حضرت سیدہ مہرآپا جان پیکر مہر و الفت
شاید یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے جب کوئی بہت پیارا محبت کرنے والا ہم سے رخصت ہو کر چلاجائے اور کوئی اس جانے والے کے بارے میں کچھ لکھنے کو بھی کہے تو لکھ نہیں پاتے مگر ’’وقت زخم کا مرہم ہے ‘‘دن گزرنے کے ساتھ ساتھ بھول تو نہیں جاتے مگر حوصلہ کر کے سب کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔
آج میں ایک پیاری ہستی کے بارےمیں چند یادیں اکٹھی کر رہی ہوں آپ کا بابرکت وجود ہر کس و ناکس کے لیے ایک خوشبودار پھول اور محبت کا گہوارہ تھا۔آپ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی سب سے چھوٹی حرم محترم تھیں۔ حضرت مہرآپا کا نام بشریٰ بیگم صاحبہ تھا۔
آپ نے حضور ؓکی بیماری میں حضرت اُم متین صاحبہ کے شانہ بشانہ مل کر بہت خدمت کی اور دن رات ایک کر کے دعائوں کے بعد دواؤں کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔جماعت اور لجنہ کو خبر اور حالات کی بڑی حکمت سے آگاہی فرماتی رہیں اور دعائوں کی تحریک بھی الفضل کے ذریعے کرتی رہیں۔اللہ تعالیٰ حضرت مہر آپا کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آمین
ہر وہ مجلس جس میں پیاری ’’مہر آپا‘‘موجود ہوتیں اپنی رونق خود بخود بڑھادیتی۔ آپ کاہنستا مسکراتا چہرہ دل کو موہ لیتا۔میٹھی زبان سے بات کرتیں، حال و احوال پوچھتیں، پیار کرتیں اور گھر پر مدعو کرتیں کہ میں اکثر سوچتی ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مہر آپا کو کس قدر عظیم المرتبت بنایا مگر طبیعت اس قدر سادہ اور نفیس اور پیار و محبت سے بھرپور گویا اسم بامسمیٰ تھیں۔ ربوہ میں سکول اور کالج کے زمانے سے ہی آپ سے ملنے اکثر اپنی آپا آچھی امۃ اللہ خورشید کے ساتھ جایا کرتی تھی مگر کبھی زیادہ بات وغیرہ نہ ہوتی تھی چونکہ بڑوں سے ہی باتیں ہوتی تھیں بس آپا آچھی کے ساتھ جاتی تھی اور اپنی سہیلیوں سے بھی ذکر کرتی کہ مہر آپا جان سے ملنے کبھی گئی ہوں۔ آپ پرفیوم بھی بہت اعلیٰ استعمال کرتی تھیں کہ دور سے آنے سے پہلے ہی خوشبو آجایا کرتی تھی جو بے حد بھینی بھینی ہوتی تھی اور پھر آپ کا پیار سے بٹھانا، خاطر و مدارات کرنا خوب یاد ہے۔
حضرت مہر آپا سے میرا پیار اور ملنا ملانا تو شادی سے بہت پہلے سے تھا جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے درس قرآن حضرت مہر آپا کے گھر کے کھلے صحن میں ربوہ میں ہوا کرتے تھے۔اور ہم نصرت گرلز کی تمام طالبات اس میں شامل ہوتی تھیں۔کیا ہی پیارا نظارہ ہوتا تھا کہ ہم استانیوں کے ہمراہ لائینوں میں درس میں حاضر ہوتے اور ایک نوٹ بک بھی ساتھ ہوتی۔ پھر درس القرآن کے نوٹس لکھ کر واپس سکول آجاتے جو زیادہ دورنہ تھا۔
کیا روحانی سماں تھا۔ حضور ؓکی دونوں بیگمات ہمراہ ہوتی تھیں۔حضور ایک کرسی پر بیٹھے اتنے پیارے انداز میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر سمجھاتے کہ مزہ آجاتا۔
