صدصالہ جشن تشکر اور ایک تاریخی یادگار سائیکل سفر
۱۹۸۹ء جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر کی تاریخ کا ایک اہم سال تھا۔ اس سال جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر نے جماعت احمدیہ کےقیام کی صد سالہ جوبلی منائی اور مختلف ممالک میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔
یوکے میں اس سال کا ایک اہم پروگرام مجلس خدام الاحمدیہ کا بریڈفورڈ تا لندن ایک یادگار سائیکل سفر تھا۔ یہ تجویز اس طرح سامنےآئی کہ محترم نیشنل قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ یوکے رفیق احمد حیات صاحب نارتھ ریجن میں صد سالہ جوبلی کے پروگرام طے کرنے کے لیے بریڈفورڈ تشریف لائے ہوئے تھے اور چونکہ خاکساراس وقت نارتھ اور سکاٹ لینڈ کا ریجنل قائد تھا اس لیے آپ خاکسارکے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ شام کو کھانے کے بعد بعض خدام کے ساتھ صدسالہ جوبلی کے پروگراموں پر بات ہو رہی تھی تو یہ تجویز محترم نیشنل قائد صاحب کو پیش کی گئی کہ بریڈفورڈ سے لندن تک سائیکل سفر کیا جائے جو راستے کے تمام بڑے شہروں سے گزرےتو ہر شہر کی ممتاز شخصیات کو مدعو کر کے ان کو جماعت کا تعارف اور ہماری صد سالہ جوبلی سے متعارف کروایا جائے۔اس سفر کے دوران ہر جگہ مقامی چیریٹیز کے لیے رقم بھی اکٹھی کی جائے۔اس طرح ایک تو خدام کو بریڈ فورڈ سے لندن تک ہر جماعت کے ممبران سے ملنے اور مساجداور مشن ہائوسز کو دیکھنے کا موقع بھی ملے گا اور اکٹھے وقت گزارنے سے مختلف مجالس کے خدام کو آپس میں ملنے، بات کرنے اور دوست بننے کا بھی موقع ملے گا۔
محترم نیشنل قائد صاحب کو یہ تجویز پسند آئی اور آپ نے وعدہ کیا کہ حضور انور سے اگلی ملاقات میں اس کی منظوری حاصل کریں گے۔
ان دنوں سلمان رشدی کی کتاب سیٹینک ورسز (Satanic Verses)کا بڑا چرچا تھا اور یوکے کی مسلمان تنظیمیں اس کتاب کی اشاعت کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ بریڈفورڈ کی Council for Mosques نے شہر میں ایک بڑا جلوس نکالا اور شہر کے وسط میں اس کتاب کو آگ لگائی۔اگرچہ یہ کام مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی کرتا تھا لیکن پھر بھی یورپ میںکتاب کو آگ لگانا بُرا فعل سمجھا جاتا ہے اس لیے بریڈفورڈ کے مسلمانوں کی اس حرکت کے منفی اثرات مترتب ہوئے اور پریس نے بھی اس کو خوب اچھالا۔
یہ ہمارے لیے ایک سنہری موقع تھا کہ ہم کوئی مثبت کام کرکے پریس کے ذریعہ اسلام کی نیک نامی کروائیں اور عام لوگوںکو جماعت احمدیہ کا تعارف کروائیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس تجویز کی منظوری عطافرمادی۔ محترم نیشنل قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ یوکے نے ایک کمیٹی کی حضور سے منظوری لی جس کے صدر محترم ارشد احمدی صاحب مرحوم تھے۔ خاکسار بھی اس کمیٹی کا ممبر تھا اور چونکہ اس سائیکل سفر کا آغازبریڈفورڈ سے ہونا تھا اس لیے خاکسار کو بعض اہم ذمہ داریاں دی گئیں۔
اس سفر کی تیاریاں ۱۹۸۸ء سے شروع کردی گئیں اور کمیٹی کے بہت سے اجلاس لندن اور بریڈفورڈ میں ہوئے۔سارے روٹ کو دیکھنے کے لیے کمیٹی کے ممبران نے ہر شہر کا دورہ کیا اور چھوٹی بڑی تفصیلات اکٹھی کر کے ایک جامع رپورٹ محترم نیشنل قائد صاحب کو بھجوائی تاکہ وہ حضور انور سے منظوری حاصل کر سکیں۔ایک شہر سے دوسرے شہر کے درمیان رکنے اور سستانے کے لیے جگہوں کا انتخاب کیا گیا۔
