غزوۂ خیبر اور غزوۂ ذات الرقاع کے تناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۱؍اپریل ۲۰۲۵ء
٭… مسلمانوں کے حق میں فتح خیبرکے بہت سے اثرات ظاہر ہوئے جن میں ایک بنیادی اثر یہ ہوا کہ عرب میں اردگرد کے بہت سے قبائل نےجو مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا ارادہ رکھتے تھے ازخود صلح کا ہاتھ بڑھایا
٭… فتح خیبر کا ایک بڑا اثر یہ ہوا کہ جزیرہ نما عرب میں یہود کی طاقت ختم ہوکر رہ گئی
٭…فتح خیبر کا مدینے کے مسلمانوں کی معیشت پر بڑا مثبت اثر پڑا۔ حضرت عائشہؓ سمیت کئی صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کی فتح کے بعد ہمیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوتا تھا
٭… غزوہ ذات الرقاع کومعجزات کا غزوہ بھی قرار دیا گیا ہے۔آپؐ پر ایک دشمن کی جانب سے تلوار سونتے جانے کا واقعہ اسی غزوے کے دوران پیش آیا تھا
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍اپریل ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۱؍ شہادت ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۱؍اپریل۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
غزوہ خیبرکےبعدکے کچھ واقعات بیان ہورہے ہیں، اس میں
اہلِ تیماء کی مصالحت کا واقعہ بھی ہے۔
تیماء مدینے سے شام کے راستے میں ایک معروف شہرتھا۔ اہلِ تیماء نے ازخود آنحضورﷺکی خدمت میں صلح کی پیشکش کی تھی، جسے آپؐ نے قبول فرمایا اور تیماءکے یہود کو اپنے مال و متاع کے ساتھ اپنے علاقے میں رہنے کی اجازت دے دی۔
اسی موقعے پر نمازِ فجر کی ادائیگی میں تاخیر
کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ آنحضورﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ غزوۂ خیبر سے لوٹتے وقت ساری رات چلتے رہے، پھر جب آپؐ کو نیند آئی تو مدینےکے قریب آرام کے لیے پڑاؤکیا، اور بلالؓ سے فرمایا کہ آج کی رات تم ہماری نماز کے وقت کی حفاظت کرو۔ حضرت بلالؓ جاگنےکےلیے نفل پڑھتے رہے، اور آنحضرتﷺ اور صحابہ ؓسو گئے۔ جب فجر کا وقت قریب آیا تو حضرت بلالؓ نے اپنی سواری کا سہارا لیا تو بالال پر بھی نیند غالب آگئی۔پس نہ رسول اللہﷺ اور صحابہؓ میں سے کسی کی آنکھ کھلی اور نہ ہی حضرت بلال ؓکی آنکھ کھلی، یہاں تک کہ دھوپ ان لوگوں پر پڑی اور پھر رسول اللہﷺ سب سے پہلے جاگے۔ آنحضورﷺ فکرمند ہوئے اور آپؐ نے بلالؓ سے استفسار فرمایا۔ پھر آپؐ نے وہاں سے چلنے کا حکم دیا اور تھوڑی دُور جاکر رسول اللہﷺ نے وضو کیا اور صبح کی نمازباجماعت پڑھائی۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ
جو شخص نماز کو بھول جائے اسےچاہیے کہ یاد آنے پر اُسے پڑھ لےکیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ نماز کو میرے ذکر کےلیے قائم کرو۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ مدینے واپس آتے ہوئے لوگ بلند آواز میں تکبیرات کہنے لگے تو آنحضورﷺ نے فرمایا:
اپنی آوازیں دھیمی رکھو تم کسی بہرے یا غیرحاضر کو نہیں پکار رہے۔
مسلمانوں کا یہ سفر جو محرم سات ہجری کو شروع ہوا تھا، خداتعالیٰ کے افضال اورکامیابیاں سمیٹتا ہوا صفر کے اختتام یا ربیع الاوّل کے آغاز میں واپسی پر مکمل ہوا ۔
مسلمانوں کے حق میں فتح خیبرکے بہت سے اثرات ظاہر ہوئے جن میں ایک بنیادی اثر یہ ہوا کہ عرب میں اردگرد کے بہت سے قبائل جو مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا ارادہ رکھتے تھے، خوف زدہ ہوگئے ، کئی قبائل نے ازخود صلح کا ہاتھ بڑھایا، کچھ نے اطاعت قبول کرنے میں عافیت جانی۔
فتح خیبر کاایک بڑا اثر یہ ہوا کہ جزیرہ نما عرب میں یہود کی طاقت ختم ہوکر رہ گئی۔ پھر اس فتح کا مدینے کے مسلمانوں کی معیشت پر بڑا مثبت اثر پڑا،حضرت عائشہؓ سمیت کئی صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ
خیبر کی فتح کے بعد ہمیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوتا تھا۔
اس کے بعد
غزوہ ذات الرقاع کا ذکر ہے۔
اس غزوہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس علاقے میں ایک درخت یا پہاڑ تھا جس کے نام پر اس غزوے کا یہ نام پڑ گیا، ایک اور وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ اس غزوے میں صحابہؓ کے پاس سواریاں بہت تھوڑی تھیں، اور سفر کی شدت اور سنگلاخ زمین پر چلنے کی وجہ سے صحابہؓ کے پاؤں زخمی ہوگئے تھے اور وہ پھٹے پرانے کپڑوں سے پٹیاں بناکر زخموں پر باندھتے تھے،کپڑے کی پٹیوں کو چونکہ رقاع کہا جاتا ہے اس لیے اس غزوے کا یہ نام پڑ گیا۔
اس غزوے کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کتب تاریخ و سیر میں اس کی تاریخ ۴یا ۵؍ہجری مذکور ہے، جبکہ امام بخاری نے ایک قوی شہادت کی بنا پر اسے غزوہ خیبر کے بعد ۷؍ہجری کا قرار دیا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اپنے نوٹس میں اسے غزوہ خیبر کے بعد ۷؍ہجری میں رکھا ہے۔
اس غزوے کا سبب یہ تھا کہ نجد کے علاقے میں بعض راہزن اور ڈکیت مسافروں کو تنگ کیا کرتے تھے، ان پر قابو پانا مشکل تھا۔ اسی طرح اس غزوے کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ایک تاجر مدینے آیا اور اس سے اہلِ مدینہ کو یہ اطلاع ملی کہ اہلِ ثعلبہ اور دیگر قبائل مسلمانوں کے خلاف لشکرکشی کا ارادہ رکھتے ہیں، رسول اللہﷺ کو یہ خبر ملی تو آپؐ نے اس مہم جوئی کا ارادہ فرمایا۔ آپؐ مدینے سےچارسَو،سات سَویا آٹھ سَو ساتھیوں کے ساتھ اس غزوے کےلیے روانہ ہوئے۔
اس غزوے میں صلوٰة الخوف اداکیے جانے کا بھی ذکر ہے۔
حضرت جابر ؓکی روایت ہے کہ نبی ﷺ نخل سے ذات الرقاع گئے اور وہاں غطفان کے لشکر سے سامنا ہوا مگر کوئی لڑائی نہ ہوئی، البتہ آمنے سامنے ہوتے ہوئے حملے کا خطرہ رہا، اس دوران جب نماز کا وقت ہوا تو آپؐ نے صلوٰة خوف ادا فرمائی۔ یعنی ایسی نماز جس میں آدھے لوگ نصف نماز میں شامل ہوئے اورپھر پیچھے ہٹ گئے، اور بقیہ آدھے لوگ آگئے اور انہوں نے بھی آپؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس نماز کا ذکر سورة النساء میں فرمایا گیا ہے کہ ایسی خوف کی حالت میں کس طرح نماز پڑھی جائے۔
شارح بخاری علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں کہ صلوٰة خوف کے بارے میں اختلاف ہے کہ پہلی بارکس سال اس کے بارے میں حکم نازل ہوا۔جمہور علماء کا کہنا ہے کہ غزوہ ذات الرقاع میں یہ نماز پہلی بار پڑھی گئی، مگر اس کا حکم کب نازل ہوا اس میں علماء کا اختلاف ہے، کسی نےاس کا حکم ۴، کسی نے۵، کسی نے ۶ اور کسی نے۷؍ہجری کا قرار دیا ہے۔
پندرہ دن کی اس مہم کے بعد آپؐ واپس مدینے کی جانب روانہ ہوئے۔
اس غزوے کومعجزات کا غزوہ بھی قرار دیا گیا ہے۔
آپؐ پر ایک دشمن کی جانب سے تلوار سونتے جانے کا واقعہ اسی غزوے کے دوران پیش آیا تھا۔
اسی غزوے کے دوران ایک پرندے کا واقعہ بھی پیش آیا، جس کی تفصیل یوں ہےکہ اس غزوے کے دوران صحابہؓ میں سے ایک شخص آنحضورﷺ کی خدمت میں پرندے کا ایک بچّہ لے کر آیا، آنحضورﷺ اس کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اُس پرندے کی ماں یا باپ میں سے ایک نے اُس صحابی کے سامنے خود کو گرا دیا گویا اپنا آپ اُس صحابی کے سامنے پیش کردیا۔ لوگ اس منظر کو تعجب سے دیکھ رہے تھے، آنحضورﷺ نے اس پر فرمایا کہ
تم لوگ اس پرندے پر تعجب کرتے ہو، تم نے اس کے بچّے کو پکڑ لیا ہے اور یہ پرندہ اپنے بچّے کو آزاد کروانے کےلیے اپنا آپ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے۔ اللہ کی قسم! تمہارا ربّ اس پرندے کے اپنے بچّے پر رحم کرنے سے زیادہ تم پر رحم کرتا ہے۔
اسی طرح اس غزوے کے دوران
ایک جنونی بچّے کی شفا یابی کا واقعہ بھی بیان ہوا ہے۔
