حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۰؍دسمبر۲۰۲۲ء)

آپؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اور آپؐ کے بہت پیارے تھے جس کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف باتوں اور حضرت حمزہؓ کی شہادت سے ہوتا ہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ردّ عمل تھا۔ ہو سکتا ہے بعض باتیں اجمالاً دوبارہ بھی دہرائی جائیں۔

روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حمزہ نام بہت پسند تھا۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ایک آدمی کے گھر لڑکا پیدا ہوا تو انہوں نے پوچھا ہم اس کا نام کیا رکھیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا نام حمزہ بن عبدالمطلب کے نام پر رکھو جو کہ مجھے سب ناموں سے زیادہ پسندیدہ ہے۔(مستدرک علی الصحیحین للحاکم جزء 5 صفحہ 1831 کتاب معرفۃالصحابہ حدیث نمبر4888مطبوعہ مکتبہ نزارالباز ریاض)

حضرت حمزہؓ کی ازواج اور اولاد کے متعلق طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ حضرت حمزہؓ کی ایک شادی مِلَّہ بن مالک جو کہ قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے ان کی بیٹی سے ہوئی جن سے یعلیٰ اور عامر پیدا ہوئے۔ اپنے بیٹے یعلیٰ کے نام پر ہی حضرت حمزہؓ کی ایک کنیت ابو یعلیٰ تھی۔ حضرت حمزہؓ کی دوسری زوجہ حضرت خولہ بنت قیس انصاریہؓ سے حضرت عُمَارہؓ کی ولادت ہوئی جن کے نام پر حضرت حمزہؓ نے اپنی کنیت ابوعُمَارہ رکھی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ایک شادی حضرت اسماء بنت عُمَیسؓ کی بہن حضرت سلمیٰ بنت عمیسؓ سے ہوئی جن کے بطن سے ایک بیٹی حضرت اُمَامہؓ کی پیدائش ہوئی۔ یہ وہی اُمَامہ ہیں جن کے بارے میں حضرت علی، حضرت جعفراور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم میں نزاع ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ حضرت اُمَامہؓ اس کے پاس رہیں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں فیصلہ فرمایا تھا کیونکہ حضرت اُمَامہ ؓ کی خالہ حضرت اسماء بنت عُمَیس رضی اللہ عنہا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ حضرت حمزہؓ کے بیٹے یعلیٰ کی اولاد میں عُمارہ، فضل، زبیر، عقیل اور محمد تھے مگر سب فوت ہو گئے اور حضرت حمزہؓ کی نہ ہی اولاد زندہ رہی اور نہ ہی نسل چل سکی۔(ماخوذ از طبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 46 دار الفکر بیروت)

حضرت حمزہؓ کی بیٹی اُمَامہ کے متعلق حضرت علیؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جس نزاع کا ابھی ذکر آیا ہے اس کی تفصیل بخاری میں اس طرح آئی ہے: حضرت بَراء بن عازبؓ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہلِ مکہ نے اس بات سے انکار کیا کہ آپؐ کو مکہ میں داخل ہونے دیں۔ آخر آپؐ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ مکہ میں آئندہ سال عمرے کو آئیں گے اور تین دن تک ٹھہریں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو،جس طرح کہ لکھا ہے کہ یہ وہ شرطیں ہیں جن پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی، مکہ والے کہنے لگے کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپؐ کو کبھی نہ روکتے بلکہ یہاں تم محمد بن عبداللہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا: مَیں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو۔ علی نے کہا ہرگز نہیں مٹانا۔ اللہ کی قسم! میں آپؐ کے خطاب کو کبھی نہیں مٹاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا ہوا کاغذ لے لیا اور آپؐ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے۔ آپؐ نے یوں لکھا: یہ وہ شرطیں ہیں جو محمد بن عبداللہ نے ٹھہرائیں۔ مکہ میں کوئی ہتھیار نہیں لائیں گے سوائے تلواروں کے جو نیاموں میں ہوں گی اور مکہ والوں میں سے کسی کو بھی ساتھ نہیں لے جائیں گے اگرچہ وہ ان کے ساتھ جانا چاہے اور اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی نہیں روکیں گے اگر وہ مکہ میں ٹھہرنا چاہے۔ خیر جب معاہدے کے مطابق آپؐ آئندہ سال مکہ میں داخل ہوئے اور مدّت ختم ہو گئی تو قریش حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اپنے ساتھی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مقررہ مدت گزر چکی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے۔ حضرت حمزہؓ کی بیٹی آپ کے پیچھے آئی جو پکار رہی تھی کہ اے چچا! اے چچا! حضرت علیؓ نے جا کر اسے لے لیا، اس کا ہاتھ پکڑا اور فاطمہ علیہا السلام سے کہا اپنے چچا کی بیٹی کو لے لیں۔ انہوں نے اس کو سوار کر لیا۔ اب علی، زید اور جعفر حمزہ کی لڑکی کی بابت جھگڑنے لگے۔ علی کہنے لگے کہ میں نے اس کو لیا ہے اور میرے چچا کی بیٹی ہے اور جعفر نے کہا میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے اور زید نے کہا میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فیصلہ کیا کہ وہ اپنی خالہ کے پاس رہے اور فرمایا: خالہ بمنزلہ ماں ہے اور علی سے کہا تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں اور جعفر سے کہا تم صورت اور سیرت میں مجھ سے ملتے جلتے ہو اور زید سے کہا تم ہمارے بھائی ہو اور دوست ہو۔ علی نے کہا کیا آپ حمزہ کی بیٹی سے شادی نہیں کر لیتے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ میرے دودھ بھائی کی بیٹی ہے۔ میں اس کا چچا ہوں۔(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء حدیث نمبر 4251 )

… حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے متعلق رَوضُ الأُنُف میں لکھا ہے کہ ابنِ اسحاق کے علاوہ بعض نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے متعلق ایک بات کا اضافہ کیا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب مجھ پر غصہ غالب آگیا اور مَیں نے کہہ دیا یعنی وہ جو سارا واقعہ ہوا ہے اور پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جب اپنی لونڈی کے کہنے پہ (کہہ دیا)کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ہوں۔ بعد میں مجھے ندامت ہوئی کہ میں نے اپنے آباؤ اجداد اور قوم کے دین کو چھوڑ دیا ہے اور مَیں نے اس عظیم معاملے کے متعلق شکوک و شبہات میں اس طرح رات گزاری کہ لمحہ بھر سو نہ پایا۔ پھر مَیں خانہ کعبہ کے پاس آیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کی کہ اللہ تعالیٰ میرے سینے کو حق کے لیے کھول دے اور مجھ سے شکوک و شبہات کو دُور کردے۔مَیں نے ابھی دعا ختم بھی نہ کی تھی کہ باطل مجھ سے دُور ہو گیا اور میرا دل یقین سے بھر گیا۔ پھر صبح کو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی تمام حالت بیان کی جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ثبات قدم بخشے۔(روض الاانف جزء 2 صفحہ 44 45- مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت عَمّار بن ابو عمارؓ سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ انہیں جبرئیل علیہ السلام ان کی حقیقی شکل میں دکھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم انہیں دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ انہوں نے عرض کی کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو تو اپنی جگہ پر اب بیٹھ جاؤ۔ راوی کہتے ہیں پھر جبرئیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی اس لکڑی پر اتر آئے جس پر مشرکین طواف کے وقت اپنے کپڑے ڈالا کرتے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی نگاہ اٹھاؤ اور دیکھو۔جب انہوں نے دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان یعنی جبرئیل علیہ السلام کے دونوں پاؤں سبز زَبَرْجَدکی مانند ہیں۔ پھر وہ غشی کی حالت میں گر پڑے۔

زبرجد بھی ایک قیمتی پتھر ہے۔ کہتے ہیں جو زَمُرَّدسے مشابہت رکھتا ہے۔(الطبقات الکبریٰ جزء3 صفحہ 8 دار الکتب العلمیۃ بیروت) (منجد زیرمادہ زبر)

صفر دو ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے ابواء کی طرف نکلے جس میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی شرکت کی توفیق ملی۔ اس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ہی اٹھایا ہوا تھا جو کہ سفید رنگ کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے حضرت ابو سعد رضی اللہ عنہ یا ایک روایت کے مطابق حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا۔ اس سفر میں لڑائی کی نوبت نہیں آئی اور بنو ضَمْرَہ کے ساتھ صلح کا معاہدہ طے پا گیا۔یہ پہلا غزوہ تھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس شرکت کی۔اس غزوہ کا دوسرا نام وَدَّان بھی ہے۔ (ماخوذ از سبل الہدیٰ والرشاد جزء 4 صفحہ 14 باب الثالث فی غزوۃ الابواء مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

… بہرحال حضرت حمزہؓ نے اس غزوہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اٹھایا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: قبولِ احمدیت کے چند ایمان افروز واقعات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button