یہ فیصلہ ہواکہ ۱۱؍مارچ ۱۹۸۹ء کی صبح بریڈفورڈ سے سفر شروع ہوگا اور پہلا پڑائو ہڈرزفیلڈ میں ہوگا۔ ہڈرزفیلڈ سے شیفیلڈ۔شیفیلڈ سے ناٹنگھم۔ناٹنگھم سے لیسٹر۔ لیسٹر سے برمنگھم۔ برمنگھم سے لیمنگٹن سپا۔ لیمنگٹن سپا سے آکسفورڈ۔آکسفورڈ سے سلائو۔ سلائو سے ہنسلو اور ہنسلو سے ۱۹؍مارچ کومسجد فضل لندن کا سفر کیا جائے گا۔ راستے میں مختلف مشن ہائوسز میں رات کے قیام کا انتظام کیا گیااور مہمان نوازی کی ذمہ داری مقامی جماعتوں کی لگائی گئی۔ ہر جماعت میں ایک جماعتی پروگرام بھی رکھا گیا۔
ہر جماعت کو ہدایات بھجوائی گئیںکہ شہر کے ممبران پارلیمنٹ،لارڈ میئر، کائونسلرز اور دوسرے ممتاز افراد کو مدعو کیا جائے اوراحمدیہ جماعت کا تعارف ان کو پیش کیا جائے۔ مقامی اور قومی پریس کو بھی پریس ریلیز بھجوائی گئیں۔
فرسٹ ایڈ اور سائیکلوں کے پنکچر وغیرہ لگانے کا سامان ایک وین میں ساتھ رکھنے کا بھی انتظام کیا گیا۔راستے میں سائیکل سواروںکے لیے کھانے پینے اور مشروبات کا بھی خاطرخواہ انتظام کیا گیا۔
۱۰؍مارچ ۱۹۸۹ء کی شام بریڈفورڈ کی مسجد بیت الحمد بریڈفورڈ میں میلے کا سماں تھا۔ لندن سے مرکزی نمائندگان کے علاوہ پورے نارتھ سے خدام اپنی سائیکلوں کے ساتھ بڑے جوش و خروش سے پہنچے ہوئے تھے۔ نمازوں کے بعد سب کی خدمت میں شام کا کھانا پیش کیا گیا۔صبح نماز فجر کے بعد سب کی خدمت میں لذیذ ناشتہ پیش کیا گیا۔ تمام خدام میں ایک جوش تھا اور سب اس سفر کے منتظر تھے۔
صبح ۱۰بجے سب کو مسجد بیت الحمد کے باہر اکٹھا کر کے ضروری ہدایات دی گئیں۔ بریڈفورڈ سے ۱۰۰؍سائیکل سواروں نے اس سفر کا آغاز کیا۔ ان میں دس ویسٹ یارکشائر پولیس کے افسران بھی شامل تھے جو اپنی سائیکلوں پر آئے تھے۔ اس موقع پر بریڈ فورڈ کی لارڈ میئر اور شہر کے بعض سرکردہ افراد بھی موجود تھے۔پریس کے نمائندوں نے انٹرویو کیے اور ٹی وی کے نمائندوں نے فلم بنائی۔ دعا کے بعد اس سفر کا آغاز ہوا۔ ویسٹ یارکشائر پولیس کی کاروں نے سائیکلوں کے قافلے کی قیادت کی۔ سائیکل سواروں میں خدام کے علاوہ چند اطفال اور انصار بھی شامل تھے۔اس سفر کی خبر مقامی ٹی وی، ریڈیو اور اخباروں نے شائع کی۔ قومی اخبارگارڈین نے ایک تصویر لگا کر خبر شائع کی۔
پندرہ میل کا سفرچار گھنٹے میں طے کر کے سائیکل سوار ہڈرزفیلڈ کی مسجد بیت الصمد پہنچے تو ہڈرزفیلڈ جماعت کے ممبران نے ان کا پُر جوش استقبال کیا۔ہڈرزفیلڈ شہر کے میئر اور چند اور سرکردہ افراد بھی موجود تھے۔ نماز ظہر و عصر کے بعد سب کو دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا۔ یہاں سے پولیس کے سائیکل سوار واپس بریڈفورڈ روانہ ہو گئے۔
اس کے بعد یہ قافلہ شیفیلڈ کی جانب روانہ ہوا۔ یہ سفر اٹھائیس میل کا تھا۔ راستے میں بعض خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے کچھ دیر رکے اور پھر سفر جاری رکھا۔اس سفرپر چھ گھنٹے لگے۔
