اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورۂ جرمنی ۲۰۱۷ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ دوم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
ایک منفرد ملاقات
13؍اپریل 2017ء بروز جمعرات درجنوں احمدی فیملیز کو حضورِانور سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ معمول کے مطابق یہ ملاقاتیں حضورِانور کے دفتر میں ہوئیں تاہم ایک ملاقات جو محمد افضل صاحب کی فیملی کی تھی، وہ کچھ منفرد تھی۔ ان کے بیٹے عزیز م راول افضل (عمر 26؍سال) نے ساری عمر پٹھوں کی تکلیف میں گزاری تھی جس کی وجہ سے وہ وہیل چیئر پر تھا۔
جب ان کی ملاقات کا وقت آیا تو ان کی فیملی نے کوشش کی کہ وہ راول کو حضورِانور کے دفتر میں لے جا سکیں لیکن وہیل چیئر کی چوڑائی کی وجہ سے مشکل درپیش تھی۔ اس کوشش کے دوران حضورِانور نے راول کو فرمایا کہ وہ باہر ہی انتظار کریں جبکہ باقی فیملی حضورِانور کے دفتر میں داخل ہوگئی۔ بعد ازاں حضورِانور بنفسِ نفیس باہر تشریف لائے اور راول سے انتظار گاہ میں ملاقات فرمائی۔ حضورِانور نے اس سے اس کی طبیعت کے بارے میں دریافت فرمایا۔ یوں راول کو ایک منفرد انداز میں ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی اور اس ساری فیملی کو حضورِانور کے دفتر سے باہر تصویر بنانے کا موقع بھی ملا۔
بعد ازاں مکرم محمد افضل صاحب نے بتایا کہ ہم کس قدر خوش قسمت ہیں کہ ہمارے خلیفہ ہم سے اس قدر محبت اور شفقت سے پیش آئے، خاص طور پر ہمارے بیٹے سے۔ اپنے آرام کو نظر انداز فرما کر اور مصروفیات سے فرصت نکال کر ہمارے خلیفہ نے ایک غیر معمولی طریق پر ہم سے محبت کا سلوک فرمایا ہے۔ اس سے بڑی کس سعادت کی خواہش ہم کر سکتے ہیں ؟
مجھے خود راول سے بھی بات کرنے کا موقع ملا جنہوں نے مجھے اپنی طبیعت کے بارے میں بتایا اور حضورِانور سے اپنی ملاقات کے بارے میں بھی بتایا۔ عزیز م راول نے بتایا کہ میں پاکستان میں ساہیوال کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا جہاں میرے علاج معالجہ اور موجودہ حالت کے لیے کوئی علاج یا ٹیسٹ میسر نہ تھا۔ دراصل ہمیں ابھی بھی حتمی طور پر اس بات کا علم نہیں ہے کہ آیا میں اس بیماری کے ساتھ پیدا ہوا تھا یا پیدائش کے چند ماہ بعد یہ بیماری ظاہر ہوئی تھی۔ بہرحال میں کبھی بھی چل نہیں سکا۔ میری ٹانگیں مکمل طور پر مفلوج ہیں اور میں اپنے ہاتھوں کو ایک بہت ہی محدود حد تک حرکت دے سکتا ہوں۔
عزیز م راول نے مزید بتایا کہ اللہ کے فضل سے میں نے کبھی بھی اپنی بیماری کو اپنے خلیفہ کے ساتھ تعلق بنانے میں روک نہیں بننے دیا۔میں حضورِانور کو باقاعدگی سے اس طریق پر خط لکھتا ہوں کہ اپنے منہ سے پنسل پکڑ کر آگے جھکتا ہوں اور نارمل keyboard پر اپنے منہ سے کنٹرول کرتے ہوئے ٹائپ کرتا ہوں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میں اب کس قدر تیز رفتاری سے ٹائپ کر سکتا ہوں۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو زندہ رہنے کے لیے اتنی طاقت ضرور دیتا ہے جس کی اس کو ضرورت ہوتی ہے یا ایسے امور کو بجا لانے کے لیے جن کا اس کو سامنا ہوتا ہے۔
بعد ازاں راول نے مجھے ایک ویڈیو بھیجی جس سے مجھے پتا لگا کہ وہ کس طرح ٹائپ کرتا ہے اور اس کو منہ میں ایک پینسل ڈال کر ٹائپ کرتے ہوئے دیکھنا یقینا ًمتاثر کن تھا۔ یقینی طور پر اس کی ٹائپنگ سپیڈ ایک عام صحت مند آدمی کی نسبت کافی تیز تھی۔
