خطاب حضور انور

128ویں جلسہ سالانہ قادیان (2023ء) کے اختتامی اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا معرکہ آرا، بصیرت افروز اور دل نشیں خطاب

’’اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلہ کو بڑھائے۔ پس کون ہے جو اسے روک لے؟‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)

حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام وہ مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق احیائے دین اور تکمیلِ اشاعتِ اسلام کے لیے آئے ہیں

آج یہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ جو قادیان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں جو احمدی اس جلسہ کو دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں کیا یہ سب اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی دلیل نہیں! کیا جھوٹے دعوے کرنے والے کو یہ شہرت ملتی ہے کہ تمام دنیا میں اس کے نام کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور ایک سو تیس سال سے زائد عرصہ میں چڑھنے والا ہر دن جماعت احمدیہ کی ترقی کی نوید لیتے ہوئے طلوع ہوتا ہے۔اے مخالفین احمدیت! کچھ تو عقل کرو!

ہمارے مخالفین سمجھتے ہیں کہ ان کی مخالفت احمدیت کی ترقی کی راہ میں روک بن سکتی ہے اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم احمدیت کے فتنہ کو نعوذ باللہ دنیا سے مٹا دیں گے اور اس کا دنیا کے آخری کونے تک مقابلہ کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی مخالفت میں بھی احمدیت کی سچائی کے نظارے دکھاتا ہے

کیا یہ تائیدات اور یہ تائیدی نشانات اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی وہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جن کے آنے کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی؟ اگر دل صاف ہو فطرت نیک ہو تو ان نام نہاد علماء کے پیچھے چلنے کی بجائے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور اللہ تعالیٰ سے راہنمائی حاصل کرے اور بجائے مخالفت کرنے کے جماعت کے بارے میں صحیح فیصلہ کرے

آج آپ لوگ جو قادیان میں جلسہ میں شامل ہیں اور وہ سب لوگ جو اپنے اپنے ممالک میں جلسہ میں شامل ہیں اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام یقیناً وہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آئے اور جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمیشہ رہی ہیں اور رہیں گی۔ ان شاء اللہ

ان شاء اللہ کل سے نیا سال شروع ہو رہا ہے۔ آج رات تہجد میں نئے سال کے بابرکت ہونے اور دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ ہونے کے لیے بھی دعا کریں۔

دنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھنے کے لیے بھی دعا کریں۔ آپؑ کو ماننے کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے حوالے سے تائیداتِ الٰہیہ کا بیان

مظلومینِ فلسطین، پاکستانی احمدیوں، اسیرانِ راہِ مولا کے لیےنیز نئے سال کے بابرکت ہونے اور دنیا سے ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے دعا ؤں کی تحریک

128ویں جلسہ سالانہ قادیان (2023ء) کے اختتامی اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا معرکہ آرا، بصیرت افروز اور دل نشیں خطاب (فرمودہ مورخہ31؍دسمبر2023ء بروزاتواربمقام ایوان مسرور، اسلام آباد ٹلفورڈ، یوکے)

(اس خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا۔(المزمل : 16)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے جیساکہ ہم نے فرعون کی طرف بھی ایک رسول بھیجا تھا۔

آج قادیان میں جماعتِ احمدیہ بھارت کا جلسہ سالانہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے

اور ساتھ ہی بہت سے دوسرے ممالک بھی ہیں جن میں جلسہ سالانہ کا ان دنوں انعقاد ہوا ہے۔ گذشتہ ہفتے میں ہواہے، ان دنوں میں ہوا یا آئندہ اگلے ہفتے ہو گا۔ آج بھی اس وقت یہ اختتامی سیشن مختلف ملکوں میں ہے مثلاً سینیگال ہے، ٹوگو ہے ،گنی کناکری ہے ،گنی بساؤ ہے اور یہ سب ممالک جو ہیں ان کی لائیوٹرانسمیشن جاری ہے، دوطرفہ ٹرانسمیشن ہو رہی ہے ہم ان کو دیکھ سکتے ہیں وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ ’’میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دوں گا۔ جَعَلْنَاکَ الْمسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔(ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا ) ان کو کہہ دے کہ میں عیسیٰؑ کے قدم پر آیا ہوں۔‘‘(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 442)پس

اب تمام دنیا کے ممالک میں جلسوں کا انعقاد، آپؑ کا نام عزت و احترام کے ساتھ پکارا جانا، آپؑ کے نام کا نعرہ یہ سب اس خدائی وعدے کے مصداق ہیںکہ آپؑ ہی وہ مسیح موعود اور مہدی معہودؑ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئے۔

آج یہ قادیان کی بستی جو سوا سو سال پہلے ایک معمولی گاؤں یا بستی تھی ایک خوبصورت شہر کی حیثیت اختیار کر گئی ہے بلکہ دنیا کے کونے کونے میں اس کی شہرت ہے اور یہ شہرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آپؑ سے کیے ہوئے وعدے کی وجہ سے ہے۔ آج اس بستی میں دنیا کے درجنوں ممالک کے باشندے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے جمع ہیں۔ اس وقت تقریباً بیالیس ممالک کے نمائندے وہاں موجود ہیں۔ روسی ممالک کے لوگ بھی ہیں، عرب ممالک کے لوگ بھی ہیں، افریقن ممالک کے لوگ بھی ہیں، انڈونیشیا اور جزائر کے لوگ بھی ہیں، یورپ اور امریکہ کے اور آسٹریلیا کے براعظموں کے لوگ بھی ہیں۔ پس یہ خوبصورتی ہے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کی۔ ایک آدمی جو ایک چھوٹی سی جگہ میں رہتا ہے جہاں پہنچنے کے راستے بھی کٹھن ہیں اور کسی قسم کے وسائل بھی نہیں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں تجھے عزت کے ساتھ شہرت دوں گا۔ اور پھر وہ وعدہ بڑی شان سے پورا بھی ہو رہا ہے۔ اس لیے پورا ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو چودھویں صدی میں آپؐ کے غلامِ صادق کے آنے کی خبر دی تھی تاکہ احیائے دین کا ایک نیا دَور شروع ہو اس کی تکمیل اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ پس

حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام وہ مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق احیائے دین اور تکمیل اشاعت اسلام کے لیے آئے ہیں۔

پس مسلمانوں کو تو اس بات پر خوشی ہونی چاہیے کہ اسلام کی نشأة ثانیہ کا دَور آیا ہے اور کمزوریاں دُور کرنے کا زمانہ آیا ہے اور اشاعت و تبلیغ اسلام کا زمانہ آیا ہے لیکن نام نہاد علماء کے خود غرضانہ مفادات عامة المسلمین کو صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لیکن ایک وقت آئے گا جب انہیں ماننا پڑے گا۔ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آخر یہ لوگ مانیں گے۔

اس وقت میں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے حوالے سے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے حوالے سے کچھ باتیں

کروں گا۔

یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کی لطیف اور خوبصورت پُرمعرفت تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مختلف کتب اور ارشادات میں بیان فرمائی ہے۔ یہاںاس میں سے کچھ حوالے مَیں پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں : ’’طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو اس امّت میں سے پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدہ فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے زمانہ نبوت کے اوّل اور آخر کے لحاظ سے حضرت موسیٰؑ سے مشابہ ہوں گے۔ پس وہ مشابہت ایک تو اوّل زمانہ میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ تھا اور ایک آخری زمانہ میں۔ سو اوّل مشابہت یہ ثابت ہوئی کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا نے آخر کار فرعون اور اس کے لشکر پر فتح دی تھی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو آخر کار ابوجہل پر جو اس زمانہ کا فرعون تھا اور اس کے لشکر پر فتح دی اور ان سب کو ہلاک کر کے اسلام کو جزیرہ عرب میں قائم کر دیا اور اس نصرتِ الٰہی سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا (المزمل:16) اور آخری زمانہ میں یہ مشابہت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ملتِ موسوی کے آخری زمانہ میں ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا جو جہاد کا مخالف تھا اور دینی لڑائیوں سے اسے کچھ سروکار نہ تھا بلکہ عفو اور درگذر اس کی تعلیم تھی۔ اور وہ ایسے وقت میں آیا تھا جبکہ بنی اسرائیل کی اخلاقی حالتیں بہت بگڑ چکی تھیں اور ان کے چال چلن میں بہت فتور واقع ہو گیا تھا اور ان کی سلطنت جاتی رہی تھی اور وہ رومی سلطنت کے ماتحت تھے اور وہ حضرت موسیٰؑ سے ٹھیک ٹھیک چودھویں صدی پر ظاہر ہوا تھا اور اس پر سلسلہ اسرائیلی نبوت کا ختم ہو گیا تھا اور وہ اسرائیلی نبوت کی آخری اینٹ تھی۔ ایسا ہی

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری زمانہ میں مسیح ابن مریمؑ کے رنگ اور صفت میں اس راقم کو مبعوث فرمایا اور میرے زمانہ میں رسم جہاد کو اٹھا دیا جیساکہ پہلے سے خبر دی گئی تھی کہ مسیح موعودؑ کے زمانہ میں جہاد کو موقوف کر دیا جائے گا۔ اسی طرح مجھے عفو اور درگذر کی تعلیم دی گئی اور میں ایسے وقت میں آیا جبکہ اندرونی حالت اکثر مسلمانوں کی یہودیوں کی طرح خراب ہو چکی تھی اور روحانیت گم ہو کر صرف رسوم اور رسم پرستی ان میں باقی رہ گئی تھی اور قرآن شریف میں ان امور کی طرف پہلے سے اشارہ کیا گیا تھا۔‘‘

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20صفحہ 212-213)

پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں:’’مسیح موعود کی پیشگوئی صرف حدیثوں میں نہیں ہے بلکہ قرآن شریف نے نہایت لطیف اشارات میں آنے والے مسیح کی خوشخبری دی ہے جیساکہ اس نے وعدہ فرمایا ہے کہ جس طرز اور طریق سے اسرائیلی نبوتوں میں سلسلۂ خلافت قائم کیا گیا ہے وہی طرز اسلام میں ہو گی۔ یہ وعدہ مسیح موعودؑ کے آنے کی خوشخبری اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ جب سِلسلہ خلافت انبیاء بنی اسرائیل میں غور کی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ سِلسلہ حضرت موسیٰ سے شروع ہوا اور پھر چودہ سو برس بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہو گیا۔ اور اِس نظامِ خلافت پر نظر ڈال کر معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کا مسیح موعود جس کے آنے کی یہود کو خوشخبری دی گئی تھی چودہ سو برس بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آیا اور غریبوں اور مسکینوں کی شکل میں ظاہر ہوا اور اس مماثلت کے پورا کرنے کے لئے جو قرآن شریف میں دونوں سلسلہ خلافت اسرائیلی اور خلافت محمدی میں قائم کی گئی ہے ضروری ہے کہ ہر ایک منصف اِس بات کو مان لے کہ سلسلہ خلافتِ محمدیہ کے آخر میں بھی ایک مسیح موعود کا وعدہ ہو جیساکہ سِلسلہ خلافت موسویہ کے آخر میں ایک مسیح موعود کا وعدہ تھا اور نیز تکمیل مشابہت دونوں سِلسلوں کے لئے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جیساکہ خلافت موسویہ کے چودہ سو برس کی مدت پر مسیح موعود بنی اسرائیل کے لئے ظاہر ہوا تھا ایسا ہی اور اسی مدت کے مشابہ زمانہ میں خلافتِ محمدیؐہ کا مسیح موعود ظاہر ہو۔ اورنیز تکمیل مشابہت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جیساکہ یہودیوں کے علماء نے خلافت موسویہ کے مسیح موعود کو نعوذ باللہ کافر اور ملحد اور دجال قرار دیا تھا ایسا ہی خلافتِ محمدیہ کے مسیح موعود کو اسلامی قوم کے علماء کافر اور ملحد اور دجال قرار دیں۔ اور نیز تکمیل مشابہت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جیساکہ خلافتِ موسویہ کا مسیح موعود ایسے وقت میں آیا تھا کہ جبکہ یہودیوں کی اخلاقی حالت نہایت ہی خراب ہو گئی تھی اور دیانت اور امانت اور تقویٰ اور طہارت اور باہمی محبت اور صلح کاری میں بہت فتور پڑ گیا تھا اور ان کی اس ملک کی بھی سلطنت جاتی رہی تھی جس ملک میں مسیح موعود ان کی دعوت کے لئے ظاہر ہوا تھا۔ ایسا ہی خلافتِ محمدیہ کا مسیح موعود قوم کی ایسی حالت اور ایسے ادبار کے وقت ظاہر ہو۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 283-284)

چنانچہ یہی حالات تھے جب آپ علیہ السلام نے دعویٰ فرمایا اور فرمایا کہ مَیں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس نے آنا تھا۔

مسیح موعود کے زمانے کے بارے میں کیا قرآنی پیشگوئیاں ہیں؟

اس بارے میں ہم دیکھتےہیں کس شان سے پوری ہوئیں اور اس زمانے میں پوری ہو رہی ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’پھر اسی زمانہ کی علامات میں جبکہ ارضی علوم وفنون زمین سے نکالے جائیں گے بعض ایجادات اور صناعات کو بطور نمونہ کے بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَ اِذَا الۡاَرۡضُ مُدَّتۡ۔ وَ اَلۡقَتۡ مَا فِیۡہَا وَ تَخَلَّتۡ(الانشقاق :4تا5) جبکہ زمین کھینچی جاوے گی یعنی زمین صاف کی جائے گی اور آبادی بڑھ جاوے گی اور جو کچھ زمین میں ہے اس کو زمیں باہر ڈال دے گی اور خالی ہو جائے گی یعنی تمام ارضی استعدادیں ظہور و بروز میں آجائیں گی‘‘ اور یہ پیشگوئی بھی ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ علاوہ اس کے کہ آبادیاں قائم ہو رہی ہیں، زمینی وسائل کو بھی نکالا جا رہا ہے اور بعض ملکوں میں تو بعض معدنیات بعض علاقوں میں ختم ہو گئی ہیں۔

پھر فرمایا کہ ’’… وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ (التکویر : 5) یعنی اس وقت اونٹنی بیکا رہو جائے گی اور اس کا کچھ قدرومنزلت نہیں رہے گا … وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ (التکویر :11) اور جس وقت کتابیں منتشر کی جائیں گی اور پھیلائی جائیں گی یعنی اشاعت کتب کے وسائل پیدا ہو جائیں گے۔ یہ چھاپے خانوں اورڈاک خانوں کی طر ف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں ان کی کثرت ہو جائے گی۔‘‘اور اب تو اَور بھی نئے نئے ذرائع نشر و اشاعت کے نکل آئے ہیں۔ آج یہ ہمارا جلسہ جو ہو رہا ہے یہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔

فرمایا ’’وَ اِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ (التکویر :8) اور جس وقت جانیں باہم ملائی جائیں گی۔ یہ تعلقاتِ اقوام اور بلاد کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں بباعث راستوں کے کھلنے اور انتظام ڈاک اور تار برقی کے تعلقات بنی آدم کے بڑھ جائیں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو ملے گی اور دُور دُور کے رشتے اورتجارتی اتحاد ہوںگے اور بلاد بعیدہ کے دوستانہ تعلقات بڑھ جائیں گے۔‘‘ ٹی وی انٹرنیٹ وغیرہ اسی کا ثبوت ہیں ہوائی راستے ہیں۔ آج لوگ یہاں اکٹھے ہیں قادیان میں یہ اسی کا ثبوت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تبلیغ کے ذریعہ دنیا کے ہر ملک میں جو پیغام پہنچا ہے اسلام کا یہ اسی بات کی دلیل ہے۔

’’وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ (التکویر :6) اورجس وقت وحشی آدمیوں کے ساتھ اکٹھے کئے جائیں گے مطلب یہ ہے کہ وحشی قومیں تہذیب کی طرف رجوع کریں گی اور ان میں انسانیت اورتمیز آئے گی اور اراذل دنیوی مراتب اورعزت سے ممتاز ہو جائیں گے اور بباعث دنیوی علوم و فنون پھیلنے کے شریفوں اوررذیلوں میں کچھ فرق نہیں رہے گا بلکہ رذیل غالب آجائیں گے یہاں تک کہ کلید دولت اور عنانِ حکومت ان کے ہاتھ میں ہو گی اور مضمون اس آیت کا ایک حدیث کے مضمون سے بھی ملتا ہے۔‘‘

