اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم کلام غالب رہا
1977ء میں کیتھولکس کی طرف سے قریبا ًدو صد صفحات پر مشتمل سواحیلی زبان میں ایک کتاب تنزانیہ کے شہر ٹبورا سے شائع ہوئی جو دارالسلام سے قریباً ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر دُور ہے۔اس کتاب کا نام Wana wa Ibrahim (فرزندان ابراہیم) ہے جو پادری H.P. ANGLARS کی تحریر کردہ ہے۔ اس میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ عیسائی اورمسلمان سب حضرت ابراہیمؑ کے فرزند ہیں۔مگر بدقسمتی سے مسلمان سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں اور یہ کتاب انہیں پھر سچے فرزندان ابراہیم بنانے کے لیے لکھی گئی ہے۔
اس کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر ہر قسم کے اعتراضات کیے گئے ہیں۔ مثلاً غلامی، تعدد ازدواج، اسلامی جنگیں،پردہ، متبنٰی کی مطلقہ سے نکاح وغیرہ۔ کتاب کے کثیر نسخے برائے فروخت دارالسلام کے کیتھیڈرل بک سٹور میں بھی رکھے گئے۔
مسلمانوں میں اس کتاب کی وجہ سےسخت جوش پیدا ہوا۔ مگر عملًا اس کا جواب دینے کے لیے کوئی اقدام نہ کیا گیا۔جماعت احمدیہ تنزانیہ نےاُس سال شوریٰ میں جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن چونکہ اس وقت کتابی صورت میں جواب دینے کے لیے مالی وسائل نہ تھے لہٰذا طے پایا کہ سواحیلی اخبار Mapenzi Ya Mungu میں اس کا جواب قسط وار شائع کیا جائے۔
ایک دن خاکسار دارالسلام مشن ہاؤس میں جماعتی کاموں میں مصروف تھا کہ دو دوست تشریف لائے۔ایک تو احمدی دوست مکرم ابو بکر تھے اور ان کے ساتھ مکرم محمد سالم کنگو لِیلو (Kungulilo) تھے جو دل سے احمدی تھے۔ با شرح چندہ دیتے،خلافت سے محبت رکھتے، مگر بیعت نہ کرتے تھے۔روزانہ مغرب و عشاء کی نمازیں مسجد احمدیہ میں ادا کرتے۔ باقی نمازیں گھر میں ادا کرتے۔محترم مولانا محمد منور صاحب جو عاجز سے پہلے امیر جماعت ہائے تنزانیہ تھے کے زیرتبلیغ تھے۔خاکسار نے جب اِمارت کا چارج لیا تو انہیں تلقین کی کہ آپ دل سے اور عملاً بھی احمدی ہیں مگر جماعت احمدیہ میں شمار ہونے کے لیے بیعت ضروری ہے۔ان کا خیال تھا کہ محض کاغذ پر دستخط کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ میرے اصرار پر کہنے لگے کہ اگر بیعت کروں گا تو ربوہ جا کر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ خاکسار ان کو توجہ دلانے کے لیے انہیں غیر احمدی کہا کرتا تھا مگر وہ اصرار کرتے کہ وہ احمدی ہیں۔ جب یہ دونوں آئے تو عاجز سے کہا ہم آپ سےایک بات کا وعدہ لینے آئے ہیں۔ مگر وہ بات ہم تب بتائیں گے جب آپ پہلے ہم سے وعدہ کریں کہ ہماری بات مان جائیں گے۔