اپنی ملاقات کے بارے میں عزیز م راول نے بتایا کہ حضورِانور کے دفتر کے قریب جانا میرے لیے مشکل ہو رہا تھا کیونکہ میری وہیل چیئر الیکٹرانک ہے اور بہت چوڑی اور بھاری ہے۔ مسجد میں داخل ہونا اور راہ داری سے گزرنا بہت مشکل تھا اور اس نے مجھے بہت پریشان کر رکھا تھا۔جب بالآخر میں انتظار گاہ میں پہنچا تو مجھے ڈر پیدا ہوا کیونکہ مجھے وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ میں حضورِانور کے دفتر میں داخل نہ ہوسکوں گا اور میری حضورِانور سے ملاقات کی خواہش ادھوری رہ جائے گی۔
عزیزم راول نے مزید بتایا کہ جب ہماری ملاقات کی باری آئی تو میں نے اپنی فیملی کو حضورِانور کے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا لیکن وہیل چیئر کا گزرنا مشکل تھا اس لیے مجھے باہر انتظار کرنا پڑا۔ میں حضورِانور کی آواز باہر سن سکتا تھا اور میرے دل میں خیال آیا کہ میں شاید حضورِانور سے اس قدر ہی قریب ہو سکوں گا۔ تاہم جب میری فیملی کی ملاقات ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ حضورِانور میری طرف تشریف لائے ہیں یہ میرے لیے نا قابل فراموش بات تھی اور میں اپنے جذبات کو بیان نہیں کر سکتا کہ جو اس لمحہ میرے دل میں موجزن تھے۔ میں یہی سوچتا رہا کہ آیا در حقیقت ایسا ہوا ہے کہ میرے محبوب خلیفہ خاص طور پر مجھ سے ملنے باہر تشریف لائے ہیں؟حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ کے لیے یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک عام اور کمزور شخص کی خاطر اپنے دفتر سے باہر تشریف لائیں؟ لاریب حضورِانور بے انتہا شفقت اور محبت کرنے والے وجود ہیںجن کے دل میں ہر احمدی کے لیے محبت ہے۔
عزیز م راول نے بتایا کہ جب لوگ مجھے دیکھتے ہیں تو ان کا خیال ہوتا ہے کہ میری جسمانی معذوری میرے لیے سب سے مشکل امرہے لیکن ایسا نہیں ہے۔دراصل یہ ذہنی مشکلات ہیں جو میری معذوری کے ساتھ مل کر میرے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔مثال کے طور پر گذشتہ چند ماہ میں مجھے کسی بات پر توجہ مرکوز کرنے میں دشواری کا سامنا تھا اور نیند بھی اچھی نہیں آتی تھی۔ اس وجہ سے میں بہت پریشان تھا لیکن حضورانور سے ملاقات کے بعد اب میں بہت بہتر محسوس کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ حضور کی دعاؤں کی برکت سے مجھے اس ذہنی الجھاؤ سے نکلنے میں مدد ملے گی اور میں ایک خوش اور پُر امن زندگی گزار سکوں گا۔
احمدیوں کے جذبات
اس شام فیملی ملاقاتیں منعقد ہوئیں اور ملنے کی سعادت پانے والے احباب میں سے ایک مظہر عرفات (عمر35؍سال)بھی تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے آخری مرتبہ 2005ء میں حضورِانور سے ملنے کی سعادت پائی تھی،اس دوران وہ اپنے جذبات سے مغلوب ہو گئے۔ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گذشتہ بارہ سالوں میں، مَیں روحانی تشنگی کا شکار تھا۔ہر سال جب حضورِانور جرمنی تشریف لاتے تو میں ملاقات کی درخواست جمع کرواتا اور ہر سال مجھے بتایا جاتا کہ ابھی میری باری نہیں آئی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ مجھے خیال آنے لگا کہ کیا میں دوبارہ کبھی اپنے خلیفہ سے مل بھی پاؤں گا یا نہیں؟ مجھے خیال آیا کہ شاید میں روحانی طور پر اس کے لیے تیار نہیں ہوں یا اتنا اچھا نہیں ہوں کہ حضورِانور مجھ سے ملاقات فرمائیں اور میں آپ سے مصافحہ کر سکوں۔ آج بھی مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ میں اس سعادت کے قابل نہیں ہوں اور اپنے تئیں سب سے زیادہ کمزور سمجھتا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھ پر رحم فرمایا ہے۔
