تمام برکات خلیفۃ المسیح کی اطاعت میں مضمرہیں
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۚ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَقَلۡبِہٖ
وَاَنَّہٗۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ (الانفال:۲۵)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہا کرو جب وہ تمہیں بلائے تاکہ وہ تمہیں زندہ کرے اور جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے اور یہ بھی (جان لو) کہ تم اسی کی طرف اکٹھے کئے جاؤ گے۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُولو الامرسے نہیں جھگڑ یں گے اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے سے نہیں ڈریں گے۔(مسلم کتاب الامارۃ، باب و جوب طاعۃ الامراء)
خلیفہ نبی کاجانشین ہوتاہے جسے خدامسندخلافت پربٹھاتاہے۔خلیفہ کے ساتھ خداتعالیٰ کی خاص تائیدونصرت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام مومنوں سےبڑھ کرخلیفہ کی دعائیں قبول فرما تا اوراس کےفیصلوں میں برکت دیتاہے۔اس لیےخلیفہ کی اطاعت تمام ایمانداروں پرفرض ہے اوراسی میں جماعت ِمومنین کی ترقی پنہاں ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں ’’…چاہیے کہ تمہاری حالت اپنے اِمام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غَسّال کے ہاتھ میں ہو تی ہے تمہارے تمام ارادے اورخواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔ اِستغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو۔ وحدت کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔ تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا پس اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ شکر کرنے پر ازدیادنعمت ہوتاہے۔‘‘(خطباتِ نور صفحہ131)
قدرت ثانیہ خداتعالیٰ کی طرف سےایک بہت بڑاانعام ہے۔اس انعام اورنعمت کی قدراطاعت کےبغیرناممکن ہے۔خلافت سےفیض پانےکےلیےضروری ہےکہ اس رشتہ کوباقی سب رشتوں پرمقدم رکھاجائےاوردربارِخلافت سےآنےوالےہرفرمان کی دل وجان سےاطاعت کی جائے۔
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ ۱۱ /مئی ۲۰۰۳ ءکو احباب جماعت کے نام خصوصی پیغام میں فرماتے ہیں:
’’قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھناہے۔ یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے۔ اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اگر قدرتِ ثانیہ نہ ہوتو دین حق کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اورمحبت اور وفا اورعقیدت کا تعلق رکھیں اورخلافت کی ا طاعت کے جذبہ کودائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں۔ امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اوروہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اورابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتاہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتاہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے توخواہ وہ دنیا بھرکے علوم جانتاہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکروٹا۔‘‘
خلفاء قرب الہٰی کے حصول میں ممد ہیں
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :
’’انبیاء اورخلفاء اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول میں ممد ہوتے ہیں۔ جیسے کمزور آدمی پہاڑ کی چڑھائی پرنہیں چڑھ سکتا تو سونٹے یا کھڈ سٹک کا سہارا لے کر چڑھتا ہے۔ اسی طرح انبیاء اور خلفاء لوگوں کے لیے سہارے ہیں۔ وہ دیواریں نہیں جنہوں نے الہٰی قرب کے راستوں کو روک رکھا ہے بلکہ وہ سونٹے اور سہارے ہیں جن کی مدد سے کمزور آدمی بھی اللہ کا قرب حاصل کرلیتا ہے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۳۷ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے، ایسا ایمان جو اُس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بُزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں۔ ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ اور خدا فرما تا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔‘‘(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد۲۰،صفحہ۳۰۹)
پس یہ ہے ایمان کا معیار جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ یہ معیار ہم اپنے اندر پیدا کرنے والے ہوں۔ یہاں اطاعت کا بھی ذکر آیا تھا، اس وقت میں اطاعت کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اطاعت کے کسی درجہ سے بھی محروم نہ ہو۔ اطاعت کے مختلف درجے ہیں یا مختلف صورتیں ہیں جن پر ہمیں نظر رکھنی چاہیے۔ اطاعت کے مختلف معیار ہیں۔ نظامِ جماعت کی اطاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا بھی اطاعت ہے۔ اسی طرح اور بہت ساری چیزیں انسان سوچتا ہے اور ایک نظام میں سموئے جانے کے لیے اور نظام پر پوری طرح عمل کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بننے کے لیے ایک اطاعت ہی ہے جس کی طرف نظر رہے تو اس کے قدم آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً اطاعت کا معیار ہے۔ اس کی ایک معراج جو ہے وہ ہمیں جماعتِ احمدیہ کی تاریخ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓمیں نظر آتی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تار آئی کہ فوری آ جاؤ تو آپ اپنے مطب میں (اپنے کلینک میں) بیٹھے تھے۔ وہیں سے جلدی سے روانہ ہو گئے۔ یہ بلاوا اُسی شہر سے نہیں آ رہا تھا کہ اُسی طرح اُٹھ کے چلے گئے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دہلی میں تھے اور حضرت خلیفہ اولؓ قادیان میں۔ گھر والوں کو پیغام بھیج دیا کہ میں جا رہا ہوں۔ کوئی زادِ راہ، کوئی خرچ، کوئی کپڑے، کوئی سامان وغیرہ کی پیکنگ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ سیدھے سٹیشن پر پہنچ گئے۔ گاڑی کچھ لیٹ تھی تو ایک واقف شخص ملا۔ امیر آدمی تھا۔ اُس نے اپنے مریض کو دکھانا چاہا اور درخواست کی۔ گاڑی لیٹ ہونے کی وجہ سے آپ نے مریض کو دیکھ لیا۔ اور اس مریض کو دیکھنے کی آپ کو جو فیس ملی، وہی آپ کا سفر کا خرچ بن گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کا انتظام فرما دیا اور اپنے آقا کے حضور حاضر ہو گئے۔ اور جب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح نہیں فرمایا تھا کہ فوری آ جائیں۔ تار لکھنے والے نے تار میں لکھ دیا تھا کہ فوری پہنچیں۔ لیکن کوئی شکوہ نہیں کہ اس طرح میں آیا، کیوں مجھے تنگ کیا بلکہ بڑی خوشی سے وہاں بیٹھے رہے۔(ماخوذ از حیات نور صفحہ ۲۸۵)(خطبہ جمعہ ۲۲/اپریل ۲۰۱۱ء، الفضل آن لائن یکم مئی ۲۰۲۱ء)
اللہ کرے کہ ہم میں سےہر احمدی حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ جیسی اطاعت دکھاتےہوئےاپنے خلافت کےساتھ باندھےہوئے عہد کو پورا کرنے والا ہو۔اور خلافت احمدیہ سےعشق و وفا اوراطاعت ومحبت میں اعلیٰ درجہ کے معیار قائم کرنے والا ہو۔آمین
ہماراخلافت پہ ایمان ہے
یہ ملّت کی تنظیم کی جان ہے