متفرق مضامین

’’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ میں جبر کی ممانعت(قسط دوم)

(’ایچ ایم طارق‘)

اسلامی تعلیم کا کمال یہ ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں۔ دوسرے اس تعلیم کاحسن بہترین توازن ہے۔چنانچہ ایک طرف امت محمدیہ کو بہترین امت کا خطاب دے کر امربالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ د اری عائد کی تو دوسری طرف لَآ إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرة:۲۵۷) کی اعلیٰ تعلیم دے کر واضح فرمادیا کہ اس نیک مقصد کی خاطراپنے یا کسی کے دین میں جبر کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔

پس وہ لوگ جو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کرپھر انہیں اسلامی عبادات سے روکنے کی جسارت کرتے ہیں یہ دین میں مداخلت اور جبر ہے جواسلامی تعلیم کے مطابق ہرگز جائز نہیں۔

دیگرآیات قرآنی سے’’لَآ إِكْرَاهَ ‘‘کی تفسیر

آیت لَآ إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرة: ۲۵۷)کا واضح مطلب ہے کہ دین میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں۔اس جملہ میں حرف ’’لا نافیہ‘‘عربی گرائمرکے لحاظ سے نفی جنس کا ہے جس کے ذریعہ ہمیشہ کےلیےمذہب میں ہر قسم کے جبر کی کلی نفی کردی گئی ہے۔بعض لوگ اس آیت کے یہ غلط محدود معنی کرتےہیں کہ صرف دین میں داخل کرنےکےلیے زبردستی جائزنہیں لیکن دیگر قرآنی آیات کے مطابق مذہب پر قائم رہنے،اس سےنکلنےنیزاپنی مذہبی رسومِ عبادت اداکرنے وغیرہ تمام امور میں کسی بھی قسم کی زبردستی ناجائز ہے۔

غیرمذاہب کی مقدس چیزوں کی بے حرمتی کی ممانعت

لَآ إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ میں مذہبی جبر کی نفی کے مضمون کی تائید مزید میں دوسری جگہ دین میں زبردستی کی قطعی حرمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ…الخ(المائدة : ۳)یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا پرستی کی نشانیوں کو بے حُرمت نہ کرو۔

اس آیت میں مذہبی زبردستی کی نفی پر جملہ اسلامی مسالک متفق ہیں کہ اسلامی شعائر کی طرح دیگرمذاہب اپنے جو شعائر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں ان تمام مذہبی شعائر کا احترام لازم ہے۔

بانیٔ جماعت اسلامی ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی رائے: چنانچہ مودودی صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ’’ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یاطرزِ فکروعمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ اس کا ’’شعار‘‘ کہلائے گی کیونکہ وہ اس کے لیے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے…گرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیت کے شعائر ہیں۔ چوٹی اور زنّار اور مندر برہمنیّت کے شعائر ہیں۔ کیس اور کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کا شعار ہے۔ سواستیکا آریہ نسل پرستی کا شعار ہے۔ یہ سب مسلک اپنے اپنے پیروؤں سے اپنے اِن شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔…

’’شعائر اللہ‘‘سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک وکفر اور دہریت کےبالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمائندگی کرتی ہوں۔ ایسی علامات جہاں جس مسلک اور جس نظام میں بھی پائی جائیں مسلمان ان کے احترام پرمامور ہیں۔…

شعائر اللہ کے احترام کا یہ حکم اُس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکینِ عرب کے درمیان جنگ برپا تھی مکہ پر مشرکین قابض تھے عرب کے ہر حصے سے مشرک قبائل کے لوگ حج و زیارت کے لیے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زَدمیں تھے۔ اس وقت حکم دیا گیا کہ یہ لوگ مشرک ہی سہی تمہارے اور ان کے درمیان جنگ ہی سہی، مگر جب یہ خدا کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انہیں نہ چھیڑو،حج کے مہینوں میں ان پر حملہ نہ کرو، خدا کے دربار میں نذر کرنے کے لیے جو جانور یہ لیے جارہے ہوں اُن پر ہاتھ نہ ڈالو، کیونکہ ان کے بگڑے ہوئے مذہب میں خدا پرستی کا جتنا حصہ باقی ہے وہ بجائے خوداحترام کا مستحق ہے نہ کہ بےاحترامی کا۔‘‘(تفہیم القرآن سورة المائدة صفحہ۴۳۸-۴۳۹حاشیہ)

