متفرق مضامین

Earth HourاورEarth Day- ہمارا زمین سے اظہارِ محبت

(نائلہ جمیل – کینیڈا)


اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کوایک مربوط اور متعین نظام کے ساتھ تخلیق کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ’ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ‘۔(القمر :۵۰ )پھر اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر زمین میں مہتمم کی حیثیت دی تاکہ وہ اس زمین اور اس میں موجود مخلوقات اور ماحول کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے کسی عمل سے قدرت کےتوازن میں خلل نہ ہو کیونکہ اس کے نتیجے میں فساد پیدا ہوگا۔ اور آج ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ انسان نے اپنےذاتی مفاد کے لیے قدرتی وسائل کوفطری اصولوں کے برخلاف اور اعتدال سے ہٹ کر استعمال کر کے زمینی، سمندری اور فضائی ماحول میں فساد برپاکردیاہے۔ اب ان مسائل سے نپٹنے اور ان کے متعلق لوگوں میں آگاہی بڑھانے کے لیے ہر سال ارتھ ڈے اور ارتھ آور جیسے دن منائے جاتے ہیں۔


ارتھ ڈے اور ارتھ آور:
ہر سال ۲۲ اپریل کو دنیا بھر میں ارتھ ڈےیعنی ”یوم الارض“ منا یا جاتا ہے۔۱۹۷۰ ٫میں پہلی بار ۱۹۳ سے زائد ممالک میں یہ دن باضابطہ طور پر منا یا گیا تھا۔ اب ہر سال یہ عالمی سطح پر Earthday.org کےزیراہتمام منایا جاتا ہے جس میں مختلف ایونٹس اورموضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔(https://www.earthday.org)

ارتھ آور کا آغاز ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) نے مارچ ٫۲۰۰۷­کو سڈنی، آسٹریلیامیں کیا۔ اس کے تحت لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ مارچ کے آخری ہفتہ کے دن مقامی وقت کے مطابق رات ۸:۳۰ سے ۹:۳۰ تک، تمام غیر ضروری روشنیاں اور بجلی کے آلات بند کردیں۔٫۲۰۰۷­میں اس تحریک میں ۲.۲ملین سے زیادہ افراد اور ۲۰۰۰ کاروبارشامل ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے یہ تحریک ۱۸۵ سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔(https://www.earthhour.org)

ان دنوں کے منانے کا مقصد :
ان دنوں کےمنانے کا مقصد عوام الناس میں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کے متعلق شعور اجاگرکرناہے۔ اس کےعلاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر مندرجہ ذیل امور کے لیے پالیسیاں تشکیل دینا ہے:
۱-قدرتی نظام اورجنگلات کی حفاظت
۲-سمندری حیات، نباتات اور وائلڈ لائف کی نسلوں کو معدوم ہونے سے بچانےکے اقدامات
۳-ایندھن کے متبادل ذرائع کی تلاش
۴-ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ سے لاحق خطرات کو کم کرنے کی طویل المدتی منصوبہ بندی


پچھلی ایک دہائی میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں اور ان کے اثرات:
اس میں کوئی شک نہیں کہ آب وہوا میں ہمیشہ ہی قدرتی تغیرات ہوتے رہے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث تیل، گیس اور کوئلے کےاستعمال میں اضافہ، خوراک اور پانی کے ضیاع اورجنگلات کی کٹائی نے نہ صرف عالمی درجہ حرارت کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے بلکہ گرین ہا ؤس گیسوں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی اضافہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے، ڈبلیو ایم او(WMO) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گذشتہ آٹھ سال تاریخ کے گرم ترین سال تھے جن میں سطح سمندر میں اضافے اور سمندری حدت نے نئی بلندیوں کوچھوا جس کے باعث ساحلی علاقوں اور بعض صورتوں میں پورے ممالک کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ اس رپورٹ میں بتا یا گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج کا اثر دنیا بھر میں خشک سالی، گرمی کی لہروں، سیلاب، ٹراپیکل طوفانوں اور جنگلات میں آگ کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔ سمندری حدت اور تیزابیت نے سمندری مخلوق کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مزید یہ کہ حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دس لاکھ انواع معدومیت کے دہانے پر ہیں۔(https://wmo.int/news/media-centre/rate-and-impact-of-climate-change-surges-dramatically-2011-2020)