اکثر ہماری امی جان خاندان مبارکہ کی مقدس خواتین سے تعارف کروانے کے لیے ہمیں لے جاتی تھیں۔گرمی کے دن ہوتے تھے۔ ہم ٹانگہ لے لیتے تھے۔امی جان نے ہمارے اندراتنا شوق پیدا کر دیا تھا کہ ہم فرمائش کیا کرتے تھے کہ اب کون سی بیگم صاحبہ سے ہمیںملوانے لے کر جانا ہے۔حضرت اماں جانؓ، نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ، نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ ،آپا منصورہ بیگم صاحبہ سے کئی بار شرف ملاقات حاصل کر چکی ہوں۔باجی محمودہ بیگم صاحبہ اور عزیزہ بیگم صاحبہ والدہ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سے میرا فرداً فرداً تعارف رہا۔ میںاپنی امی جان کی ممنون ہوں جنہوں نے ان پیاری ہستیوں کی قدر اور محبت میرے دل میں بڑھائی۔
حضرت مہر آپا کے تو نام سے ہی مہر اور محبت ٹپکتی تھی۔حضرت چھوٹی آپا جان نے احمد نگر میں جو ربوہ کے قریب ایک چھوٹا سا گائوں ہے، تشریف لا کر میرے نکاح کی انگوٹھی اپنے ہاتھوں سے مجھے پہنائی تھی اور دعائوں سے جھولی بھر دی تھی۔فجزاہا اللہ احسن الجزاء۔
محترمہ مہر آپا صاحبہ سے ہماری باجی ممتاز صاحبہ کو بہت دوستانہ اور محبت کا تعلق تھا۔ان کو اور بچوں کو بہت پیار کرتی تھیں۔بھائی جان اشرف ان دنوں پرائیویٹ سیکرٹری تھے اور باجی ممتاز نے ہماری شادی کی تیاری میں ان سے مشورہ اور تجاویز لی تھیں۔
میری ساس صالحہ ایاز صاحبہ بھی بہت نیک اور دعاگو خاتون تھیں۔بہت خوش ہوتی تھیں کہ سیدہ مہرآپا نے کہا ہے کہ افریقہ سے آ کر یہاں ربوہ میں ہی شادی کرنی ہے۔سب انتظام ہو جائے گا۔
کالج میں یعنی جامعہ نصرت میں اس ہستی کو خدا نے خاص مقام عطا کیا۔آپ کے انتظار میں ایک مزہ اور پیار ہوتا تھا۔ ہم چشم بررہ کئی گھنٹوں تک بیٹھا کرتے مگرکبھی گھبرائے نہیں مگر جونہی آمد ہوئی خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ در اصل آپ بےحد معمورالاوقات تھیںاور اپنی ازدواجی ذمہ داری کو بھی احسن رنگ میں ادا کرتی تھیں۔ اجتماعی اور تعلیمی سرگرمیوں میں بھی ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں او ر خوش لباس بھی تھیں مگر جب جامعہ نصرت کی کھیلیں ہوتیں تو سب طالبات کی طرح نہایت نفیس سفید رنگ میں یونیفارم پہن کر آتیں۔ اس لباس میں آپ بہت ہی سندر دکھائی دیتیں۔ مینا بازار میں بھی کبھی جلوہ افروز ہوتیں تو ہماری رونق میں اضافہ کردیتیں۔
ہمارے گھر میں شادی بیاہ کے موقع پر امی جان ضرور خواتین مبارکہ کو مدعو کرتیں۔ مہر آپا جان، اگر حضور کی باری آپ کے ہاں نہ ہوتی تو ضرور تشریف لاتیں وگرنہ معذرت کے ساتھ تحائف بھجواتیں اور پھر کسی اور موقع پر ملاقات ہوتی تو مبارک باد اور معذرت پیش کرتیں اور پوچھتیں کہ آپ کا بیٹا یا بیٹی جس کی شادی پر بلایا تھا خوش ہے ناں!
