مکرم مزے عثمانی گاکوریا صاحب مرحوم کا ذکرخیر
کینیا جماعت کے ایک دیرینہ خادم اور نہایت ہی مخلص ممبر مکرم مزے عثمانی گاکوریا صاحب ایک مختصر علالت کے بعد ۳؍دسمبر ۲۰۲۳ء کو ممباسہ شہر کے ’’پا نڈیا میموریل ہسپتال ‘‘ میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے،انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ سید نا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ ۲۲؍دسمبر ۲۰۲۳ء کے خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر خیر فرمایا اور بعد نمازجمعہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
مرحوم کا تعلق کینیا کے صوبہ کوسٹ کے ضلع کوالے کے ’’ڈیگو ‘‘ (DIGO) قبیلہ سے تھا۔ آپ ۱۹۳۲ء میں ایک کٹر سنی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کا کوئی پرائمری سکول اس علاقے میں نہیں تھا اور مسلمان اپنے بچوں کو اس خوف کے پیش نظر عیسائی مشنری سکولوں میں داخل نہیں کراتے تھے کہ وہاں ان کے بچوں کو عیسائی بنا لیا جائے گا۔ اس ماحول میں آپ نے ضلع کوالے (KWALE)کے ’’ وا‘‘ (WAA) پرائمری سکول سے پرائمری ایجوکیشن مکمل کی اور پھر اس وقت کے سنٹرل صوبہ کے شہر تھیکہ (THIKA) کے تھیکہ ٹیکنیکل سکول سے ٹیکنیکل تعلیم حاصل کی جس کے بعد خوش قسمتی سے آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے منتخب ہو گئے اور سرکاری خرچ پر آپ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے آسٹریلیا چلے گئے۔جہاں سے وطن واپسی پر آپ کی پہلی پوسٹنگ کوالے ٹیکنیکل سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر ہوئی ۔آپ یہا ں متعیّن ہونے والے پہلے مقامی ہیڈ ماسٹر تھے۔ بعد ازاں آپ کو ویسٹرن صوبہ کے SIGALAGALA TECHINAL SCHOOL کا ہیڈ ماسٹر تعینات کیا گیا یہاں بھی آپ پہلے مقامی ہیڈ ماسٹر تھے اور اس بات کا آپ تحدیث نعمت کے طور پر ذکر کرتے تھے، (آجکل کینیا میں صوبوں کی بجائے کاؤنٹی سسٹم کام کر رہا ہے اس سے قبل ملک کی انتظامی تقسیم صوبوں کے لحاظ سے تھی )جس کے بعد آپ نیروبی ٹیکنیکل سکول کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ بعدہٗ آپ کو منسٹری آف ایجوکیشن میں بعض انتظامی امور کا انچارج بنایا گیا جہاں آپ نے ۱۹۸۸ء اپنی ریٹائر منٹ تک کام کیا۔ریٹائر منٹ کے بعد آپ کو ٹیچرز سروس کمیشن میں کمشنر مقرر کیا گیا جہاں آپ نے تین سال تک بطور کمشنر فرائض منصبی ادا کیے۔جس کے بعد ۲۰۰۱ء میں آپ مستقل طور پر اپنے آبائی علاقہ DIANI اکونڈا صوبہ کوسٹ منتقل ہو گئے۔ جہاں اپنی وفات تک مقیم رہے۔
مکرم عثمانی گاکوریا صاحب کو ساٹھ کی دہائی میں ممباسہ کے ایک مخلص عرب احمدی مکر م سالم عفیف صاحب مرحوم کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچا اور آپ بعد از تحقیق مبلغ سلسلہ مولانا روشن دین صاحب مرحوم کے ذریعے۱۹۶۴ءمیں بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئےجس کے بعد آپ نے خدمت دین کو اپنے ہر کام پر مقدم رکھا اور جماعت کی خدمت کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔آپ نیروبی میں قیام کے دوران متعدد بار نیروبی جماعت کی مجلس عاملہ کے ممبر رہے بلکہ آپ کو نیروبی جماعت کے پہلے مقامی صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔آپ کینیا کے ابتدائی مقامی احمدی موصیان میں سے ایک تھے۔آپ نے۱۹۸۸ءمیں وصیت کی توفیق پائی اور خدا کے فضل سے ۱۹۸۹ء میں آپ کی وصیت منظور ہو گئی۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور سواحیلی زبان کے علاوہ آپ کو انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دونوں زبانوں میں جماعت کی صداقت اور ابلاغ حق کے لیے جماعتی اور ملکی اخبارات میں مضامین لکھنے اور متعدد پلیٹ فارمز پر تقاریر کرنے کی بھی توفیق ملی۔آپ امراء جماعت احمدیہ اور مرکزی مبلغین کے ساتھ سرکاری دفاتر،سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر بھی ابلاغِ حق کا فریضہ سر انجام دیتے اور جماعت کے انتظامی امور کی انجام دہی میں مدد کرتے۔آپ کو جماعت کی متعدد کتب کا سواحیلی زبان میں ترجمہ کرنے کی بھی توفیق ملی جن میں ’’الوصیت ‘‘، کفن مسیح، اسلام کی منفرد خصوصیات، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منتخب تحریرات پر مبنی کتابچہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا لیکچر آسٹریلیا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں جماعت کی کئی کتب جن کا آپ نے سواحیلی زبان میں ترجمہ کیا وہ اشاعت کے مراحل میں ہیں۔