خاکسار نے کہا کہ یہ شرط تو غیر اسلامی ہے کیونکہ جب مجھے علم ہی نہیں کہ آپ کا مطالبہ کیا ہے تو وعدہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس کا پورا کرنا میری استطاعت میں ہی نہ ہوا تو ؟کہنے لگے وہ بات آپ کی استطاعت کے اندر ہے۔ خاکسار نے کہا کہ آپ کے نزدیک میری استطاعت میں ہے مگر ہو سکتا ہے کہ نہ ہو۔ بہر حال آپ بات بتائیں پھر فیصلہ ہو گا۔اس پر وہ کہنے لگے کہ پادری اینگلرس کی کتاب کا جواب کتابی صورت میں دیا جائے۔خاکسار نے مسٹر ابوبکر کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ تو غیراحمدی ہیں مگر آپ جو احمدی ہیں آپ کو خوب علم ہے کہ شوریٰ میں سواحیلی اخبار میں قسط وار جواب شائع کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔کیونکہ فی الحال مالی لحاظ سے ہم کتاب کے اخراجات مہیا نہیں کر سکتے۔ اس پر مسٹر کُنگو لِیلو کہنے لگے کہ میں بھی احمدی ہوں،غیر احمدی نہیں ہوں۔ بہر حال پھر انہوں نےکہا کہ ہم اسی مسئلے کا حل لے کر آئے ہیں کہ ہم دونوں کتاب کا خرچ نصف نصف ادا کریں گے۔
خاکسار نے کہا ٹھیک ہے، میں کسی لکھاری احمدی سے جواب لکھنے کا کہہ دوں گا۔وہ کہنے لگے کہ جواب آپ نے لکھنا ہے۔خاکسار نے کہا اچھا خاکسارلکھ دے گا۔اور مسٹر کُنگو لِیلو سے کہا کہ آپ نے ایک بات کہی میں نے مان لی مگر آپ میری بات نہیں مانتے۔مسٹر ابوبکر کو اس کی کچھ سمجھ نہ آئی۔مگر مسٹر کُنگو لِیلو نے کہا کہ میں نے بھی مان لی اور بیعت فارم پر دستخط کر کے باقاعدہ جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے۔الحمدللہ بعد میں یہ لندن کسرصلیب کانفرنس میں شمولیت کے لیے گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے ساتھ تصویر بنوائی جسے بڑی کر کے گھر میں آویزاں کیا اور اس پر بہت نازاں ہوا کرتے تھے۔
پھر خاکسار نے دن رات ایک کر دیا اور جلد ہی جواب سواحیلی زبان میں تیار کر لیا۔ جواب دینے کا طریق یہ تھا کہ پادری صاحب کی کتاب کے جتنے ابواب تھے،جوابی کتاب میں بھی اتنے ہی ابواب رکھے گئے اور ہر باب کا وہی عنوان رکھا جو پادری صاحب نے رکھا تھا۔ اور حضرت مسیح موعود ؑکے علم کلام کی روشنی میں الزامی اور علمی جواب لکھا۔ جہاں پادری صاحب نے طنز کی تو بے چین کر دینے والی طنز میں اس کا جواب دیا۔
اس بات کا کہ مسلمان رستے سے بھٹک گئے ہیں،یہ مسکت جواب رقم کیا کہ حضرت ابراہیمؑ کے سچے فرزند تو وہ ہیں جو حضرت ابراہیمؑ کے اسوہ پر عمل کرتے ہیں۔آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنا ختنہ کیا اور ختنے کا حکم دیا، مسلمان اس حکم پر بڑے اہتمام سے عمل پیرا ہیں۔ مگر عیسائیوں نے عمداً اس حکم کی نا فرمانی کی، اور ختنے کی سنت ابراہیمی کو مٹا دیا۔اب بتاؤ کون حضرت ابراہیمؑ کےسچے روحانی فرزند ہیں،اور کون رستے سے بھٹکے ہوئے ہیں؟
پھر حضرت ابراہیمؑ نے توحید کے پرچار میں ساری عمر بسر کی۔ اس وجہ سے قوم نے آپ کو آگ میں جلا دینا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔ مسلمان اس توحید کے علم بردار ہیں، اسلام نے اللہ کولَمۡ یَلِدۡ وَلَمۡ یُوۡلَدۡمانا۔ مگر عیسائیوں نے توحید باری تعالیٰ سےروگردانی کرتے ہوئےتین خدا بنا لیے: باپ، بیٹا اور روح القدس۔ پس مسلمان ہی حضرت ابراہیمؑ کے سچے اور روحانی فرزند ہیں۔ مگر عیسائی راہِ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔
غلامی کے تعلق میں پادری صاحب نے لکھا کہ اسلام سے پہلے بھی عربوں میں غلام خریدنے کا بہت رواج تھا۔ چنانچہ بائبل میں آتا ہے کہ حضرت یوسفؑ کو بطور غلام ایک بنی اسماعیلی قافلے نے خریدا تھا۔خاکسار نے لکھا کہ پادری صاحب! آپ کو خوب یاد رہا کہ بنی اسماعیل نےحضرت یوسف کو بطور غلام خریدا تھا مگر یہ بھول گئے کہ یہ غلام بیچا بنی اسرائیل نے تھا۔
پادری صاحب نے لکھا کہ اسلام کے بعد بھی عربوں نے افریقہ سے غلام خرید کے لے جانے کا کام خوب کیا۔اس سلسلے میں خاکسار نے لکھا کہ انہوں نے اسلامی تعلیم کی خلاف ورزی کی۔ پھر وہ لوگ مذہبی علماء نہ تھے، محض تاجر لوگ تھے۔ مگر کیتھولک پادریوں نے پوپ Leo II کی اجازت سے افریقہ سے غلام خریدے اور جن دو بحری جہازوں پر یہ پادری حضرات غلاموں کو لے کر گئے ان میں سے ایک جہاز کا نام Jesus اور دوسرے کا نام Mary تھا۔ دونوں مثالوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
غرض اسی طرح تمام اعتراضات کا بھرپور جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی روشنی میں تحریر کیا جسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
جواب مکمل کر کے جو کہ دو صد سے کچھ زائد صفحات پر مشتمل تھا،خاکسار نے اس کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ خد ا کے فضل سے جواب مسکت ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
ہاں آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اردو اشعار:
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمدؐ دلبر میرا یہی ہے
والی نظم سے، اور کچھ اشعار :
آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے
گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار
والی نظم سے اور حضورؑ کی پوری نظم:
کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سےگندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
کا مفہوم خاکسار نے منظوم سواحیلی میں پیش کیا ہے۔
تنزانیہ میں شاعری کا بہت رواج ہے اور شعر و شاعری کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ ان اشعار سے ان شا ءاللہ مومنین کے دل مسرور ہو جائیں گے۔
انہی دنوں خاکسار نے خواب میں تنزانیہ کے صدر محترم Julius Kambarage Nyerere کو دیکھا کہ ہم دونوں ایک میدان میں ٹہل رہے ہیں اور سواحیلی میں دوستانہ گفتگو کر رہے ہیں۔ دوران گفتگو خاکسار نے کہا کہ پادری صاحب کی کتاب کے جواب میں ہماری کتاب پریس میں ہے، چھپنے پر آپ کو پیش کی جائے گی۔ نیز جماعتی لٹریچر کا ذکر کیا۔محترم صدر مملکت جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے پوری واقفیت رکھتے تھے، پکے کیتھولک تھے۔ سواحیلی زبان کے شاعر اور نثر نگار بھی تھے۔ انہوں نے شیکسپیئر کی کتاب Merchant of Venice کا سواحیلی میں ترجمہ کیا۔ نیز انجیل کی کتاب ’رسولوں کے اعمال‘(Acts) کا سواحیلی نظم میں بھی ترجمہ کیا۔جو خاکسار کے پاس بھی ہے۔