ہرمذہب کے شعائر کا احترام اوردیوبندی مسلک

مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب دیوبندی سورة المائدة کی دوسری آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’اس آیت کے نزول کا سبب چند واقعات ہیں… ایک واقعہ حدیبیہ کا ہے…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ساتھ احرام عمرہ باندھ کر بقصدمکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ مکہ کے قریب مقام حدیبیہ میں پہنچ کر مکہ والوں کو اطلاع دی کہ ہم کسی جنگ یا جنگی مقصد کے لئے نہیں بلکہ صرف عمرہ کرنے کے لئے آرہے ہیں۔ ہمیں اس کی اجازت دو۔مشرکین مکہ نے اجازت نہ دی۔ اور بڑی سخت اور کڑی شرطوں کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ اس وقت سب اپنے احرام کھول دیں اور واپس جائیں۔ آئندہ سال عمرہ کے لئے اس طرح آئیں کہ ہتھیارساتھ نہ ہوں …بہرحال واقعہ حدیبیہ اور ان توہین آمیز شرائط نےصحابہ کرام کےقلوب میں مشرکین مکہ کی طرف سےانتہائی نفرت وبغض کابیج بودیاتھا۔دوسراواقعہ یہ پیش آیاکہ مشرکین مکہ میں سےحطیم بن ہند اپنا مال تجارت لےکرمدینہ طیبہ آیا…اور منافقانہ طور پر اپنا ارادہ اسلام لانے کا ظاہر کیا … (پھر) اہل مدینہ کےجانور … ہنکاکرساتھ لےگیا۔…یہ واقعات ابن جریرنے بروایت عکرمہ و سدی نقل کیے ہیں۔ یہ چندواقعات تھےکہ جن کی بناپریہ آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کویہ ہدایت دی گئی کہ شعائراللہ کی تعظیم تمہارااپنافرض ہے۔ کسی دشمن کےبغض وعداوت کی وجہ سےاس میں خلل ڈالنےکی قطعاًاجازت نہیں…قربانی کے جانوروں کوحرم تک جانےسےروکنایاان کاچھین لینابھی جائز نہیں اورجومشرکین احرام باندھ کراپنےخیال کےمطابق الله تعالیٰ کےفضل ورضاحاصل کرنےکےقصدسےچلےہیں… شعائراللہ کی حفاظت واحترام کاتقاضایہ ہےکہ ان سےکوئی مزاحمت نہ کی جائے۔ نیز وہ لوگ جنہوں نے تمہیں عمرہ کرنے سےروک دیاتھا۔ ان کےبغض وعداوت کاانتظام اس طرح لیناجائزنہیں کہ مسلمان اُن کومکہ میں داخل ہونے یا شعائر حج اداکرنےسےروک دیں۔‘‘(معارف القرآن جلدسوم صفحہ۱۵تا۱۷۔ادارة المعارف کراچی)

غیرمذہب کے شعائرکااحترام اور بریلوی مسلک

بریلوی عالم پیرسید کرم شاہ صاحب سورة المائدہ کی آیت ۲کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ’’اس آیت کا شانِ نزول ملاحظہ ہو۔ حطمہ بن ہندالبکری بارگاہ رسالت میں حاضر ہؤا…راستہ میں ایک جگہ مسلمانوں کے مویشی چررہے تھےان کو بھگاکر لے گیا۔ دوسرے سال قربانی کےلیے وہی مسلمانوں کے چُرائے ہوئے مویشی لے کر ان کے گلے میں قلادے ڈال کر حج کے ارادہ سے روانہ ہوا۔ مسلمانوں کو علم ہوا تو اُنہوں نے اس پر حملہ کرنا چاہا تو فوراً یہ آیت نازل ہوئی یعنی اگرچہ وہ کافر ہے اور تمہارا مجرم بھی لیکن اب نکلا ہے میرے گھر کی نیت سے۔ قربانی کے جانوروں کے گلوں میں پٹے ڈال کر، اس سے تعرض نہ کرو (ابن جریر۔قرطبی)خُدا پرستی کی کیا عمدہ تعلیم ہے۔ کوئی کسی روپ میں ہو لیکن جب اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوکر نکلے تو اس پر دست درازی نہ کرو۔ اس کی اب ہر چیز شعائر اللہ ہے…لیکن جب سنہ۶ھ میں حضور کریمﷺ اپنے چودہ سو صحابہ کے ہمراہ عمرہ کے ارادے سے آئےتوکفارِ مکہ نے داخل ہونے سے روک دیا…رب جلیل نے انھیں حکم دیا کہ کفارِمکہ کا اتناشدید جرم بھی تمہیں کسی پرزیادتی کرنے پر آمادہ نہ کرے تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ تم کسی پر ظلم و تعدی کرو۔ تمہاری شان سے یہ حرکت بہت فروتر ہے۔ یہ قرآن کی تعلیم ہے جہاں تصنع نہیں ریا نہیں۔ دیکھئے قرآن اپنے ماننے والوں کی اخلاقی تربیت کن بلند اصولوں پر کررہا ہے۔‘‘(ضیاءالقرآن صفحہ۴۳۶-۴۳۷)

