الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری
مکرم مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب کا ایک مضمون مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جولائی و اگست۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے اپنے والدمحترم، خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے حوالے سے اپنی چند یادیں قلمبند کی ہیں۔
حضرت مولوی صاحبؒ کا وصال ۱۹۷۷ء میں ہوا تھا۔ آپ صاحبِ کشوف و الہام بزرگ تھے لیکن طبیعت میں ایسی انکساری اور خاکساری تھی کہ اکثر اس ذاتی تعلق باری تعالیٰ کا اخفا ہی پسند فرماتے۔ اگر کبھی ذکر کیا بھی تو ہر بار اللہ تعالیٰ کے شکر اور اس کی حمد سے لبریز جذبات کے ساتھ ہوتا نہ کہ اپنی ذات کو نمایاں کرنے یا تفاخر کی غرض سے۔ مثلاً ایک بار یہ بتایا کہ ۱۹۵۳ءکے خطرناک حالات میں ایک روز خوب دعا کا موقع ملا تو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعے تسلی دی اور فرمایا: اِنَّا نُنَفِّسُ کُلَّ کُرۡبَۃِِ مِنۡ کُرَبَاتِ الدُّنۡیَا کہ دنیا کی سب مشکلات اور آزمائشوں کو ہم پھونک سے اڑا کر رکھ دیں گے۔
٭…محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نے مجھے یہ بتایا تھا کہ حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھریؒ نے اُن سے ایک موقع پر اپنے اس الہام کا ذکر فرمایا تھا: سَمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلکہ مَیں نے تیرا نام متوکّل رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپؒ واقعی ایک سچے اور کامل متوکّل بندئہ خدا تھے۔ گھر میں ہم بہن بھائی اپنی تعلیمی ضروریات کے لیے رقم لینے کے لیے آپ کے پاس جاتے تو آپ جیب میں ہاتھ ڈالتے۔ رقم ہوتی تو فوراً دے دیتے اور اگر نہ ہوتی (اورایسے مواقع بہت کثرت سے ہوا کرتے تھے)تو فرمایا کرتے تھے کہ اچھا کل رقم لے لینا۔ آپ واقف زندگی تھے۔ دنیاوی لحاظ سے مال دار نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ پریقین اور توکّل کی دولت سے بھرپور تھے۔ اگلے روز ہم جاتے تو اسی طرح جیب میں ہاتھ ڈالتے اور ہماری مطلوبہ رقم بڑی خوشی سے ہمیںدے دیتے۔ ہم بہن بھائی اکثر آپس میں یہ بات کرتے کہ ابا جان کے پاس آج رقم نہیں ہے تو کل کہاں سے آجائے گی؟ ہم آپس میں اظہار بھی کرتے کہ شاید ابا جان کے پاس پیسے بنانے کی کوئی مشین ہے جو آپ رات کو چلاتے ہیں۔
٭…اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو نفس مطمئنہ عطا فرمادیا تھا۔ آپ دنیا میں رہے لیکن دنیا کی محبت کلیۃً سرد ہو چکی تھی اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہر چیز پر غالب تھی۔ ہمارا مکان ’’بیت العطاء‘‘دو محلوں کی مساجد کے درمیان میں پڑتا تھا۔ ہم سب دونوں مساجدمیں نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ اباجان کی ہدایت پر برآمدہ میں ایک بورڈ لگایا ہوا تھا جس میں دونوں مساجد میں نمازوں کے اوقات لکھے ہوتے تھے۔ آپ بڑی محبت اور چاہت سے مسجد جاکر نمازیں ادا فرماتے۔ آپ کے نمازوں کے اہتمام کو دیکھ کر ہمیشہ وہ حدیث یاد آتی کہ مومن کا دل تو گویا مسجد میں لٹکا رہتا ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری کا انتظار رہتا ہے۔ موسم گرما میں بعض اوقات اتنی شدید گرمی ہوجاتی تھی کہ دل کرتا تھا کہ نماز گھر پہ ہی ادا کرلی جائے۔ ایسی شدید گرمی میں بھی آپؒ سر پر تولیہ لپیٹ کر اورپانی کا گلاس پی کر نماز کے لیے مسجد تشریف لے جاتے اور کئی بار اس آیت کریمہ کا ذکر فرماتے:نَارُجَھَنَّمَ اَشَدُّحَرًّا کہ جہنم کی آگ اپنی حرارت میں بہت ہی شدید ہے۔
٭…حضرت اباجانؒ کا درس القرآن بہت مقبول تھا۔ بہت معلوماتی اور دلچسپ ہوتا تھا۔ تلاوت قرآن مجید کا بھی ایک خاص دلرُبا انداز تھا۔ ترجمہ اور تفسیر بھی وقت کی رعایت سے بہت جامعیت سے بیان فرماتے تھے۔ ایک رمضان المبارک میں مجھے خیال آیا کہ اباجان کا درس ریکارڈ کروالیا جائے۔ میں نے مکرم قاضی عزیز احمد صاحب انچارج لائوڈ سپیکرسے درخواست کی اور ٹیپ ان کو خرید دی تو انہوں نے تین چار دن کا درس ریکارڈ کردیا جو ہمارے پاس محفوظ ہے۔
٭…حضرت ابا جانؒ کو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان بولنے کا خوب ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ بہت روانی اور بے تکلفی سے عربی میں گفتگو فرماتے تھے۔ فلسطین، شام، مصر اور اردن سے آنے والے پرانے عرب احمدیوں نے دیگر امور کے علاوہ آپؒ کی عربی دانی اور زوردار تقریر کا بہت کثرت سے مجھ سے ذکر کیاہے۔ آپؒ بتایا کرتے تھے کہ ایک بار لاہور جاکر معلوم ہوا کہ وہاں ایک ہال میں اس موضوع پر پبلک جلسہ ہورہا ہے کہ اسلامی مملکت پاکستان میں عربی زبان کو فروغ دینا چاہیے تو مَیں بھی چند دوستوں کے ساتھ جلسے میں شامل ہوگیا۔ وہاںعرب مہمانوں کے سوا سب پاکستانی مقررین اردو میں تقاریر کر رہے تھے۔ آخر میں اعلان ہوا کہ سامعین میں سے اگر کوئی شخص کچھ کہناچاہتا ہے تو موقع دیا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنے نام کی چٹ بھجوائی تو مجھے بلالیا گیا۔ مَیں نے عربی زبان میں فی البدیہہ تقریر کی جس میں آیات اور احادیث کے حوالوں کے علاوہ عربی کے اُمّ الالسنہ ہونے کا بھی ذکر کیا۔ آخر میں صاحبِ صدر کا خطاب تھا جو عرب تھے۔ انہوں نے میری تقریر کا ذکر کرکے بےحد خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ جب اس نوجوان نے بجائے اردو کے عربی میں تقریر شروع کی تو مَیں نے کاغذ قلم لے کر عربی زبان کی غلطیاں نوٹ کرنے کے لیے بہت غور سے اس کی تقریر سننی شروع کی اور مجھے یہ کہتے ہوئے بہت ہی خوشی ہو رہی ہے کہ میں اس غیر عرب پاکستانی کی ساری عربی تقریر میں ایک غلطی بھی نہیں ڈھونڈ سکا۔ ایک پاکستانی کی زبان سے ایسی شاندار عربی سن کر مَیں صمیم قلب سے سارے پاکستانیوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ اجلاس ختم ہوا تو حاضرینِ جلسہ کے پُرتپاک مصافحوں اور معانقوں کے ساتھ ہر طرف سے مبارکباد کی صدا بلند ہونے لگی۔ ہر زبان پر یہی تھاکہ آج تو آپ نے اسلام کی اور ہم پاکستانیوں کی لاج رکھ لی ہے۔ پھر مجھ سے پوچھتے کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ جب مَیں ربوہ کا ذکر کرتا تو کھسیانے ہو کر اُلٹے پاؤں پھر جاتے!
