کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم کا بیان

پھر اللہ تعالیٰ کی صفت رَحِیْمٌ بیان کی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کا تقاضا ہے کہ محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان پرثمرات اور نتائج مترتّب کرتا ہے اگر انسان کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ اس کی محنت اور کوشش کوئی پھل لاوے گی تو پھر وہ سست اور نکما ہو جاوے گا۔یہ صفت انسان کی امیدوں کو وسیع کرتی او رنیکیوں کے کرنے کی طرف جوش سے لے جاتی ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رحیم قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ اس وقت کہلاتا ہے جب کہ لوگوں کی دعا، تضرع ، او ر اعمالِ صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلائوں اور تضییع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے رحمانیت تو بالکل عام تھی لیکن رحیمیت خاص انسانوں سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری مخلوق میں دعا، تضرع اور اعمالِ صالحہ کا ملکہ اور قوت نہیں یہ انسان ہی کو ملا ہے۔

رحمانیت اور رحیمیت میں یہی فرق ہے کہ رحمانیت دعا کو نہیں چاہتی مگر رحیمیت دعا کو چاہتی ہے اور یہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے اور اگر انسان انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھاوے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے۔یہ صفت بھی تمام مذاہب باطلہ کے رد کے لئے کافی ہے کیونکہ بعض مذہب اباحت کی طرف مائل ہیں اور وہ مانتے ہیں کہ دنیا میں ترقیات نہیں ہوتی ہیں آریہ جبکہ اس صفت کے فیضان سے منکر ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ کا کب قائل ہو سکتاہے، سید احمد خان مرحوم نے بھی دعا کا انکار کیا ہے اور اس طرح پر وہ فیض جو دعا کے ذریعہ انسان کو ملتا ہے اس سے محروم رکھا ہے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۹۳۔۳۹۴، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

مزید پڑھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ظلّی طور پر قیامت تک رہتا ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button