قرآن کریم میں مذہبی آزادی کے دیگراعلان

سورة البقرة اورسورة المائدة کی طرح سورة الکہف آیت۳۰ میں اسلام کی مذہبی آزادی کی یہ تعلیم مثبت اندازمیں یوں بیان ہے:فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْيَكْفُرْجو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔یعنی جس طرح مذہب میں داخل ہونے اوراس پرقائم رہنےکی آزادی ہے اسی طرح نکلنے کی بھی آزادی ہے۔

پھرسورة الکافرون آیت ۶ میں مذہبی عبادات ورسوم میں مذہبی آزادی کے متعلق ایساہی اعلان فرمایا:لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ یعنی اے کافرو!تمہیں اپنے دین کی آزادی اور مجھے اپنے دین کی آزادی ہے۔

عربی لغت میں’’دین‘‘ کے معنی(ا)مذہبی و معاشرتی طریق،(ب) طریق عبادت اور(ج)حالت یا عادت کے ہیں۔جس کے مطابق سورة الکافرون میں مسلم وغیرمسلم کو اپنے دستورمذہب و معاشرت، طریق عبادت اور رسم و رواج کی مکمل آزادی ہے۔

مذکورہ بالا تینوں قرآنی آیات لَآ إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِکی واضح تفسیرمیں مذہبی آزادی کے درج ذیل چاربنیادی حقوق عطاکرتی ہیں:

۱۔ کسی کو زبردستی مذہب میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔

۲۔ مذہب میں داخل ہونے والے کوجبراً روکانہیں جاسکتا۔

۳۔اپنےعقیدہ کے اعلان واظہارکےمطابق اس پرقائم رہنےاوررسوم و عبادات پر کوئی زبردستی جائزنہیں۔

۴۔ مذہب میں نہ رہنا چاہے اسےجبراًمذہب میں رکھناجائز نہیں اور جو رہناچاہے اسے جبراً نکالا نہیں جاسکتا۔

مشہورمصری مفسرسید قطب شہید(متوفی:۱۹۶۶ء)نے اسی آیت کی تفسیرکایہ خوبصورت خلاصہ نکالا کہ ’’مذہب کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے۔جو شخص یہ حق چھینتا ہے وہ اس سے گویا اس کی انسانیت چھینتا ہے۔‘‘(فی ظلال القرآن الجزء الثالث صفحہ۲۷)

قرآنی حکم لا اکراہ فی الدین کے برخلاف تشددپسند علماء کے موقف کا ردّ

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لَآ إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِمیں مذہبی آزادی عطا ہونے کا یہ مسلک میانہ روی رکھنے والے علماء کاہے۔اس کے بالمقابل علماء کاایک شدّت پسند گروہ اس آیت کےیہ محدودمعنے کرتا ہے کہ صرف اسلام میں داخل کرنے کےلیے جبر جائز نہیں۔ان کی دلیل اس آیت کا شان نزول ہے۔حالانکہ شان نزول معنی کو محدود نہیں کرتا بلکہ آیت کوکسی واقعہ سےمنسلک کرکے اس کے معنی کا کوئی ایک پہلو واضح کردیتا ہے۔چنانچہ ایک آیت کے کئی شان نزول اس کی تائید کرتے ہیں۔

اسی طرح بعض شدت پسندعلماء کے نزدیک توآیت لَآ إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِِ آیت جہاد سے منسوخ ہے۔جیساکہ ضحاک، سدی اور سلیمان بن موسیٰ سے مروی ہے کہ یہ آیت جہاد سے منسوخ ہے۔(أحكام القرآن للجصاص جزء۱صفحہ۵۴۸)

لیکن قرآن کی کسی آیت کو منسوخ ماننے سے سارے قرآن میں شک کا دروازہ کھلتا ہےاوریہ قرآن کی شان (لَارَيْبَ فِيهِ(البقرة:۲)یعنی اس میں کوئی شک نہیں)کے بھی خلاف ہے۔

علامہ قرطبی نے آیت لَآ إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے بارہ میں علماء کی دو آراء بیان کی ہیں۔انہوں نےآیت جہاد سے اس آیت کے منسوخ ہونے کا قول ابن مسعود اور کثیر مفسرین بیان کرنے کے بعددوسرا قول یہ بھی نقل کیاکہ یہ آیت منسوخ نہیں اور یہ اہل کتاب کے بارہ میں خاص طور پر نازل ہوئی۔(تفسير القرطبي جزء۳صفحہ۲۸۰)