پھر فرمایا: ’’وَ اِذَا الۡبِحَارُ فُجِّرَتۡ (الانفطار :4) اور جس وقت دریا چیرے جاویں گے یعنی زمین پر نہریں پھیل جائیں گی اور کاشتکاری کثرت سے ہو گی۔

وَ اِذَا الۡجِبَالُ نُسِفَتۡ (المرسلات :11)اور جس وقت پہاڑ اڑائے جائیں گے اور ان میں سڑکیں پیادوں اور سواروں کے چلنے کی یاریل کے چلنے کے لئے بنائی جائیں گی۔

پھر علاوہ اس کے عام ظلمت کی نشانیاں بیان فرمائیں اور فرمایا۔ اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ (التکویر :2) جس وقت سورج لپیٹا جاوےگا یعنی سخت ظلمت، جہالت اور معصیت کی دنیا پر طاری ہو جائے گی۔‘‘ اندھیرا چھا جائے گا۔ آج کل یہی ہے گناہوں میں ڈوبے پڑے ہیں سارے۔ ’’وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡ (التکویر :3) اور جس وقت تارے گدلے ہو جاویں گے یعنی علماء کا نورِ اخلاص جاتا رہے گا۔ وَاِذَا الۡکَوَاکِبُ انۡتَثَرَتْ (الانفطار :3) اور جس وقت تارے جھڑ جاویں گے یعنی ربانی علماء فوت ہو جائیں گے کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ زمین پر تارے گریں اور پھر زمین پر لوگ آباد رہ سکیں۔ ‘‘اس کا مراد یہ نہیں کہ اصلی ستارے زمین پر گریں گے بلکہ یہی ہے کہ علماء جو حقیقی علماء ہیں وہ نہیں رہیں گے۔ پھر فرمایا کہ ’’یاد رہے کہ مسیح موعود کے آنے کے لئے اسی قسم کی پیشگوئی انجیل میں بھی ہے کہ وہ اس وقت آئے گا کہ جب زمین پر تارے گر جائیں گے اور سورج اور چاند کا نور جاتا رہے گا۔ اور اِن پیشگوئیوں کو ظاہر پر حمل کرنا اس قدر خلافِ قیاس ہے کہ کوئی دانا ہرگز یہ تجویز نہیں کرے گا کہ درحقیقت سورج کی روشنی جاتی رہے اور ستارے تمام زمین پر گر پڑیں اور پھر زمین بدستور آدمیوں سے آباد ہو اور اس حالت میں مسیح موعود آوے۔‘‘ اگر ظاہری طور پر لیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر تارے گریں اور سورج کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور سب کچھ گرتا ہے تو یہ تو تباہ و برباد قیامت کا نظارہ ہو گا اس وقت مسیح موعود نے آکے کیا کرنا ہے اور کس طرح آ سکتا ہے جبکہ آبادی نہیں ہوگی۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’اور پھر فرمایا اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ (الانشقاق:2) جس وقت آسمان پھٹ جاوے۔ ایسا ہی فرمایا۔اِذَا السَّمَآءُ انۡفَطَرَتۡ (الانفطار :2) اور انجیل میں بھی اسی کے مطابق مسیح موعود کے آنے کی خبر دی ہے مگر اِن آیتوں سے یہ مراد نہیں ہے کہ درحقیقت اس وقت آسمان پھٹ جائے گایا اس کی قوتیں سست ہوجائیں گی بلکہ مدعا یہ ہے کہ جیسے پھٹی ہوئی چیز بیکار ہو جاتی ہے ایسا ہی آسمان بھی بیکار سا ہو جائے گا۔ آسمان سے فیوض نازل نہیں ہوںگے اوردنیا ظلمت اورتاریکی سے بھر جائے گی۔‘‘ یعنی روحانیت ختم ہو جائے گی اور اس کو آج سب تسلیم کرتے ہیں کہ روحانیت ختم ہو چکی ہے۔ ’’اورپھر ایک جگہ فرمایا وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتۡ (المرسلات :12) اورجب رسول وقت مقررہ پر لائے جائیں گے یہ اشارہ درحقیقت مسیح موعود کے آنے کی طرف ہے اور اِس بات کا بیان مقصود ہے کہ وہ عین وقت پر آئے گا۔‘‘

(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد6صفحہ 317تا 319)

آج کل کے علماء مسیح موعود کو نہ ماننے کے عذر تلاش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قربِ قیامت کا زمانہ ہو گا۔ جب قیامت آ رہی ہے تو رسولوں کو جمع کرنے کا مقصد کیا ہے! اصل بات یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ایک رسول آئے گا جو تمام رسولوں کی امّت کو اکٹھا کرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لائے گا۔ کاش! نام نہاد علماء اس نکتہ کو سمجھیں۔ بہرحال یہ تمام قرآنی آیات ثابت کرتی ہیں کہ یہ زمانہ مسیح موعود کی آمد کا زمانہ ہے۔