جامعہ نصرت کے مشاعرہ میں بھی آپ دلچسپی لیتیں اور شعر و شاعری سے محظوظ ہوتیں۔ باجی قدیر صاحبہ کی بڑی مداح تھیں۔
چونکہ میری شادی بھی ایسے گھر میں ہوئی جن سے پہلے سے سیدہ مہر آپا کے بہت اچھے مراسم اوربہت محبت و خلوص کا سلوک تھا آپ سے سب کو بہت پیار تھا۔ میرا رشتہ یہاں طے ہونے پر بہت خوش ہوئیں اور شادی کے موقع پر ہر طرح سے میری باجی ممتاز اور میری ساس محترمہ صالحہ صاحبہ کی ہر طرح سے مدد کی اور خوشیوں میں شامل ہوئیں۔میری بَری میں بھی سیدہ مہرآپا کی پسند کے سوٹ شامل تھے اور کھانے کا مینیو بھی آپ نے ہی بنایا تھا۔ماشاء اللہ شادی کے اگلے دن بنفس نفیس تشریف لائیں اور کہا کہ ناشتے کے بعد میں خود دلہن بنائوں گی تم نے تو رو رو کر برا حال کر رکھا ہے۔آج مت رونا، بہت لوگوں نے تمہیں دیکھنا ہوگا۔
ہماری شادی احمد نگر میں ہوئی اور وہاں سے رخصت ہو کر میں باجی ممتاز کے گھر میں ہی لائی گئی تھی۔اگلی صبح ہی مہر آپا تشریف لائیں اور مجھے پیار کیا اور گلابی رنگ کا سوٹ پہنا کر چلی گئیں۔
ہماری پیاری مہر و وفا کی خوبصورت آپا جان بہت سادہ اور خوش مزاج تھیں۔ان کی مسکراہٹ مجھے بہت پسند تھی۔میری شادی کی بات جب قصر خلافت ربوہ میں افتخار صاحب سے طے ہوئی تو باجی ممتاز مسز اشرف کا دن رات مہر آپا کے پاس آنا جانا ہوتا تھااور انہوں نے بھی کہہ رکھا تھا کہ ممتاز تم اجازت لینے کی نہ سوچا کرو جب بھی کوئی کام یا مشورہ ہو تو آجایا کرو۔
مَیں جب بیاہ کر ربوہ آئی تو گھر قصر خلافت کے ساتھ تھا۔ آپ تشریف لائیں، پیار کیا اور اگلے روز خود بنفس نفیس دلہن بناکر گئیں اور پھر چند روز کے بعد الوداعی دعوت کے لیے اپنے گھر بلایا اور بے شمار دعاؤں سے رخصت کر کے مسکراتے ہوئے فرمایا باسط افریقہ جاکر بھول نہ جانا۔ پھر فرمایاکہ اکثر لڑکیاں بھول جاتی ہیں ناں اس لیے کہہ رہی ہوں۔خط و کتابت ہوتی رہی اور جب تین سال کے بعد میں واپس وطن لوٹی تو میرے پاس خطوط جو دعاؤںکے علاوہ نصائح سے بھرے ہوئے تھے خاصے جمع تھے ۔میں اب ان کو یاد کرتی ہوں تو آپ کی بے نظیر ہستی سے دوبارہ ملاقات نہ ہوسکنے پر کفِ افسوس تو ضرور ملتی ہوں مگر آپ کی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کرتی ہوں۔