اندریں صورت لَآ إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِکے معنی محدود کرنے والے ان متشدد علماء کے نزدیک غیر مسلموں پر جبر روا رکھا جاسکتا ہے۔جیساکہ وفاقی شرعی عدالت میں بھی بعض مشیران عدالت کی طرف سےیہ رائے دی گئی کہ اسلامی حکومت کے ماتحت غیرمسلم ذمّی کہلائیں گے اور بجائے اس کے کہ ان کی حفظ و امان اور مذہبی آزادی کی ذمّہ داری ادا کی جائے،اہل ذمہ، مسلمانوں کو تعظیم دیں گے۔ان کی مجلسوں میں ان کےلیے اٹھیں گے۔جوتی،پگڑی،لباس میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں رکھیں گے۔

وفاقی شرعی عدالت کے ایک مشیر محمودغازی صاحب نے اہل ذمہ کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ اہل شام سے سخت معاہدہ کیاگیا۔ان پر یہ پابندی تھی کہ وہ مسلمانوں کے لباس اور حلیہ کی تقلید نہ کریں گے۔جس پر جسٹس قاسمی صاحب کاجوابی ردّعمل بہت واضح تھا کہ میثاق مدینہ میں جو نرم شرائط دی گئی تھیں ان کو بنیادبنانا پڑے گا۔ (امتناع قادیانیت آرڈیننس۱۹۸۴ء،وفاقی شرعی عدالت از مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ صفحہ ۳۳تا۳۵)

ایسی پابندیوں کا مطالبہ ملی مجلس شرعی کےصدر زاہدالراشدی صاحب نےملی مجلس شرعی کے ذریعہ رسالہ ختم نبوت کے صفحہ۲۴ میں بھی کیا جس میں بلادلیل و ثبوت اورقرآنی تعلیم کے برخلاف احمدیوں پربعض پابندیوں کی سفارش کی گئی۔مثلاًیہ کہ وہ اسلام کے کسی رکن مثلاً صلوٰة، صوم، زکوٰۃ، حج اور جمعہ، عیدین، قربانی کو اپنی عبادت کے طورپراختیارنہیں کرسکتے۔

پاکستان کے احمدیوں پرجاری جبر

شومیٔ قسمت کہ پاکستان کی تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لینےوالےمظلوم احمدیوں پرتحریک پاکستان کے مخالف مولوی حضرات کی طرف سےمذکورہ بالاہر قسم کامذہبی جبر روا رکھا جارہا ہے۔اورانہیں اپنے مذہبی اعتقادکے مطابق نماز عید، نماز جمعہ اور روزمرہ عبادت و نمازوں سے بھی روکا جارہا ہے۔

اس صورتحال میں ایک مظلوم ومجبوراحمدی کا حال تو إِنَّمَآ أَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِٓيْ إِلَى اللّٰهِ (يوسف: ۸۷)کاہےکہ مىں تو اپنی پریشانیوں اوررنج کى فرىاداللہ ہی سے کرتا ہوں۔اور وہ ہرگزاپنے مولیٰ کی مددونصرت سے مایوس نہیں بلکہ اس کی ذات پر کامل توکل رکھتے ہیں کہ وہ خدا جو پہلے اپنی قائم کردہ جماعتوں کی مددفرماتا رہا ہے، ہمیشہ کی طرح اب بھی وہی ان کی مدد کو آئے گا۔اور وہ أَلَآ إِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ (البقرة:۲۱۵) کی آواز جلد سنیں گے۔

مذہبی آزادی کےقرآنی حکم کے مطابق رسول اللہﷺ کانمونہ

خودرحمة للعالمینﷺ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر پرعمل کابہترین نمونہ دیا مگر کبھی جبر نہیں کیا۔آپؐ کے مذہبی رواداری کےاعلیٰ کردار پر سورت ق آیت ۴۵ گواہ ہے کہ آپؐ ان (غیر مسلموں)پر جبر کرنے والے نہیں۔ آپؐ قرآن کےذ ریعہ انہیں سمجھاتے رہیں جو میرےوعید(ڈراوے کے وعدوں)سے ڈرتے ہیں۔

الغرض رسول اللہﷺ جو كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ(مسند احمد، مسند الصدیقة عائشةؓ جزء۴۳ صفحہ۱۵)کے مصداق تھےاور آپؐ کی سنت اور اخلاق عین قرآن تھے۔آپؐ نےقرآنی تعلیم پرعمل پیراہوکرمذہبی آزادی کے خوبصورت نمونے پیش کیے۔ پھر اپنے صحابہ کی یہی تربیت فرمائی۔جیساکہ سورت آل عمران آیت ۱۵۹ میں ہے:اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سےتو نرم دل ہورہاہے اگرتو بدخوہوتا اور سخت دل ہوتاتوتیرے پاس سے بھاگ جاتے۔(تفسیرثنائی جلد اول صفحہ۲۶۳۔مکتبہ قدوسیہ اردوبازارلاہور)

پھرسورة التوبہ آیت ۱۲۸ میں نبی کریمﷺکے اسوہ حسنہ کے بارہ میں فرمایا:بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ یعنی آپؐ مومنوں کےلیے انتہائی نرمی،شفقت اور محبت کا سلوک کرنے والے ہیں۔

