خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ مارچ 2025ء

اس رمضان میں جہاں ہم نے یہ عہد کیےہیں کہ ہم عبادتوں کی طرف توجہ کریں گے اور
اعلیٰ اخلاق کی طرف توجہ کریں گے، نیکیاں بجا لانے کی طرف توجہ کریں گے، اللہ تعالیٰ کی توحید کو پھیلانے کی طرف توجہ کریں گے تو پھر اس کے لیے ہمیں کوشش بھی کرنی ہو گی اور یہ کوشش صرف اس رمضان کے ختم ہونے کے ساتھ ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ سارا سال جاری رہنی چاہیے

خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے، یہ ہدایت فرمائی ہے کہ تم نے مستقل میرے عابد بندے بننا ہے اور
میری عبادتوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کشتی نوح کو بار بار پڑھو۔ اس میں تمہارے لیے نصائح ہیں اور جب اس کو بار بار پڑھو گے اور
نصائح پر عمل کرو گے اور پھر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرو گے اور جو اس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے
حکموں کے مطابق احکامات درج ہیں ان کو دیکھو گے تو پھر وہی تمہاری کامیاب زندگی ہے اور وہی چیز ہے جو تمہیں بیعت میں فائدہ دینے والی ہو گی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی تحدّی سے فرمایا کہ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہوجاتا ہے۔صبر جیسی کوئی شے نہیں ہے

کیا صرف رمضان کے دنوں میں ہماری عبادتیں اللہ تعالیٰ کی خاطر تو نہیں ہو رہیں؟ کیا ہم مستقل اپنی زندگیوں میں ان عبادتوں کو اپنی زندگی کا
حصہ بنانا چاہتے ہیں اور بنا رہے ہیں؟ اگر یہ نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔ اگر ہم یہ کر رہے ہیں اور پھر صبر سے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی بھی ہیں اور دعائیں بھی کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ دشمنوں سے ہمیں نجات بھی دے گا۔ پھر تم دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان تکلیفوں سے کس طرح بچائے گا

ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اس پُرآشوب زمانے میں جبکہ ہر طرف ضلالت اور غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے تقویٰ اختیار کریں۔…
نوجوان بھی، بڑی عمر کے بھی، عورتیں بھی، بچے بھی ہر ایک کو اپناجائزہ لینا چاہیے

میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تا کہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو (حضرت مسیح موعودؑ)

رمضان المبارک کی مناسبت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُرمعارف ارشادات کی روشنی میں احباب جماعت کو زرّیں نصائح

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ مارچ 2025ء بمطابق28؍ امان 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اس رمضان میں سے گزرے اور آج اس رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو اس نے عبادتوں کی بھی توفیق دی اور روزے رکھنے کی بھی توفیق دی لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ صرف رمضان کے روزے رکھنے سے یا عبادتیں کرنے سے رمضان میں ہمارا مقصد نہیں پورا ہو گیا بلکہ

خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ تم نے مستقل میرے عابد بندے بننا ہے اور میری عبادتوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔

پس ان دنوں میں جن لوگوں کو یہ توفیق ملی کہ نمازوں کی طرف توجہ دیں، باجماعت نماز پڑھنے کی طرف توجہ دیں، نوافل پڑھنے کی طرف توجہ دیں، قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دیں اور اس پر ان کو اللہ تعالیٰ نے عمل کی بھی توفیق دی۔ ان کا اب یہ فرض ہے کہ ان نیکیوں کو جاری رکھیں اور یہ نیکیاں جاری رکھیں گے تبھی ہم اس مقصد کو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کی پیدائش کا مقصد بتایا ہے اور اس زمانے میں ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس عہد کی تجدید کی۔ پس اس پر عمل کرنے کے لیے ہمیں اپنی بھرپور کوشش اب جاری رکھنی چاہیے اور آج بھی اور رمضان کے باقی جو دو تین دن ہیں یا دو دن ہیں ان میں بھی یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان کے فیض کی وجہ سے آئندہ بھی ان نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے اور ہم رمضان کے بعد ان نیکیوں کو بھول نہ جائیں جن کو ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے بجا لاتے رہے ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہی فرمان ہے کہ ایک مومن تو وہی ہے جس کو ایک نماز سے دوسری نماز تک کی فکر ہوتی ہے۔ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کی فکر ہوتی ہے۔ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کی فکر ہوتی ہے یعنی وہ انتظار کرتا ہے تا کہ وہ آئیں اور میں پھر وہ عبادت بجا لاؤں اور اس دوران اس عرصہ میں وہ نیکیاں بھی بجا لاتا رہوں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور اس دوران چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور گناہوں کا یہ عبادتیں کفارہ بن جائیں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کفارہ بن جاتی ہیں۔

(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب الصلوات الخمس… حدیث 233)

پس جس طرح رمضان اہم ہے اسی طرح ہر نماز اور ہر جمعہ اہم ہے۔ یہ نہیں کہ رمضان کا آخری جمعہ ہے تو بابرکت ہے۔ ہر جمعہ بابرکت ہے۔

اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا اور ہمیں ان کو ماننے کی توفیق ملی۔ آپؑ نے اپنی جماعت کو بےشمار نصائح فرمائیں کہ کس طرح تم حقیقی مسلمان بن سکتے ہو ،کس طرح حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کے عبد بن سکتے ہو ،کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے فرد بن سکتے ہو۔ پس ان باتوں کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔

ایک موقع پر آپؑ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم میری اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا۔ اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے تب تک نجات نہیں۔ قشر پر صبر کرنے والا مغز سے محروم ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اگر مرید خود عامل نہیں تو عمل کرنے والا نہیں۔ اگر عامل نہیں، عمل کرنے والا نہیں مرید تو پیر کی بزرگی اسے کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ یہ کہہ دینا کہ میں فلاں پیر سے بیعت میں آ گیا ہوں۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں شامل ہو گیا ہوں اب مجھے بہت کچھ مل گیا ہے۔ آپؑ نے فرمایا نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ جب تک خود ہی ہم عمل کرنے والے نہیں ہوں گے اس وقت تک ہمیں یہ بیعت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ آپؑ نے فرمایا اسی طرح اس کی مثال ہے کہ جیسے کوئی کسی ڈاکٹر کے پاس جائے اور وہ نسخہ دے اور وہ نسخہ لے کر رکھ لے تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ فائدہ تو اسی صورت میں ہو گا جب اس ڈاکٹر کے نسخے یا اس طبیب کے نسخے سے فائدہ اٹھائے، اس کا علاج کرے، ان دوائیوں کو استعمال کرے۔ اس لیے آپؑ نے فرمایا کہ

مَیں نے ایک کتاب لکھی ہے کشتی نوح۔ اس کشتی نوح کو بار بار پڑھو۔ اس میں تمہارے لیے نصائح ہیں اور جب اس کو بار بار پڑھو گے اور نصائح پر عمل کرو گے اور پھر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرو گے اور جو اس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کے مطابق احکامات درج ہیں ان کو دیکھو گے تو پھر وہی تمہاری کامیاب زندگی ہے اور وہی چیز ہے جو تمہیں بیعت میں فائدہ دینے والی ہو گی۔

آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ وہ آدمی فلاح پا گیا جو پاک ہو گیا یعنی قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا (الشمس:10) جس نے اپنے نفس کو پاک کیا وہ مقصد کو پا گیا۔ جب اس پر عمل کرو گے تو تبھی تمہیں فائدہ ہو گا۔ آپؑ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ہزاروں چور ہیں، زانی ہیں، بدکار ہیں، شرابی ہیں، بدمعاش ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہیں مگر کیا وہ درحقیقت ایسے ہیں ؟ کیاوہ حق رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کہلا سکیں۔ فرمایا ہرگز نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ امتی وہی ہے جو آپؐ کی تعلیمات پر پورا کار بندہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد4صفحہ 232-233۔ ایڈیشن 1984ء)

اور اگر تعلیمات پر کاربند نہیں تو پھر وہ امتی نہیں کہلا سکتا۔ یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے والی بات ہے۔ پس ان باتوں کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ

ہم نے اپنے اعمال کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے جو اسلامی تعلیم ہے، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں، جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا ہے اور اس زمانے میں جن کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے

توجہ دلائی ہے۔

آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ اس جماعت میں جو داخل ہوئے ہو تو اس کی تعلیم پر عمل کرو۔ فرمایا کہ جماعت میں داخل ہونے کے بعد تکلیفیں بھی پہنچتی ہیں۔ اگر تکلیفیں نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیونکر ممکن ہے۔ فرمایا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تیرہ برس تک دکھ اٹھائے اور تمہیں تو پتہ ہی نہیں کہ اس زمانے کی تکلیفیں کیا تھیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھو کہ تکلیفیں تو پہنچتی ہیں لیکن جب مکہ میں صحابہؓ کو بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ تکلیفیں پہنچ رہی تھیں تو اس وقت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی تعلیم دی تھی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آخر کار دشمن فنا ہو گیا۔ فرمایا کہ تم دیکھو گے کہ یہ جو شریر لوگ ہیں، جو تمہاری مخالفت کرتے ہیں یہ بھی اس وقت نظر نہیں آئیں گے۔

آجکل بھی یہی حالات ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ اس جماعت کو دنیا میں پھیلائے گا۔ فرمایا کہ یہ لوگ تمہیں تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں مگر جب جماعت کثیر ہو جائے گی تو یہ خود ہی چپ ہو جائیں گے۔ یہی دنیا میں اصول رہا ہے۔ یہی نبیوں کی جماعت کی تاریخ ہم نے دیکھی ہے۔ فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دکھ نہ دیتے اور دکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے مگر خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے وہ ان ظالموں کے ہاتھ روک سکتا ہے لیکن وہ ہمیں بھی آزمانا چاہتا ہے کہ ہم میں کتنا صبر ہے اور ہم کتنا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرتے ہیں۔

کیا صرف رمضان کے دنوں میں ہماری عبادتیں اللہ تعالیٰ کی خاطر تو نہیں ہو رہیں؟ کیا ہم مستقل اپنی زندگیوں میں ان عبادتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں اور بنا رہے ہیں؟ اگر یہ نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔ اگر ہم یہ کر رہے ہیں اور پھر صبر سے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی بھی ہیں اور دعائیں بھی کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ دشمنوں سے ہمیں نجات بھی دے گا۔ پھر تم دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان تکلیفوں سے کس طرح بچائے گا۔

فرمایا کہ صبر بھی ایک عبادت ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر کرنے والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں۔ یعنی ان پر بے حساب انعام ہوں گے۔یہ اجر صرف صابروں کے واسطے ہے۔ دوسری عبادت کے واسطے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے۔ جب ایک شخص ایک جماعت میں زندگی بسر کرتا ہے تو جب اسے دکھ پر دکھ پہنچتا ہے تو آخر حمایت کرنے والے کو غیرت آتی ہے اور وہ دکھ دینے والےکو تباہ کردیتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو پھر غیرت آئے گی جب ہم صبر کریں گے اور اس کے آگے جھکیں گے اور دعائیں کریں گے۔ لوگ بے صبری کا مظاہرہ بعض کر دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے بعض جگہ پہ ہمیں پاکستان میں خاص طور پہ بہت تکلیفیں ہو رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہی امید رکھی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی ہمیں فرمایا ہے کہ صبر کرو۔ صرف یہ نہیں کہ ہم نے اس رمضان میں دعائیں کر لی ہیں بلکہ ہم ان دعاؤں کو اور ان نیک اعمال کو اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنا لیں گے تو تبھی ہمیں فائدہ بھی ہو گا۔ آپؑ نے بڑی تحدّی سے فرمایا کہ

ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہوجاتا ہے۔ صبر جیسی کوئی شے نہیں ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 235۔ایڈیشن 1984ء)

پس یہ باتیں ہیں جو ہم یاد رکھیں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ ترقی کرتے چلے جائیں گے اور دشمن ہمارے کاموں میں کبھی کوئی روک نہیں پیدا کر سکتا، منصوبوں میں کبھی کوئی روک نہیں پیدا کر سکتا لیکن شرط وہی ہے کہ ہمارے اپنے نیک عمل ہوں اور ہم ہر چیز خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنے والے ہوں۔

ایک جگہ آپؑ نے فرمایا اب تم رُو بدنیا نہ رہو بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔(ماخوذ از ملفوظات جلد4صفحہ 71 ایڈیشن 1984ء)اور جب تم خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاؤ گے تو پھر تم دیکھنا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانیاں پیدا فرماتا ہے۔

پھر آپؑ نے

تقویٰ

کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو تاریخ بتاتی ہے کہ اوائل میں جو سچا مسلمان ہوتا ہے اسے صبر کرنا پڑتا ہے۔ صحابہ پر بھی ایسا ہی زمانہ آیا کہ پتے ّکھا کر گزارہ کیا۔ بعض اوقات روٹی کا ٹکڑابھی میسر نہیں آتا تھا۔ فرمایا کہ کوئی انسان کسی کے ساتھ بھلائی نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالیٰ بھلائی نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ بھلائی کرنا چاہے تو پھر ہی انسانوں کی طرف سے بھی بھلائیاں ہوتی ہیں۔ جب انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے تو خدا تعالیٰ پھر اس کے واسطے دروازے کھول دیتا ہے۔ یہ تمہارا خیال ہے کہ لوگ تمہارے لیے بھلائی کریں گے لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا ابھی یہ ارادہ نہیں ہے کہ بھلائی ہو تو تم لاکھ کوششیں کر لو لوگ بھلائی نہیں کر سکتے۔ نیکی پر چلنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا ضروری ہے اور جب اس کی رضا حاصل ہو گی اور جب ہم تقویٰ پر چلنے لگیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے دروازے بھی کھولے گا۔ ان شاءاللہ۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ۔ اس سے سب کچھ حاصل ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا۔ وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ (الطلاق:3-4)

(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 204 ایڈیشن 1984ء)

جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے اللہ اس کے لیے کوئی راستہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا خیال بھی نہیں ہو گا۔ وہاں سے سہولتیں مہیا فرمائے گا جہاں سے امید بھی نہیں ہو گی۔ پس اگر ہم نے اپنی زندگیوں کو کامیاب بنانا ہے اور ہم نے اس فیض سے فیض اٹھانا ہے جو اس رمضان کا یا ہر رمضان کا فیض ہوتا ہے تو یہ باتیں ہمیں یاد رکھنی چاہئیں۔

پھر

حقوق العباد

کے لیے بھی آپؑ نے فرمایا کہ آپس میں مل جل کے بیٹھو۔ جس قدر تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرو گے اسی قدر اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے گا۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 228۔ ایڈیشن 1984ء)

اب صرف ظاہری عبادتیں نہیں بلکہ رمضان کے دنوں میں جو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی طرف ہماری توجہ پیدا ہوئی ہے بہت سارے لوگوں میں ہوتی ہے بتاتے بھی ہیں۔ اب یہ ضروری ہے کہ ان اعلیٰ اخلاق کو ہم ہمیشہ جاری بھی رکھیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر، چھوٹے چھوٹے جھگڑوں پر، چھوٹے چھوٹے مسائل پہ آپس میں جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں ان کو ختم کریں اور محبت اور پیار کی زندگی گزاریں۔ پس جب ہم یہ کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی ہم پر برسے گی۔

پھر ایک جگہ آپؑ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ

ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اس پُرآشوب زمانے میں جبکہ ہر طرف ضلالت اور غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے تقویٰ اختیار کریں۔

دیکھیں آجکل کون سا ایسا ذریعہ ہے جو گمراہی کی طرف لے جانے کے لیے استعمال نہیں ہو رہا۔ ہر قسم کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہر قسم کا میڈیا اس وقت اسی کام پہ لگا ہوا ہے۔ دنیا داروں نے ہر ذریعہ کو گمراہی اور ضلالت اور غفلت کی طرف لے جانے اور اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ ایسے وقت میں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اس زمانے میں دین کی تجدید کے لیے اور اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ان چیزوں سےبچنے کی کوشش کریں۔ خودہی جائزہ لیں کتنے ہم میں سے ایسے ہیں جو ان سے بچتے ہیں۔

نوجوان بھی، بڑی عمر کے بھی، عورتیں بھی، بچے بھی ہر ایک کو اپناجائزہ لینا چاہیے۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ دنیا کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی عظمت نہیں۔ حقوق اور وصایا کی پروا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کیا نصیحتیں فرمائیں اس کی کچھ پروا نہیں۔ فرمایا دنیا اور اس کے کاموں میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔ ہم اپنے اندر کا جائزہ لیں تو ہمارے اندر بھی یہی باتیں ہیں کہ دنیا کے کاموں میں زیادہ انہماک ہے۔ بعض دفعہ ہم نمازیں پڑھنا بھول جاتے ہیں۔ بعض جمعوں کی پروا نہیں کرتے۔ بعض اَور نیکیوں کی پروا نہیں کرتے۔ اپنا حق لینے کے لیے دوسرے کا حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو یہ باتیں ایسی ہیں جو پھر اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی نہیں ہو سکتیں۔

