مَردوں کے فرائض
شرائطِ تعدّدِ ازدواج اور پہلی بیویوں کے حقوق
تعددّ ازدواج کے حوالے سےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنےخطبہ جمعہ فرمودہ 15؍مئی 2009ء میں فرماتے ہیں :’’قرآن کریم میں اگر اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ شادی کا حکم دیا ہے تو بعض شرائط بھی عائد فرمائی ہیں۔ یہ بھی اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے اور آنحضرتﷺ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دے کر عورت پر ظلم کیا گیا ہے۔ یا صرف مرد کے جذبات کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس بارہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے، یہ کھلا حکم نہیں ہے۔ فرمایا:وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا۔(النساء:۴)اور اگر تم ڈرو کہ تم یتامیٰ کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔ دو دو اور تین تین، چار چار لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک کافی ہےیاوہ جن کےتمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یہ طریق قریب تر ہے کہ تم ناانصافی سے بچو۔
اس آیت میں ایک تو یتیم لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا گیاہے کہ یتیموں سے بھی شادی کرو تو ظلم کی وجہ سے نہ ہو بلکہ ان کے پورے حقوق ادا کرکے شادی کرو اور پھر شادی کے بعد ان کے جذبات کا خیال رکھو اور یہ خیال نہ کرو، یہ کبھی ذہن میں نہ آئے کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تو جس طرح چاہے ان سے سلوک کر لیا جائےاور اگر اپنی طبیعت کے بارہ میں یہ خوف ہے، یہ شک ہے کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو آزاد عورتوں سے نکاح کرو۔ دو، تین یا چار کی اجازت ہے لیکن انصاف کے تقاضوں کے ساتھ۔ اگر یہ انصاف نہیں کر سکتے تو ایک سے زیادہ نہ کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:’’یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں۔ لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں، شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے۔ ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشرطیکہ اعتدال کرواور اگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو۔ گو ضرورت پیش آوے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۳۳۷)
گو ضرورت پیش آوے۔یہ بڑا بامعنی فقرہ ہے۔ اب دیکھیں اس زمانہ کے حَکم اور عدل نے یہ کہہ کر فیصلہ کر دیا کہ تمہاری جوضرورت ہے جس کے بہانے بنا کر تم شادی کرنا چاہتے ہو، وہ اصل اہمیت نہیں رکھتی بلکہ معاشرے کا امن اور سکون اور انصاف اصل چیز ہے۔ آج کل کہیں نہ کہیں سے یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ بچے ہیں، اولاد ہے لیکن خاوند مختلف بہانے بنا کر شادی کرنا چاہتا ہے۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ فرمایا اگر انصاف نہیں کر سکتے تو شادی نہ کرو اور انصاف میں ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ اگر آمد ہی اتنی نہیں کہ گھر چلا سکو تو پھر ایک اور شادی کا بوجھ اٹھا کر پہلی بیوی بچوں کے حقوق چھیننے والی بات ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کرنی ہی پڑے تو پھر اس صورت میں پہلی بیوی کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھو۔(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۳۰…)
لیکن عملاً جو آج کل ہمیں معاشرے میں نظر آتا ہے یہ ہے کہ پہلی بیوی اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف سے آہستہ آہستہ بالکل آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ پس یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ مالی کشائش اور دوسرے حقوق کی ادائیگی میں بے انصافی تو نہیں ہو گی؟حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے‘‘۔ (الحکم جلد ۲ نمبر ۲مؤرخہ ۶؍مارچ ۱۸۹۸ء صفحہ ۲۔ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورۃ النساء آیت۴جلد دوم صفحہ ۲۱۱)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل ،صفحہ۱۶۶-۱۶۸)