نفاذِاسلام کےلیے زبردستی کی بجائے نصیحت

الغرض قرآن کی کسی آیت یا رسول اللہﷺکے اسوۂ حسنہ سے احکام دین کے نفاذ کےلیےریاست کاقوت کےاستعمال کاکوئی حوالہ موجودنہیں۔اس کے برعکس رحمة للعالمینﷺ نےاسلامی عبادات نماز،زکوة،روزہ،حج وغیرہ کوہمیشہ نرمی اورنصیحت سےاسلامی معاشرہ میں قائم فرمایااور اس کا آغازاپنے گھر سےکیا۔اپنےداماد حضرت علیؓ سے ایک دفعہ پوچھا کہ تم لوگ(تہجد کی)نماز نہیں پڑھتے؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔یہ جواب سن کرآپؐ واپس تشریف لے گئےاور آپؐ ران پر ہاتھ مار کر(سورۃ الکہف کی آیت۵۵ پڑھ رہے تھے)آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔(بخاری کتاب التہجد بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ)

الغرض نماز کی ترغیب کےلیےنبی کریمﷺ نے نہ حضرت علیؓ کو ڈانٹا نہ کوئی سزا دی۔

اورفرض نمازجودین کا ستون ہےاورجس کا عمداً ترک کرنا کفر ہے اس کےلیےبھی آنحضرتﷺ نے کبھی ریاست کی قوت استعمال نہیں کی، ہمیشہ صرف وعظ ونصیحت سے ہی کام لیا۔کیونکہ ایک عاقل و بالغ انسان اپنے اعمال اور ان کی جزاوسزا کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔چنانچہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ منافق اپنی ایمانی کمزوری کی وجہ سے فجر اور عشاء کی نمازوں میں نہیں آتے۔(صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاة باب فَضْلِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ وَبَيَانِ التَّشْدِيْدِ فِي التَّخَلُّفِ عَنْها)مگرایسے بے نمازوں کےلیے آپؐ نےکوئی سزا تجویز نہیں فرمائی۔بلکہ ارشادربّانی کے مطابق نصیحت کے بعد ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر چھوڑدیا۔

اسی طرح جمعہ بھی مسلمانوں پر فرض ہے۔جس کے ترک سےدل سیاہ ہوجاتا ہے۔چنانچہ رسول کریمؐ نےتنبیہ فرمائی کہ’’جو لوگ جمعہ میں حاضر نہیں ہوتے ہیں میں ان کے حق میں ارادہ کرتا ہوں کہ ایک شخص کو حکم کروں جو لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو جمعہ پر نہیں آتے۔‘‘(صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاة باب فَضْلِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ وَبَيَانِ التَّشْدِيدِ فِي التَّخَلُّفِ عَنْهَا) مگر آپؐ نے جمعہ سے غیرحاضر ہونے والوں کوکبھی کوئی سزا نہیں دی۔

دین کادوسرا اہم فریضہ ادائیگی زکوٰة ہے۔ آنحضرتؐ نے اپنی پوری زندگی میں زکوة کی وصولی کےلیے کبھی سختی نہیں فرمائی۔چنانچہ ابن جمیل کے انکار زکوة پر تعجب توکیا مگراس سے زبردستی زکوة وصول نہیں فرمائی۔(صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى:وَفِي الرِّقَابِ وَالغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّٰهِ (التوبة:۶۰))

اسی طرح ایک شخص ثعلبہ بن حاطب نےبھی زکوة دینے سے انکار کیا تو رسول اللہﷺ نےاس سے زبردستی زکوة وصول کرنے کی بجائےآئندہ اس سے زکوة لینے سے ہی منع فرما دیا۔(شعب الایمان للبیھقی جزء۶ صفحہ ۱۹۸۔مطبع بیروت لبنان)

جہاں تک حضرت ابوبکرؓ کے منکرین زکوٰة سے جہاد کا تعلق ہے وہ محض انکار زکوٰة کے سبب نہ تھا بلکہ منکرین کی بغاوت،سرکشی اور مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی ایک سزا تھی۔ جیساکہ شارح بخاری علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں: ’’وَإِنَّمَا قَاتل الصّديق، رَضِي اللّٰه تَعَالَى عَنهُ، مانعي الزَّكَاة لأَنهم امْتَنعُوا بِالسَّيْفِ ونصبوا الْحَرْب للْأمة۔‘‘(عمدة القاري كتاب اسْتِتابَةِ المُرْتِّدْينَ والمُعانِديْنَ وقِتالِهِمْ بابُ قَتْلِ مَنْ أَبى قَبُولَ الفَرَائِضِ وَمَا نُسبُوا إِلَى الرِّدَّةِ)یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مانعین زکوٰۃ سے اس لیے قتال کیا کہ انہوں نے بذریعہ تلوارزکوٰۃ دینے سے انکار کیااور انہوں نے امت سے لڑائی کی طرح ڈالی تھی۔