پس ایک طرف ہم رمضان میں یہ دعائیں کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نیکیوں کی توفیق دے۔ ہماری ضروریات پوری کرے تو پھر ہمیں بھی ان باتوں پر عمل کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہیں۔ کوشش بھی کرنی ہو گی صرف دعا سے نہیں کام بنے گا۔ آپؑ نے فرمایا کہ دنیا داری میں پڑے ہوئے لوگ ہیں، دنیا کا نقصان ہو تو بہت زیادہ شور مچانے لگ جاتے ہیں۔ رونے چلانے لگ جاتے ہیں اور دنیا کے نقصان سے بچنے کے لیے جیساکہ میں نے پہلے کہا اللہ تعالیٰ کے حق کو ضائع کر دیتے ہیں۔اس دنیاکا ہمیں نقصان نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا ہوتا ہے، ہو نہ ہو فرق نہیں پڑتا۔ ان باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتے جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہیں۔ لوگوں کے حق ادا نہیں کرتے۔ مقدمے بازیوں میں چلے جاتے ہیں۔ غلط قسم کے مقدمے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کو نیچا کرنے کے لیے یہ بھی لوگ کر رہے ہوتے ہیں کہ دلیلیں غلط دے رہے ہوتے ہیں۔ وکیلوں کے کہنے پر غلط قسم کے دلائل پیش کررہے ہوتے ہیں۔ وکیل بھی جھوٹی دلیلیں دلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جھوٹی گواہیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں تو ایسی حالت میں پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا ساتھ دے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا ساتھ لینا ہے تو پھر ضروری ہے کہ ہم نیکیوں کی طرف توجہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں۔ فرماتے ہیں کہ جب تک کمزور ہوتے ہیں تو گناہ کی جرأت نہیں ہوتی۔ گناہ نہیں کرتے جب تک کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر رہے ہوتے ہیں اور جب موقع ملا تو جھٹ پھر جھوٹ اور گناہ کے مرتکب ہونے لگ جاتے ہیں۔ جب آسانیاں اور کشائش پیدا ہوتی ہے تو پھر بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آسانیاں اور کشائش دی ہے اور اس سے پہلے جو ہماری حالت تھی وہ کیا تھی۔ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری تو یہی ہے کہ ہم ان نیکیوں کو جاری رکھیں جو ہماری کمزوری میں نیکیاں تھیں۔ اور کبھی اللہ اور اس کے بندوں کا حق غصب کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر حق مار رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ سچا تقویٰ نہیں ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ سچا تقویٰ ہو تو پھر ایسی حرکتیں انسان کر ہی نہیں سکتا ۔ آپؑ نے فرمایا کہ بہت سا حصہ احادیث میں موجود ہے اور برکات بھی ہیں مگر دلوں میں ایمان اور عملی حالت بالکل نہیں ہے۔ بعض لوگ ہیں جو باتیں تو کرتے ہیں حدیثوں کی اور قرآن کی لیکن عملی حالت اور ایمان اتنا نہیں ہے کہ ان باتوں پر عمل ہو۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس لیے مبعوث کیا ہے کہ یہ باتیں پھر پیدا ہوں۔

خدا نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے تو اس کی الوہیت کے تقاضے نے ہرگز پسند نہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے اور لوگ ایسے ہی دور رہیں اس لیے اب ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے اس لیے ہماری تبلیغ ہے کہ تقویٰ کی زندگی حاصل ہو جاوے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 395-396۔ ایڈیشن 1984ء)

پس ہم نئی قوم بنے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آئے ہیں تو ہمیں تقویٰ کی زندگی پر چلنا پڑے گا اور چلنا چاہیے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ تقویٰ ایسی شئے نہیں ہےجو کہ صرف منہ سے انسان کو حاصل ہو جائے بلکہ شیطان اس میں بہکاتا ہے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 398 حاشیہ، ایڈیشن 1984ء)تقویٰ کرنے والوں کو بھی بہکاتا ہے۔ شیطان بہکاتا ہے تقویٰ کرنے والوں کو بھی بہکاتا ہے۔ ’’اس کی مثال ایسی ہوتی ہے‘‘ آپؑ نے مثال دی ہے ’’جیسے ذرا سی شیرینی رکھ دیں تو بے شمار چیونٹیاں اس پر آجاتی ہیں۔‘‘ میٹھا رکھا ہو کہیں، چینی رکھی ہو، مٹھائی رکھی ہو تو چیونٹیاں اس پر آ جاتی ہیں ’’یہی حال شیطانی گناہوں کا ہے اور اسی سے انسانی کمزوری کا حال معلوم ہوتا ہے۔‘‘ کہ کیا حال ہے انسان کی کمزوری کا، سمجھتا ہے کہ میں بڑا نیک ہو گیا ہوں۔ بڑا تقویٰ پر عمل کر رہا ہوں لیکن شیطان حملہ کر دیتا ہے تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ شیطان کے حملے سے تم بچے نہیں۔ ابھی پوری طرح اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں آئے۔ فرمایا کہ ’’اگر خدا چاہتا تو ایسی کمزوری نہ رکھتا‘‘ انسان۔ ذرا سی کسی نے کوئی نیکی کی، وہ سمجھے کہ میں تقویٰ پر عمل کرنے والا ہو گیا ہوں جیسا کہ میں نے کہا۔ تو یہ تو حقیقی تقویٰ نہیں ہے۔ یہ ایسا تقویٰ ہے جس پر شیطان حملے کرتا ہے۔ اسی طرح حملے کرتا ہے جس طرح آپؑ نے مثال دی ہے کہ میٹھے پر چیونٹیاں آ جاتی ہیں اسی طرح شیطان بھی اس کو بھڑکانے کے لیے حملہ کر دیتا ہے۔ اس کے دماغ میں یہ ڈالنے کے لیے کہ تم بڑے نیک ہو گئے ہو۔ جب انسان کی ایسی حالت ہوتی ہے تو پھر وہ نیکیوں سے دور چلا جاتا ہے تکبر پیدا ہو جاتا ہے۔ پس آپ نے فرمایا کہ تقویٰ پر چلنے والوں کو بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا پڑتاہے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ ’’انسان کو اس بات کا علم ہو کہ ہر ایک طاقت کا سرچشمہ خدا ہی کی ذات ہے۔ کسی نبی یا رسول کو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس سے طاقت دے سکے۔‘‘ ہاں نبی اور رسولوں سے برکات حاصل ہوتی ہیں۔ ان کی تعلیم پر عمل کرنے سے برکت ملتی ہے لیکن طاقت اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور نبی اور رسول بھی اسی طرف لے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے مانگو ’’اور یہی طاقت جب خدا کی طرف سے انسان کو ملتی ہے تو اس میں تبدیلی ہوتی ہے۔ اس کے حاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ دعا سے کام لیا جاوے اور نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بجا لانے سے شیطانی کمزوری دُور ہوتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ انسان اس میں کمزور رہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر اصلاح اپنی کرے گا وہ اسی ذریعہ سے کرے گا۔ پس اس کے واسطے پاک صاف ہونا شرط ہے۔ جب تک گندگی انسان میں ہوتی ہے اس وقت تک شیطان اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 398۔ ایڈیشن 1984ء)

