حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مرد کی گھر کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ذمہ داری ہے

مرد کی گھر کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ذمہ داری ہے۔ مرد کی خاوند کی حیثیت سے بھی ذمہ داری ہے۔ مرد کی بحیثیت والد کے بھی ذمہ داری ہے۔ پھر اولاد کی حیثیت سے بھی ذمہ داری ہے۔ اگر ہر مرد اِن ذمہ داریوں کو سمجھ لے اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کرے تو یہی معاشرے کے وسیع تر امن کے قیام اور محبت اور بھائی چارے کے قائم کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہی باتیں اولاد کی تربیت کا ذریعہ بن کر پُرامن اور حقوق انسانی کو قائم کرنے و الی نسل کے پھیلنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ گھروں کے سکون انہی باتوں سے قائم ہو جاتے ہیں۔ آجکل کئی گھروں کے مسائل اور شکایات سامنے آتی ہیں جہاں مرد اپنے آپ کو گھر کا سربراہ سمجھ کر، یہ سمجھتے ہوئے کہ مَیں گھر کا سربراہ ہوں اور بڑا ہوں اور میرے سارے اختیارات ہیں، نہ اپنی بیوی کا احترام کرتا ہے اور اسے جائز حق دیتا ہے، نہ ہی اولاد کی تربیت کا حق ادا کرتا ہے۔ صرف نام کی سربراہی ہے۔ بلکہ ایسی شکایات بھی ہندوستان سے بھی اور پاکستان کی بعض عورتوں کی طرف سے بھی ہیں کہ خاوندوں نے بیویوں کو مار مار کر جسم پر نیل ڈال دئیے یا زخمی کر دیا۔ منہ سُوجا دئیے۔ بلکہ بعض لوگ تو اِن ملکوں میں رہتے ہوئے بھی ایسی حرکتیں کرجاتے ہیں۔ پھر بچوں اور بچیوں پر ظلم کی حد تک بعض باپ سلوک کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد بھی جاہل لوگوں کی طرح ہی رہنا ہے، ان مسلمانوں کی طرح رہنا ہے جن کو دین کا بالکل علم نہیں ہے، اپنے بیوی بچوں سے ویسا ہی سلوک کرنا ہے جو جاہل لوگ کرتے ہیں تو پھر اپنی حالتوں کے بدلنے کا عہد کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیا مرد جو خدا کا حق ادا کرنے کی ان پر ذمہ داری ہے اور جو عملی حالت کے معیار بلند کرنے کی ان پر ذمہ داری ہے اسے ادا کررہے ہیں؟ اگر وہ اسے ادا کر رہے ہوں تو پھر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کبھی ان کے گھروں میں ظلم ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سب سے پہلے گھر کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے توحید کے قیام کی اہمیت اپنے بیوی بچوں پر واضح فرما کر اس پر عمل کروایا لیکن یہ کام بھی پیار اور محبت سے کروایا۔ ڈنڈے کے زور پر نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو گھر کے سربراہ ہونے اور دنیا کی اصلاح اور شریعت کے قیام کی تمام تر مصروفیات ہونے کے باوجود اپنے گھر والوں کے حق ادا کئے اور پیار اور نرمی اور محبت سے یہ حق ادا کئے۔ گھر کا سربراہ ہونے کا حق اس طرح ادا کیا کہ پہلے یہ احساس دلوایا کہ تمہاری ذمہ داری توحید کا قیام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نفل کے لئے اٹھتے تھے اور پھر صبح نماز سے کچھ پہلے ہمیں پانی کے چھینٹے مار کر اٹھاتے تھے کہ نفل پڑھو۔ عبادت کرو۔ اللہ تعالیٰ کے وہ حق ادا کرو جو اللہ تعالیٰ کے حق ہیں۔ (بخاری کتاب الوتر باب ایقاظ النبیﷺ اھلہ بالوتر حدیث 997) (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب قیام اللیل حدیث 1308)
پھر آپ اپنے گھر والوں کے حق ادا کس طرح فرماتے تھے؟ وہ کام جو بیویوں کے کرنے والے تھے ان میں بھی آپ ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ ہی فرماتی ہیں کہ جتنا وقت آپ گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپ کو نماز کا بلاوا آتا اور آپ مسجد تشریف لے جاتے۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب من کان فی حاجۃ اھلہ … الخ حدیث 676)
پس یہ ہے وہ اُسوہ جو ہم نے اپنانا ہے اور ہمیں اپنانا چاہئے۔ نہ کہ بیویوں سے ایسا سلوک جو ظلم کے مترادف ہو۔

(خطبہ جمعہ ۱۹ مئی ۲۰۱۷ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍جون۲۰۱۷ء)

مزید پڑھیں: ہمیں مال اور دولت پر دنیاداروں کی طرح گرنا نہیں چاہئے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button