اسلامی تعلیمات اور ہماری ذمہ داریاں:
اسلام ایسا کامل اور عالمگیر مذہب ہے کہ ممکن نہیں تھا وہ زمین اور ماحولیات کے تحفظ جیسے اہم مسائل سے صرفِ نظرکرتا۔قرآن اور سنتِ رسولﷺسے ہمیں اس حوالے سے بہترین راہنمائی ملتی ہے۔ ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے روزمرہ کے معمولات میں کچھ تبدیلیاں لا کراس کرہ ارض کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
۱۔ قرآن کے حکم،”کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو“ (الاعراف :۳۲) پر عمل کرتے ہوئے پانی، خوراک اور قدرتی وسائل کے ضیاع سے گریز کریں۔
۲-قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے(Reduce, Reuse & Recycle)کےپرنسپل کو اپنائیں۔ یعنی فضلہ کو کم کرنا، وسائل
اورمصنوعات کودوبارہ استعمال کرنا اور دوبارہ قابل استعمال بنانا۔
۳۔ بایو ڈیگریڈیبل یا اَیکو فرینڈلی یعنی ماحول دوستمصنوعات کا استعمال کریں ا ور پلاسٹک اور اس سے بنی اشیا٫کا کم سے کم استعمال کریں۔
۴۔درختوں کا ماحول کی صفائی میں کلیدی کردار ہے اسی لیے رسول کریم ﷺنے شجر کاری کی بہت تاکید فرمائی اور اسے صدقہ جاریہ قرار دیا۔(صحیح البخاری، کتاب المزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس )
اس لیے اگر ممکن ہو تو زندگی میں کم از کم ایک پودا ایسا لگائیں جو آخر کار درخت بن جائے۔
۵- درختوں کی کٹائی سے اجتناب کریں۔ رسولﷺنے جنگوں میں بھی پھول اور پھل دار پودے، کھیتوں اور درختوں کو کاٹنے اور آباد زمین کو برباد کرنےسے منع فرمایا۔(موطا امام مالک کتاب الجہاد باب النھی عن قتل النساء و الولدان فی الغزو)
۵۔ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا استعمال کم کرکے،سائیکل، کار پولنگ اور پیدل سفر کو اپنائیں۔
۶- حیاتیاتی ایندھن یا فوسل فیول کے ذریعہ توانائی کی پیداوار کے بجائے قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے کہ سولر پینلز کو فروغ دیں۔
۷- حدیث مبارکہ ”صفائی نصف ایمان ہے“( مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء)کے تحت صرف انفرادی ہی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر اپنے ماحول کی صفائی کی طرف توجہ دیں۔رسول کریم ﷺ نے ہمیں ایسے تمام کاموں سے منع فرمایا جن سے زمینی، فضائی اور آبی آلودگی پھیلے، جیسا کہ گھروں کے آگےاورگلی کوچوں میں کوڑا کرکٹ پھینکنا( سنن ترمذی، کتاب الأدب، باب ما جاء فی النظافۃ)،کھڑے پانی میں، سایہ دار درختوں کے نیچے اور عام راستوں پر بول و براز کرنا۔( سنن ابوداؤد، کتاب الطہارۃ)
۸- اپنے آس پاس کے لوگوں خصوصاً بچوں میں زمین اور قدرتی ماحول کی محبت اور حفاظت کے بارے میں تعلیم کو فروغ دیں۔
یہ زمین اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک نعمت اور ہمارا واحد گھر ہے۔ اس کی حفاظت اور بقا کے لیے سال میں ایک دن منانا یا ایک گھنٹہ کے لیے بتیاں بند کرنا حل نہیں ہے بلکہ ہمیں ’ماحول دوست ‘ طرز زندگی اپنا نا ہوگا جو قانونِ قدرت سے مطابقت رکھتا ہو۔ زمین کا نگہبان بنا کر خدا نے جو فرض ہم پر عائد کیا ہے وہ ذاتی مفاد سے بڑھ کر ہے لہٰذا ہم سب کو اپنے اپنے دائرہ کار میں اس زمین اور اس کے ماحول کی حفاظت کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں خدا کی اس نعمت سے مستفیض ہو تی رہیں۔

مزید پڑھیں:زمین اپنی خبریں بیان کرے گی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button