بہر حال میں نے ٹہلتے ٹہلتے محترم صدر صاحب سے پوچھا کہ ہمارے لٹریچر کے بارے میں آپ کا کیا تاثر ہے؟ اس پر یکایک وہ بہت سنجیدہ ہوگئے اور تیز زبان میں کہا کہ آپ کے لٹریچر سے خوب معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ ہماری حکومت کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں؟ ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔خاکسار نے بہت غور کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے، توزور سے ذہن میں آیا اسلام میں عورتوں کے بارے میں جو تیز تیز اعتراضات پادری صاحب نے کیے تھے، عاجز نے ان کا جواب سخت لہجے میں دیا تھا۔ اور ان دنوں صدر صاحب چین کا دورہ کر کے آئے تھے اور تقاریر میں کہا کہ عورتیں گھروں سے نکلیں اور مردوں کے شانہ بشانہ ملکی ترقی کے کاموں میں حصہ لیں،اور پادری صاحب نے اس سے نا جائز فائدہ اٹھایا تھا۔خاکسار نے سوچا کہ ہماری کتاب چھپنے کےبعد حکومت ضبط کر سکتی ہے اس پر خاکسار نے صبح وہ معین حصہ نئے سرے سے لکھا۔ مفہوم وہی رکھا مگر لہجہ نہایت نرم کر دیا اور لکھا کہ جس طرح حکومت میں ایک وزیر داخلہ ہو تا ہے اورایک وزیر خارجہ اور دونوں کے فرائض کا دائرہ الگ الگ ہوتا ہے اسی طرح فیملی لائف میں مرد وزیر خارجہ ہے جس کا کام روزی کماناہے۔ اور عورت وزیر داخلہ ہے جس کا کام بچوں کی تربیت ہے۔اگر مرد اور عورت دونوں کاموں پر چلے جائیں تو بچوں کی تربیت کون کرے گا،؟ جو کل کے معمار ہیں۔ اگرچہ اسلام میں ضرورت کے موقع پر عورت کو بھی کام کرنے کی اجازت ہے مگر عورت کی اصل ڈیوٹی بچوں کی تربیت ہے۔
اگلی رات پھر خاکسار نے صدر صاحب کو خواب میں دیکھا کہ ہماری مسجد کی سامنے والی سڑک پر گاڑی میں ہیں۔گاڑی نہایت آہستہ آہستہ چل رہی ہے اور لوگ دو رویہ کھڑے ہیں۔ خواب میں سڑک ہماری مسجد کے صحن میں سے گزر کر آگے جاتی ہے۔خاکسار فٹ پاتھ پر پیدل چل رہا ہے۔ اچانک صدر صاحب اور خاکسار کی آنکھیں چار ہوئیں تو صدر صاحب نے متبسم ہو کر کہا ’’السلام علیکم ‘‘اور میری آنکھ کھل گئی۔ اس پر میں مطمئن ہو گیا کہ اب ان شاءاللہ کتاب ضبط نہیں ہو گی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انگریز پادریوں نے وفد کی صورت میں صدر محترم کے پاس جا کر ہماری کتاب ضبط کرنے کی درخواست کی تھی۔ صدر صاحب یہ کتاب پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا آپ جواب لکھیں۔ ضبط کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات خاکسار کو ایک احمدی مخلص دوست مسٹر Megerwa نے بتائی جو بینک میں امپورٹ ایکسپورٹ کے انچارج تھے۔ انگریز پادری یورپ سے مستعمل کپڑے منگوایا کرتے تھے جنہیں چھڑانے کے لیے وہ مسٹر Megerwa کے پاس آتے۔انہیں ان کے احمدی ہونے کا علم نہیں تھا۔ مسٹر Megerwa اور کئی دیگر دوست بارہ بجے کے کھانے کے وقفے میں مسجد آکر روزانہ نماز ظہر ادا کیا کرتے تھے۔ایک دن مسٹر Megerwa جب نماز کے لیے آئے تو کہنے لگے آج انگریز پادری صاحب اپنا مستعمل کپڑوں کا پارسل چھڑانے میرے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ احمدیوں نے ہمارے خلاف کتاب لکھی ہے اور ہم محترم صدر مملکت کے پاس وفد کی صورت میں درخواست کرنے کے لیے گئے تھے کہ اس کتاب کو ضبط کر لیا جائے تو صدر صاحب نے کتاب دیکھ کر فرمایا کہ یہ تو آپ کی کتاب کا جواب ہے اس کا جواب لکھیں ضبط کرنے کی ضرورت نہیں۔