مظہر صاحب نے مزید بتایا کہ حضورِانور سے ملاقات کے بعد،مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے رب سے قریب ہوا ہوں۔ آج مجھے پتا چل گیا ہے کہ میرا اللہ مجھ سے محبت کرتا ہے کیونکہ یہ صرف اللہ کی محبت کی وجہ سے ممکن ہے کہ مجھے حضور سے ملاقات کی سعادت اور برکت ملی ہے۔
میری ملاقات ایک خاتون رضوانہ پرویز صاحبہ اور ان کے بیٹے سے ہوئی جو دونوں نَومبائع ہیں۔ ان کی شادی پاکستان میں ہوئی تھی لیکن علیحدگی ہو گئی اور اب وہ جرمنی میں اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ جو کہ احمدی ہیںمقیم ہیں۔ رضوانہ صاحبہ نے مجھے بتایا کہ جرمنی آتے ہوئے ان کے پہلے شوہر نے اعتراض کیا تھا اور کہا کہ وہ ان کے بیٹے کو لے کر بیرونِ ملک نہیں جا سکتیں اور پاکستان کی عدالت میں اس حوالے سے ایک کیس بھی دائر کر دیا تھا۔ ان مشکلات سے نکلنے کی بابت موصوفہ نے بتایا کہ ان عدالتی کارروائیوں کے دوران میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح احمدیوں کی مدد اور حفاظت فرماتا ہے۔جب میرے سابقہ شوہر عدالت میں گئے تو میں نے بہت دعائیں کیں اور حضورِانور کو دعائیہ خطوط لکھے۔ اچانک اور بالکل غیر متوقع طور پر ایک دن میرے سابقہ شوہر جج کے سامنے کھڑے ہوئے اور کہا کہ انہیں میرے بیٹے کو میرے ساتھ جرمنی لانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کے سابقہ رویہ کے مقابل پر یہ ایک معجزہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح خلیفہ وقت کی دعاؤں کو سنتا ہے اور اس بات نے احمدیت پر میرےایمان کو مزید تقویت دی۔
احمدیت قبول کرنے کے بعد اور اب کچھ عرصہ بطور احمدی زندگی گزار کر مجھے یقین ہے کہ میں نے حقیقی اسلام قبول کیا ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جملہ دعا وی سچے ہیں۔ میں پاکستان میں غیر احمدی مولویوں کو سنتی تھی۔ ان کی باتیں نا معقول اور بیوقوفانہ تھیں۔ اس کے بالکل برعکس حضورِانور کے خطابات کا ہر لفظ جو میں نے سنا ہےوہ نہایت معقول اور سچائی اور حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔
اپنے مسلسل جاری رہنے والے روحانی سفر کے بارے میں موصوفہ نے بتایا کہ جب ہم جرمنی آ گئے تو میں جماعت سے زیادہ منسلک نہیں تھی۔ تاہم ایک دن میرے بیٹے سعد نے مجھے بتایا کہ وہ بیعت کرنے جا رہا ہے اور جماعت میں شامل ہو رہا ہے۔اس کی عمر صرف پندرہ سال تھی مگر وہ ایک مصمم ارادہ لیے ہوئے تھا۔وہ میرے لیے ایک مضبوط سہارا اور حوصلہ افزائی کا پیکر ثابت ہوا۔ اگرچہ میں اس کی ماں ہوں اور مجھے اس کا سہارا بننا چاہیے تھا۔ اس کو دیکھ کر مجھے بھی اپنے ایمان و ایقان میں مضبوطی حاصل ہوئی۔
