احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ کوئی تجارتی کاروبارنہ تھی اوراس کی قیمت کا مسئلہ
(گذشتہ سے پیوستہ )براہین احمدیہ میں ہی ایک اورجگہ مزیدتفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’کیونکہ ایسی کتاب کے مصارف جوہزارہا روپیہ کا معاملہ ہے اورجس کی قیمت بھی بہ نیت عام فائدہ مسلمانوں کے نصف سے بھی کم کردی گئی ہے۔یعنے پچیس روپیہ میں سے صرف دس روپیہ رکھے گئے ہیں۔وہ کیونکر بغیر اعانت عالی ہمت مسلمانوں کے انجام پذیر ہو……‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلداول صفحہ۶۹)
براہین احمدیہ کے دوحصے شائع ہوئے اورتیسرا حصہ کچھ شائع ہوسکا کیونکہ اس کی خریداری اوراعانت کی طرف وہ خاص جوش وخروش دیکھنے میں نہ آیا جس کی توقع تھی اوراتنا سرمایہ اکٹھا ہوجانے کی امید اورضرورت تھی کہ کتاب پوری شائع ہوسکے اوردوسری طرف وہ کتاب جس کی ابتدا پندرہ جز سے ہوئی تھی اب تین سو جزتک پہنچ چکی تھی۔ان حالات کے پیش نظر کتاب کی قیمت پر نظر ثانی سمیت اس کی اشاعت وخرید کی بابت تمام امورکے متعلق نظرثانی کی ضرورت تھی۔چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ کے آغاز میں ایک تفصیلی اعلان شائع فرمایا جس میں تمام صورت حال بیان کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ قیمت تو وہی پچیس روپے ہی مقررکی جاتی ہے لیکن خریداروں کو اب یہ استحقاق نہ ہوگا کہ وہ اس سے زائد اجزا کا مطالبہ کریں۔یہ تمام تفصیلات ملاحظہ ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں :
یا اللّٰہ
مسلمانوں کی حالت اور اسلام کی غربت اور نیزبعض ضروری امور سے اطلاع
آج کل غربت اسلام کی علامتیں اور دین متین محمدیؐ پر مصیبتیں ایسی ظاہر ہورہی ہیں کہ جہاں تک زمانہ بعثت حضرتِ نبویؐ کے بعد میں ہم دیکھتے ہیں کسی قرن میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ اس سے زیادہ تر اور کیا مصیبت ہوگی کہ مسلمان لوگ دینی غمخواری میں بغایت درجہ سست اور مخالف لوگ اپنے اعتقادوں کی ترویج اور اشاعت میں چاروں طرف سے کمربستہ اور چست نظر آتے ہیں۔ جس سے دن بدن ارتداد اور بدعقیدگی کا دروازہ کھلتا جاتا ہے۔ اور لوگ فوج در فوج مرتد ہوکر ناپاک عقائد اختیار کرتے جاتے ہیں۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے مخالف جن کے عقائد فاسدہ بدیہی البطلان ہیں۔ دن رات اپنے اپنے دین کی حمایت میں سرگرم ہیں بحدیکہ یورپ اور امریکہ میں عیسائی دین کے پھیلانے کے لئے بیوہ عورتیں بھی چندہ دیتی ہیں۔ اور اکثر لوگ مرتے وقت وصیت کرجاتے ہیں کہ اس قدر ترکہ ہمارا خالص مسیحی مذہب کے رواج دینے میں خرچ ہو۔ مگر مسلمانوں کا حال کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ ان کی غفلت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ نہ وہ آپ دین کی کچھ غمخواری کرتے ہیں اور نہ کسی غمخوار کو نیک ظنی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خیال کرنا چاہئے کہ غمخواریٴ دینی کا کیسا موقعہ تھا۔ اور خدمت گزاری کا کیا ضروری محل تھا کہ کتاب براہین احمدیہ کہ جس میں تین سو مضبوط دلیل سے حقیت اسلام ثابت کی گئی ہے اور ہرایک مخالف کے عقائد باطلہ کا ایسا استیصال کیا گیا ہے کہ گویا اس مذہب کو ذبح کیا گیا کہ پھر زندہ نہیں ہوگا۔ اس کتاب کے بارے میں بجز چند عالی ہمت مسلمانوں کے جن کی توجہ سے دو حصے اور کچھ تیسرا حصہ چھپ گیا۔ جو کچھ اور لوگوں نے اعانت کی وہ ایسی ہے کہ اگر بجائے تصریح کے صرف اسی پر قناعت کریں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن تو مناسب ہے۔ایھا الاخوان الموٴمنون۔ مالکم لاتتوجھون۔ شوقناکم فلم تشتاقوا۔ ونبھناکم فلم تتنبھوا۔ اسمعوا عباداللّٰہ اسمعوا۔ انصروا توجروا۔ وفی الانصار تبعثوا۔ وفی الدارین تُرحموا۔ وفی مقعد صدق تقعدوا۔ رحمنا اللّٰہ وایاکم ھو مولانا نعم المولی ونعم النصیر۔ [اس عربی عبارت کا ترجمہ( از مؤلف): اے مومن بھائیو! تمہیں کیا ہوگیاہے کہ تم متوجہ نہیں ہوتے۔ہم نے تمہیں بہت اشتیاق دلایا لیکن تم مشتاق نہ ہوئے۔اورہم نے تمہیں بیدارکرناچاہا پر تم بیدار نہ ہوئے۔سنو! اے اللہ کے بندو!سنو!! مددکرو تمہیں اجر دیا جائے گا۔اور(زمرۂ)انصار میں تم اٹھائے جاؤ گے اوردونوں جہانوں میں تم پر رحم کیاجائے گا۔اورایک ایسے مقام پر جو دائمی ہے تمہیں بٹھا یاجائے گا۔اللہ ہم پر رحم کرے اورتم پر بھی وہ ہی ہمارا مولاہے اورکیاہی اچھا مولاہے اورکیاہی اچھا مددگارہے۔]اور اگر کوئی اب بھی متوجہ نہ ہو تو خیر ہم بھی ارحم الراحمین سے کہتے ہیں اور اس کے پاک وعدے ہم غریبوں کو تسلی بخش ہیں۔ اور اس جگہ یہ امر بھی واجب الاطلاع ہے کہ پہلے یہ کتاب صرف تیس پینتیس جز تک تالیف ہوئی تھی اور پھر سو جز تک بڑھا دی گئی اور دس روپیہ عام مسلمانوں کے لئے اور پچیس روپے دوسری قوموں اور خواص کے لئے مقرر ہوئی۔ مگر اب یہ کتاب بوجہ احاطہ جمیع ضروریات تحقیق و تدقیق اور اتمام حجت کے لئے تین سو جز تک پہنچ گئی ہے جس کے مصارف پر نظر کرکے یہ واجب معلوم ہوتا تھا کہ آئندہ قیمت کتاب سو روپیہ رکھی جائے۔ مگر بباعث پست ہمتی اکثر لوگوں کے یہی قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اب وہی قیمت مقررہ سابقہ کہ گویا کچھ بھی نہیں ایک دوامی قیمت قرار پاوے۔ اور لوگوں کو ان کے حوصلہ سے زیادہ تکلیف دیکر پریشان خاطر نہ کیا جائے۔ لیکن خریداروں کو یہ استحقاق نہیں ہوگا کہ جو بطور حق واجب کے اس قدر اجزا کا مطالبہ کریں بلکہ جو اجزا زائد ازحق واجب ان کو پہنچیں گی وہ محض للہ فی اللہ ہوں گی اور ان کا ثواب ان لوگوں کو پہنچے گا کہ جو خالصاً للہ اس کام کے انجام کے لئے مدد کریں گے۔ اور واضح رہے کہ اب یہ کام صرف ان لوگوں کی ہمت سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا کہ جو مجرد خریدار ہونے کی وجہ سے ایک عارضی جوش رکھتے ہیں بلکہ اس وقت کئی ایک ایسے عالی ہمتوں کی توجہات کی حاجت ہے کہ جن کے دلوں میں ایمانی غیوری کے باعث سے حقیقی اور واقعی جوش ہے اور جن کا بے بہا ایمان صرف خرید و فروخت کے تنگ ظرف میں سمانہیں سکتا بلکہ اپنے مالوں کے عوض میں بہشت جاودانی خریدنا چاہتے ہیں و ذٰلک فضل اللّٰہ یوٴتیہ من یشاء۔ بالآخر ہم اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتے ہیں کہ اے خداوند کریم! تُو اپنے خالص بندوں کو اس طرف کامل توجہ بخش۔ اے رحمان و رحیم تو آپ اُن کو یاد دلا۔ اے قادرِ توانا تو ان کے دلوں میں آپ الہام کر۔ آمین ثم آمین۔ ونتوکّل علی ربّنا ربّ السموات والارض ربّ العالمین۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد۱صفحہ۱۳۵،۱۳۴)
مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ امر بخوبی عیاں ہوجاتاہے کہ اس کتاب کی اصل لاگت اتنی زیادہ تھی کہ ایک سو روپے فی کتاب قیمت بنتی تھی لیکن حضرت اقدسؑ کے مدنظر غریب مسلمان بھی تھے اوراس قیمتی کتاب کا کثرت سے ان لوگوں تک پہنچانا مقصود تھا جس کے لئے آپؑ نے اس کی قیمت جس کو رعایتی بلکہ بہت ہی رعایتی قیمت کہناچاہیے کہ جوصرف پانچ روپے رکھی اوربعد میں یہ قیمت دس روپے اورپھر پچیس روپے رکھی لیکن جو پہلی قیمت یعنی پانچ روپے دے چکے تھے یا صرف دینے کا وعدہ ہی کرچکے تھے ان کے لیے پانچ روپے ہی قائم رہی اورچونکہ جو کتاب پانچ روپے میں طے پائی تھی اب ضخامت کہیں زیادہ ہوچکی تھی اس لیے مجبوراً قیمت بڑھانا پڑی لیکن پہلے خریدار پھر بھی متاثر نہیں ہونے دیے صرف نئے خریداروں کے لیے وہ قیمت بڑھائی گئی۔اورباوجود قیمت ایک سوروپے ہوجانے کے آپؑ نے قیمت پچیس روپے یا پانچ روپے ہی قائم رکھی۔اوراپنی پوری کوشش فرماتے رہے کہ مخیر لوگوں کی اعانت سے ہی یہ کتاب شائع ہوجائے۔اوراس کے لیے آپؑ مسلسل دعائیں بھی کرتے رہے اورکوشش بھی اوراللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعاؤں اورکوششوں کوثمربارکیا اوربالآخر کتاب کے چارحصے شائع ہوگئے۔جو آپؑ نے حسب وعدہ سب خریداروں کو ارسال فرمائی جو اس کتاب کے ’’خریدار‘‘ قرارپاتے تھے۔
ایک اعتراض کیا جاتاہے کہ گویا نعوذباللہ حضرت اقدسؑ اس کتا ب کاسرمایہ خود کھاگئے اوردوسرایہ کہ جو خریدارتھے ان سے پیشگی قیمت لے لی اورکتاب نہیں دی وغیرہ اس پر ابھی آگے چل کربات کریں گے لیکن مناسب معلوم ہوتاہے کہ مضمون کے تسلسل کو برقراررکھتے ہوئے ہم یہ دیکھیں کہ حضرت اقدسؑ نے جب براہین احمدیہ کی مالی اعانت کے لیے من انصاری الی اللہ کی آواز لگائی تو اس امتِ مرحومہ کار دعمل کیا تھا اوریہ پکار کس کس کو شقی اورسعید کے گروہ میں شامل کرگئی۔
(باقی آئندہ ہفتہ کو ان شاء اللہ)