٭…اپریل ۲۰۰۰ءمیں جماعت احمدیہ کبابیر، فلسطین کے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ارشاد پر خاکسار بطور مرکزی نمائندہ شامل ہوا۔ وہاں حضرت اباجانؒ کے حوالے سے دوست بےحد محبت اور پیار سے ملتے تھے۔ ایک روز میری درخواست پر ایسے سب دوست ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے جنہوں نے حضرت اباجان کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا۔ اُن دوستوں نے اپنی پرانی یادیں اور ایمان افروز واقعات بیان کیے۔ مَیں نے جماعت احمدیہ فلسطین کے ایمان و اخلاص اورحضرت اباجانؒ سے ان کی محبت کا تذکرہ تو بارہا سن رکھا تھا لیکن اس کیفیت کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور محبت بھرے جذبات اور واقعات کو سن کر بہت لطف آیا اور دل جذبات حمدوشکر سے لبریز ہو گیا۔ ایک دوست نے ذکر کیا کہ میں حضرت مولانا کے ساتھ پریس میں کام کیا کرتا تھا۔ مولانا عربی رسالہ کے لیے خود ہی مضامین لکھتے اور پھر خود ہی کمپوز بھی کرتے اور چند احباب کی مدد سے دستی پریس پر شائع کیا کرتے تھے۔ وہ خودبھی مشین چلانے کی خدمت کیا کرتے تھے۔ اسی طرح بعض نے اُن کے ساتھ فٹ بال کھیلنے اور بعض نے اکٹھے سفر پر جانے کی یادیں تازہ کیں۔ بعض نے مخالفین سے مناظرات اور تبلیغی گفتگو کی تفاصیل بتائیں۔ بعض نے اس قہوہ کا ذکر کیا جو وہ اپنے ہاتھ سے تیار کرکے دوستوں کو پلایا کرتے تھے۔
اس سفر کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ ابتدائی پرانی مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا حجرہ ہوا کرتا تھا جس میں حضرت اباجان نے کچھ عرصہ قیام بھی کیا۔ بعد ازاں آپؒ نے ایک اَور مکان میں رہائش اختیار کی جو مسجد کے بالکل ساتھ تھا۔
ایک روز مکرم محمد شریف عودہ صاحب امیر جماعت کبابیر مسجد کے قریب ہی پہاڑ کے دامن میں واقع مجھے وہ جگہ دکھانے لے گئے جہاں ایک چشمے پر حضرت اباجانؒ ٹھنڈے پانی میں نہاتے تھے اور قریب ہی واقع کھیتوں میں عربی زبان میں تقریر کی مشق کیا کرتے تھے۔ آپ عربی اخبارات خرید کر وہاں چلے جاتے اور کھیتوں کے درمیان کھڑے ہو کر بلند آواز سے اخبار پڑھتے اور تقریر کی مشق کیا کرتے۔
ایک روز مکرم عبداللہ اسد عودہ صاحب اپنے ایک معمر شناسا سے ملانے کے لیے مجھے لے گئے۔ وہ دوست ایک مقامی اسلامی تنظیم کے لیڈر تھے۔ انہوں نے بہت پُرجوش معانقے سے ہمارا استقبال کیا اور بہت تکریم کے ساتھ مہمان نوازی کی۔ مَیں نے پوچھا کہ آپ کو جماعت احمدیہ سے کب سے تعارف ہے؟ کہنے لگے کہ مَیں تو جماعت کو بہت پرانے وقتوں سے جانتا ہوں۔ مسجد بھی کئی بار گیا ہوں اور السید مولانا ابوالعطاء سے بھی ملا ہوا ہوں جو یہاں جماعت کے مبلغ تھے اور بہت بڑے عالم تھے۔ اچانک یہ ذکر سن کر ہم دونوں حیران بھی ہوئے اور بہت خوش بھی۔ پھر جب عبداللہ صاحب نے انہیں یہ بتایا کہ خاکسار اُن کا بیٹا ہے تو اُس وقت اُن کی حالت دیکھنے والی تھی۔ فرطِ محبت سے اٹھ کر مجھے گلے لگالیا۔ اس وقت حضرت اباجان کی یاد نے مجھے بےقابو کردیا کہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ان کی محبت بھری یادیں اورقربانیاں آج بھی زندہ ہیں۔
موسیٰ بن عبدالقادر صاحب نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت اباجانؒ کے مناظرات کے نتیجے میں آپؒ کی اتنی علمی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ مخالف علماء انہیں سامنے سے آتا دیکھ کر اکثر اپنا راستہ تبدیل کرلیا کرتے تھے۔
