پہلے خطوں سے رابطہ رہتامگراس کے بعد اپنے خاندان سے کوئی رابطہ نہ رہا۔قادیان میں محلہ دار الفتوح میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل ؓکے مکان کے قریب رہائش تھی۔ راقم الحروف کا آبائی گھر بھی اسی محلے میں تھا۔ آپس میں گھریلو تعلقات بن گئے۔

دوسری ہجرت: ناصر صاحب کے اباقادیان میں جماعت کی کار چلا نے لگے اس طرح بہت مبارک ہستیوں کا قرب اور مبارک ماحول نصیب ہوا۔ بچے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ ابھی پہلی ہجرت کے بعد کچھ سنبھلے ہی تھے کہ۱۹۴۷ء میں پاکستان بنا تو ایک دفعہ پھر ہجرت کرنی پڑی۔ بہت کٹھن حالات میں جماعت کے انتظام کے تحت قادیان سے لاہور آگئے۔ کچھ عرصہ وہاں ٹھہرنے کے بعد بڑے بیٹے مکرم قریشی محمود احمد کے پاس کوئٹہ چلے گئے جو فوج میں ملازم تھے اور کوئٹہ میں متعین تھے۔ ناصر اس وقت ساتویں میں پڑھتے تھے۔منجھلے بیٹے نور احمد قریشی صاحب کراچی میں تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ کراچی میں بچوں کی پڑھائی وغیرہ کے زیادہ مواقع ہیں، بڑا شہر ہے آپ ناصر کو کراچی بھیج دیں۔ یہ مشورہ سب کو پسند آیا۔ بھائی محمود نے کسی کراچی جانے والے صاحب کے ساتھ ناصر کو بھائی نور کا ایڈریس دے کر گاڑی میں بٹھا دیا کہ صدر میں دکان ہے وہاں پہنچا دینا۔ وہ صاحب بھائی کی دکان پر پہنچے تو ہفتے کا دن ہونے کی وجہ سے جلدی چھٹی ہو چکی تھی۔ اگلا دن اتوار تھا۔ ایڈریس صرف دکان کا تھا فون وغیرہ کا رابطہ نہ تھا برابر کی دکان والے کو کہا کہ اس بچے کو ساتھ لے جائیں اور پیر کی صبح جب دکان کھلے تو بھائی کے حوالے کر دیں۔ اس بھلے مانس نے اس اجنبی مہمان کو اپنے گھر رکھا اور پیر کی صبح بھائی کے حوالے کیا اس طرح ناصر کراچی پہنچ گئے۔ اور کراچی کے ہو گئے۔

ملازمت ملنے کا واقعہ بھی لکھنے کے قابل ہے۔ نماز پڑھنے احمدیہ ہال کراچی گئے تو مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب نے ملازمت کے بارے میں استفسار کیا۔ عرض کیا کہ ابھی تلاش جاری ہے۔ مولانا موصوف نے اسی وقت مکرمہ بیگم شاہنواز سے فون پر تعارف کرایا اور فرمایا کل چلے جانا کام مل جائے گا۔اگلے ہی دن ان کے ریستوران میں ایئر کنڈیشننگ کے نظام کی دیکھ بھال پر متعین ہوگئے۔ لاہور کے ہوٹل فلیٹیز میں بھی کام کیا اور کمپنی کی طرف سے ٹریننگ کے لیے انڈیا جانے کا موقع ملا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ فائزر کمپنی میں کام کیا۔ تنخواہ معقول تھی مگر اس خیال سے کہ سرکاری ملازمت میں زیادہ سہولتیں مل سکتی ہیں محکمہ ٹیلیفون میں ملازم ہوگئے۔ اس ملازمت میں پہلے دو سال ہری پور میں ٹیلی کمیونیکیشن ٹریننگ کالج میں ٹریننگ لینی لازمی تھی۔