مکرم گاکوریا صاحب مرحوم ۱۹۷۳ء میں جلسہ سالانہ ربوہ میں کینیا جماعت کے نمائندہ کے طور پر شریک ہوئے اور آپ کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ سے شرف ملاقات بھی حاصل ہوا ۔آپ ربوہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی شفقت اور جلسہ سالانہ ربوہ کی خوشگوار یادوں کا تذکرہ بڑی محبت اور عقیدت سے کرتے تھے۔
مرحوم گاکوریا صا حب مبلغین سلسلہ اور واقفین زندگی کا بے حد احترام کرتے تھے اور ہمیشہ ان کے ممد و معاون رہے۔ اگر کوئی احمدی عدم تربیت کی وجہ سے کسی مرکزی مبلغ کے بارے میں کوئی شکایت یا کوئی نامناسب بات کرتا تو آپ اسے نہ صرف روکتے بلکہ اسے کہتے کہ دیکھو ان لوگوں کے ذریعے احمدیت کا نور ہم لوگوں تک پہنچا ہے اس لیے ہمیں ان کی عزت اور قدر کرنی چاہیے اور دعاؤں اور تعاون سے ان کے کام میں ان کی معاونت کرنی چاہیے آپ ہمیشہ مقامی احمدی نوجوانوں کو وقف کر کے خدمت سلسلہ بجا لانے کی ترغیب بھی دیتے تھے اور خود بھی دامے درمے سخنے خدمت سلسلہ بجا لانے کے لیے تیار رہتے۔آپ کے بیٹے مکرم عبد العزیز گاکوریا صاحب جو اس وقت بطور صدر مجلس انصار اللہ کینیا خدمت کی توفیق پا رہے ہیں بیان کرتے ہیں کہ مجھے مولانا عبدالکریم شرما صاحب مرحوم سابق امیر و مبلغ انچارج کینیا نے جلسہ سالانہ یو کے منعقدہ ۲۰۰۸ء میں ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ آپ کے والد صاحب ہمہ وقت اور ہر لحاظ سے خدمت سلسلہ کے لیے تیار رہتے تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ رنگ میں اس کی بجا آوری کی کوشش کرتے۔نیروبی قیام کے دوران جب انہوں نے پہلی نئی کار خریدی تو انہوں نے مجھے کہا کہ میری خواہش ہے کہ اس کار کا پہلا سفر تبلیغ اسلام کے لیے ہو۔ چنانچہ ہم ایک علاقہ میں جانے کے لیے عازم سفر ہوئے۔راستے میں ایک برساتی نالہ پڑتا تھا اس دن اس میں پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا مگر آپ کے والد صاحب نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس نالہ کو عبور کرنے کے لیے گاڑی پانی میں ڈال دی ایک مقام پر پانی بہت گہرا اور تیز تھا جس کی وجہ سے مجھے تشویش بھی ہوئی مگر آپ کے والد صاحب بالکل مطمئن ہوکر گاڑی آگے بڑھاتے رہے اور بالآخر گاڑی صحیح سلامت دوسرے کنارے تک پہنچ گئی ۔یہ ان کی توکل علیٰ اللہ اور سلسلہ کی خاطر ہر طرح کی قربانی کے جذبے کا عظیم ثبوت تھا۔
مکرم عثمانی گاکوریا صاحب نماز با جماعت کے پابند اور تہجد گزار تھے۔آپ خود بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتے اور دوسروں کو بھی اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان پر عمل کی تلقین کرتے۔آپ سادہ طبیعت کے مگر بااصول اور راست گو شخص تھے آپ نے ہمیشہ دیانت داری سے اپنے دفتری اور جماعتی امور کو سر انجام دیا۔آپ میں تکبر اور ریاء نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ دوسروں کا احترام کرنے والے اور مخلوق خدا کے ہمدرد تھے۔