٭…رسالہ الفرقان اپنی مقبولیت اور اہمیت کے لحاظ سے جماعت کی صحافتی تاریخ میں ایک غیرمعمولی مرتبہ رکھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ حضرت اباجان کی اپنی ہمہ گیر اور معروف شخصیت بھی ہوسکتی ہے مگر الفرقان کی مقبولیت کی اصل وجہ اس کا علمی معیار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ الفرقان نہ صرف جماعت میں مقبول ترین ماہنامہ تھا بلکہ غیر از جماعت علمی اور مذہبی حلقوں میں بھی اس کو خوب شہرت اور مقبولیت حاصل تھی۔
غالباً ۱۹۶۷ءیا ۱۹۶۸ء میں مجھے وقف عارضی کرنے کی توفیق ملی۔ محترم سیّد میر محمود احمد صاحب ناصر اور مکرم ملک فاروق احمد صاحب کھوکھر کے ہمراہ مَیں نے یہ عرصہ کوہِ مری میں گزارا۔ ایک دن خیال آیا کہ اس علاقے میں پیر صاحب موہڑہ شریف کا مرکز بھی دیکھا جائے۔ یہ مرکز مری کے نواح میں پہاڑوں کے دامن میں ایک وادی میں واقع تھا۔ کافی لمبا سفر طے کرکے ہم وہاں پہنچے تو مرکز کے کارکنان نے ہمارا پُرتپاک استقبال کیا۔ پھر ہماری خواہش پر پیر صاحب سے ہماری ملاقات کروائی گئی۔ وہ ایک فرشی قالین پر گدی پر بیٹھے تھے۔ درمیانی عمر، وجیہ صورت، تعلیم یافتہ اور کھلے ذہن کے مالک تھے۔ بہت اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا تو بہت خوش ہوئے اور بتایا کہ وہ احمدیت سے خوب متعارف ہیں۔ یہ ذکرکرتے ہوئے انہوں نے اپنے قالین کا ایک کونا اٹھایا تو اُس کے نیچے ’’الفضل‘‘اور ’’الفرقان‘‘ کے تازہ شمارے رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں جرائد اُن کے پاس باقاعدہ آتے ہیں اور وہ بڑے شوق سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی کہنے لگے کہ مَیں ان جرائد کو قالین کے نیچے رکھتا ہوں تاکہ باقی دوستوں کی نظر نہ پڑسکے۔
٭…حضرت ابا جانؒ کی معاندِ احمدیت جناب شورش کاشمیری ایڈیٹر ہفت روزہ ’’چٹان‘‘سے دلچسپ ملاقات بھی مجھے یاد ہے۔ رسالہ ’’الفرقان‘‘ کے لیے کاغذ کی خریداری کے سلسلہ میں ہم دونوں لاہور گئے اور آپؒ کے شاگرد مکرم ملک عبداللطیف صاحب ستکوہی کی دکان پر پہنچے ۔ کچھ ہی دیر گزری تو دیکھا کہ جناب شورش کاشمیری لمبا کرتہ اور پاجامہ پہنے، ننگے سر پہلوانوں کے انداز میں چلتے آرہے تھے۔ حسن اتفاق کہ وہ بھی کسی کام کے سلسلہ میں ملک صاحب کی دکان کی طرف ہی آرہے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مدیر چٹان نے یہ شوشہ چھوڑاتھا کہ احمدیوں کا کلمہ نیا ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر نائیجیریا کے کسی گاؤں کی احمدیہ مسجد کی پیشانی پر لکھے ہوئے کلمہ طیبہ میں لفظ ’’محمد‘‘کو ’’احمد‘‘ میں تبدیل کر کے بڑے طمطراق سے صفحہ اول پر شائع کیا تھا اور یہ عنوان جمایا تھا کہ ’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا!‘‘۔ رسالہ ’’الفرقان‘‘ میں تصویر کا صحیح عکس شائع کرنے کے علاوہ اس الزام کا مدلّل اورمبسوط جواب شائع ہو چکا تھا۔ اس حوالے سے حضرت اباجانؒ نے اُن سے پوچھا کہ شورش صاحب! خدا لگتی کہیں کہ کیا اب بھی آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کا کلمہ نیا ہے؟ اس پر انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ چھوڑیے مولانا! ان باتوں کو۔ آخر ہم نے بھی تو اپنا اخبار بیچنا ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی کہا کہ یہ بات off the record ہے۔ آپ نے اسے اپنے رسالہ میں شائع کیا تو میں اس کی تردید کر دوں گا۔
