سورۃ اخلاص ، سورۃ الفلق اور سورۃالنّاس پڑھنے کی اہمیت
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍فروری ۲۰۱۸ء)
سورۃ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ النّاس کے نازل ہونے کے بارے میں حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات ایسی آیات اتری ہیں کہ ان جیسی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ اور وہ یہ ہیں یعنی قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ (صحیح مسلم۔ کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرھا۔ باب فضل قراءۃالمعوّذتین)
پھر احادیث میں تینوں قُل پڑھنے کی اہمیت کے بارے میں روایت آتی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر جہنی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ایک جنگی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی مہار پکڑ کر آگے آگے چل رہا تھا کہ آپؐ نے فرمایا اے عقبہ! پڑھ۔ مَیں نے آپ کی طرف کان لگایا تا کہ آپ جو فرمائیں وہ میں سن کر پڑھوں۔ پھر کچھ دیر کے بعد فرمایا اے عقبہ! پڑھ۔ مَیں پھر متوجہ ہوا کہ آپ کیا فرماتے ہیں۔ کیا پڑھوں مَیں؟ آپ نے تیسری مرتبہ پھر یہی فرمایا تو میں نے عرض کیا۔ کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا سورۃ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ پھر آپ نے آخر تک سورۃ پڑھی۔ پھر آپ نے سورۃقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ آخر تک پڑھی۔ میں بھی آپ کے ساتھ پڑھتا رہا۔ پھر آپ نے سورۃ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ آخر تک پڑھی۔ مَیں بھی آپ کے ساتھ پڑھتا رہا۔ پھر آپ نے فرمایا کسی شخص نے ان جیسی سورتوں یا کلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل نہیں کی۔’’ (سنن النسائی کتاب الاستعاذۃ حدیث 5430)
یعنی یہ ایسا کلام اور ایسی دعا ہے کہ جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاتا ہے اور کبھی ضائع نہیں ہوتا اور تمام شرور سے بچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا اس سے بہتر اَور کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ اور احادیث میں ایسی روایت ملتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس سے بہتر اللہ تعالیٰ کی اور کوئی پناہ نہیں۔ پھر سورۃ فلق اور النّاس کے بارے میں حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ مَیں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام پکڑے چل رہا تھا۔ آپ نے فرمایا اے عقبہ! کیا مَیں تجھے ایسی دو سورتیں نہ سکھاؤں جن کی قراءت انتہائی بہتر اور نفع بخش ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں یا رسول اللہ! تو آپ نے فرمایاقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ اور جب آپ نے صبح کی نماز کے لئے پڑاؤ کیا تو آپ نے انہی کی قراءت کی۔ یہی تلاوت کی۔ پھر جب آپ نے نماز ادا کر لی تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے عقبہ! تو کیسے دیکھتا ہے؟ (شاید اس لحاظ سے بھی انہوں نے کہا ہو کہ بڑی چھوٹی سورتیں آپ نے پڑھی ہیں۔ فرمایا ان میں تو سب کچھ ہے۔) (سنن ابوداؤد۔ ابواب الوتر۔ باب فی المعوّذتین۔ حدیث 1462)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنّات کی نظر سے اور انسانوں کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ جب معوّذتین نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار کر لیا اور باقی سب ترک کر دیا’’۔(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الطب۔ باب من استرقی من العین حدیث 3511)
اس معاملے میں جو بھی دعائیں پہلے تھیں ان کو ختم کر دیا اور پھر یہی پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابنِ عابسؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابنِ عابس! کیا مَیں پناہ لینے کے بارہ میں تجھے تعوّذ کے سب سے افضل کلمات کے بارے میں نہ بتاؤں؟ بہترین پناہ کس طرح کی ہے جن سے پناہ مانگنے والا پناہ مانگا کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا وہ سورتیں ہیں سورۃ فلق اور سورۃ ناس۔ (مسند احمد بن حنبلؒ۔ جلد 5صفحہ 322۔ مسند المکّیین۔ حدیث ابن عابس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 15527)