پہلے میں کبھی نماز نہیں پڑھا کرتی تھی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے روزانہ پنجوقتہ نماز ادا کرتی ہوں۔ میں روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتی ہوں اور اس کا ترجمہ اور تفسیر سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میرے شوہر کے بھائی مجھے جماعتی لٹریچر پڑھ کر سناتے ہیں اور مختلف امور کو سمجھنے میں میری مدد کرتے ہیں۔ اب میری صرف ایک خواہش ہے کہ میں ساری عمر ایک حقیقی احمدی مسلمان کے طور پر زندگی گزاروں اور میں دعا کرتی ہوں کہ میرے رشتہ دار جنہوں نے مجھ سے احمدیت کی وجہ سے نفرت کا اظہار کیا ہے وہ بھی احمدیت کی سچائی کو مان لیں۔اگرچہ وہ مجھ سے نفرت کر تے ہیںمگر میں ان سے محبت کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ وہ بھی خلافت کے سایہ میں سکینت حاصل کریں۔
میری ان کے بیٹے عزیز م سعد سے گفتگو ہوئی، جس نے مجھے بتایا کہ اس نے احمدیت کیوں قبول کی ہے؟ عزیزم نے بتایا کہ زیادہ تر لوگوں کو جب دنیاوی تحائف ملتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں لیکن ہم احمدیوں کو کسی دنیاوی چیز کا لالچ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سب سے بڑا تحفہ خلافت کی صورت میں عطا فرمایا ہے۔ میں پاکستان میں غیراحمدی مولویوں کو سنا کرتا تھا اور ان کا تبلیغ کا طریق میرے لیے قابلِ نفرت تھا۔ان کی مجلس کو سننا بیزار کر دینے والا تھا۔ تاہم جب میں نے حضورِانور کو گفتگو فرماتے ہوئے سنا اور آپ کے خطبات سنے تو مجھے خلافت سے محبت ہو گئی اور آپ کی گفتگو کو سننا میرے لیے احمدیت کی سچائی جاننے کے لیے کافی تھا۔ اسی لیے میں نے والدہ صاحبہ کو بتایا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہونے جا رہاہوں۔
اس دن میری ملاقات بشارت احمد شاہد صاحب (مربی سلسلہ )سے ہوئی جو حال ہی میں پاکستان سے آئے تھے اور مشرقی یورپ میں خدمت بجا لا رہے تھے۔ چند سال قبل وہ بطور مشنری قرغیزستان میں جماعت کی خدمت کی توفیق پا چکے تھے لیکن وہاں جماعتی مخالفت کی وجہ سے مقامی حکام نے انہیں اور ایک اور مربی صاحب کو ملک چھوڑنے کا کہا۔
اس وقت کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے بشارت صاحب نے بتایا مجھے یاد ہے کہ جب مجھے حکم ملا کہ قرغیزستان کو چھوڑ دوں تو میں نے مرکز کو ایک رپورٹ بھجوائی جس کے جواب میں ہمیں حضورِانور کی طرف سے ایک نہایت خوبصورت جواب ملا۔ بجائے کسی قسم کی پریشانی یا اکتاہٹ کے حضورِانور نے تحریر فرمایا کہ ہمیں فکر نہیں کرنی چاہیے اور جب بھی کوئی دروازہ یا راستہ بند ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہزاروں اور دروازے کھول دیتا ہے اور کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا۔
بشارت صاحب نے مزید بتایا کہ حضورِانور کے الفاظ بالکل سچ ثابت ہوئے کیونکہ ہمیں قرغیز زبان میں ایک ویب سائٹ تیار کرنے کا موقع ملا جو بہت شہرت حاصل کر چکی ہے اور یوں اگرچہ ہم جسمانی طور پر وہاں موجود نہیں ہیںلیکن ہماری تبلیغ وہاں رکی نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ بڑھی ہے۔ ہمیں ویب سائٹ کے ذریعہ بہت زیادہresponseملتا ہے اور مقامی لوگ بہت سے سوالات پوچھتے ہیں۔یوں ہمیں ویب سائٹ پر حضورِانور کے خطبات اور مصروفیات بھی پوسٹ کرنے کا موقع ملتا ہے تاکہ وہاں کے مقامی احمدیوں کو حضورِانور کی ہدایات اور راہنمائی سے آگاہی رہے اور ان کی تربیت ہوتی رہے۔
(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت:مظفرہ ثروت)