پس پاک صاف ہونے کے لیے نمازوں کی شرط ہے اور اس رمضان میں ہم نے یہ فائدہ اٹھایا کہ نمازیں باقاعدہ ادا کریں۔ اس کی طرف توجہ کریں۔ نوافل کی طرف توجہ کریں۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر مستقل شیطان سے بچنا ہے اور تقویٰ کے اوپر قدم مارنا ہے تو پھر اس کی شرط یہی ہے کہ عبادت کی طرف توجہ کرو۔ وہ عبادت جو سنوار کر کی جائے جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کی جائے۔ جس میں کسی قسم کا ریا اور دکھاوا نہ ہو اور جب ایسی عبادتیں ہوں گی تو پھر انسان ہمیشہ شیطان کے حملوں سے بچتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہے گا۔

پھر آپؑ نے تقویٰ کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ متقی بننے کے لیے ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا ،چوری ،تلف حقوق ،ریاء، عُجب ،حقارت ،بخل کے ترک میں پکا ہو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔ یہ بات تقویٰ کے لیے ضروری ہے کہ موٹی موٹی برائیاں جو ہیں ان سے دور رہے۔ جو گھٹیا اخلاق ہیں ان سے بچے ۔گھٹیا باتوں سے بچے۔ لیکن صرف اتنا کافی نہیں ہے بلکہ اچھے اخلاق اس کے مقابلے میں پیدا ہوں تو پھر ہی اصل تقویٰ ہے۔ صرف برائیاں دور کر کے نیکیوں پہ قدم مارنا یہ اصل چیز ہے۔ برے اخلاق کو ختم کرنا اور اچھے اخلاق کو اپنانا یہ اصل چیز ہے۔

صرف برائی سے بچنا تقویٰ نہیں ہے بلکہ برائی سے بچ کر نیکیوں کو بجا لانا تقویٰ ہے۔

پھر اس کے علاوہ اَور کیا چیزیں ہیں نیکیوں میں۔ لوگوں سے مروّت کر کے پیش آنا، خوش خلقی دکھانا، ہمدردی سے پیش آنا، خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلانا اور خدمات کے مقام محمود تلاش کرنا۔ کوشش کرنا کہ انسان کو ایسے کام کرنے کی توفیق ملے جو اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہوں اور قابل تعریف ہوں۔ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب یہ باتیں انسان میں پیدا ہوں تو وہی لوگ متقی ہوتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب لوگ ایسے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا متولی ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرہ :39) کہ ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ ہی وہ غم کریں گے۔ اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے وَ ہُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیۡنَ (الاعراف :197) اور وہ نیک لوگوں کا ہی کفیل بنتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں۔ ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتے ہیں۔

ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

اور پھر ایک جگہ فرمایا کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھین لے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی رحمت تو اسی طرح ملتی ہے۔ جب انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ کا قدم بھی بڑھتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رحمتیں ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتیں اس لیے جن پر ہوتی ہیں وہ ان کے لیے نشان بولی جاتی ہیں۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ نشان دکھائے گئے کہ دشمنوں نے آپؐ کی ناکامی کے لیے کیا کیا کوششیں کیں مگر ایک پیش نہ گئی حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے منصوبے بھی کیےگئے مگرآخر کار ناکام ہوئے۔ فرماتے ہیں کہ اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھو اور اس کے لیے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شئے نہیں۔ اصل چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی نیکیاں پیش کی جائیں اور اس کی عبادت کا حق اد اکیا جائے اور اس کے لیے سب سے اعلیٰ چیز آپ نے فرمایا نماز ہے۔ پس رمضان میں سے ہم گزرے۔ نمازوں کی حالت میں سے ہم گزرے۔ نیکیوں کی حالت میں سے ہم گزرے اب ان کو جاری رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لیے ان کو مستقل زندگیوں کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ اس کے بغیر گزارا نہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ روزے تو ایک سال کے بعدآتے ہیں۔ زکوٰة صاحب مال کو دینی پڑتی ہے۔ جس کے پاس مال ہے اس پر زکوٰة واجب ہے ہر ایک کو تو زکوٰة دینی نہیں ہوتی۔ وہ بھی ایک نیکی ہے مگر نماز ہے کہ ہر ایک حیثیت کے آدمی کو پانچ وقت ادا کرنی پڑتی ہے۔ امیر ہو غریب ہو، بڑا ہو چھوٹا ہو اس نے نماز ادا کرنی ہے اسے ہرگز ضائع نہ کرو۔ اسے بار بار پڑھو اور خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لے۔ ایساپختہ ایمان ہونا چاہیے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں جو ایسی طاقت والا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ابھی میری دعا قبول کر لے۔ فرمایا کہ دوسرےدنیا کے حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جائے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے۔ ان کے خزانے آتے ہیںبھرتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی فکر ہوتی ہے کہ ہم بے دریغ ان کو خرچ کرتے چلے جائیں تو پھر کہیں ہمارے خزانے خالی نہ ہوجائیں۔ آجکل مغربی دنیا میں جو اپنے آپ کو بڑے امیر سمجھتے تھے یہی حالات ہیں۔ سمجھتے تھے کہ ہمارے پاس بہت دولت ہے کبھی ختم نہیں ہو گی لیکن بڑے بُرے حالات ہو رہے ہیں ہر ایک کی معیشت تباہی کی طرف جا رہی ہے مہنگائی بڑھ رہی ہے، روپے کی قیمت کم ہو رہی ہے، پاؤنڈ کی قیمت کم ہو رہی ہے، ڈالر کی قیمت کم ہو رہی ہے اور ایک فساد پیدا ہوا ہوا ہے اور ان کو فکر پڑ گئی ہے تبھی انہوں نے بہت ساری پابندیاں بھی لگا دی ہیں لیکن

خدا تعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا ہوا ہے۔ جب انسان اس کے سامنےکھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے۔

یہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میں سب طاقتیں ہیں اور اس کے خزانے ہمیشہ بھرے ہوئے ہیں اور بھرے رہیں گے جب یہ یقین ہو اور پھر اس سے مانگتا ہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ میں طاقتیں ہیں کہ وہ دعاؤں کو قبول کر کے اسی وقت دے بھی دے۔ فرمایا کہ اسے اس امر پہ یقین ہو کہ میں ایک سمیع علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوں۔ اگر اسے مہر آجاوے، اس کی مہربانی ہو تو ابھی دے دے۔بڑی تضرع سے دعا کرے۔ ناامیدی اور بدظن ہر گز نہ ہو۔ اگر اس طرح کرے تو اس راحت کو جلد دیکھ لے گا اور خدا تعالیٰ کے اور اور فضل اس میں شامل ہوں گے۔ اگر انسان ایسی حالت پیدا کرے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل ہو ں گے اور خود خدا بھی ملے گا۔ تو یہ طریقہ ہے جس پر کاربند ہونا چاہیے مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لاپروا ہے۔ ایک بیٹا اگر باپ کی پرواہ نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 400 تا 402۔ایڈیشن 1984ء)

پس آپؑ نے فرمایا کہ

ہماری جماعت کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کریں اور اپنی ایمانی قوتوں کو یقین تک پہنچانے کی کوشش کریں اور یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے میں آیا ہوں

اور یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تو پھر آپ نے فرمایا کہ میری بیعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پس ہمیں یہی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی نیکیوں کو بڑھاتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کریں اور یہی ہماری زندگیوں کا مقصد ہے۔ یہی جماعت کی ترقی میں ہمارے لیے فائدہ دینے والی چیز ہے۔ یہی ہمیں مشکلات اور مصائب سے بچانے والی ہے اور اسی سے جماعت ان شاء اللہ تعالیٰ ترقی کرتے کرتے اس مقام تک پہنچے گی جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔

آپؑ نے فرمایا کہ مسیح موعود کے جو کام ہیں ان میں سے پہلا تو یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو نشان دکھلا رہا ہے، وہ نشان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دکھائے تھے اور اسی تسلسل میں اب بھی نشان دکھا رہا ہے۔ خود ترقی کے نشان دکھا رہا ہے اور اب بھی دکھلاتا چلا جا رہا ہے۔ آپؑ نے فرمایا یہ نشان دکھا رہا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ یہ ثابت کرے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سننے والا ہے اور اس کا جواب بھی دیتا ہے اور ہمارے ساتھ اس کی نصرت ہے۔

پھر آپؑ نے فرمایا کہ میرے آنے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بندوں کا تعلق پیدا کروایا جائے۔ ایک فعل تو اللہ تعالیٰ کا ہے۔ فرمایا کہ ایک فعل تو اللہ تعالیٰ کا ہے جو اس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے وہ دے رہا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے ہماری ذمہ داری لگائی ہے کہ ہم اس کے شکرگزاربندے بنیں اور اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں اور اپنے ایمانوں میں ترقی کرنے والے ہوں۔ جب یہ ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم حاصل کرنے والے ہوں گے اور ہم اس بیعت کا حق ادا کرنےوالے ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کا ہمارا مقصد ہے۔

آپؑ نے فرمایا کہ ہماری جماعت کے لیے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے۔ اللہ تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔ نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو کیونکہ اگر سستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت لگتا ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے۔ اگر اعمالِ صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی الخیرات کے لیے جوش نہ ہو تو ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے۔

اگر تبدیلی پیدا نہیں کر رہے، اپنے آپ میں نیکیاں بجا لانے کا ایک جوش پیدا نہیں کر رہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کاجوش اور اعلیٰ اخلاق دکھانے کا جوش پیدا نہیں کر رہے تو پھر میری بیعت میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