پھر آپؑ نے

مسیح موعود کے زمانے کے بارے میں احادیث کی پیشگوئیاں

بھی بیان فرمائی ہیں۔ مثلاً

مسیح موعود کی آمد کے ساتھ نئی سواریوں کے آنے کی پیشگوئی کا ذکر

کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں: ’’قیامت کے قرب اور مسیح موعود کے آنے کا وہ زمانہ ہے جبکہ اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی یہ آیت صحیح مسلم کی اس حدیث کی مصدق ہے جہاں لکھا ہے کہ وَیُتْرَك الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں اونٹنیاں بیکار چھوڑ دی جائیں گی اوران پر کوئی سوار نہیں ہو گا۔ یہ ریل گاڑی پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب کوئی اعلیٰ سواری میسر آتی ہے تبھی ادنیٰ سواری کو چھوڑتے ہیں۔ اور دوسری آیت گویا اس کا نتیجہ ہے اور ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اس زمانہ میں بعض آدمی بعض سے ملائے جائیں گے اور ظاہری تفرقہ قوموں کا دُور ہو جائے گا اور چونکہ صحیح مسلم میں کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ اونٹنیوں کے بیکار ہونے کا مسیح موعود کا زمانہ ہے اس لئے قرآن شریف کی آیت وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ (التکویر :5) جو حدیث یُتْرَك الْقِلَاصُ کے ہم معنے ہے بدیہی طور پر دلالت کرتی ہے کہ یہ واقعہ ریل جاری ہونے کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظہور میں آئے گا۔‘‘ اور یہ زمانہ ہم نے دیکھا۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان بھی پہلے سڑکوں کے ذریعہ سے رابطے تھے اور اب تو پانچ چھ سال سے وہاں ریل کا نظام بھی جاری ہو گیا ہے۔

فرمایا: ’’اسی لئے میں نے اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتکے یہی معنی کئے ہیں کہ وہ مسیح موعود کا زمانہ ہے کیونکہ حدیث نے اس آیت کی شرح کر دی ہے اور چونکہ ریل کے جاری ہونے پر ایک مدت گذر چکی ہے جو مسیح موعود کی علامت ہے اس لئے ایک مومن کو ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود ظاہر ہو چکا ہے … سوچ کر دیکھو کہ جب مکہ اور مدینہ میں اونٹ چھوڑ کر ریل کی سواری شروع ہو جائے گی تو کیا وہ روز اس آیت اور حدیث کے مصداق نہ ہو گا؟‘‘ اور اب دیکھیں وہ شروع ہو بھی چکی ہے اس زمانے میں۔ ’’ضرور ہوگا اور تمام دل اس دن بول اٹھیں گے کہ آج وہ پیشگوئی مکہ اور مدینہ کی راہ میں کھلے کھلے طور پر پوری ہو گئی۔ ہائے افسوس ان نام کے مسلمانوں پر کہ جو نہیں چاہتے کہ (میرے بغض کی وجہ سے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشگوئی پوری ہو۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 81-82 حاشیہ)

قرآن و حدیث سے آپؑ نے متعدد نشانیاں اور پیشگوئیاں بیان فرمائی ہیں اور ثابت فرمایا ہے کہ یہ زمانہ مسیح موعود کی آمد کا ہی زمانہ ہے۔

ان سب کی تفصیل بیان کرنا اس وقت ممکن نہیں بہرحال یہ پیشگوئیاں پیش فرمانے کے بعد آپؑ نے فرمایا کہ وہ آنے والا مسیح موعود میں ہی ہوں۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:’’میں زور سے کہتا ہوں کہ میرا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ اِسی شان کاہے کہ ہر ایک پہلو سے چمک رہا ہے۔ اوّل اِس پہلو کو دیکھو کہ میرا دعویٰ منجانب اللہ ہونے کا اور نیز مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہونے کا قریباً ستائیس برس سے ہے۔ یعنی اس زمانہ سے بھی بہت پہلے ہے کہ جب براہین احمدیہ ابھی تالیف نہیں ہوئی تھی اور پھر براہین احمدیہ کے وقت میں وہ دعویٰ اسی کتاب میں لکھ کر شائع کیا گیا جس کو چوبیس برس کے قریب گزر چکے ہیں۔ اب دانا آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جھوٹ کا سلسلہ اس قدر لمبا نہیں ہوسکتا اور خواہ کوئی شخص کیسا ہی کذاب ہو وہ ایسی بدذاتی کا اس قدر دُور دراز مدت تک جس میں ایک بچہ پیدا ہو کر صاحبِ اولاد ہو سکتا ہے طبعاً مرتکب نہیں ہو سکتا۔ ماسوائے اس کے اس بات کوکوئی عقلمند قبول نہیں کرے گا کہ ایک شخص قریباً ستائیس برس سے خدا تعالیٰ پر افترا کرتا ہے اور ہر ایک صبح اپنی طرف سے الہام بنا کر اور محض اپنی طرف سے پیشگوئیاں تراش کر کے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے اور ہر ایک دن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا ہے۔ حالانکہ خدا جانتا ہے کہ وہ اس بات میں جھوٹا ہے۔ نہ اس کو کبھی الہام ہوا اور نہ خدا تعالیٰ اس سے ہمکلام ہوا۔ اور خدا اس کو ایک لعنتی انسان سمجھتا ہے مگر پھر بھی اس کی مدد کرتا ہے۔‘‘ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود جھوٹا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے ’’اور اس کی جماعت کو ترقی دیتا ہے۔‘‘ عجیب بات ہے۔ ’’اور ان تمام منصوبوں اور بلاؤں سے اسے بچاتا ہے جو دشمن اس کے لئے تجویز کرتے ہیں۔‘‘ یہ عجیب بات نہیں ؟

’’پھر ایک اَور دلیل ہے جس سے میری سچائی روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوتی ہے اورمیرا منجانب اللہ ہونا بپایہ ثبوت پہنچتاہے اور وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا یعنی براہین احمدیہ کے زمانہ میں جبکہ میں ایک گوشہ تنہائی میں اس کتاب کو تالیف کررہا تھا اور بجز اس خدا کے جو عالم الغیب ہے کوئی میری حالت سے واقف نہ تھا تب اس زمانہ میں خدا نے مجھے مخاطب کر کے چند پیشگوئیاں فرمائیں جو اسی تنہائی اور غربت کے زمانہ میں براہین احمدیہ میں چھپ کر تمام ملک میں شائع ہوگئیں۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 188-189)

