اِکرامِ ضَیف (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۵؍دسمبر۱۹۱۹ء) (قسط دوم۔ آخری)
[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍ جولائی ۲۰۲۴ء] ابھی تھوڑے دنوں میں اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو حضرت مسیح موعودؑ کی جاری کی ہوئی سنت کے ماتحت قادیان میں مہمان آئیں گے اور ان میں جماعت کے بھی لوگ ہوں گے اور غیر بھی۔
ہم اﷲ کے فضل سے ہر سال مہمانوں کی تعداد کو روز افزوں دیکھتے ہیں
اس لئے اس دفعہ بھی انشاء اﷲ پہلے سے زیادہ تعداد میں مہمان ہوں گے ان کی مہمان نوازی یہاں کے تمام لوگوں کے ذمہ ہو گی کیونکہ وہ چند آدمی جو لنگر کے منتظم ہیں اس کام کو نہیں کر سکتے۔
اس لئے میں قادیان کے احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ کام بڑا ہے اور ابھی سے اس کا انتظام ہونا چاہئے اگر ابھی سے آپ لوگوں نے اپنے آپ کو کام کے لئے پیش نہ کیا تو بعد میں منتظموں کو موقع نکالنا مشکل ہو گا اس لئے مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ احباب اپنے آپ کو پیش کریں۔ تاجر تو معذور ہیں کیونکہ وہی ان کے کام کے دن ہوتے ہیں اور اَور لوگ بھی جو اس قسم کے کاموں پر متعیّن ہوتے ہیں جن سے وہ علیحدہ نہیں ہو سکتے باقی دوست اپنے کام چھوڑ کر بھی اپنے آپ کو مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کریں۔
یہ لوگ جو آئیں گے وہ صرف مہمان ہی نہیں شعائر اﷲ میں داخل ہیں اور شعائر اﷲ کی حرمت و عزت مومن کا فرض ہے۔
ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا اور اس وقت کو دیکھنے والے بہت لوگ موجود ہیں جب قادیان کے چاروں طرف جنگل ہی جنگل تھے۔ حضرت اقدسؑ کے وقت میں جلسہ سالانہ پر اتنے آدمی بھی نہیں آتے تھے جتنے کہ اس وقت مسجد میں بیٹھے ہیں۔ حضرت صاحبؑ نے اس وقت سے بہت عرصہ پہلے خدا سے خبر پاکر اطلاع دی یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔(تذکرہ صفحہ ۴۶۵۔ ایڈیشن چہارم) تیرے پاس دُور دُور سے لوگ آئیں گے اور دُوردُور سے پہنچیں گے حتّٰی کہ جن راستوں پر سے آئیں گے ان پر گڑھے پڑ جائیں گے۔ سو خدانے یہ نظارہ ہمیں اپنی آنکھوں سے دکھلایا اگر پہلاا نہیں دیکھا تو اب بھی یہ نظارہ نظر آتا ہے۔
اس لئے قادیان میں ہر ایک آنے والا اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ ایک نشان ہوتا ہے اور شعائر اﷲ میں داخل ہوتا ہے
اس لئے کیا بلحاظ مہمان ہونے کے اور کیا بلحاظ نشان الٰہی ہونے کے یہاں کی جماعت کو ان کی مہمان نوازی کی فکر کرنی چاہئے۔
یہ مہمان نوازی نہیں کہ مہمان سے ایسے طریق سے سلوک ہو کہ جس سے ظاہر ہو کہ ہم اس پر احسان کرتے ہیں۔ مہمان کو اعزاز دینا چاہئے کیونکہ خدا نے مہمان کو عزت کا درجہ دیا ہے۔
اس لئے مہمان کے خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ابراہیم ابو الانبیاء ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جدِّ امجد ہیں اگر وہ مہمان فرشتہ بھی تھے تاہم ابراہیمؑ خدا کے نبی تھے اور اگر وہ انسان تھے تو بھی حضرت ابراہیم سے نیچے تھے مگر وہ مہمان ہو کر ابراہیم کے لئے مکرم ہو گئے اس لئے کوئی مہمان ہو فطرت کے اقتضاء شریعت کے منشاء کے ماتحت مہمان کی عزت ہی کرنا چاہئے۔