ہری پور میں تھے جب گھر والوں کا شادی کرنے کا اصرار بڑھ گیا۔ مختلف زیر غور رشتوں میں سے میری طرف خیال جانے کی وجہ یہ بنی کہ قادیان میں سب قریب رہے ہوئے تھے ان کی اور میری بہنیں آپا کلثوم اور آپا لطیف گہری سہیلیاں تھیں۔ یہ تعلقات ہجرت کے بعد بھی قائم رہے۔ جلسے پر کراچی سے آپا کلثوم آتیں تو آپا کے گھر ٹھہرتیں۔اسی قیام کے دوران اپنے بھائی کے لیے مجھے پسند کرلیا۔ ان کے بڑے بھائی محمودقریشی ہمارے گھر کے سامنے اپنا گھر تعمیر کرارہے تھے امی جان کے پاس مشورے کے لیے آتے تھے۔ ان کو بھی یہ خیال پسند آیا۔ ان کی اماں کے سوا سب نے مجھے دیکھا ہوا تھا ناصر ان کو ربوہ لائے تاکہ ایک نظر دیکھ لیں۔ اماں اتنی سادہ خاتون تھیں کہ ہمارے گھر آئیں تو میری امی جان سے کہا آپ کی جس بیٹی کا نام باری ہے اسے کہیں ہمارے لیے پانی لائے۔ امی جان مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں۔ بات چلی تو ان کو اپنا ایک خواب یاد آیا جو انجینئرنگ کے آخری سال میں دیکھا تھاکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسے ایک ملاقات میں مصافحہ کرنے کے بعد عرض کیا کہ مجھے ٹانگ میں تکلیف رہتی ہے کوئی دوا تجویز فرمادیں۔ آپؓ نے فرمایا ’حضرت مرزا بشیراحمدؓ  کی جیب میں ایک نسخہ ہے وہ لے لو‘۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ جسے دیکھا جارہا ہے وہ ایک درویش قادیان کی بیٹی ہے تو حضرت میاں صاحب ناظر خدمت درویشاں کی جیب میں نسخہ اپنے خواب کی تعبیر سمجھا۔ رشتہ مانگنے سے شادی تک دو سال لگے ہوں گے اس اثنا میں ہمارے گھر کراچی کا سوہن حلوہ بہت آتا رہا۔ یکم مارچ ۱۹۶۳ء کو نکاح ہوا اور ۲۴؍دسمبر کو شادی۔ الفضل میں شادی کا اعلان ہوا۔

تقریب رخصتانہ:مورخہ ۲۴؍دسمبر کو بعد نماز عصر مکرم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش قادیان کی صاحبزادی محترمہ امۃ الباری صاحبہ ایم اے لیکچرار جامعہ نصرت ربوہ کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی جس میں دیگر متعدد بزرگان سلسلہ و احباب جماعت کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے بھی شمولیت فرمائی۔

اس موقع پر تلاوت قرآن مجید کے بعد جو مکرم حافظ محمد رمضان صاحب نے فرمائی مکرم عبد السلام صاحب ظافر مولوی فاضل نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیہ نظم خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنائی۔ جس کے بعد حضرت مولوی محمد الدین صاحب ناظر تعلیم نے اجتماعی دعا کرائی۔ مورخہ ۲۹؍ دسمبر کو دعوت ولیمہ عمل میں آئی جس میں بہت سے احباب شامل ہوئے۔

محترمہ امۃ الباری صاحبہ کا نکاح یکم مارچ ۱۹۶۳ء کو مکرم ناصر احمد صاحب قریشی اسسٹنٹ ڈویژنل انجنیئر پاکستان ٹیلیگراف و ٹیلیفون ڈیپارٹمنٹ ابن محترم قریشی محمد شمس الدین صاحب بھاگلپوری مرحوم سے طے پایا تھا۔ بزرگان سلسلہ و احباب جماعت دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس تعلق کو جانبین کے لیے ہر لحاظ سے خیرو برکت کا موجب بنائے۔ آمین۔(ماخوذ از الفضل ۱۲؍جنوری۱۹۶۴ء)

اس وقت ربوہ میں شادیاں سادگی سے ہوتی تھیں۔ ایک کاغذ پر بچی کو دعاؤں سے رخصت کرنے کی دعوت کے ساتھ مدعووین کی فہرست بنا دی جاتی اور گھر گھر دکھا کر دستخط لے لیے جاتے۔ دلہن کو بھی گھر میں ہی سہیلیاں مل کر سجا دیتیں۔ گھر کے صحن میں کرسیوں اور چارپائیوں پر مہمان بیٹھ جاتے۔ خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز بخشا کہ دلہن کو بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے مبارک خاندان کی خواتین نے بنایا اور کئی معزز بزرگوں نے دعاؤں سے رخصت کیا۔ رخصتی کے لیے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی کار میسر آگئی ، جس کے ڈرائیور ناصر صاحب کے تایا زاد مکرم نذیر احمد قریشی تھے ۔ جس پر تھوڑا سا چکر کاٹ کر قریب ہی شادی کے لیے کرائے پر لیے گئے گھر میں اُتار دیا تھا۔ بارات پیدل آئی تھی۔ ربوہ میں بہت کاریں نہیں ہوتی تھیں۔شادی میں ان کے سب بہن بھائی شریک ہوئے تھے۔ بڑے بھائی مکرم محمود قریشی نے باپ کی طرح سب انتظامات کیے۔

اس وقت ناصرصاحب ہری پور میں ٹریننگ لے رہے تھے۔ اس لیے مجھے کچھ عرصہ ربوہ میں رہ کر ملازمت جاری رکھنے کا موقع مل گیا۔ اس زمانے کی ایک بات نے مجھے متاثر کیا۔ کالج سے جو تنخواہ ملتی اور استعفیٰ دینے کے بعد فنڈ زوغیرہ ملے انہوں نے کہا یہ اپنی امی کو دے کر گھر آنا اس پر میرا حق نہیں ہے۔