آج یہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ جو قادیان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں جو احمدی اس جلسہ کو دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں کیا یہ سب اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی دلیل نہیں! کیا جھوٹے دعوے کرنے والے کو یہ شہرت ملتی ہے کہ تمام دنیا میں اس کے نام کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور ایک سو تیس سال سے زائد عرصہ (بلکہ اب تو ایک سو چونتیس سال ہو گئے) چڑھنے والا ہر دن جماعت احمدیہ کی ترقی کی نوید لیتے ہوئے طلوع ہوتا ہے۔

اے مخالفین احمدیت! کچھ تو عقل کرو۔

اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا ذکر

کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:’’میرے پر جو میری قوم طرح طرح کے اعتراض پیش کرتی ہے مجھے ان کے اعتراضوں کی کچھ بھی پروا نہیں اور سخت بے ایمانی ہوگی اگر میں ان سے ڈر کر سچائی کی راہ کو چھوڑ دوں اور خود ان کو سوچنا چاہئے کہ ایک شخص کو خدا نے اپنی طرف سے بصیرت عنایت فرمائی ہے اور آپ اس کو راہ دکھلا دی ہے اور اس کو اپنے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف فرمایا ہے اور ہزارہا نشان اس کی تصدیق کے لئے دکھلائے ہیں کیونکر ایک مخالف کی ظنیات کو کچھ چیز سمجھ کر اس آفتاب صداقت سے منہ پھیر سکتا ہے۔ اور مجھے اس بات کی بھی پروا نہیں کہ اندرونی اور بیرونی مخالف میری عیب جوئی میں مشغول ہیں کیونکہ اس سے بھی میری کرامت ہی ثابت ہوتی ہے وجہ یہ کہ اگر میں ہر قسم کا عیب اپنے اندر رکھتا ہوں اور بقول ان کے میں عہد شکن اور کذاب اور دجال اور مفتری اور خائن ہوں اور حرام خور ہوں اور قوم میں پھوٹ ڈالنے والا اور فتنہ انگیز ہوں اور فاسق اور فاجر ہوں اور خدا پر قریباً تیس برس سے افترا کرنے والا ہوں اور نیکوں اور راستبازوں کو گالیاں دینے والا ہوں اور میری روح میں بجز شرارت اور بدی اور بدکاری اور نفس پرستی کے اَور کچھ نہیں اور محض دنیا کے ٹھگنے کے لئے میں نے یہ ایک دوکان بنائی ہے اور نعوذباللہ بقول ان کے میرا خدا پر بھی ایمان نہیں اور دنیا کا کوئی عیب نہیں جو مجھ میں نہیں مگر باوجود اِن باتوں کے جو تمام دنیا کے عیب مجھ میں موجود ہیں اور ہر ایک قسم کا ظلم میرے نفس میں بھرا ہوا ہے اور بہتوں کے میں نے بیجا طور پر مال کھا لئے اور بہتوں کو میں نے (جو فرشتوں کی طرح پاک تھے)‘‘ نام نہاد لوگ جو اپنے آپ کو نیک سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ حقیقت میں پاک تھے بلکہ اپنے آپ کو فرشتوں کی طرح پاک سمجھتے تھے۔ انہیں ’’گالیاں دی ہیں اور ہر ایک بدی اور ٹھگ بازی میں سب سے زیادہ حصہ لیا تو پھر اس میں کیا بھید ہے کہ بد اور بدکار اور خائن اور کذاب تو میں تھا مگر میرے مقابل پر ہر ایک فرشتہ سیرت جب آیا تو وہی مارا گیا جس نے مباہلہ کیا وہی تباہ ہوا جس نے میرے پر بد دعا کی وہ بد دعا اسی پر پڑی۔ جس نے میرے پر کوئی مقدمہ عدالت میں دائر کیا اسی نے شکست کھائی … چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے مقابلہ کے وقت میں ہی ہلاک ہوتا میرے پر ہی بجلی پڑتی بلکہ کسی کے مقابل پر کھڑے ہونے کی بھی ضرورت نہ تھی کیونکہ مجرم کا خود خدا دشمن ہے۔ پس برائے خدا سوچو کہ یہ الٹا اثر کیوں ظاہر ہوا۔ کیوں میرے مقابل پر نیک مارے گئے اور ہر ایک مقابلہ میں خدا نے مجھے بچایا‘‘ ۔ یعنی نیک مارے گئے سے مراد وہ نام نہاد نیک ہے۔ ’’کیا اس سے میری کرامت ثابت نہیں ہوتی؟‘‘ یہ بھی تو کرامت ثابت ہوتی ہے۔ میں اتنا بُرا تھا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ میری مدد فرما رہا ہے۔ ’’پس یہ شکر کا مقام ہے کہ جو بدیاں میری طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ بھی میری کرامت ہی ثابت کرتی ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 2)