یہی حال دیگر حقوق اللہ اور عبادات روزہ اور حج وغیرہ کا ہے جن کے ادانہ کرنے پرشریعت نے اس دنیا میں کوئی سزا مقرر نہیں فرمائی۔ البتہ حقوق العباد کی خلاف ورزی کی سزائیں ہردوسرے معاشرے کی طرح اسلامی قانون میں بھی جرائم کےلیےمقرر ہیں۔ جیسے چوری، ڈاکہ، بدکاری، قتل، بغاوت، فساد اور شراب نوشی وغیرہ کی سزائیں ہیں۔

دین میں کسی قسم کےانسانی جبرکی مداخلت یانگرانی کی نفی سورة الانعام آیت۱۰۴، ۱۰۷ سے بھی ثابت ہے۔سورة الغاشیةآیت ۲۲ تا ۲۷ میں بھی فرمایا کہ رسول کا کام صرف نصیحت کرنا ہے آپؐ کافروں پر داروغہ نہیں ہیں۔کافروں کو خود اللہ عذاب دے گا۔بالآخر انہوں نے ہماری طرف ہی آنا ہے اور ہمارے ذمہ ہی ان کا حساب ہے۔

اس بارے میں سورة الرعدآیت ۴۱ کے ہم معنی قریباً دس اورآیات قرآنی ہیں جن میں رسول اللہﷺکی ذمہ داری صرف پیغام پہنچاناہے نہ کہ محاسبہ۔ملاحظہ ہو:سورة آل عمران آیت۲۱،سورة المائدةآیت۹۳ و آیت۱۰۰،سورة النحل آیت۳۶ و آیت ۸۳، سورة النور آیت ۵۵، سورة العنکبوت آیت۱۹، سورة الشوریٰ آیت ۴۹،سورت احقاف آیت ۳۶، سورةالتغابن آیت ۱۳۔

احمدیوں کا جرم اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنا

قرآنی اصول عدم جبر اور آئین پاکستان کی دفعات ۲۰ و ۲۲ کے مطابق احمدیوں کو مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق نہ دینےکی یہ دلیل دیتے ہیں کہ اول وہ اپنے آپ کو بطور مسلمان ظاہر کرکے تبلیغ کرتے اور دوسرے مسلمانوں کو کافر اور جہنمی کہتے ہیں۔جناب والا!

ایں گناہ است کہ درشہرشمانیز کنند

پاکستان کاتوہرفرقہ ہی اپنے آپ کو مسلمان اور دوسرے کو کافر اور جہنمی کہتا ہے۔(جس کےلیے اہل دیوبند،بریلوی،اہلحدیث اور اہل قرآن کے باہمی فتاویٰ تکفیر کافی ثبوت ہیں۔)

مگر تعجب ہے کہ دیوبندی دیگرفرقوں بریلوی وغیرہ اور کلمہ گو احمدیوں پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں تو کلمہ گوؤں کو کافر کہتے ہوئے وہ حدیث نبویؐ کیوں بھول جاتے ہیں کہ فتویٰ تکفیر میں پہل کرنے والا خود کافرہوجاتاہے۔ رسول اللہﷺنےفرمایا:’’إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيْهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا‘‘(بخاری کتاب الادب بَابُ مَنْ كَفَّرَ أَخَاهُ بِغَيْرِ تَأْوِيلٍ فَهُوَ كَمَا قَالَ)یعنی جب ایک شخص نے اپنے بھائی کو کافر کہہ کر مخاطب کیا تو ان میں سے ایک خود اس کفر کو لے کر واپس لوٹا۔

اس ارشادنبویؐ کے بعداحمدیوں کوکسی کےلیے کافر یا جہنمی کہنے کی کیا حاجت باقی ہے۔ہرایک اپنے عمل کانتیجہ پائے گا۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

دنیا کے ایسےفتووں کی احمدیوں کے نزدیک دمڑی کی بھی حیثیت نہیں کیونکہ ایمان دل کا معاملہ ہے جسے خدائے عالم الغیب جانتاہےاور وہی اس کاآخری فیصلہ فرمائے گا۔مولوی حضرات سے صرف اتنا سوال ہے کہ جب احمدی کلمہ گو اسلام ظاہر کرتے ہیں تو مسلمان کی کس مسلّمہ تعریف سےان کوملزم کیاجاسکتا ہے؟