ٹریننگ کے بعد ۱۹۶۴ء میں کراچی میں بطور اسسٹنٹ ڈویژ نل انجینئر متعین ہوئے تو ہم کراچی آگئے۔

والدہ صاحبہ اور بہن بھائیوں سے حسن سلوک: ناصرصاحب اپنی والدہ کو اپنی ذمہ داری سمجھتے۔ میری شادی کے بعد وہ تین چار سال زندہ رہیں۔ محبت کرنے والی سادہ سی خاتون تھیں۔ہمیں اماں کی خدمت کا موقع ملا۔ جہاں بھی گئے اماں کو ساتھ رکھا۔ اس طرح اماں ہری پور، لاہور، ربوہ اور کراچی میں ہمارے ساتھ رہیں۔ ناصرصاحب کو اندرون ملک کہیں بھی سفر کے لیے اپنے محکمے کی طرف سے ریل گاڑی کی فرسٹ کلاس میں دو افراد سفر کے پاس کی سہولت حاصل تھی۔ اماں کو کراچی سے لاہور لے کر جانا تھا۔ مجھے سیکنڈ کلاس میں بٹھایا اور اماں کو اپنے ساتھ فرسٹ کلاس میں لے کرگئے۔ اماں کو شوگر کی تکلیف تھی ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق غذا اور پرہیز کا بہت خیال رکھتے۔ حکمت، ہومیوپیتھک، ایلوپیتھک سب دوائیں استعمال کراتے۔ ڈاکٹروں کی فیسوں، دواؤں پر خرچ کی پروا نہ کرتے۔ ناصر صاحب کو گھر کے کاموں کی بالکل عادت نہیں تھی۔ مگر اماں کے لیے انڈا پھینٹ کر اس میں تیز گرم دودھ ڈالتے اور ٹھنڈا کرکے اماں کو پلاتے۔اُگالدان خود صاف کرتے، بستر بدل دیتے، جس دن اماں کی حالت خراب ہوئی ہسپتال لے کر جانا تھا سب سے اچھے ہسپتال کا انتخاب کیا اور سب سے اچھا کمرا بک کرایا۔ اماں کو کندھے پر اٹھا کر ایمبولینس تک لے کر گئے مگر ۱۶؍اپریل ۱۹۶۷ء کو راستے میں ہی اماں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انتہائی صبر سے اگلے سفر کی تیاری کی موصیہ تھیں ربوہ لے کر گئے اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔

ناصرصاحب بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ان کی پیدائش سے پہلے دو بیٹے کم سنی میں وفات پاگئے تھے اس لیے بھی سب کے لاڈلے تھے۔ انہوں نے بھی پیار کا حق خوب ادا کیا۔ سب کے کام آنے کی کوشش کرتے۔سب اپنے بچوں کی تعلیم، ملازمت اور شادی بیاہ میں مشوروں اور انتظامات میں ان کی رائے کو فوقیت دیتے۔اپنے عزیزوں کو زندگی میں میسر سہولتوں میں شامل رکھتے اور بہت دعائیں لیتے۔ خاکسار سے بھی سب کا سلوک بہت محبت بھرا تھا۔

ملازمت: محکمہ ٹیلی فون و ٹیلیگراف میں پہلی پوسٹنگ کراچی میں بطور اسسٹنٹ ڈویژنل انجنیئر ہوئی ۱۹۶۵ء میں ڈویژنل انجنیئر بنے اور اسی سال لاہور ریجن میں تبادلہ ہوگیا۔ ۱۹۶۹ ء تک لاہور رہے وہیں سے کینیڈا ٹریننگ کے لیے بھیجے گئے واپسی پر ۱۹۷۰ء میں کراچی پوسٹنگ ہوگئی۔۱۹۷۳ء میں ڈائریکٹر کے عہدے پر ترقی ہوئی۔ ۱۹۷۵ء میں اسلام آباد پوسٹنگ ہوئی اور ڈپٹی چیف انجنیئر اور ڈائریکٹر ٹریننگ مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۳ء تک صوبہ سندھ کے ڈائریکٹر سٹور اور ورکشاپ کی حیثیت سے کام کیا۔ ۱۹۸۴ء میں پھر ترقی ہوئی اور جنرل مینیجر بنا ئے گئے۔۱۹۸۵ء میں محکمے کی طرف سے سویڈن اور لندن جانا ہوا۔ ۱۹۸۷ء سے ۱۹۸۹ء تک کوئٹہ میں جنرل مینیجر رہے۔وہاں سے ۱۹۸۹ء میں واپس کراچی تبادلہ ہوا اور جنرل مینیجر کے ٹی آرمتعین ہوئے۔۱۹۹۲ء میں فرانس، لندن اور نیو یارک جانا ہوا۔ ۱۹۹۳ء میں تھائی لینڈ اور ۱۹۹۴ء میںکوریا کا دورہ کیا۔ ۱۹۹۵ء میں جینیوا، سوئٹزرلینڈ اور ۱۹۹۸ء میں منیلا فلپائن جانا ہوا۔