پھر

تائیدی نشانات کا ذکر

کرتے ہوئے آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں:’’عبد الحق غزنوی ثم امرتسری نے مباہلہ کے بعد اپنی نسبت مباہلہ کا اثر یہ ظاہر کیا تھا کہ میرا بھائی مر گیا ہے اس کی بیوی سے میں نے نکاح کیا ہے اور اس کو حمل ہو گیاہے اور اب اس کو لڑکا پیدا ہوگا اور وہ مباہلہ کا اثر سمجھا جائے گا مگر اس حمل کا انجام یہ ہوا کہ کچھ بھی پیدا نہ ہوا۔‘‘ اس نے دعویٰ کیا تھا۔ مباہلے کا چیلنج دیا تھا کہ یہ ہو گا لیکن کچھ بھی پیدا نہ ہوا ’’اور اب تک وہ باوجود گزرنے چودہ برس کے‘‘ چودہ سال گزر گئے ہیں۔ ’’نامرادی اور ذلت کی زندگی بھگت رہا ہے اور بر خلاف اس کے مباہلہ کے بعد‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مباہلہ کے بعد ’’میرے گھر میں کئی لڑکے پیدا ہوئے اور کئی لاکھ انسان نے بیعت کی اور کئی لاکھ روپیہ آیا اور دنیا کے کناروں تک عزت کے ساتھ میری شہرت ہو گئی اور اکثر دشمن مباہلہ کے بعد مر گئے اور ہزارہا نشان آسمانی میرے ہاتھ پر ظاہر ہوئے۔‘‘

(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 444 حاشیہ)

پھر اسی حوالے سے مزید بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہر ایک منصف مولوی غلام دستگیر قصوری کی کتاب کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح اس نے اپنے طور پر میرے ساتھ مباہلہ کیا اور اپنی کتاب فیض رحمانی میں اس کو شائع کر دیا اور پھر اس مباہلہ سے صرف چند روز بعد فوت ہو گیا اور کس طرح چراغدین جموں والے نے اپنے طور سے مباہلہ کیا اور لکھا کہ ہم دونوں میں سے جھوٹے کو خدا ہلاک کرے اور پھر اس سے صرف چند روز بعد طاعون سے مع اپنے دونوں لڑکوں کے ہلاک ہو گیا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 71حاشیہ)

اور پھر

یہ نشانات آج بھی جاری ہیں۔

جیساکہ میں نے کہا کہ ہر روز جماعتی ترقی کے نظارے ہم دیکھتے ہیں۔ دُور دراز کے علاقوں کے مختلف قوموں کے لوگوں کی اللہ تعالیٰ راہنمائی فرماتا ہے۔ مسلمان ہوں یا عیسائی ہوں یا لامذہب ہوں کئی لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتہ چلا ہے تو وہ جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ کسی کو اللہ تعالیٰ خواب کے ذریعہ سے یا کسی خاص ذریعہ سے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ احمدیت، حقیقی اسلام اور سچائی کی طرف لے جانے والا ایک راستہ ہے۔ بعض تائیدی نشانات آج بھی دکھا کر جہاں احمدیوں کے ایمان بڑھاتا ہے وہاں غیروں پر بھی احمدیت کی سچائی ظاہر کرتا ہے۔

آج کل کی تائیدات جو اللہ تعالیٰ جس طرح کرتا ہے،

جس طرح جماعت احمدیہ پھیل رہی ہے اس کی چند مثالیں

بھی میں پیش کر دیتا ہوں۔

گنی بساؤ

ایک ملک ہے جہاں آج اس وقت جلسہ بھی ہو رہا ہے۔ وہاں کے ایک ممبر ابراہیم صاحب ہیں۔ ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے اور ایک قریب کے گاؤں کے امام وہاں آئے اور جماعت کے خلاف بولنا شروع کر دیا۔ اس پر ابراہیم صاحب نے کہا کہ میں احمدیہ مسلم جماعت کا ممبر ہوں اور جو کچھ آپ بول رہے ہیں بالکل جھوٹ ہے۔ احمدیہ مسلم جماعت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والی سچی جماعت ہے اور جس امام مہدی کے آنے کی پیشگوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ان کو ماننے والی جماعت ہے۔ آپ ایک امام ہو کر جماعت کے خلاف جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ آپ کو زیب نہیں دیتا۔ اس پر اس امام کو کافی غصہ آیا۔ کہنے لگا کہ

اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے سزا دے اور اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو تمہیں سزا ملے۔

یہ بات کر کے وہ اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ کچھ ہی دیر بعد اطلاع آئی کہ گاؤں کے باہر ایکسیڈنٹ ہوا ہے جس میں اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ جب یہ اطلاع گاؤں پہنچی تو ان کے دوست جو گفتگو کے وقت وہاں بیٹھے ہوئے تھے برملا کہنے لگے کہ یقیناً احمدیت سچی جماعت ہے جس کا نشان اللہ تعالیٰ نے آج ہمیں دکھایا ہے اور انہوں نے پھر احمدیت قبول کر لی۔

پھر

تنزانیہ

گیٹا ریجن میں نیامونگو ایک جگہ ہے۔ تبلیغ کے دوران ایک خاندان سے ہمارے وفد کا رابطہ ہوا۔ جماعت کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا جماعتی اخبار پڑھنے کے لیے دیا گیا۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر بھی تھی۔ چند دن بعد انہوں نے بتایا کہ

ہمیں تو امام الزماںؑ کی تصویر دیکھ کر ایک عجیب سکون محسوس ہو رہا ہے

چنانچہ اس خاندان کے تمام افراد نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ اب ایک طرف تو یہ بدفطرت علماء پاکستان اور ہندوستان میں بھی ہیں بعض جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو اپنے پائے دان پہ رکھتے ہیں اور پاؤں کے نیچے مسلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن

نیک فطرت لوگ اللہ تعالیٰ نے ایسے بھی پیدا فرمائے ہیں جن کے لیے یہ تصویر بھی تسکین کا باعث بن رہی ہے۔ ہمارے مخالفین سمجھتے ہیں کہ ان کی مخالفت احمدیت کی ترقی کی راہ میں روک بن سکتی ہے اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم احمدیت کے فتنہ کو نعوذ باللہ دنیا سے مٹا دیں گے اور اس کا دنیا کے آخری کونے تک مقابلہ کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی مخالفت میں بھی احمدیت کی سچائی کے نظارے دکھاتا ہے۔