اس کی تفصیل یوں ہے کہ اس سفر کے دوران ایک دیہاتی عورت آنحضورﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے اور اس پر شیطان غالب آچکا ہے، یعنی اس پر جنون کا حملہ ہوتا ہے۔ آنحضورﷺ نے اپنا لعابِ دہن اس بچّے کے منہ میں ڈالا اور فرمایا کہ اے اللہ کے دشمن! اس سے دُور ہوجا، مَیں اللہ کا رسول ہوں۔ یہ کلمات آپؐ نے تین دفعہ فرمائے اور پھر حکم دیا کہ اس بچّے کو لے جاؤاب اسے یہ تکلیف پھر کبھی نہیں ہوگی۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اس غزوے کے دوران علبہ بن زید حارثی آنحضورﷺ کی خدمت میں تین انڈے لائے جوکہ شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر پڑے تھے، آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اے جابر !یہ انڈے لےلو اور انہیں پکاؤ۔ جابرؓ کہتے ہیں مَیں نے وہ انڈے پکائے اور پھر روٹی تلاش کی مگر نہ ملی۔ اس پر آنحضورﷺ اور آپؐ کے ساتھی روٹی کے بغیر ہی وہ انڈے کھانے لگے، یہاں تک کہ وہ سیر ہوگئے، مگر پیالے میں وہ انڈے اُسی طرح موجود تھے۔ پھر صحابہؓ میں سے بہت سے لوگوں نے اس میں سے کھایا اور پھر ہم آگے روانہ ہوگئے۔
اسی سفرکے دوران ایک اونٹ حضورﷺ کے پاس تیزی سےآیا اور اس نے چِلّانا شروع کردیا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اس اونٹ نے کیا کہا ہے؟ یہ اپنے آقا کی شکایت کر رہا ہےکہ اس کا آقا کئی سالوں سے اس سے خدمت لے رہا ہے اور اب وہ اسے ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔آپؐ نے اس کے مالک کو بلایا اور فرمایا کہ تم اس اونٹ کو میرے ہاتھ بیچ دو۔ پھر آپؐ نے اس اونٹ کو خرید کر جنگل میں چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
اسی غزوے میں حضرت جابرؓ کا اونٹ گم ہوگیا تھا، آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک اندھیری رات میں میرا اونٹ گم ہوگیا۔ مَیں اسے تلاش کرتے ہوئے حضورﷺ کے پاس سے گزرا اور آپؐ کے استفسار پر بتایا کہ میرا اونٹ گُم ہوگیا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ تیرا اونٹ فلاں جگہ پر ہے، جا اور اسے لے لے۔ جابر ؓکہتے ہیں کہ مَیں اس جگہ پر گیا مگروہاں مجھے اونٹ نہ ملا، مَیں واپس حاضر ہواتو آپؐ نے دوبارہ وہیں جانے کا ارشاد فرمایا۔ مَیں دوبارہ وہاں گیا مگر اونٹ نہ ملا۔ اس پر آپؐ شفقت فرماتے ہوئے میرے ساتھ وہاں گئے ، یہاں تک کہ ہم اونٹ تک پہنچ گئے پھر آپؐ نے مجھے اونٹ پکڑا دیا۔
غرض اس غزوے میں کئی معجزات کا ذکر ہے،مثلاً اسی غزوے میں حضرت جابرؓ کا ایک اونٹ سست ہوگیا تھا ۔ نبی کریمﷺ نے کچھ پانی لےکر اس پر پھونک ماری اور اس اونٹ کی کمر، سر اور پیٹھ پر وہ پانی چھڑک دیا۔ پھر آپؐ نے سونٹی سے اس اونٹ کو چند ضربیں لگائیں جس پر وہ اونٹ تیز ہوگیا۔
اسی طرح اس غزوے کے دوران لگن میں پانی بڑھ جانے اور معجزانہ برکت کا واقعہ بھی ملتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑآنحضورﷺ کے اسی قسم کے معجزانہ واقعات کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور سرزد ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ جیسے ہمارے سیدو مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاءﷺ نے جنگِ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعے سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کااثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو، اور وہ سب اندھوں کی طرح ہوگئے… اسی قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں، جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرتﷺ نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: غزوۂ خیبر اور غزوۂ ذات الرقاع کے تناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۱؍اپریل ۲۰۲۵ء