شیفیلڈ پہنچنے پر وہاں کی جماعت کے افراد نے ایک ہال میں جو کرائے پر حاصل کیا گیا تھا پُر جوش استقبال کیا۔ شیفیلڈ کی جماعت بہت چھوٹی تھی لیکن ان میں خدمت کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مہمانوں کو رات کا لذیذ کھانا پیش کیا گیا اور نماز مغرب و عشاء باجماعت ادا کی گئیں۔نمازوں کے بعد مختصر سا اجلاس ہوا جس میں سب نے اپنا تعارف کروایا۔اس کے بعد سب اسی ہال میں ہی سو گئے۔ صبح نماز فجر باجماعت ادا کی گئی اور ناشتہ پیش کیا گیا۔نماز کے بعدسب کو ہدایات دی گئیں اور یہ قافلہ ناٹنگھم کی جانب روانہ ہو گیا۔ شیفیلڈ سے ناٹنگھم کا سفر بیالیس میل کاتھا اور وقت پانچ گھنٹے تھا۔ راستے میں بعض مقامات پر رکنے کی وجہ سے چھ گھنٹے میں یہ سفر مکمل کیا گیا۔
ناٹنگھم کی جماعت نے بھی ایک ہال کرائے پر لیا ہوا تھا۔ وہاں سب سائیکل سواروں کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر چند کائونسلر اور دوسر ے سرکردہ افراد بھی موجود تھے۔ بعض پولیس افسران بھی آئے ہوئے تھے۔
ناٹنگھم شہر کی یہ خصوصیت ہے کہ یہاں Raleigh سائیکلوں کی دنیا کی پہلی اور سب سے بڑی فیکٹری تھی جس کا قیام ۱۹۱۳ءمیں ہوا اور ۱۹۹۹ءتک یہاں دنیا کے سب سے زیادہ مشہور اور مقبول سائیکل بنتے رہے۔
اس تعلق کی وجہ سے ہمارے سائیکل سفر کو اس شہر میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اس کی خوب تشہیر بھی کی گئی۔
نماز ظہر وعصر کی ادائیگی کے بعد سب کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا اور دعا کے بعد یہ قافلہ لیسٹر شہر کی جانب رواںدواں ہو گیا۔
ناٹنگھم سے لیسٹر کا فاصلہ ۳٦؍میل ہے اور یہ فاصلہ طے کرنے میں کل وقت پانچ گھنٹے صرف ہوا۔
لیسٹر پہنچنے پر اس قافلے کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اس موقع پراستقبال کے لیے لیسٹر شہر کے معززین بھی موجود تھے۔نماز مغرب وعشاءکی ادائیگی کے بعد شام ایک مختصر اجلاس ہوا جس میں سائیکل سواروں نے اپنا تعارف پیش کیا اور جماعت لیسٹر کی طرف سے ان کو خوش آمدید کہا گیا۔اس کے بعدلذیذ بریانی سے سب کی تواضع کی گئی۔ اس کے بعد سب کا رات کا قیام لیسٹر کی مسجد میں تھا۔
اگلی صبح نماز فجر اور درس کے بعد کچھ آرام کا وقت دیا گیا۔ آرام کے بعد سب کو ناشتہ پیش کیا گیا۔ ناشتے کے بعد ہدایات دی گئیںاور دعا کے بعد یہ قافلہ برمنگھم کی جانب روانہ ہوا۔ لیسٹر سے برمنگھم کا فا صلہ پچپن میل ہے اور اس سفر کو چھ گھنٹے لگے۔راستے میں چند جگہوں پر رک کر چائے وغیرہ پی گئی اور نماز ظہر وعصر باجماعت ادا کی گئیں۔ ہر پڑائو پر نئے سائیکل سوار شامل ہوتے چلے گئے اور بعض واپس جاتے رہے۔
برمنگھم مسجد پہنچنے پر برمنگھم کی جماعت کے افراد نے پُرجوش استقبال کیا۔ ہڈرزفیلڈ کے بعد برمنگھم بڑی جماعت تھی اس لیے یہاں خوب رونق تھی۔اس موقع پر برمنگھم شہر کے کائونسلر، سیاسی و سماجی راہنما اور مختلف مذاہب کے نمائندے بھی موجود تھے۔کچھ آرام کرنے کے بعد نماز مغرب وعشاء ادا کی گئیں، ایک مختصر اجلاس منعقد ہوا جس میں ریجنل امیر صاحب اور صدر صاحب برمنگھم نے سائیکل سواروں اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور سائیکل سواروں نے اپنااپنا تعارف کروایا۔اور شام کا کھانا پیش کیا گیا۔
رات سب نے مشن ہائوس میں گزاری۔ صبح نماز فجر کے بعد درس قرآن ہوا۔ اس کے بعد سب نے کچھ آرام کیا۔آرام کے بعد سب کی خدمت میں ناشتہ پیش کیاگیا۔ناشتے کے بعد ضروری ہدایات دی گئیں۔
برمنگھم میں بی بی سی ٹی وی کے صبح کے لائیو پروگرام میں سائیکل سواروں کو سٹوڈیو میں مدعو کیا گیا تھا۔یہ پروگرام سارے ملک میںدیکھا جاتا ہے اور بہت مقبول ہے۔
