جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں
جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں۔ روح میں جب عاجزی پیدا ہوتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لئے جب روح میں واقعی عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو چاہیے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کرو۔ اگرچہ اس وقت یہ ایک قسم کا نفاق ہوتا ہے۔ مگر رفتہ رفتہ اس کا اثر دائمی ہو جاتا ہے اور واقعی روح میں وہ نیاز مندی اور فروتنی پیدا ہونے لگتی ہے۔
(ملفوظات جلد۴ صفحہ۷۹۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء)
واضح ہو کہ قر آن شریف کے رُو سے انسان کی طبعی حالتوں کو اس کی اخلاقی اور روحانی حالتوں سے نہایت ہی شدید تعلقات واقع ہیں یہاں تک کہ انسان کے کھانے پینے کے طریقے بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر اثر کرتے ہیں… اسی واسطے قرآن شریف نے تمام عبادات اور اندرونی پاکیزگی کے اغراض اور خشوع خضوع کے مقاصد میں جسمانی طہارتوں اور جسمانی آداب اور جسمانی تعدیل کو بہت ملحوظ رکھا ہے۔ اور غور کرنے کے وقت یہی فلاسفی نہایت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جسمانی اوضاع کا روح پر بہت قوی اثر ہے۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ۳۱۹)
یہ احکام اسی لئے ہیں کہ تا انسان حفظانِ صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تئیں جسمانی بلاؤں سے بچاوے۔… قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کرکے اپنے بدنوں کو پاک رکھو اور مسواک کرو، خلال کرو اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچاؤ۔ اور بدبوؤں سے دُور رہو اور مُردار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ…سو یہ خداتعالیٰ کا اُن پراور تمام دنیاپر احسان تھا کہ حفظان صحت کے قواعد مقرر فرمائے۔ یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیا کہ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۔(الاعراف:۳۲) یعنی بےشک کھاوٴ پیئو مگر کھانے پینے میں بے جا طور پر کوئی زیادت کیفیت یا کمیّت کی مت کرو۔
(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد ۱۴صفحہ ۳۳۲)
مزید پڑھیں: پاک ہونے کا عمدہ طریق تکبر سے بچنا ہے