مہمان کی سخت بات کی برداشت کرنی چاہئے۔
بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ مثلاً اب کھانا نہیں ملتا دیر سے کیوں آئے؟ یا کھانے آئے ہو یا سُننے بیسیوں قسم کی باتیں لوگ مہمان کا رُتبہ نہ سمجھنے کی وجہ سے کہہ گزرتے ہیں۔ ذی وجاہت لوگوں کی عزت و توقیر ہی مہمان نوازی نہیں کیونکہ یہ لوگ تو جہاں بھی جائیں گے ان کی عزت ہو گی۔
غرباء کی عزت کرنا حقیقی مہمان نوازی ہے۔ اگر کوئی غریب ماشکی ہے یا موچی ہے یا اور اسی قسم کا پیشہ ور شخص ہے تو چاہئے کہ اس کی عزت کی جائے اور اگر اس کی عزت کی جائے گی تو وہ خدا کے حکم کے ماتحت ہو گی۔
اگر امیر کی عزت کی جائے گی تو اس کو اکرامِ ضیف نہیں کہہ سکتے کیونکہ امراء کی عزت تو دُنیا دار بھی کیا کرتے ہیں۔
اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اکرامِ ضیف صرف کھانے پینے میں ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر قسم کے معاملات میں ہوتا ہے۔ امراء چونکہ اپنے گھروں میں اچھا کھانا کھاتے ہیں اس لئے ان کے کھانوں میں اگر کسی عمدہ چیز کا اضافہ کیا جائے تو ہونا چاہئے۔ یہ بات حضرت اقدسؑ کے سامنے پیش ہوئی تھی۔آپ نے فرمایا کہ
خدا نے کھانے پینے میں ہی اکرامِ ضیف نہیں عام برتاؤ اور ظاہری سلوک میں بھی یہ بات ہے۔ ایک غریب دال پر خوش ہو جاتا ہے
اگر اُس کو خندہ پیشانی کے ساتھ دی جائے لیکن کسی کو کھانا عمدہ دیا جائے مگر برتاؤ اچھا نہ ہو تو وہ اچھا کھانا اس کے دل کو خوش نہیں کر سکتا۔
پس احترام کرنے میں امیر غریب کی تمیز نہیں ہونی چاہئے۔ سب کی عزت کی جائے۔ امیروں کی عزت کرنا عزت کرنا نہیں کیونکہ وہ تو ہر جگہ اپنی عزت کرا لیتے ہیں۔ پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے جو دوست اپنے تئیں خدمت کے لئے پیش کر سکیں وہ خود تکلیف اُٹھا کر کام کریں تاکہ خدا کے فضل کے وارث ہوں اور اس فرض کو بھی ادا کریں جو خدا اور فطرت کی طرف سے آپ پر عائد ہوتا ہے۔
مَیں دُعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ تمام بھائیوں اور دوستوں کو اس خدمت کے ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین
جب دوسرے خطبہ کے لئے حضور کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ جلسہ سالانہ کے متعلق بعض اُمور کے تصفیہ کے لئے لوکل انجمن کا اجلاس جمعہ کے بعد ہو گا۔ انجمن والوں کو اب تک شکایت چلی آتی ہے کہ لوگ اس میں زیادہ حصّہ نہیں لیتے۔ اُنہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ مَیں خطبہ جمعہ میں سفارش کردوں کہ آپ لوگ بعد جمعہ بیٹھیں اور جو تحریکات ہوں گی ان کو سُنیں اور ان کے متعلق مشورہ وغیرہ دیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ
مرکزی جماعت فیوض زیادہ حاصل کرتی ہے اسی طرح مرکزی جماعت پر قیود بھی زیادہ ہوتے ہیں وہ قیود سے آزاد نہیں ہو سکتی۔
وہ مجھ سے سفارش چاہتے ہیں مگر مَیں اس کو سفارش نہیں کہہ سکتا یہ آپ لوگوں کا فرض ہے۔ پس مَیں آپ کو آپ کا فرض یاد دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہمارا جلسہ شعائر اﷲ میں داخل ہے اور اس کے لئے جتنے کام ہوں ان میں بڑھ بڑھ کر حصّہ لینا دین کی خدمت ہے۔
(الفضل 18؍دسمبر 1919ء)