فرمایا کہ ہماری جماعت میں تو وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے لیکن جو محض نام رکھ کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا وہ یاد رکھے کہ خداتعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی محض نام لکھوانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔ اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آتا ہے کہ وہ بدقسمتی سے الگ بھی ہو سکتا ہے اور ہو جائے گا۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے مطابق کرو جو دی جاتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اعمال پروں کی طرح ہیں بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کے لیے پرواز نہیں کر سکتا۔ جس طرح پرندے ہوا میں پروں سے اڑتے ہیں تو اعمال بھی روحانی درجے بلند کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اعمال ہوں گے تو انسان اوپر اڑ سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کے قریب جاسکتاہے۔ بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کے لیے پرواز نہیں کر سکتا اور ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتا جو ان کے نیچے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں۔ فرمایاکہ پرندوں میں فہم ہوتا ہے۔ ان میں عقل ہوتی ہے اگر وہ اس عقل اور فہم سے کام نہ لیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کی جبلت میں رکھی ہے، ان کی فطرت میں رکھی ہے تو جوکام ان سے ہوتے ہیں وہ نہ ہوں۔ مثلاً شہد کی مکھی میں اگر فہم نہ ہو تو وہ شہد نہیں نکال سکتی اور اسی طرح نامہ بر کبوتر جو ہیں، پیغام لے جانے والے کبوتر جن کا پہلے بہت استعمال ہوتا تھا ان کو اپنے فہم سے کسی قدر کام لینا پڑتا ہے۔ کس قدر دُور دراز کی منزلیں وہ طے کرتے ہیں، خطوط پہنچاتے ہیں اسی طرح پرندوں سے عجیب عجیب کام لیے جاتے ہیں۔ پس پہلے ضروری ہے کہ آدمی اپنے فہم سے کام لے اور سوچے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے نیچے اور اس کی رضا کے لیے ہے یا نہیں ؟ جب یہ دیکھ لے اور فہم سے کام لے تو پھر ہاتھوں سے کام لینا ضروری ہے پھر عملی طور پر اپنے ہاتھوں کو ہلانا ضروری ہے۔ پہلے سوچے، عقل کرے کہ نیکی کے یہ کام جو مَیں نے کرنے ہیں ان کے نیک نتائج نکلیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہیں کہ نہیں پھر اس کے بعد ان پر عمل کرے۔ سستی اور غفلت نہ کرے۔ ہاں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ تعلیم صحیح ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعلیم صحیح ہوتی ہے لیکن انسان اپنی نادانی اور جہالت سے یا کسی دوسرے کی شرارت اور غلط بیانی سے دھوکے میں پڑجاتا ہے۔ یہ بھی ہو جاتا ہے کہ بعض دفعہ شیطان دھوکادے جاتا ہے۔ اسی تعلیم کے حوالے سے دھوکامل جاتا ہے تو اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ پس

یہ بہت ضروری ہے ایک احمدی کے لیے کہ اپنے اعمال بجا لانے کے لیے، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوشش کرے اور سوچے، خالی الذہن ہو کر سوچے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 438 تا 440۔ایڈیشن 1984ء)

پہلے جائزہ لے۔ پھر اس پر غور کرے دعا کرے پھر عمل کرے اور پھر مقصد یہی ہو کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ پس جب ہم ان باتوں پر عمل کرنے والے ہوں گے تب ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کے مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں گے۔

پھر ایک جگہ آپؑ نے

اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرنے کے لیے نصیحت

کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت سے پورا حصہ لو اور اصل توحید اسی سے قائم ہو گی اور اس کے لیے جہاں تم اقرار کرتے ہو کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے محبت ہے، اس کی توحید قائم کرنا چاہتے ہیں وہاں اس کی تصدیق لازمی ہے اس کے لیے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور گرنا اور گڑگڑانا ضروری ہے۔ جب یہ باتیں ہوں گی تو تب ہی ہم حقیقی توحید کو بجا لانے والے اور اس پر عمل کرنے والے اور اس کو پھیلانے والے ہوں گے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 187 ایڈیشن 1984ء)

پھر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ

خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت سے کیا مراد ہے؟

آپؑ نے فرمایا کہ یہی اس سے مراد ہے کہ اپنے والدین اور اپنی جور و یعنی بیوی، اپنی اولاد، اپنے نفس ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیا جائے چنانچہ قرآن شریف میں آتا ہے۔ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا (البقرہ :201) یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ تم خدا کو باپ کہہ کر پکارو بلکہ اس نے یہ سکھایا ہے کہ نصاریٰ کی طرح دھوکا نہ لگے۔ اس لیے یہ کہا ہے کہ نصاریٰ کی طرح دھوکا نہ لگے اور خدا کو باپ کہہ کر پکارا نہ جائے۔ اگر کوئی کہے کہ پھر باپ سے کم درجہ کی محبت ہوئی تو اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے اَشَدَّ ذِکۡرًا رکھ دیا گیا۔ اَشَدَّ ذِکۡرًا نہ ہوتا تو اعتراض ہو سکتا تھا مگر اب تو اس نے اس کو حل کر دیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ باپ سے زیادہ ذکر کرو۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ اصل توحید کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خداتعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو اور یہ محبت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو جاؤ۔ صرف زبان سے توثابت نہیں ہوتی یہ بات۔ اگر کوئی چینی یا مصری کا نام لے تو اس سے منہ میٹھا نہیں ہو جاتا۔ صرف میٹھے کا نام لینے سے تو منہ میٹھا نہیں ہوتا۔ مٹھائی کا نام لینے سے تو منہ میٹھا نہیں ہو جاتا۔ اگر زبان سے کسی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے مگر مصیبت اور وقت پڑنے پر اس کی امداد نہ کرے، دستگیری سے پہلو تہی کرے تو دوست صادق نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کی توحید کا نرا زبان ہی سے اقرار ہو اور اس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقرار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ زبانی اقرار کے بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے مطلب یہ نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں۔ فرمایا کہ میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے اس لیے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو اور یہی اسلام ہے۔ یہی وہ غرض ہے جس کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے۔ پس جو اس چشمے کے نزدیک نہیں آتا جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لیے جاری کیا ہے وہ یقیناً بے نصیب رہے گا۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 188-189۔ ایڈیشن 1984ء)

آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید قائم کرنے کے لیے اپنی زندگیوں کو ایسے بناؤ۔ ضروری نہیں ہے کہ وقف کر کے کوئی جماعت کی ملازمت میں آتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے لیے، تعلیم پر عمل کرنے کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کرو، ان کو اس طرح ڈھالو کہ یہ ظاہر ہو کہ ہماری زندگی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے۔ اپنی زندگیوں کو ایسا بناؤ گے تو تبھی کامیاب ہو گے۔ فرمایا یہ مقصد سمجھو اپنی زندگیوں کا کہ صرف ہم نے دنیا نہیں کمانی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کے ہم نے اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے اور پھیلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور جب یہ سوچ ہو گی تو پھر ہر فرد جماعت اپنا کردار ادا کر رہا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کے لیے، دنیا میں پھیلانے کے لیے اور دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لانے کے لیے کوشش کر رہا ہو گا۔

پس اس رمضان میں جہاں ہم نے یہ عہد کیےہیں کہ ہم عبادتوں کی طرف توجہ کریں گے اور اعلیٰ اخلاق کی طرف توجہ کریں گے۔ نیکیاں بجا لانے کی طرف توجہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کو پھیلانے کی طرف توجہ کریں گے تو پھر اس کے لیے ہمیں کوشش بھی کرنی ہو گی اور یہ کوشش صرف اس رمضان کے ختم ہونے کے ساتھ ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ سارا سال جاری رہنی چاہیے۔

جب یہ سارا سال رہے گی تو پھر ہم اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہو سکتے ہیں جو ہماری زندگیوں کا مقصد ہے اور اگر یہ نہیں تو پھر خدا تعالیٰ کے ارشاد پر، اس کے حکم پر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے اس کا کوئی مقصد نہیں ہوگا اور اس مقصد کو ہم حاصل نہیں کر سکیں گے اور ان باتوں سے فیض نہیں اٹھا سکیں گے جو آپؑ کی بیعت میں آنے سے ہمیں پہنچ سکتا ہے۔ پس

ہمیشہ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم نے بیعت میں آ کے ایک خاص تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنی ہے اور اس رمضان میں جو دعائیں کی ہیں، جو نیکیاں حاصل کی ہیں ان کو تمام عمر کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’اگر دنیاداروں کی طرح رہو گے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔

میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے
تا کہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو۔

بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں۔ میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے غفور الرحیم خدا اس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے۔ تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔’’ آپؑ نے مثال دی کہ ‘‘ایک گاؤں میں اگر ایک آدمی نیک ہو تو اللہ تعالیٰ اس نیک کی رعایت اور خاطر سے اس گاؤں کو تباہی سے محفوظ کر لیتا ہے لیکن جب تباہی آتی ہے تو پھر سب پر پڑتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنے بندوں کو کسی نہ کسی نہج سے بچا لیتا ہے۔ سنت اللہ یہی ہے کہ اگر ایک بھی نیک ہو تو اس کے لیے دوسرے بھی بچائے جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 262۔ ایڈیشن 1984ء)

پس آجکل دنیا کے جو حالات ہیں ان میں خاص طور پر جہاں ہم اپنے آپ کو بچانے کے لیے، اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے کوشش کریں، دنیا کو بچانے کے لیے کوشش کریں اور توحید کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے کوشش کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لانے کی کوشش کریں وہاں اس کے لیے ہمیں اپنے آپ میں ایک خاص تبدیلی مستقل طور پر پیدا کرنی ہو گی اور مستقل دعاؤں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہو گا تا کہ ہم اپنے آپ کو بھی محفوظ کر سکیں اور دنیا کو بھی محفوظ رکھ سکیں کیونکہ دنیا بڑی تیزی سے تباہی کی طرف جا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہے تو دنیا کی اصلاح کے لیے ایسے سامان پیدا کر سکتا ہے کہ ان کے دلوں کو پھیر دے اور اس تباہی سے وہ بچ سکیں اور تباہی آنی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ پھر مومنوں کو، ایمان والوں کو اس سے بچائے اور اس کے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اعمال اس نہج پر ڈھالیں، اس طرح ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر ہمیشہ رہے۔ خدا کرے کہ ہم اس بات کا حقیقی ادراک بھی حاصل کرنے والے ہوں کہ کس طرح ہم نے اپنی عبادتوں کو زندہ رکھنا ہے۔ کس طرح ہم نے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ کس طرح ہم نے تقویٰ پر چلنا ہے۔ کس طرح ہم نے اعلیٰ اخلاق دکھانے ہیں۔ کس طرح ہم نے توحید کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور کس طرح ہم نے دنیا کو تباہی سے بچانا ہے۔ کس طرح اپنے آپ کو دنیا کی تباہی اور حملوں سے بچانا ہے اور جب یہ چیزیں ہوں گی اور ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہو گا تو پھر ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں گے۔

خدا کرے کہ ہم یہ بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں اور یہ رمضان ہمارے لیے برکتوں کا باعث بننے والا ہو۔ ہمیں اپنی رحمتوں اور فضلوں سے، برکات سے نوازے اور ہمارے رمضان کے آنے والے آئندہ دن اور پورا سال اور اگلے رمضان تک ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اس کے بندوں کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: غزوۂ خیبر اور غزوۂ ذات الرقاع کے تناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۱؍اپریل ۲۰۲۵ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button