مکرم عبد العزیز صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ اگرچہ ہمارے والد صاحب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی تھے اور گورنمنٹ میں کئی معزز عہدوں پر فائز رہے مگر اپنے کم تعلیم یافتہ بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں سے ہمیشہ محبت اور رواداری سے پیش آتے اور عند الضرورت ان کی مالی مدد بھی کرتے اور خاندان سے باہر بھی کئی لوگوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے۔آپ کی مروّت کا یہ عالم تھا کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل ایک دن آپ کو ایک رشتہ دار کا فون آیا جو ہمارے گھر آنا چاہتا تھا مگر اسے ہمارے گھر کا محل وقوع معلوم نہ تھا آپ نے اسے فون پر سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ سمجھ پایا۔چنانچہ آپ نے اسے بس سٹینڈ پر ہی رکنے کا کہا اور خود باوجود بیماری کے پیدل تین کلو میٹر چل کر اسے لینے کے لیے بس سٹینڈ پر گئے۔ آپ نے مزید بتایا کہ ہمارے والد صاحب ہماری تربیت اور ہمیں جماعت سے وابستہ ر کھنے کے سلسلہ میں بہت حساس تھے جب اکو نڈا میں جماعت قائم ہوئی تو ہمارے گھر میں ہی نماز سنٹر بنایا گیا۔میرے والد صاحب ہر روز نماز مغرب سے لے کر نماز عشاء تک ہماری کلاس لیتے اور سب نمازیوں کو اسلامی تعلیمات کا سبق دیتے۔پھر جب کرایہ پر مکان لے کر نماز سنٹر قائم کیا گیا تو بھی آپ اپنی روٹین کے مطابق ہماری اور دیگر احباب جماعت کی تربیت کے لیے باقاعدہ کلاس لیتے رہے اور عندالضرورت خطبہ جمعہ بھی دیتے جس میں نہایت سلیس اور دلنشین انداز میں تربیتی اور تعلیمی امور اور جماعت کے عقائد بیان کرتے۔ بلا مبالغہ آپ نے اکونڈا جماعت کے قیام اور پھر وہاں مسجدو مشن ہاؤس کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آپ بے حد مہمان نواز تھے اور مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ دعوت الیٰ اللہ کا بھی خاص اہتمام کرتے۔ آپ نے گھر میں جماعت کی کتب ریک میں اس طرح ترتیب دے رکھی تھیں کہ یہ نمایاں طور سے مہمان کی نظر میں رہیں اور آپ نے دعوت الیٰ اللہ کے لیے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصاویر خوبصورت فریم میں نمایاں طور پر لگا رکھی تھیں اور مہمانوں کو ان سے متعارف کراکے دعوت الی اللہ کرتے۔ ۲۰۲۳ء کے شروع میں آپ کے سابقہ طلبہ کا ایک گروپ جس میں بیس افراد شامل تھے آپ سے ملنے آپ کے گھر آیا آپ نے مہمان نوازی کے علاوہ ان سب کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ( Pathway to Peace) کی ایک ایک کاپی تحفۃً دی۔
مولانا ناصر محمود طاہر صاحب امیر و مشنری انچارج کینیا نے مکرم گاکوریا صاحب مرحوم کے بارے میں بتایا کہ مجھے اپنے ممباسہ (کوسٹ ریجن) میں قیام کے دوران مزے گاکوریا صاحب کے ساتھ کام کرنے اور انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ بہت ہی صاف دل،دعا گو بزرگ تھے آپ تبلیغی اور تربیتی کاموں میں بہت ممد تھے اور ہمیشہ محبت و شفقت سے پیش آتے۔آپ کو خلافت احمدیہ سے بہت محبت و عقیدت تھی اور آپ واقفین زندگی کا بہت احترام کرتے تھے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹیوں اور سات بیٹوں سے نوازا۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی ساری اولاد اپنے اپنے طور پر جماعت کی خدمات میں مصروف ہے آپ کے بیٹے مکرم عبدالعزیز گاکوریا صاحب صدر مجلس انصاراللہ کینیا بیان کرتے ہیں کہ جب میں صدر مجلس انصاراللہ کینیا منتخب ہوا تو آپ مجھے میرا نام لے کر بلانے کی بجائے صدر صاحب کہہ کر مخاطب کرتے ۔میں نے کہا کہ میں آپ کا بیٹا ہوں آپ مجھے میرا نام لے کر بلائیں تو کہنے لگے کہ نہیں اب تم خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے میرے صدر ہو۔اس سے آپ کے دل میں خلافت احمدیہ سے محبت اور اس کی اطاعت کے جذبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو چار خلفاء احمدیت کا زمانہ دیکھنے کی توفیق ملی اور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ سے ربوہ میں اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ سے ان کے کینیا کے دوروں کے دوران ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔آپ خلفائے احمدیت کے ارشادات کی تعمیل اور ان کی جملہ تحریکات میں شامل ہونے کی پوری پوری کوشش کرتے اور یہی سبق انہوں نے اپنی اولاد کو بھی دیا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور انہیں نہ صرف ان کی نیکیوں کو قائم رکھنے والا بنائے بلکہ ان میں مزید ترقیات کی توفیق بخشے۔آمین