مشن ہائوس سے سائیکل سوار بی بی سی سٹوڈیو پہنچے جہاں بی بی سی کے نمائندوں نے سب کا استقبال کیا اور نیشنل قائد صاحب خدام الاحمدیہ اور سائیکل سواروں کے ایک نمائندے کا لائیو پروگرام میں انٹرویو کیا اور جماعت کا تعارف بھی پیش کیا۔بی بی سی کی طرف سے سب کی خدمت میں سینڈوچ اور مشروبات پیش کیے گئے۔
بی بی سی کے سٹوڈیو سے ہی دعا کے ساتھ سفر کا اگلا مرحلہ شروع ہوا۔اگلا پڑائو لیمنگٹن سپا میں تھا جو برمنگھم سے ستائیس میل کے فاصلے پر ہے۔ اس سفر پر چار گھنٹے لگے۔راستے میں بعض جگہوں پر رک کر چائے وغیرہ پی۔
لیمنگٹن سپا پہنچنے پر صدر صاحب جماعت اور مقامی احمدیوں نے سب کا استقبال کیا۔ ایک مقامی ہال میں نماز ظہرو عصر ادا کی گئیںاور سب کی خدمت میں دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا۔ کھانے کے بعد یہاں بھی مختصر اجلاس ہوا۔
کچھ آرام کرنے کے بعدلیمنگٹن سپا سے آکسفورڈ کا سفر شروع ہوا۔ اس سفر کا کل فاصلہ پچاس میل ہے اور اس سفر پر کل چھ گھنٹے لگے۔ راستے میں کئی مقامات پر سستانے کے لیے اور چائے وغیرہ پینے کے لیے رکتے رہے۔
آکسفورڈ پہنچنے پر بھی مقامی جماعت کے افراد اور معززین شہر نے اس قافلے کا شاندار استقبال کیا۔مقامی ہال میں ان کی فش اینڈ چپس کے ساتھ تواضع کی گئی۔ نماز مغرب و عشاء کے بعد مختصر اجلاس ہوا اور دعا کے بعد سب سونے کے لیے چلے گئے۔
اگلی صبح نماز فجرباجماعت ادا کی گئی اور درسِ قرآن کے بعد سب نے کچھ دیر آرام کیا۔ صبح سب کو ناشتہ پیش کیا گیا اور آکسفورڈ شہر کی سیر کروائی گئی۔اس تاریخی شہر کی سیر کر کے سب خوش تھے۔
آج آکسفورڈ سے سلائو کا سفر ہونا تھا۔سب تیاریوں کے بعد سائیکل سواروں کو مناسب ہدایات دی گئیں اور دعا کے ساتھ سفر کا آغاز کیا گیا۔ اس سفر کا کُل فاصلہ پینتالیس میل ہے اور چند جگہوں پر سستانے کے لیے رکنے کی وجہ سے اس سفر پر چھ گھنٹے لگے۔راستےمیں ایک جگہ رک کر سینڈوچ اور گرم چائے پیش کی گئی اور نماز ظہر و عصر باجماعت ادا کی گئیں۔
سلائو پہنچنے پر مقامی جماعت کے افراد اور بعض معززمہمانوں نے سائیکل سواروں کا شاندار استقبال کیا۔ شام کے کھانے کا انتظام جماعت کی طرف سے کیا گیا تھا۔ کھانے کے بعد نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں اور نمازوں کے بعد جلسہ منعقد کیا گیا۔ اس روز لندن اور مڈل سیکس کی جماعتوں سے بہت سے خدام، اطفال اور انصار بھی پہنچ چکے تھے اس لیے یہاں خوب رونق ہو گئی تھی۔ جلسہ میںسلائو کے صدر جماعت نے سب مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور سائیکل سواروں نے اپنا تعارف کروایا اور دوران سفر کے دلچسپ واقعات سنائے۔
یہاں رات قیام کیا گیا اور صبح نماز فجر کے بعد درسِ قرآن دیا گیا۔نماز کے بعد سب کو آرام کرنے کے لیے وقت دیا گیا۔