پھر آخری دو سورتوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ایک صحابی کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے۔ چونکہ سواری کے جانور کم تھے اس لئے لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے اترنے کی باری تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے میرے قریب آئے اور میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ پڑھو۔ میں نے یہ کلمہ پڑھ لیا۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورۃ مکمل پڑھی اور میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسے پڑھ لیا۔ پھر اسی طرح اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھنے کے لئے فرمایا اور پوری سورۃ پڑھی جسے مَیں نے بھی پڑھ لیا۔ پھر آپ نے فرمایا جب نماز پڑھا کرو تو یہ دونوں سورتیں نماز میں پڑھ لیا کرو۔ (مسند احمد بن حنبلؒ۔ جلد 6صفحہ 918۔ اوّل مسندالبصریین۔ حدیث رجلٍ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 21025)
عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ جب فجر طلوع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کہی اور اقامت کہی۔ پھر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کیا۔ پھر آپ نے معوّذتَین کے ساتھ قراءت کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا تُو نے کیسا دیکھا؟ (وہ پہلے والی روایت سے ملتا ہے۔) میں نے عرض کی کہ تحقیق مَیں نے دیکھ لیا یا رسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بھی تُو سوئے اور جب بھی اٹھے تُو یہ دونوں سورتیں پڑھا کر۔ (المصنف فی الاحادیث والآثار از ابوبکر بن ابی شیبۃ جلد 1۔ صفحہ 403۔ کتاب الصلوات من کان یخفِّفُ القراء ۃ فی السفر۔ حدیث 3688)
پس یہ اہمیت ہے ان سورتوں کی اور اس زمانے میں ذاتی طور پر ہماری روحانی ترقی اور شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے اور جماعتی طور پر اسلام کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں ان سے بچنے کے لئے ان کے پڑھنے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ آجکل اسلام کے خلاف ایک طرف اسلام مخالف طاقتوں کی بڑی ہوشیاری سے کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف نام نہاد مسلمان علماء اور مسلمان لیڈروں نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جہاں فتنہ و فساد پیدا ہو چکا ہے۔ مسلمان علماء مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف عامّۃ المسلمین کو بھڑکا کر شیطانی قوتوں کو بھی اور موقع دے رہے ہیں کہ ان کے ہاتھ مضبوط ہوں۔ اسی طرح دہریت ہے تو وہ بھی آجکل اپنے زوروں پر ہے۔ سورۃ فلق کے حوالے سے اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ وضاحت فرماتے ہیں کہ’’تم جو …… مسیح موعود کے دشمنوں کا نشانہ بنو گے یوں دعا مانگا کرو کہ مَیں مخلوق کے شر سے جو اندرونی اور بیرونی دشمن ہیں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو صبح کا مالک ہے۔ یعنی روشنی کا ظاہر کرنا اس کے اختیار میں ہے۔‘‘ (یہ روشنی روحانی روشنی ہے جو مسیح موعود کے آنے سے ظاہر ہوئی ہے) ’’اور مَیں اس اندھیری رات کے شر سے جو …… انکار مسیح موعود کے فتنے کی رات ہے خدا کی پناہ مانگتا ہوں‘‘۔ (تحفہ گولڑویہ صفحہ78۔ حوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدنمبر 4 صفحہ 762)
ان میں ایک تو اسلام دشمن لوگ ہیں جو اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں اور دوسرے علماء اسلام ہیں جو اپنی غلطی کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور مسیح موعود کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ جن میں پاکستان کے علماء ہم دیکھتے ہیں کہ سرِ فہرست ہیں۔ پس ایسے حالات میں پاکستان میں تو احمدیوں کو خاص طور پر اس سنت کو جاری کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سورۃ فلق میں جو شَرِّغَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ کہا گیا ہے اس میں اندھیری رات کے شر کے فتنہ سے بچنے کی دعا ہے۔ غَاسِق کہتے ہیں رات کو اور وَقَب کا مطلب ہے اندھیرے اور ظلمت کا چھا جانا اور یہ اندھیری رات کا فتنہ مسیح موعود کے انکار کے فتنہ کی شب تار ہے جس سے پناہ مانگی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: سورۃ اخلاص کی اہمیت