اگست ۱۹۹۸ءمیں ریٹائر ہوئے مگر محکمے کی طرف سے اضافی وقت دیا گیا اس طرح ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۱ء تک محکمے کی ملازمت سے وابستہ رہے۔

جماعتی خدمات:قادیان میں پیدائش اور بچپن نے رگوں میں نظام خلافت سے پر خلوص وابستگی بھر دی تھی۔ نماز جمعہ پڑھنے کے لیے خاص اہتمام کرتے۔ ایم ٹی اے سے خطبات دل جمعی سے سنتے۔ دعا کے لیے خطوط لکھواتے۔ جب بھی موقع ملا جماعت کی خدمت کے لیے حاضر رہتے۔مندرجہ ذیل جماعتوں اور شعبہ جات میں خدمت کا موقع ملا۔الحمدللہ

۱۔ صدر حلقہ ناظم آباد شمالی کراچی ۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۵ء۔ ۲۔ نائب ناظم انصاراللہ (شعبہ صحت جسمانی )حلقہ صدر ضلع کراچی ۱۹۸۲ء تا ۱۹۸۴ء۔ ۳۔ نائب صدر حلقہ صدر کراچی ۲۰۰۰ء تا ۲۰۰۱ء۔ ۴۔ زعیم اعلیٰ انصار اللہ حلقہ صدر کراچی ۱۹۹۸ءتا ۲۰۰۱ء۔ ۵۔سیکرٹری وقف جدید حلقہ النور کراچی ۲۰۰۲ءتا ۲۰۰۸ء۔۶۔ سیکرٹری تعلیم حلقہ النور کراچی ۲۰۰۸ءتا ۲۰۱۰ء

چندوں میں باقاعدگی: چندہ باقاعدگی سے شرح کے مطابق ادا کرتے اور اپنی رسیدیں سنبھال کر رکھتے۔ بیرون ملک کئی دفعہ جانا ہوا واپس آکر سارے عرصے کا حساب بےباق کرتے تھے۔ مالی تحریکات میں بھی حصہ لیتے۔ جب نظام وصیت میں شامل ہوئے تو مجھے بھی ساتھ ہی شامل کیا۔ گھر آکر بتایا کہ تم بھی موصیہ بن گئی ہو جس کے لیے میں بہت شکرگزار ہوئی۔ وصیت کا چندہ باقاعدہ تھا حصہ جائیداد زندگی میں ادا کردیا تھا۔ وفات کے وقت کوئی بقایا نہیں تھا۔

بچوں کی صحت اور تعلیم و تربیت کا خیال: بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا بہت شوق تھا۔ اگلی سے اگلی منزلوں کی طرف بڑھنے کی حوصلہ ا فزائی کرتے اس میں بیٹے بیٹی کا فرق نہیں کیا۔ ہر سہولت بہم پہنچاتے۔ تعلیم پر خرچ کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ بہترین سکول کالج کا انتخاب کرتے۔ بچوں نے اسلام آباد اور کراچی میں تعلیم پائی۔ بڑی بیٹی امۃ المصور نے ایم بی بی ایس کیا۔ بڑے بیٹے منصور احمد نے ایم بی بی ایس کیا تو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ بھیجا۔ دوسری بیٹی امۃ الصبور سماعت سے محروم تھی اس کے لیے خصوصی تعلیم کا انتظام کرتے رہے۔ علاج میں کوئی کسر نہ رکھی۔ آلۂ سماعت کے لیے کان کے سائز کے مولڈ گھر میں بناتے۔ ایک سپیچ ٹریننگ speech trainingمشین کا علم ہوا تو وہ انگلینڈ سے منگوا ئی اور ایسے بچوں کو تعلیم دینے کے ماہر کی گھر پر ٹیوشن رکھی۔ میٹرک کے بعد ایک ٹریننگ سکول سے سلائی کڑہائی اور پینٹنگ کے کورس کروائے۔ اس کا رجحان دیکھ کر کراچی کے بہترین آرٹس کالج میں داخلہ دلوایا۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے اس نے باوجود اپنی کمی کے کئی ہنر حاصل کیے۔ دوسرے بیٹے محمود احمد نے بی ایس سی، بی ای اور ایم بی اے کیا اور سافٹ ویئر انجینئر بنا۔ چھوٹی بیٹی امۃ الشافی نے ایم ایس سی کیا۔ اچھی تعلیم بچوں کی زندگیوں میں ترقی کے راستے کھولتی ہے۔ اسی طرح بچوں کے علاج معالجہ اور اچھی خوراک کا خیال رکھتے۔ تینوں بیٹیوں کے دانتوں کا کاسمیٹک علاج کرایا۔ دعا ہے کہ بچوں کی ہر دینی و دنیاوی ترقی کا ان کو اجر و ثواب ملتا رہے۔

ہمیں ان بچوں کی شادیوں سے اللہ تعالیٰ نے تین داماد اور دو بہوئیں عطا فرمائیں۔اس طرح خاندان میں وسعت ہوئی۔ ناصر صاحب نے سب بچوں سے برابر کا سلوک کیا۔شفقت اور محبت سے دعاؤں سے نوازتے۔ ہم ان کے والدین کے لیے بھی دعا گو ہیں جن کے جگر گوشے ہمارے سکون اور اطمینان میں اضافہ کرنے کا باعث بنے۔فجزاہم اللہ تعالیٰ احسن الجزا۔

عام رہن سہن: ہرکام میں کمال پسند کرتے۔ دوسروں سے بھی یہی توقع رہتی۔ کشائش کے باوجود سادگی سے رہتے۔ بےجا تکلف اور تصنع پسند نہیں تھا جو دل میں ہوتا وہی زبان پر لاتے۔ کم آمیز تھے۔ اپنی ذات میں مگن رہتے۔ صفائی پسند تھے۔ موقع کے مطابق بہترین کپڑے کا بہترین درزی سے سلوا یاہوا لباس پہنتے۔ بال بار بار سنوارتے جوتا ہمیشہ چمکتا ہوا رکھتے۔ روزانہ کھانے کا مینیو بتاتے۔خوش رنگ خوش ذائقہ کھانا ان کی خوشی کا سامان ہوتا۔معدے کے راستے دل تک جانے کے اہتمام میں میرا وقت گرمی سردی میں باورچی خانے میں گزرتا۔ دفتر سے آکر سارے دن کی باتیں بتاتے جو مجھے توجہ سے سننی پڑتیں۔ اپنی موجودگی میں میری توجہ صرف اپنی طرف رکھنا پسند کرتے۔ کراچی میں رہنا پسند تھا۔ بیس سال ہم صدر کے علاقے میں رہے جہاں سے احمدیہ ہال قریب تھا۔ اس طرح میرے لجنہ کے کام بھی آسان ہوگئے۔ نظم و ضبط بہت تھا۔ وقت کی پابندی مزاج کا حصہ تھی بلکہ وقت سے پہلے کام مکمل کرنے کی عادت تھی خاص طور پر سفروں میں تو وقت سے کئی گھنٹے پہلے ایئر پورٹ یا اسٹیشن پر پہنچ جاتے۔ دعوتوں اور شادیوں میں ہم سب سے پہلے حاضر ہونے والوں میں سے تھے۔ بیٹے کی شادی میں بارات لے کر دلہن والوں کے آنے سے پہلے پہنچے ہوئے تھے۔ یہ جلدی کی عادت گھرمیں ایک زلزلہ سا برپا رکھتی۔ہر اہم کام کے لیے ایک متبادل(standby) انتظام بھی رکھتے۔ جس کا بعض دفعہ بہت فائدہ ہوا۔ اپنی ہرچیز ٹھکانے پر رکھنے کی عادت تھی۔ اہم کاغذات کی فائلیں منظم طریق پررکھتے۔ ہر فائل کے اوپر مندرجات صفائی سے لکھے ہوتے۔محتاط بھی بہت تھے۔ہر اچھے برے پہلو پرنظر رکھتے۔ اتنے ذمہ دار بندے کے ساتھ رہتے ہوئے میری کئی کمزوریوں پر پردہ پڑا رہتا۔

ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ قرآن پاک کی بہت عزت کرتے تھے کبھی بھی احتیاط سے ہاتھ دھوئے بغیر قرآن مجید کو نہیں پکڑتے تھے اپنے کپڑوں کے اوپر صاف کپڑا بچھا کر قرآن مجید رکھتے اچھی آواز سے تلاوت کرتے کئی سورتیں یاد تھیں۔

نماز بہت اچھی پڑھاتے۔ اسی طرح حضور انور کے خطبہ کے وقت مکمل خاموشی اور توجہ سے سنتے۔

آخری بیماری: ناصر صاحب اچھی صحت کے مالک تھے۔ جوانی میں بھاری ورزش کرتے تھے۔ کلب جانا شروع کیا تھا مگر وہاں کا ماحول پسند نہیں آیا۔گھر پر ورزش کا سامان خرید لیتے۔ اپنا جِم بنالیتے ورزش کا معمول ہر حال میں جاری رکھا۔ پیدل چلنے کے لیے شام کو کسی قریبی میدان میں چلے جاتے۔ اپنے سارے عرصۂ ملازمت میں صرف ایک دفعہ شنگلز کی وجہ سے دفتر سے چھٹی لینی پڑی۔ریٹائر ہو کر بھی تین سال ایکسٹینشن پر کام کیا ، اس کے بعد بھی صحت ٹھیک تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد رہنے کے لیے بڑے شوق اور محنت سے ساری عمر کی کمائی لگا کر ربوہ اور کراچی میں اپنا مکان تعمیر کرایا۔ ربوہ میں تو رہنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ کراچی میں اپنے گھر میں منتقل ہوگئے۔ دفتر سے فارغ ہو کر بھی اپنا دفتر کا معمول جاری رکھا۔ اپنے نجی کاموں پراپرٹی وغیرہ کی فائلیں کھول کر بیٹھ جاتے۔ بہت سے نظر انداز ہونے والے کام نپٹاتے رہتے۔

کبھی کبھی میں محسوس کرتی کہ جب بہت توجہ یا احتیاط سے کام کررہے ہوتے تو ہاتھ میں جنبش سی ہوتی ایک دو دفعہ توجہ دلائی مگر مجھے ٹال دیا۔ پھر یہ ہوا کہ بینک گئے تو کیشیئر نے کہا آپ کے دستخط نہیں ملتے۔ آپ ہمارے پرانے جاننے والے ہیں اس لیے رقم دے رہے ہیں۔ یہ ٹریمر کا آغاز تھا۔ علاج شروع ہوگیا۔ ان کے لیے ذہنی طور پر بیماری کو قبول کرنا بہت مشکل تھا۔ نارمل رہنے کی کوشش کرتے۔ ۲۰۱۰ء میں ہم امریکہ آگئے۔ جب ایک جگہ مدتوں سے جمے جمائے رہنے والے کو اپنا ملک چھوڑ کر دوسری جگہ رہنا پڑے تو طبیعت پر اثر ہوتا ہے۔

جو ہجرت کی تو دل اپنا پرانے گھر میں چھوڑ آئے
سو اب اچھے سے اچھا بھی ہو گھر اچھا نہیں لگتا

کیفیت میں اضافہ ہو گیا۔ ڈاکٹر کو دکھایا تو پتا لگا کہ پارکنسنز کی شروعات ہیں۔ بے حد تکلیف ہوئی اس بیماری کا نام مکرم ڈاکٹر عبدالسلام اور باکسر محمد علی کلے کے حوالے سے سنا ہوا تھا مگر اپنے خاندان میں دُور نزدیک نہیں سنا تھا۔ مناسب دیکھ بھال کے بارے میں جاننے کے لیے گوگل کیا تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس وقت اس بات کا شکر کیا کہ ناصر صاحب کمپیوٹر بالکل استعمال نہیں کرتے تھے۔ورنہ وہ سب دیکھ لیتے تو ہمت قائم رکھنا مشکل ہو جاتا۔ ان کی قوّت ارادی بہت مضبوط تھی۔ یہ ظاہر نہیں کرتے تھے کہ کوئی کمزوری یا بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ مجھے یاد ہے ۲۰۱۲ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ امریکہ تشریف لائے تھے۔ کولمبس میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا تو ہم نے دعا کے لیے عرض کیا تھا اس وقت ایک پاؤں اور ہاتھ تھوڑا تھوڑا ہلتا تھا مگر عام صحت ٹھیک تھی۔ ۲۰۱۴ء میں ہم نیویارک گئے تو اصرار پر چھڑی ہاتھ میں پکڑی مگر تصویر یں کھنچوانے سے پہلے چھڑی مجھے پکڑا دی کمزور نظر آنا پسند نہیں تھا۔کسی کی مدد لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ کپڑے بدلنے میں، باتھ روم میں بیٹھنے اٹھنے میں اور جراب جوتا پہننے اتارنے میں دقت ہونے لگی تو جگہ جگہ سہارے کے لیے ہینڈل لگوا لیے۔ بٹن بند کرنے کھولنے میں مشکل ہونے لگی تو دیر تک محنت کرتے رہتے ،مدد نہ مانگتے۔ یہ خوش فہمی بھی تھی کہ ٹھیک ہوکر کراچی یا لندن جائیں گے اور وہیں رہیں گے۔

یہ میں اس لیے بھی لکھ رہی ہوں کہ اس مزاج کا آدمی جب اپنے کام دوسروں سے کرانے پر مجبور ہوتا ہے تو نہ صرف اس کے لیے بلکہ دیکھنے والوں کے لیے بھی بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔پھریادداشت پر اثر کا اندازہ ہونے لگا بھولنے کی کیفیت کے آغاز میں کسی سے بات کرتے ہو ئے کوئی نام یا لفظ بھولتے تو میری طرف دیکھتے میں فوراً لقمہ دے دیتی۔ ان کو محسوس بھی نہیں ہوتا تھا مگر میں دیکھ رہی ہوتی تھی کہ یادداشت پر اثر ہو رہا ہے۔ زیادہ تر ماضی میں رہنے لگے تھے۔ اپنے ہی گھر کو اپنا بچپن کا سکول سمجھنے لگے۔ کبھی اپنے سٹینو کو کوئی ہدایات دیتے۔ کبھی کمرے سے ڈائننگ ٹیبل تک کا راستہ بھول جاتے۔ توازن قائم رکھنا مشکل ہوگیا۔ چھڑی سے گرنے لگے تو واکر تک آگئے۔مجھے لیپ ٹاپ کھولے دیکھتے تو کہتے درثمین پر کام کر رہی ہو۔ ہوا یہ تھا کہ جس طرح مجھے ان کی انجنیئرنگ سے دلچسپی نہیں تھی ان کو بھی میرے لکھنے لکھانے سے دلچسپی نہیں تھی مگر میرے ایم ٹی اے کے لیے درثمین کے پروگرام دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے وہی ذہن میں رہا تھا۔ پہلے اپنی دوائیں بڑے فکر سے وقت پر لیتے پھر گولیاں ادھر ادھرکرنے لگے۔ دوائیں دینا بھی میں نے اپنے ذمے لے لیا۔ دل بہلانے کے لیے ٹی وی پر کچھ لگاتی تو تھوڑی دیر دیکھنے کے بعد توجہ نہ رہتی۔ کھانا اپنے ہاتھ سے کھاتے مگر ہاتھ سے گرنے لگا۔ کون آیا ہے کون گیا ہے ہوش نہ رہی اپنوں کو پہچاننے میں دقت ہونے لگی۔ مجھ سے میرا نام پوچھتے۔ رفتہ رفتہ خود فراموشی کی کیفیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اپنے لباس کا ازحد خیال رکھنے والے ایک ایک منٹ پر کنگھی کرنے والے ہر چیز سے بےنیاز ہو گئے۔

بھائی جان مکرم عبد الباسط صاحب شاہد کی اہلیہ میری بھابھی جان نے بھی یہ کیفیت گزاری تھی۔ جنہیں دیکھ کر میرے بھتیجے عزیزم آصف محمود باسط نے الفضل میں ڈیمنشیا پر ایک مضمون لکھا تھا جس سے بہت فائدہ ہوا۔ میں روزانہ ناشتہ کراکے ان کی میز دفتر کی طرح سجا دیتی۔ اور یہ اپنا دفتر سمجھ کرفائلیں الٹ پلٹ کرتے رہتے۔ بیمار کے ساتھ لمحہ لمحہ وقت گزار نا ، اس کی اور اپنی بے بسی کی اذیت سہنا بہت تکلیف دہ تھا۔ اس عالم میں ہم اس بات کا شکر کرتے کہ ان کو احساس نہیں رہا تھا کہ کس حالت میں ہیں اس تکلیف سے اللہ کی رحمت نے انہیں بے نیاز رکھا۔ کیفیت بتدریج خرابی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر خیال آیا کہ ہسپتال میں داخل کرنا پڑے گا مگر منصور نے اچھا مشورہ دیا کہ گھر میں ہی انتظام ہو جاتا ہے۔ زندگی کے آخری تین ہفتے اس طرح گزرے کہ مریض کی سہولت کا سب سامان اور نرسیں گھر میں ہی آنے لگیں۔ منصور اور محمود کو خدمت کا موقع ملا۔

کھانے میں مسلسل کمی سے جسم بہت کمزور ہو گیا ایک ڈھانچہ تھا جو سانس لے رہا تھا۔ میں منہ میں قطرہ قطرہ پانی ٹپکاتے ہوئے سوچتی اس شخص نے زیرو پوائنٹ سے زندگی شروع کی ٹیوشنیں پڑھا کر تعلیم حاصل کی مشقت کا سفر کرکے ایک کامیاب بامراد نیک نام زندگی گزاری۔ ٹاپ فلور کے ٹین کی چھت والےکمرے سے نکل کر بڑے بڑےسرکاری بنگلوں میں رہے۔موٹر ڈرائیور کے بیٹے کو سرکاری گاڑیوں اور ڈرائیوروں کی سہولت میسر رہی۔ محنت کی کمائی سے اپنی جائیداد بنائی۔ کئی احباب کی زندگی بدلنے میں مدد دی۔ لیکن اپنی حالت پر اختیار نہیں۔ آخر سرائے فانی سے رخصت ہونے کا وقت آگیا ہم سب سورت یٰس اور دعائیں پڑھ رہے تھے سانسوں میں وقفہ بڑھتا گیا اور بالآخر ۴؍اگست ۲۰۲۳ء بروز جمعۃ المبارک صبح پانچ بجے ہمیں چھوڑ کر اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

ہفتہ کے روز مسجد محمود ڈیٹرائٹ میں نماز جنازہ ادا کی گئی جو فاران ربانی صاحب مربی سلسلہ نے پڑھائی۔ اسی دن مقامی قبرستان Livonia Mount Hope Cemetery کے مقبرہ موصیان میں تدفین عمل میں آئی جس کے بعد مربی صاحب موصوف نے دعا کرائی۔ جس میں جماعت کے احباب نے کثرت سے شرکت کی۔ اس موقع پر احباب جماعت کی پُر خلوص شرکت نے بہت ڈھارس بندھائی اور پھر حضور انور کے جنازہ پڑھانے سے ساراغم حمد و شکر میں مدغم ہو گیا۔آخری بیماری میں لندن جانے اور حضور سے ملنے کی خواہش کا کئی بار اظہار کرتے تھے۔خطبے میں ذکر خیر سنتے ہوئے یہ خیال آتا رہا آج وہ سن سکتے تو کس قدر خوش ہوتے۔ وفات سے دوتین مہینے پہلے منصور پیارے حضور سے ملاقات کے لیے جارہا تھا تو اسے کہا تھا۔ حضور کو کہنا میری مغفرت کے لیے دعا کریں۔اور پیارے حضور نے نماز جنازہ پڑھا کر ان کی مغفرت کے لیے دعا کی جس پر ایک دنیا نے آمین کہی۔ پھر کئی جماعتوں نے اپنے مراکز میں دعائے مغفرت کی۔ دعاؤں سے معطر بے شمار تعزیت کے پیغام آئے۔جن میں سے ایک مکتوب شامل کرتی ہوں۔ اللہ تبارک تعالیٰ سب کی دعائیں قبول فرمائے اور مرحوم کو اعلیٰ علیین میں مقام قرب سے نوازے۔ آمین۔

امیر صاحب جماعت ہائے متحدہ امریکہ مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب نے میرے بیٹے کے نام تحریر فرمایا:’’آپ کے قابلِ احترام والد کی وفات کی خبر ملی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں اپنے پیاروں کے ساتھ جنت الفردوس کے بالا خانوں میں جگہ دے۔ خدا ان سے راضی ہو اور اپنے پیار کے ساتھ انہیں وصول کرے۔ خدا تعالیٰ ان کی ساری دعائیں ان کی اولاد کے حق میں قبول فرمائے۔ اور آپ کی اولاد در اولاد کے حق میں وہ قبول ہوتی رہیں۔ اور آپ کی زندگی کا سرمایہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور سب لواحقین کو صبر کی توفیق دے اور اس مشکل وقت میں آپ کی ڈھارس اور سکون ہو۔ والدین کی جدائی انسانی زندگی میں ایک خلا چھوڑ جاتی ہے جو کبھی بھی نہیں بھرتا اور اپنے والدین کے لیے دعائیں ہی ہیں جو اس کو کچھ کم کردیتی ہیں۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آخری وقت میں ان کی خدمت کا موقع ملا اور ان کی دعاؤں سے حصہ پایا۔ جس طرح ان کی دعاؤں اور تربیت سے آپ کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملی اور خلافت سے تعلق کی توفیق ہوئی وہی جذبہ آپ کی دعاؤں اورتربیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کے والد محترم کی اگلی نسلوں میں قائم رکھے۔

اپنی والدہ محترمہ کی خدمت میں میری طرف سے اور میری بیوی کی طرف سے اظہارِ افسوس کردیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے اس وقت میں ہمت اور طاقت عطا کرے اور ان کی پناہ ہوجائے اگر ہو سکے تو باقی افرادِ خانہ سے بھی میری طرف سے تعزیت کا اظہار کردیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اس کی رضا آپ کے ساتھ ہو۔‘‘

اولاد : ۱۔ڈاکٹر امۃ المصور (آٹوا ، کینیڈا ) ان کی شادی مکرم شیخ خورشید احمدکے صاحبزادے زاہد خورشید سے ہوئی۔ دوبچے ہیں۔ وقاص خورشید، مربی سلسلہ امریکہ اور ولیہ خورشید۔۲۔ڈاکٹر منصور احمد قریشی۔ان کی شادی مولانا سلطان محمود انور مرحوم کی صاحبزادی فوزیہ منصور سے ہوئی۔ ڈیٹرائٹ امریکہ میں رہائش ہے۔ تین بچے ہیںحانیہ منصور، حسن مصور احمد اور مونس احمد۔۳۔ محمود احمد قریشی۔ سافٹ ویئر انجنیئر ہیں۔ ان کی شادی مکرم عبدالخالق بٹ (ایران) کی صاحبزادی امۃ المتین سے ہوئی۔تین بچے ہیں۔ سعود احمد، سرمد احمد (متعلم جامعہ احمدیہ کینیڈا) عطاء السلام۔ ۴۔امۃ الصبور خان ( یو کے ) کی شادی مکرم محمود نصر اللہ خان کے صاحبزادے عمر نصر اللہ خان سے ہوئی۔ دو بچے ہیں ثمر نصراللہ خان اور نصر نصر اللہ خان۔۵۔ امۃ الشافی طارق (بریمپٹن۔ کینیڈا) کی شادی لیفٹیننٹ کرنل مکرم محی الدین اکبر کے صاحبزادے طارق رشیدالدین سے ہوئی۔ تین بچے ہیں مائرہ، نورالدین، صباحہ۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ڈاکٹر سید ریاض الحسن صاحب کا ذکر خیر

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button