مسلمان کی تعریف

۱۹۵۳ء کی انکوائری میں جسٹس منیر کے سامنے تمام فرقوں کے مولوی صاحبان مسلمان کی کسی ایک تعریف پراتفاق نہ کرپائےتھے۔(منیرانکوائری رپورٹ صفحہ۳۴۰۔نیازمانہ پبلیکیشنز) حالانکہ خودرسول اللہﷺ نے مسلمان کی یہ جامع اور فیصلہ کن تعریف فرمادی کہ مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيْحَتَنَا فَذَالِكَ المُسْلِمُ الَّذِيْ لَهُ ذِمَّةُ اللّٰهِ وَذِمَّةُ رَسُوْلِهِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللّٰهَ فِي ذِمَّتِهِ(صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ فَضْلِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ)یعنی جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری اورپناہ ہے۔ پس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی پناہ میں خیانت نہ کرو۔(یہاں ذمّہ کا لفظ قابل غور ہے جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری اور پناہ کےلیے بطور عزت و احترام آیا ہے جس کی خلاف ورزی خدا سے جنگ کے مترادف ہے۔)

آج بھی وہ ویسے ہی مبہوت ہیں جبکہ جماعت احمدیہ نے۱۹۵۳ء میں بھی یہ مختصر اور جامع تعریف پیش کردی تھی کہ ’’ہر شخص جو کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھتا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی کی کوشش کرتا ہے وہ مسلمان ہے۔‘‘ اس کے علاوہ کوئی بھی تعریف جو کسی کلمہ گو کو زبردستی دائرہ اسلام سے نکالے، لَآإِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے خلاف اورنا قابل قبول ہے۔

البتہ مولوی اللہ وسایا صاحب نائب مدیرختم نبوت نے مسلمان کی ایک تعریف اپنےکھلےخط میں یوں بیان کی کہ رسول اللہﷺ اور آپؐ کی تعلیم کی تصدیق اور’’ضرورت‘‘ کے مطابق آپؐ کی آمد کا علم۔ مگراس مبہم تعریف میں بھی کئی بنیادی نقص ہیں۔اوّل توکلمہ طیبہ کی بنیاد توحید کا سرے سے ذکر ہی نہیں۔دوسرےاس میں ’’ضرورت‘‘ کالفظ مبہم اورغیرضروری ہے جو قرآن و سنت سے ثابت نہیں بلکہ ایک ریموٹ کنٹرول مولوی صاحبان کے ہاتھ میں دینے کی کوشش ہے کہ جسے بھی دائرہ اسلام سے نکالنا ہوحسبِ’’ ضرورت‘‘نکال سکیں۔ انّا للہ وانّاالیہ راجعون

پس جماعت احمدیہ کی بیان کردہ ’’مسلمان کی تعریف‘‘ ہی قرآن و سنت کے عین مطابق ہےجسے رسول اللہؐ نے اپنے زمانہ میں رائج کیا۔اورجس کی گواہ سورةالمنافقون کی دوسری آیت ہے کہ مدینہ کے منافق حضرت محمدﷺ کے پاس حاضر ہوکربظاہرآپؐ کی رسالت کی گواہی دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ صدق دل سے گواہی نہ دےکر جھوٹ بولتے ہیں مگر پھر بھی اقرار رسالت کی بنا پر ان کا اسلام قبول کرلیا۔ان جھوٹوں کے سردار عبد اللہ بن ابیّ نے جب سورة المنافقون کی آیت ۹ کے مطابق کچھ گستاخانہ کلمات ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شان میں کہنے کی جسارت کی اورصحابہؓ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تورسول اللہؐ نےمنع کردیا اور فرمایا کہ لوگ باتیں کریں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرانے لگے ہیں۔(بخاری کتاب تفسیر القرآن بَابُ قَوْلِهِ: يَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَجَعْنَآ إِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ)

سنت نبویؐ کی گواہی بھی احمدیہ تعریف کے حق میں ہے کہ اس کے بالمقابل جب حضرت اسامہؓ نے ایک جنگ میں ایک کلمہ گو کو قتل کردیا تو رسول کریمﷺ ان سے بہت ناراض ہوئے اورفرمایاکہ کیا تم نے اس کا دل چیر کے دیکھ لیا تھا۔(بخاری کتاب المغازی باب بعث النبیﷺ اسامة بن زید الی الحرقات من جھینة)

کلمہ گوہوناتوبڑی بات ہے۔ سورة النساء آیت ۹۴ توالسلام علیکم کہنےپربھی فتویٔ تکفیر میں روک ہے۔فرمایا:وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ أَلْقٰٓى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں۔

پس قرآن و سنت کی اس جامع ومانع تعریف کے بعد کسی نئی تعریف کی ضرورت بھی کیا ہے۔اور حق تو یہ ہے کہ

مسلماں وہ ہے جو ہے مسلماں علم باری میں
ہزاروں یوں توہیں لکھے ہوئے مردم شماری میں
ہمارے دل کی خواہش ہے کہ سارا جگ مسلمان ہو
مگریہ چھینتے پھرتے ہیں ہم سےبھی مسلمانی