ابھی ہماری کتاب پریس میں چھپنے کے لیے نہیں گئی تھی خاکسار نے سوچا جس طرح کتاب کا ہر باب پادری صاحب کے ہر باب پر خوب غالب ہے اسی طرح ہماری کتاب کا نام بھی ایسا ہو جو پادری صاحب کی کتاب کے نام پر غالب ہو۔بہت سوچا کچھ سمجھ نہ آئی۔پادری صاحب نے ’’فرزندان‘‘کا لفظ چن لیا تھا۔’فرزندان‘کے بعد تو پوتے اور پڑپوتے ہی رہ جاتے ہیں۔خاکسار نے چند مخلص ذہین احمدیوں سے مشورہ کیا جن میں دارالسلام کے نہایت مخلص صدر ر مزے رشیدی مصبح بھی تھے۔ سب نے بہت سوچا مگر کوئی حل نظر نہ آیا۔ خاکسار نے کہا کہ اب تو صرف Wajukuu Wa Ibrahimu (ابراہیم کے پوتے) ہی رہ جاتا ہے۔مگر یہ نام پادری صاحب کی کتاب کے نام پر غالب نہیں مگر مجبوراً اس نام سے کتاب پریس میں دے دی گئی۔
کئی دن گزر گئے حتیٰ کہ نام کا معاملہ بالکل بھول گیا تو ایک رات جب عاجز نوافل کے لیے اٹھا تو بڑی زور سے سواحیلی زبان میں القا ہوا Mwana Mkuu Wa Ibrahim خاکسار چونکا کہ یہ کیا ہے؟ پھر جلد ہی سمجھ میں آیا کہ یہ ہماری کتاب کا نام بتایا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ ہے ابراہیمؑ کا فرزند اعظم(ﷺ)۔
یہ نام فی الواقع پادری صاحب کی کتاب کے نام پر غالب تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا ہے کہ اَنَا دَعوَۃُ اَبِی اِبرَاہِیمَ کہ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہوں۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔اس پر دل مسرور ہو گیا اور خدا کا شکر کیا۔ اور اگلی صبح پریس جا کر پوچھا کہ کتاب کس مرحلہ پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کمپوزکی جا رہی ہے۔ میں نے ٹائٹل کا پوچھا تو جواب ملا کہ وہ تو ہم آخر میں تیار کرتے ہیں۔ خاکسار نے کہا کہ وہ میرے پاس لے آئیں۔ خاکسار نے پہلا نام کاٹ کر نیا نام لکھا اور اسی نام سے کتاب شائع ہوئی۔
جب کتاب چھپی ان دنوں سالانہ سات روزہ Dar es Salaam International Trade Fair ہو رہا تھا جس میں تمام ملکوں کے سٹال لگائے جاتےہیں جن میں ان ممالک کی مصنوعات نمائش کے طور پر رکھی جاتی ہیں اور کافی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ ہمارے مشن کا بھی وسیع اور شاندار سٹال ہوتا ہے جس میں جماعت کا لٹریچرسجایا جاتا ہے۔تصاویر اور چارٹس آویزاں کیے جاتے ہیں۔ لوگ کتب خریدتے ہیں اور بعض مذہبی تبادلہ خیال بھی کرتے ہیں۔ معترض بھی آتے ہیں اور مناسب حال جوابات پاتے ہیں۔ان دنوں پریس سے فون آیا کہ کتاب چھپ گئی ہے کس وقت مشن ہاؤس میں لائیں؟ خاکسار نے کہا کہ آپ دارالسلام انٹر نیشنل ٹریڈ فئیر میں ہمارے سٹال میں لے آئیں۔ چنانچہ کتب آ گئیں۔