ناشتے کے بعد آج سلائو سے ہنسلو کا سفر ہونا تھا۔ سلائو سے ہنسلو کا فاصلہ چودہ میل ہے اور سائیکل سفر پر کل تین گھنٹے لگے۔ راستےمیں چند جگہوں پر رک کر سینڈوچ اور مشروبات پیش کیے گئے۔ ہنسلو اس سفر کا آخری پڑائو تھا اور یہاں آرام کرنے کے لیے کافی وقت رکھا گیا تھا۔ہنسلو پہنچنے پر سائیکل سواروں کا زبردست استقبال کیا گیا۔ سلائو سے بعض اور سائیکل سوار بھی اس سفر میں شامل ہوگئے تھے۔ ہنسلوکی مقامی جماعت کے علاوہ مڈل سیکس کی مختلف جماعتوں اور لندن سے بھی بہت سے احبا ب جماعت یہاں استقبال کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔ شہر کی بعض معزز شخصیات بھی موجود تھیں۔شام کے کھانے اور نماز مغرب وعشاء کی ادائیگی کے بعد ایک اجلاس ہوا جس میں سائیکل سواروں نے اپنا تعارف اور دلچسپ واقعات سنائے۔سب حاضرین نے ان کو بہت پسند کیا۔ یہاں اگلا دن آرام کا دن تھا۔ اگلے روز یہاں محترم نیشنل قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کی صدارت میں سائیکل سفرکمیٹی کا اجلاس ہوا اور اس یادگار اور تاریخی سفر کے فائنل مرحلے کو آخری شکل دی گئی۔ اگلے روز یعنی ۱۹؍مارچ کو ہنسلو سے مسجد فضل لندن کا سفر تھا۔اس کے لیے خدام میں بہت جوش و جذبہ تھا اور پیارے آقا سے ملاقات کا بیتابی سے انتظار تھا۔ لندن اور گردونواح سے بہت سے خدام، اطفال اور انصاراس آخری مرحلے کے سائیکل سفر میں شمولیت کے لیے پہنچ چکے تھے۔ ان میںمحترم کیپٹن چیمہ صاحب مرحوم بھی شامل تھے جن کی عمر اس وقت اسی سال تھی۔ہنسلو سے مسجد فضل لندن کا فاصلہ بارہ میل بنتاہے اور اس سفر کو ہمارے سائیکل سواروں نے چار گھنٹوں میں طے کیا۔ راستے میں دو تین بار پانی اور جوس پینے کے لیے رکے۔
مسجد فضل پہنچنے پر ایک میلے کا سماں تھا۔ ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ خود سائیکل سواروں کے استقبال کے لیے مسجد فضل کے احاطے میں رونق افروز تھے۔ حضورؒ کے ساتھ محترم آفتاب احمد خان صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے اورمحترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن بھی تھے۔ پٹنی کے مقامی ممبر پارلیمنٹ ڈیوڈ میلر جو ان دنوں سپورٹس کے وزیر بھی تھے حضورکے ساتھ کھڑے تھے اور پٹنی کی مقامی میئر بھی ہر سائیکل سوار کا استقبال کر رہی تھیں۔ لندن کے احمدی بھی بڑی تعداد میں استقبال کے لیے آئے ہوئے تھے۔حضور انور کو دیکھتے ہی ہر خادم کا چہرہ خوشی سے کِھل گیا۔سائیکل سواروں کو مشروبات پیش کیے گئے اور نمازوں کی ادائیگی کے بعد مسجد فضل کے پیچھے کے لان میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
یہاں خصوصی طور پر شامیانہ لگایا گیا تھا۔ حضور ؒکی تشریف آوری کے بعد باقاعدہ تقریب کی کارروائی تلاوت قرآن پاک سے شروع کی گئی۔ اس کے بعد محترم نیشنل قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ یوکے نے سائیکل سفر کی رپورٹ پیش کی اور اعلان کیا کہ کل اٹھائیس ہزار پائونڈ مقامی چیریٹیز کے لیے اکٹھے کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد ممبر پارلیمنٹ اور میئر نے تقریر کی اور خدام کے اس پروگرام کی کھلے دل سے تعریف کی۔حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ نے اپنے خطاب میں خدام کے اس پروگرام پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور دعائوںسے نوازا۔ دعا کے ساتھ اس یادگار تقریب کا اختتام ہوا اور اس تاریخی اور یادگار سفر کا بھی اختتام ہوا۔ مختلف شہروں سے آنے والے خدام اور اطفال اس حسین سفر کی خوشگوار یادیں دلوں میں لیے اپنے اپنے شہروں کو روانہ ہو گئے۔
خوبصورت یادوں اور نئے دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی مٹھاس دلوں میں سجائے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