اسی دوران ایک دن میں نے اور میری ساس صاحبہ نے آپ سے ملنے کا پروگرام بنایا۔ اماں جی کسی اور مہمان کے گھر آجانے کی وجہ سے نہ جاسکیں اور مجھ سے کہنے لگیں کہ تم اکیلی ہی ہو آؤ۔ مہر آپا ضرور انتظار کررہی ہوں گی۔ اور اگر ہم میں سے کوئی بھی نہ گیا تو ان کو خواہ مخواہ تکلیف ہوگی۔ اور وہ پریشان بھی ہوجایاکرتی ہیں چونکہ اماں جی کی طبیعت اکثر ان دنوں خراب رہاکرتی تھی۔ خیر میں اکیلی ہی چلی گئی۔ آپ صحن میں شروع سردیوں کی ہلکی دھوپ میں تخت پر گاؤتکیہ لگائے بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھیں۔ مجھے آتے دیکھ کر کہا آؤ آؤ بیٹھو تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں اچھا کیا کہ آج تم اکیلی آئی ہو جب میں نے بتایا کہ اماں جی بھی ساتھ آنے والی تھیں مگر کوئی مہمان گھر پر آگئے تھے اس لیے وہ معذرت کر رہی تھیں۔ اس پر قدرے ہلکا قہقہہ لگا کر کہنے لگیں یہ تو بہت اچھا ہوا اور انہیںکیا معلوم کہ یہ انتظام اللہ نے میرے لیے کیا، آؤ میرے اور قریب ہو کر بیٹھو اور بتاؤ کہ اب تمہاری امی خوش ہیں اور مطمئن بھی ہوں گی تم سے مل کر۔ جب تمہیں افریقہ روانہ کیا تھا تو تمہاری امی بہت بیمار ہوگئی تھیں ایک تو پردیس دوسرے تمہارا دوہرا سسرال یعنی دو دو ساسیں۔میں نے عرض کیا کہ یہ اللہ کا فضل عظیم مجھ پر ہے کہ مجھے تو دوطرفہ پیار و محبت ملتا ہے دونوں ساسیں مجھ سے بہت پیار کرتی اور قدر کرتی ہیں۔ اس پر فرمایا کہ اللہ کرے تمہیں ہمیشہ ہی پیار ملے اور پھر میری خوب خوب خاطر و مدارات کی۔ کس قدر شفیق مائیں تھیں ہماری۔ اللہ تعالیٰ ہماری پیاری مہر آپا کو کروٹ کروٹ پیار دے آمین۔
پھر لندن آکر بھی جب جب آپ تشریف لاتیں تو آپ سے ملنے کے لیے پہلے سے ہی پروگرام بنالیتی اور اپنے بچوں کو ملوانے بھی لے جاتی رہی۔ بہت ہی پیار کرنے والی تھیں۔ میں نے ایک بار آپ سے پوچھا کہ مہر آپا آپ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ آپ کو خدا نے پلاپلایا بیٹا دیا اور اس کی پرورش بھی آپ نے اتنی عمدگی سے کی اور آج خدا نے اسی بیٹے کو خلافت کی مسند پر متمکن فرمایا ہے تو آپ کو یہ دیکھ کر خوشی تو ہوتی ہوگی۔ فرمایا ہاں میں بھی اب ایک خلیفہ کی بیوی اور دو خلفا ءکی ماں کہلاتی ہوں مگر حضرت صاحب سے (یعنی حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ) مجھے خاص ہی پیار ہے۔ ان کی تو ادائیں ہی سب بچوں سے الگ ہیں، مجھ سے بہت پیار کرتے اور میرا بہت ہی زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ جب سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فوت ہوئے ہیں مجھے انہوں نے کسی قسم کی کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں آنے دی اور میرے بھائیوں سے بھی بہت اچھا سلوک کیا اور خیال رکھتے ہیں۔ نسیم شاہ سے تو اس قدر دوستی ہے کہ کچھ نہ پوچھو۔ پھر ساتھ ہی آپا آصفہ بیگم مرحومہ کی بےحد تعریف کرتی رہیں کہ’آچھی ‘بھی بہت ہی اچھی ہے میرے آنے کے لیے پہلے سے ہی تیاری شروع کردیتی ہے۔کمرہ الگ، ہرچیز میری پسند کی اور قرینے کا بہت ہی خیال رکھتی ہے حتیٰ کہ کھانے،آرام اور سیر و شاپنگ کا خودد ھیان رکھتی ہے کہ مہر آپا آپ کو یہاں آکر کوئی تکلیف نہ ہو بلکہ ہر طرح سے آرام اور علاج بھی کرواتی ہے۔
ایک مرتبہ میری دعوت پر مہر آپا جان دیگر خواتین مبارکہ کے ہمراہ کھانے پر میرے غریب خانہ پر تشریف لائیں اور بہت دیر تک تشریف فرمارہیں اور خوب اچھی اچھی باتیں کرتی رہیں۔ میری ملنے والی بہنیں جو ساتھ مدعو تھیں کہنے لگیں کہ تم واقعی خوش قسمت ہو کہ آج اتنی مبارک ہستیاں تمہارے گھر تشریف لائی ہیں۔ ان میں آپا جان آصفہ بھی اور سیدہ مہر آپا جان بھی موجود تھیں۔ اب واقعی اس کمی کا بہت احساس ہوتا ہے اور اپنی خوش قسمتی ہی سمجھتی ہوں کہ میں ان کو مدعو کر سکی اور برکت حاصل کر سکی الحمدللہ کاش وہ زندہ ہوتیں !!
سیدہ مہر آپا جان کی طبیعت میں مزاح بھی خوب تھا۔ میری دوسری بیٹی بشریٰ سلمہ ربوہ میں پیدا ہوئی۔ جب وہ ڈیڑھ ماہ کی ہوئی تو میرا واپس افریقہ جانے کا پروگرام بنا۔ میری ساس صاحبہ مجھے اور بچی کو مہر آپا سے ملوانے ساتھ لےگئیں۔اس دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو کھا نا کھلانے اور آپ ؓکی نگہداشت کی ڈیوٹی سیدہ مہرآپا کی تھی چونکہ حضورؓ بستر پر ہی آرام فرما رہے تھے۔ میں اس کو لے کر آپ کے پاس گئی اور اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے اس کو گود میں لے لیا اور کہا یہ گوری گوری میم کہاں سے آگئی ہے کتنی پیاری ہے، ماشاء اللہ۔ نام پوچھا تو بتایا کہ ابھی تو بڑی بہن رافع نے بشریٰ ہی کہنا شروع کر دیا ہے آپ حضور سے رکھوادیں۔ جھٹ اندر لے گئیں جہاں حضورؓ آرام فرمارہے تھے حضور نے پوچھا یہ کس کی بچی ہے۔آپ نے بتایا کہ یہ مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کی نواسی اور مختار احمد ایاز صاحب کی پوتی ہے۔اسی کا نام تجویز کروانے آئی ہیں۔اور واپس آکریہ بھی بتایا کہ حضورؓنے تمہارا نام پوچھا اور بڑی بیٹی کا اور اس کا نام امۃالحلیم بشریٰ رکھا ہے اللہ مبارک کرے اور ہاں سنو! مسکراتے ہوئے کہنے لگیںکہ خبردار آئندہ جو بیٹی پیدا کی کیا بیٹیوں پر بیٹیاں چلی آتی ہیں۔
اللہ اپنے پیاروں کے منہ کی بات کی کیسے لاج رکھتا ہے اگلے ہی سال ہمارا بیٹا پیدا ہوا الحمد للہ۔ یہ خوشخبری سن کر بہت خوش ہوئیں اتنا پیار کرے گا کون!