٭…ہر نیک والد کی طرح اباجانؒ بھی ہمیشہ اس بات کے متمنی اور دعا گو رہے کہ اپنی اولاد کو خدمتِ دین کرتے ہوئے دیکھ لیں۔ اگرچہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میرا اکثر وقت بیرونِ پاکستان گزرا ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ اباجان کی زندگی میں ایسے متعدد مواقع پیدا ہوئے جن کو دیکھ کر آپ بےحد مسرور ہوئے اور دعائوں سے نوازا۔ ایک خاص موقع وہ تھا جب ۱۹۷۳ءمیں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ برطانیہ کے دورہ پر تشریف لائے۔ حضرت اباجانؒ بھی ان دنوںمختصر رخصت پر لندن آئے ہوئے تھے۔مقامی پولیس افسران کے ایک اجلاس میں تقریر کرنے کے لیے مجھے دعوت موصول ہوئی تو اباجان بھی میرے ہمراہ تھے۔ ہم دونوں کو منتظمین نے سٹیج پر بٹھایا۔پروگرام کے مطابق میں نے اسلام کا تعارف کروایا اور حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔ اس موقع پر بعض حاضرین نے اباجان سے ان کے لباس خصوصاً پگڑی کے بارے میں سوالات پوچھے جن کے آپؒ نے اردو میں جوابات دیے جن کا ترجمہ میں نے کیا۔ اس روز آپؒ کو بےانتہا دلی خوشی محسوس ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے محبت بھری دعائوں سے اس عاجز کو نوازا۔
٭…حضرت اباجانؒ کے شاگرد اکنافِ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ گھر کے ماحول میں بارہا آپ اپنے قابل اور دیندار شاگردوں کا ذکر بڑی محبت سے کیا کرتے تھے اور ان کی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ کبھی اس بات کی خواہش نہ کرتے کہ کوئی شاگرد آپ کی خدمت کرے بلکہ آپ اُن کی خدمت اور عزت افزائی میں خوشی محسوس کیا کرتے تھے۔
٭…حضرت اباجان ؒکو درویشانِ قادیان سے دلی محبت تھی۔ مجھے متعدد بار آپؒ کے ساتھ قادیان جانے کا موقع ملا اور میں نے بارہا یہ مشاہدہ کیا کہ آپ بڑی رازداری کے ساتھ حتیٰ الوسع درویش بھائیوں کی تکریم، دلداری اور حوصلہ افزائی کے مختلف انداز اختیار فرماتے۔ ربوہ میں آنے والے درویشان کو گھر پر مدعو کرکے اُن کی پسند کی چیزوں سے ضیافت کرتے۔ ایسی ہی ایک دعوت پر دہی کا پورا کونڈا منگوالیا اور پوچھنے پر بتایا کہ فلاں درویش کو مَیں نے بڑے شوق سے دہی خرید کر کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔
٭…آپؒ کی زندگی میں عاجزی اور شکرگزاری بہت زیادہ تھی۔ اپنے ابتدائی حالات اور تنگی کا زمانہ ہمیشہ یاد رکھتے تھے اور اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ہمیشہ آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے۔ آپؒ کی کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کی زندہ تفسیر تھی کہ
سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے
آپ کو اپنی والدہ مرحومہ سے بہت پیار تھا۔ ہر سال یکم ستمبر کو ان کو یاد کیا کرتے تھے، ان کے لیے دعائیں کرتے اور فرماتے کہ میری والدہ تو میرے لیے مجسّم دعا تھیں۔
٭…حضرت اباجانؒ کی زندگی میں ایک نمایاں بات یہ تھی کہ آپ نماز جنازہ میں شمولیت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے قطع نظر اس بات کے کہ کس کا جنازہ ہے۔ ورثاء سے ہمدردی اور صبر کی تلقین فرماتے اور حتی الوسع تدفین کے لیے بھی جاتے۔ خاص طور پر ایسے موقعوں پر ضرور شمولیت کی کوشش فرماتے جبکہ جنازہ کے ساتھ جانے والوں کی تعداد کم ہوتی۔
٭…حضرت اباجانؒ بہت زندہ دل انسان تھے اور آپ میں خوش طبعی اور ظرافت کی صفت بہت نمایاں تھی۔ لیکن ان سب مواقع پر آپ کا انداز ایسا ہوتا تھا کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور پُرمزاح بات بھی بیان ہوجائے۔ گھر کے ماحول میں بھی یہی کیفیت ہوتی تھی۔ آپ خود بھی لطائف سنایا کرتے اور لطائف سننے کا بھی شوق تھا۔
٭…ہمارے ملک میں اشیاء میں ملاوٹ کی خرابی بہت عام ہے۔ اس کی ایک مثال دودھ میں پانی ملانا ہے۔ ہمارے گھر میں قریبی گائوں سے ایک معمر خاتون دودھ لایا کرتی تھی اور ہمیں شک گزرتا تھا کہ وہ بیچاری بھی(اللہ معاف کرے)کبھی کبھی اس کمزوری کا ارتکاب کرلیا کرتی تھی۔ ایک روز حضرت اباجانؒ نے اس عورت کو بڑے پُرمزاح انداز میں اس طرف توجہ دلائی اور صحن میں لگے ہوئے نلکے کی طرف اشارہ کرکے اُس سے فرمایا: بی بی! ہمارے گھر میں نلکا ہے۔ ضرورت ہو گی تو ہم پانی خود ہی ملا لیا کریں گے۔
٭…حضرت اباجان ؒکا یہ طریق تھا کہ درس ہو یا تقریر یا کسی نوعیت کی مجلس سے خطاب ہو،ہمیشہ باوضو ہو کر فرماتے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اس سے خیالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکیزگی عطا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت شامل حال ہوجاتی ہے۔ اس اہتمام کے علاوہ آپ عام اوقات میں بھی باوضو رہنے کی کوشش فرماتے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نفاست پسند تھے۔ لباس سادہ ہوتا لیکن صاف ستھرا۔ جسمانی صفائی کا بھی بہت اہتمام فرماتے۔
٭…آپؒ نے ایک بارمجھ سے فرمایا کہ آپ کو خواب میں ایک بوتل دکھائی گئی ہے جس میں سرخ رنگ کا شربت ہے اور بوتل پرنمایاں حروف میں ’’شربتِ زندگی‘‘کا لیبل لگا ہوا ہے اور نیچے قدرے باریک یہ بھی لکھا ہے کہ یہ شربت۷۵؍برس تک کارآمد رہے گا۔ آپؒ نے فرمایا کہ مجھے خاص طور پر کارآمد کے لفظ سے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ میری جتنی بھی زندگی ہو گی وہ کارآمد ہوگی۔ معذوری کی زندگی نہیں ہوگی۔ الحمدللہ کہ یہ خدائی وعدہ ہر لحاظ سے پورا ہوا۔ عمر بھی قمری لحاظ سے ۷۵؍سال ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آخر تک خدمتِ دین کی توفیق دی۔
٭…حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ءکی ایک تقریر میںآپؒ کو خالد احمدیت کا خطاب عطا فرمایا۔ گھر آنے پر آپ کو مبارکباد عرض کی تو وہ اس وقت جذبات سے اس قدر مغلوب تھے کہ زبان سے کچھ کہنا مشکل ہورہا تھا۔ خاکساری، عاجزی اور شکرگزاری کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ بات شروع کرتے تو پھر جذبات سے مغلوب ہوجاتے۔ ایسی کیفیت تھی کہ آج بھی یہ الفاظ لکھتے ہوئے میری آنکھیں اس منظر کو یاد کرکے بھیگی ہوئی ہیں۔ میرے لیے وہ منظر اور وہ کیفیت ناقابل فراموش اور ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ آپؒ کے درجات ابدالآباد تک بلند سے بلندتر فرماتا چلاجائے۔ آمین
………٭………٭………٭………
مزید پڑھیں: خواتین کا عالمی دن اور اس کی اہمیت