دستور پاکستان کی دفعہ۲۰ اورمذہبی آزادی کا حق

دین میں عدم جبر کے قرآنی اصول کے تابع آئین کی دفعہ ۲۰ الف کے مطابق ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی اور اس پر عمل،اس کے بیان کا حق اور شق ب کے مطابق ہر مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے کا حق ہے اور آئین کی دفعہ۲۲ کے مطابق ہر ایسے تعلیمی ادارے میں اس گروہ یا فرقے کے طلبہ کو مذہبی تعلیم سے روکا نہیں جائیگا۔

اس پربعض مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد یہ حق قائم نہیں رہتا۔

مگر یہ درست نہیں کیونکہ قرآنی حکم لَآإِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کی موجودگی میں کلمہ گواحمدیوںکوغیرمسلم قرار دینے کے باوجود بھی ان کے بنیادی حقوق تعلیم وتدریس سلب نہیں کیے جاسکتے۔ جیساکہ رسول اللہﷺ نے ریاست مدینہ کے قیام کے وقت یہود سے جو معاہدہ میثاق مدینہ کیا تھا اس میں مسلمان اور یہود کو امت واحدہ قرار دیا اور انہیں تمام مذہبی حقوق عطا فرمائے اور ذمّی قرار نہیں دیا۔(السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد۲صفحہ۱۴۷تا۱۵۰)

مدینہ میں یہود کا دینی مدرسہ بیت مدارس قائم تھا اور رواداری کا یہ عالم تھا کہ رسول کریمﷺ خود اس درسگاہ میں تشریف لے جاتے تھے اورایک دفعہ تووہاں یہود کوخطاب فرمانے کابھی ذکرملتا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الجزیة والموادعة بَابُ إِخْرَاجِ الْيَهُودِ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ)

قیام پاکستان پر احمدی بھی جدوجہدآزادی میں مسلم لیگ کےساتھ شامل تھےاور خود یہ ملک بنانےوالوں میں سے ہیں اورآئین پاکستان کے مطابق ایک آزاد شہری کے تمام حقوق رکھتے ہیں۔

الغرض مذہبی آزادی کی قرآنی تعلیم،سنت رسولؐ اور اسوۂ حسنہ کےدلائل قاطعہ سے ثابت کرنے کے بعد نام نہاد ملی مجلس شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کی متشددانہ تجاویز ھَبَآءًمَّنْثُوْرًا ہوجاتی ہیں۔مگر علماء کی خلافِ قرآن و سنت کلمہ گو احمدیوں پر پابندیوں کی یہ خواہش ببانگ دہل پکارکرکہہ رہی ہےکہ

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

چنانچہ انہوں نے خلاف قرآن و سنت نبویؐ اپنی تجاویز میں یہ بھی درج کیا کہ’’وہ(احمدی) قرآن کو اپنی مذہبی کتاب نہیں کہہ سکتے اور نہ اس کی طباعت و اشاعت و تدریس کرسکتے ہیں۔…یہی معاملہ کتب حدیث کے ساتھ بھی ہونا چاہیے…حتیٰ کہ لباس اوروضع قطع بھی مسلمانوں جیسی نہ ہو جس کا حضرت عمرؓ نے حکم دیا تھا۔‘‘

حضرت عمرؓ جیسے منصف مزاج خلیفہ راشد کی طرف خلاف قرآن و سنت ایسا الزام ظلم عظیم ہے کہ انہوں نےغیرمسلموں پر ذمیوں جیسی پابندیاں لگائیں۔اس الزام کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ذمہ کا لفظ عربی میں جیساکہ ذکرہوچکاذمہ داری اور امان کے معنی میں آتا ہے اور حضرت عمرؓ نے نصاریٰ کے ساتھ معاہدات میں کمال عدل و احسان کا نمونہ دکھایا جس پر معاہدہ حمص جس میں جزیہ واپس کیا تھا،بھی شاہد ہے۔ان کے دور میں ذمّی کا لفظ کبھی حقارت کےلیے استعمال نہیں کیاگیا۔نیزشرعی عدالت میں نام نہادجعلی شروط عمریہ کی دلائل قاطعہ سےتردید کی جاچکی ہے۔جس کے بعد شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ میں واضح کیاکہ ’’اسلام مکمل مذہبی رواداری کی تعلیم دیتا ہے اور اس بات کو انسان کے ضمیر پر چھوڑتا ہے کہ وہ اسلام کو بطور مذہب قبول کرے یا نہ کرے،کسی جبر کی اجازت نہیں۔‘‘(فیصلہ شرعی عدالت)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: دورِ حاضر کی ’’نہی عن المعروف ‘‘کی مہم اور اس قومی المیہ کاخطرناک انجام!(قسط اوّل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button