خاکسار اپنے سٹال سے باہر بعض باتوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ عاجز نے دیکھا کہ دو انگریز پادری اور ایک راہبہ (Nun) ہمارے سٹال سے کچھ فاصلے پر کھڑے باتیں کر رہے ہیں۔ پھر تینوں ہمارے سٹال میں داخل ہوئے اور کچھ دیر بعد باہر آ گئے۔ پھر ایک اُن میں سے اندر گیا اور باہر آیا۔ اور تینوں چلے گئے۔ خاکسار فوراً اپنے سٹال میں گیا اور خدام سے پادریوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے آکر انہوں نے Mwana Mkuu Wa Ibrahim کی کتب دیکھیں اور قیمت دریافت کی اور باہر چلے گئے۔ پھر ایک اندر آیا اور کتاب کا ایک نسخہ خرید کر چلا گیا۔
انٹر نیشنل ٹریڈ فیئر کے اختتام پر جب ہم باقاعدہ مشن ہاؤس میں آگئے تو بعض مسلمان اور عیسائی میرے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ ہمیں پادری صاحب کی کتاب بھی دی جائے تاکہ ہم دونوں کا مقابلہ کر سکیں۔خاکسار نے کہا کہ ان کی کتاب توآپ ان کے بک سٹور سے لیں جہاں ڈھیروں ڈھیر موجود ہے۔ تو جواب ملا کہ ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ خاکسار کو خیال آیا کہ شاید ہمارے جواب کے بعد انہوں نے اپنی کتاب مارکیٹ سے اٹھا لی ہے۔ پھر چھ ماہ بعد اس کی تصدیق اس طرح ہوئی کہ ہمارے ایک مخلص احمدی دوستMr.R.B.Kazema جو سرگرم داعی الی اللہ، اچھے لکھنے والے تھے۔ اور تنزانیہ میں Zaire (جو آج کل ڈیموکریٹک ری پبلک آف کونگو کہلاتا ہے) کے بارڈر کے قریب بمقام Ujiji رہتے تھے، نے خاکسار کو خط لکھا کہ Zaire سے غیر احمدی خاکسار کے پاس آتےرہتے ہیں اور ہمارا لٹریچر خرید کر لے جاتے ہیں۔ اب جب وہ آئے تو میرے سامنے پادری ا ینگلرس کی کتاب رکھ دی اور کہا کہ پادری حضرات یہ کتاب ڈھیروں ڈھیر ہمارے ملک میں لائے ہیں اور ہم مسلمان پریشان ہیں۔ ان لوگوں سے آپ کی جماعت ہی نمٹ سکتی ہے۔ اس کا جواب لکھیں۔انہوں نے ان کے سامنے Mwana Mkuu wa Ibrahim رکھ دی وہ بہت خوش ہوئے۔ اور مزید کا مطالبہ کیا۔ لہٰذا جلد کافی نسخے بھیجیں۔ خاکسار نے لکھا کہ کتاب قریبا ًختم ہے یہ چند نسخے لے لیں اگلے ایڈیشن کی چھپائی کے بعد مزید نسخے بھجوائے جا سکیں گے۔خاکسار کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ مخالفین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام سے مرعوب ہو کر اپنی کتاب نہ صرف مارکیٹ سے اٹھا لی بلکہ پورے ملک سے اٹھا لی۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم کلام غالب رہا۔
ان دنوں محترم مولانا محمد منور صاحب کینیا جماعت کے امیر و مشنری انچارج تھے۔ انہوں نے خاکسار کو فون پر بتایا کہ بعض مسلمان طلبہ نے ہماری کتاب کینیا یونیورسٹی کے چند عیسائی طلبہ کو دی جن میں سے دو نے اسلام قبول کر لیا۔زنجبار میں ہمارا لٹریچر کھلے طور میں نہیں جاتا تھا۔ بعض لوگ خفیہ طور پر لے جاتے تھے۔ مگر مجھے معلوم ہوا کہ ہماری اس کتاب کو زنجبار کی لائبریری میں رکھا گیا ہے۔
یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام سے مخالفین اسلام کو کھلی کھلی شکست دی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذٰلِکَ۔