مہر آپا کی جلسہ سالانہ ربوہ کی تقاریر بھی بڑی ہی محنت سے تیار کی ہوتی تھیںاور بولنے کا انداز بھی بڑا اچھوتا ہوتا تھا۔اگرچہ مَیں تب چھوٹی ہی تھی تاہم آپ کی تقریر سننے کا اس قدر شوق ہوتا تھا کہ جلسہ گاہ جانے کے لیے سب کام جلدی جلدی پورے کر کے آگے جگہ لینے کی کوشش ہوتی۔ اگر جلسہ گاہ میں ڈیوٹی بھی ہوتی تو اگلی صفوں میں ہی لگواتی تاکہ ان قیمتی پھول برسانے والی ہستی کی آواز بخوبی سن سکوں اور گھر واپس آکر ہمارے اباجان بھی ہم سے پوچھا کرتے تھے کہ پھر سنی تم نے مہر آپا کی تقریر اور بتاؤ مضمون کیا تھا ؟گویا ہمارا امتحان ہی ہوجاتا تھا۔ وہ دن بھی کیا دن تھے۔
ایک مرتبہ جب میں افریقہ سے واپس آئی،میں نے اپنی سا س صاحبہ سے جب ذکرکیا کہ میں مہر آپا سے ملنا چاہتی ہوں اور ان کے لیے تحفہ بھی لائی ہوںجو ان کو خود مل کر دوں گی۔ میرے ایاز صاحب مجھے اپنے ساتھ ٹانگے میں بٹھا کر لے گئے۔ خود تو دفتروں میں ملاقاتوں کے لیے چلے گئے اور میں اکیلی جھجکتی ہوئی سیدہ مہرآپا سے ملنے کے لیے ان کے دالان میں جاپہنچی۔
لندن میں جب آخری بار مہر آپا جان تشریف لائیں تو اکثر گھر پر ہی آرام کیا۔ ان کی طبیعت اتنی اچھی نہ تھی۔ مدعو کرنے پر بھی معذرت ہی کردی اور کہا کہ بس یوں ہی میرے پاس آکر مل جایاکرو یہی میری دعوت ہوگی۔ لہٰذا میں اکثر جاتی اور کئی کئی گھنٹے آپ کے پاس بیٹھی رہتی اور اچھی اچھی باتیں سنتی اور سیکھتی۔ الوداعی سلام اور خدا حافظ کہتے ہوئے میں نے مڑ کر دیکھا تو آپ ایک بیگ میں ایک تحفہ میرے لیے لارہی تھیں اور کہا سنو یہ چھوٹی سی چیز ہے یاد رکھنا اور دعا کرنا۔
اسی ملاقات کی بات ہے کہ میں نے جاتے ہی آپ کو دیکھا کہ آپ پیسے گن رہی ہیں اور کچھ پریشان سی لگ رہی ہیں۔ میں نے پوچھا مہر آپا کیا بات ہے؟ فرمایا: میں نے کسی سے پاکستان ساتھ لے جانے کے لیے کوئی چیز منگوائی ہے اور اب مجھے اس کو رقم دینی ہے اور حضور مجھے خرچ نہیں کرنے دیتے یعنی سبھی خرچ خود کرتے ہیں مگر یہ تو میں نے تحفہ دینے کے لیے کسی سے منگوائی ہے اس کی ادائیگی تو مجھے خود کرنا چاہیے اور تم گنو یہ کتنے پاؤنڈ ہیں۔ میں نے گن کر بتایا تو کہنے لگیں کہ یہ تو کم ہیں ۔مگر جھٹ کہنے لگیں یہ جو لفافہ تم نے دیا ہے اس میں کیا ہے؟ فوراً کھول کر کہا لو خدا نے کام کر دیا اور مجھے کہا کہ گنو کتنے کم ہیں دیکھا تو جو کمی تھی پورے کے پورے اس لفافے والے پاؤنڈز سے اللہ نے پوری کر دی الحمد للہ۔ ثم الحمد للہ۔
بس یہی تھیں مختصر اور پیار بھری باتیں۔ڈھیروں دعائوں کے ساتھ اپنی یادوں کے دریچے بند کرتی ہوں۔اللہ تعالیٰ مہر و وفا کی اس پیکر کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے