متفرق مضامین

’’تُم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے‘‘ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک جھلک کے انتظار میں، ذاتی جذبات کا اظہار

(’رحیم بی بی‘)

گھڑی کی سوئیاں اپنے معمول کے مطابق ٹِک ٹِک کرتی گئیں اور یہ جمعہ بھی ہر جمعے کی طرح پڑھائی میں کم اور دیگر مصروفیات میں زیادہ گزرتا گیا۔ پانچ بجے کے گرد جب سوئیاں منڈلانے لگیں تو جھٹ پٹ ریموٹ پکڑا اور ٹی وی چلایا۔

اپنے پیارے آقا یدہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کو آنکھیں بیدار ہوئیں اور شنوائی کا عمل حرکت میں آیا مگر۔ یہ وقت کی ڈور میرے ہاتھوں سے چھوٹتے چھوٹتے رُک کیوں گئی؟ رفتار کو کیا ہوا؟ یہ چند لمحے ٹھہر سے گئے ہیں۔نگاہیں حیرت سے پھیل گئیں۔

یہ تو ہزاروں کی تعداد ہوگی، سبھی آپ کے منتظر تھے۔ اور شاید سمندرکے اِس پار ہم بھی وہ مجمع، وہ ہجوم، لوگوں کا وہ جوش، ان کا اظہارِ محبت، ان کے نغموں سے بہتی وہ حقیقی تڑپ۔ آپ کے التفات کے لیے وہاں موجود ہر ایک کی تشنگی پیاسے کوّے سے بھی بڑھ کر تھی۔ کندھے سے کندھا جڑا ہوا تھا اور بڑھ بڑھ کر دَرشن کو لوگ بے قرار تھے۔ یہ چند لمحات اختتام پذیر ہوئے اور ایک گہری سوچ میں مجھ کو محو چھوڑ گئے۔

کاش میں بھی کبھی بہت قریب سے اُجڑے ہوئے دماغوں کو نُور سے ڈھلتا دیکھوں۔ پیشانیوں سے غموں کے آثار واپس لوٹتے دیکھوں۔ اس سارے منظر نے میرے دِل میں اِک عجیب ہلچل برپا کردی، جیسے سمندر کی موجیں سر اٹھاتی ہیں ویسے ہی میرے دِل میں کئی آرزوئیں غل مچاتی جارہی ہیں۔

کچھ اُداسی ہے جو ذات کا احاطہ کیے جا رہی ہے تو کچھ نئے خواب جو پلکوں پہ بسیرا جمائے ہوئے ہیں۔ آنکھ کے گہرے سمندر میں میرے خوابوں کا عکس پوری چمک کے ساتھ اُبھرتا جا رہا ہے۔ دِل کے سُونے آنگن میں نئی اُمنگیں دھیرے دھیرے کھاد ڈالتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ خواب کہتے ہیں کہ جب میرے شہر کا حاکم لوٹے گاتب میرے شہر کی رُت بدلے گی۔ میں بھی انہی لوگوں کی طرح روش روش پہ آپ کی ایک جھلک کی خاطر دوڑتا ہوا آؤں گا۔ میری روح کا پہلا قرار وہ دیدار ہوگا۔ میرے شہر کے صدہا سال پرانے درختوں کو یک دم جوانی کی یادیں جوانی کی روح بن کر جگا دیں گی۔ معصوم کلیاں مسکرائیں گی۔ پرندوں کے قافلے اس شہر میں آکر محبتوں کے گیت گائیں گے۔ میرے شہر کی مسجدیں آپ کا خیر مقدم کریں گی۔ مسجد اقصیٰ کے مناروں سے فلاح کی طرف بلاتی پُر زور صدائیں ہر ایک ذی روح کی بازگشت بن کر گونجیں گی۔ سڑکیں آپ کی آمد پر خود کو آپ سنواریں گی۔ رحمتوں کے فرشتے میرے شہر کے محافظ ہوں گے۔ شہر کے شجر نمازیوں پہ سایہ فگن ہوںگے۔ میرے شہر کے چوک میں فواروں کا اچھلتا پانی ولولے سے بھر پور رقصاں ہوگا۔ شب کو اُبھرتا مہتاب آپ کے حُسن سے شرماتا ہوا کہیں بدلیوں کا سہارا لیے چھپتا پھرے گا۔ رات بھر کھڑکی کی اوٹ سے اسے تکنے والے، شبِ تنہائی میں اس کے ہمراہ پھرنے والے، ٹھنڈی رات میں سرد آہیں بھرنے والے کمبل اوڑھ کر سو جائیں گے۔

گلی گلی، کوچہ کوچہ، جگمگا اٹھے گا۔ دھول بھی آپ کے قدموں کے انتظار میں نم ہو پڑے گی۔ اور اسی سب میں شاید کوئی ہم سا بھی دیوانہ ہو۔ جو آپ کے پیروں تلے بر کت دی گئی خاک پر خموشی سے، انگلی کی پوروں سے دِل کا اِک خاکہ بنائے۔ اور چپکے چپکے دِل کی باتیں کرتا جائے۔

پھر یونہی پھونک سے اسے اُڑا دے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button