محرم: دعاؤں کی قبولیت اور دُرود شریف امام حسینؓ اور صحابہؓ کا مقام (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲؍جنوری۲۰۰۹ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے درُود کی برکات اور اہل بیت سے تعلق کا جو ادراک ہمیں عطا فرمایا ہے وہ مَیں آپؑ کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ’’ایک مرتبہ الہام ہوا، جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ دین کو دوبارہ زندگی دینا چاہتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ جوش میں ہے ’’لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پرشخص مُحْیِیْ کی تعین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے‘‘۔ لیکن یہ نہیں پتہ لگ رہا کہ کس کے ذریعہ سے یہ زندگی دوبارہ پیدا کی جانی ہے تو ’’اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحْیِیْ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیااور اشارے سے اس نے کہا ہٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے‘‘۔ یعنی اس عہدے کے لئے جو زندہ کرنے والا ہے سب سے بڑی شرط محبت کی ہے۔ جس نے مُحْیِیْ بننا ہے وہ رسول اللہﷺ سے محبت میں سب سے زیادہ ہونا چاہئے۔ ’’سو وہ اس شخص میں متحقق ہے‘‘۔ وہ اس شخص میں پائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اشارہ کرکے فرشتوں نے کہا۔ فرماتے ہیں کہ’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جوآل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے‘‘۔ یہ جس الہام کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے جوپہلے ہوا تھا، یہاں نہیں پڑھا گیا کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْن۔ فرمایا کہ’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سر ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہی طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبتِ حسّ سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے‘‘۔ یہ کشفی حالت طاری ہوئی اور چند لوگوں کے چلنے کی وہ آواز آئی جو جوتی پہننے سے آتی ہے۔ ’’پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آ گئے۔ یعنی جناب پیغمبر خداﷺ حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہرا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِ مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے تالیف کیا ہے اور اب علیؓ وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے فالحمدللہ علی ذالک۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 598-599۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کشف تھا۔ اسے بھی بعض غیر تو ڑ مروڑ کرپیش کرتے ہوئے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نعوذ باللہ حضرت فاطمہ کی ہتک کی ہے تو یہ اصل میں ان اعتراض کرنے والوں کی بدفطرت ہے جو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ یہ فقرہ کہہ کے ہتک کی گئی ہے۔ فتنہ پیدا کرنے والے جو مولوی ہیں یہ عام لوگوں کو پورا فقرہ نہیں بتاتے، (اور عوام جہالت کی وجہ سے یا ان لوگوں نے پڑھا پڑھا کے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ سننا اور دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ اصل چیز کیا ہے۔) یہ صرف اتنا فقرہ بتاتے ہیں کہ مرزا صاحب نے یہ لکھ دیا کہ حضرت فاطمہؓ نے میرا سراپنی ران پر رکھ لیا۔ کیونکہ گند خوداُن کے ذہنوں میں بھرا ہو اہے اس لئے اس گند سے یہ باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو فرمایا ہے کہ نہایت محبت و شفقت سے مادر ِمہربان کی طرح عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ اب مادر مہربان کا کیا مطلب ہے؟ مہربان ماں، اس مہربان ماں کے لفظ کے ساتھ کوئی گندہ خیال ابھر سکتا ہے؟ یہ صرف اور صرف اگر ابھر سکتا ہے تو ان گندے اور بدفطرت مولویوں کے ذہنوں میں۔ یہ ضمناً ذکر آ گیا اس لئے مَیں نے وضاحت کر دی۔
تو یہ سارے کشف اور الہام ہیں ایک تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مسیح و مہدی ہونے کے مقام کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ یہ اسی درُود کی وجہ سے تھا جو آپ آنحضرتﷺ سے بے پناہ عشق کی وجہ سے آپﷺ پر بھیجتے تھے۔ دوسرا آپ فرماتے ہیں کہ یہ جو الہام ہے۔ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ اس میں ایک راز یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے انوارسے فیض حاصل کرنا ہے تو اہل بیت سے محبت کرنا بھی ضروری ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بننے کے لئے ان پاک اور مطہر لوگوں کی وراثت پانا بھی ضروری ہے۔ پس یہ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقرب بننے والا ان پاک اور مطہر وجودوں کے نقش قدم پہ چلے تو اللہ تعالیٰ اس محبت کی وجہ سے جو آنحضرتﷺ کے پیاروں سے کسی کو ہے ان محبت کرنے والوں کو اپنے قرب سے نوازتا ہے۔ پس یہ حقیقی محبت ہے کہ اپنے محبوب کے پیاروں سے بھی محبت ہو اور اگر اس نکتے کو مسلمان سمجھ لیں تو کبھی ایک دوسرے کے لئے نفرتوں کی دیواریں کھڑی نہ ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے والے جو علماء یا نام نہاد مولوی ہیں، اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اور اپنی اناؤں کی خاطر یہ دیواریں کھڑی کرتے ہیں۔ لیکن ان دیواروں کو کھڑا کرنے میں نام ان بزرگوں کا استعمال کرتے ہیں جو اپنی ساری زندگی رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی بہترین مثال بنے رہے۔ پس یہ عوام الناس کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے چلنے کی بجائے اپنی عقل کا استعمال کریں۔ آنحضرتﷺ نے اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ہمیں جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ ان لوگوں کی محبت بھی مانگی ہے جو اللہ تعالیٰ سے محبت میں بڑھانے کا ذریعہ بنے جیسا کہ ایک دعا میں آپ نے یہ سکھایا کہ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یَنْفَعُنِیْ حُبَّہٗ عِنْدِکَ۔ (ترمذی۔ کتاب الدعوات باب 73/74 حدیث3491)
کہ اے اللہ! عطا کر مجھے اپنی محبت اور اس شخص کی محبت کہ میرے کام آئے اس کی محبت تیرے حضور۔ اور سب سے زیادہ کام آنے والی محبت آنحضرتﷺ سے محبت ہے۔ نفع دینے والی محبت آنحضرتﷺ سے محبت ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔ اور یقیناً ان لوگوں سے بھی محبت اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے جن سے آنحضرتﷺ نے محبت کی۔ جہاں ہمارا کام یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے ہر حکم کی اور ہر کام کی پیروی کریں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جن سے آپؐ نے محبت کی ان سے ہم بھی محبت کریں۔ اور بے شمار روایات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے جہاں اپنی جسمانی اور روحانی آل سے محبت کی یعنی جسمانی آل سے جن کا روحانی تعلق بھی تھا اور ہے ان سے محبت کی وہاں صرف جو روحانی اولاد تھی، آپؐ کے ماننے والے تھے، صحابہ تھے، ان سے بھی محبت کی۔…آنحضرتﷺ کی وہ جسمانی اولاد جس نے آپ سے روحانی رشتہ بھی قائم رکھا ہماری محبت کی یقیناً حقدارہے اور بہت زیادہ حقدار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ … تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے‘‘۔ (اشتہار تبلیغ الحق 8؍اکتوبر 1905ء)
پس یہ محبت ہے جو حضرت امام حسینؓ سے ہر احمدی کو کرنی چاہئے۔ جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