چنانچہ تنزانیہ سے ایک نومبائع کہتے ہیں کہ میرا نام عبداللہ ہے۔ جماعت میں داخل ہونے کے بعد میں نے اپنے لیے یہ نام پسند کیا تھا۔ کہتے ہیں میرے گاؤں میں کچھ عرصہ پہلے جماعت احمدیہ کے معلم تبلیغ کی غرض سے آئے تو بعض لوگوں نے ان کی باتیں سن کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ میں نے اس وقت بیعت نہیں کی تھی لیکن مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے معلم صاحب کا ٹیلیفون نمبر لکھ لیا۔ اس کے بعد جب معلم صاحب واپس چلے گئے تو میں نے دیکھا کہ کچھ اَور مسلمان بڑی بڑی گاڑیوں میں آئے ہیں اور انہوں نے نئے احمدیوں کو کہنا شروع کیا کہ احمدی جھوٹے ہیں یہ مسلمان نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ دیکھ کر میں نے احمدیہ جماعت کے معلم صاحب کو فون کیا کہ میں نے آپ کی باتیں سنی ہیں لیکن ابھی بیعت نہیں کی۔ آپ کے جانے کے بعد اس طرف مسلمانوں کا ایک گروہ آیا تھا جس نے فتنہ اور ہمیں آپ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی ہے، فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہےبھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ یہ میرے لیے ایک واضح نشان ہے کہ آپ سچ پر ہیں اور میں بھی بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ شاید اگر یہ مخالفت نہ ہوتی تو وہ کچھ عرصہ اَور انتظار کرتے اور مزید تحقیق کرتے لیکن اس مخالفت نے فوری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی صداقت ان پر ظاہر کر دی اور اللہ تعالیٰ نے قبولیت کے لیے ان کا سینہ کھول دیا۔

انڈیا

سے وہاں کے مبلغ انچارج کہتے ہیں تبلیغ کی غرض سے ایک جگہ گئے جہاں ایک دوست تاجر صاحب تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مل کر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ کہنے لگے کہ میں آپ لوگوں کا بڑی دیر سے انتظار کر رہا تھا۔ راجدھانی امپال جگہ ہے۔ انہوں نے دوران گفتگو اپنے بیگ سے دو تین کاغذ نکالے جن پر شرائط بیعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں قرآن اور حدیث کی پیشگوئی تحریر تھی۔ انہوں نے یہ کاغذ خود تیار کر کے اپنے دوستوں میں تقسیم کرنے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ

مجھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پتہ چلا تو میں نے 2016ء میں ہی جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

ریڈیوسے یا کسی ذریعہ سے انہیں خبر پہنچ گئی تو انہوں نے اعلان کر دیا کہ مسیح موعود آ چکے ہیں اور میں ان کی بیعت میں آتا ہوں جس پر لوگوں نے مخالفت کرنا شروع کر دی بلکہ کہتے ہیں ایک دن مخالفین اکٹھے ہو کر مجھے مارنے اور توبہ کرانے کے لیے نکلے لیکن خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس دن شدید زلزلہ آیا۔ جو لوگ مجھے مارنے اور توبہ کرانے کے لیے آنے والے تھے ان لوگوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا جس کی وجہ سے وہ مجھ تک پہنچ نہ سکے۔ کہتے ہیں کہ

میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ زلزلہ ایک نشان کے طور پر آیا جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی صداقت کا نشان ہے۔

تب سے میں آپ لوگوں کے انتظار میں تھا۔ اس کے بعد بہرحال انہوں نے باقاعدہ بیعت کر لی۔

تنزانیہ

کی ایک جگہ ہے کابُوگُوزُو۔ یہاں بھی ایک نومبائع ہیں اسماعیل صاحب۔ کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں۔ وہاں افریقہ میں بعض دفعہ بارش میں بڑی شدید بجلی کڑکتی اور چمکتی ہے۔ ان کے علاقے میں وہاں اس جگہ جہاں کام کر رہے تھے وہاں بجلی گری اور ان کو بھی اثر ہوا اس کا۔ قریب ہی بجلی گری تھی۔ کہتے ہیں کہ میں نے جماعت کی سچائی کا ایک بڑا نشان دیکھا ہے۔ آسمانی بجلی اتنی خطرناک تھی کہ اس نے مجھے اٹھا کر دُور پھینک دیا اور میں بےہوش ہو گیا۔ کافی دیر بعد ہوش آیا تو تیز بارش ہو رہی تھی۔ بارش میں بھیگنے کی وجہ سے میری طبیعت سخت خراب ہو گئی۔ جسم میں کمزوری کی وجہ سے ہل بھی نہیں سکتا تھا اور نہ ہی آواز نکال کر کسی کو مدد کے لیے پکار سکتا تھا۔ جنگل کے قریب کھیت ہونے کی وجہ سے وہاں عموماً لوگوں کا گزر بھی نہیں ہوتا۔

میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے احمدیت کی صداقت کا نشان دکھائے۔

چنانچہ ایک شخص میرے قریب آیا اور کیچڑ میں لت پت میرا جسم دیکھ کر سمجھا کہ شاید میری وفات ہو چکی ہے۔ میں نے کچھ ہمت کر کے اپنا بازو بلند کیا جس سے اسے اندازہ ہوا کہ میں ابھی زندہ ہوں۔ اس شخص نے مجھے گاؤں تک پہنچانے میں مدد کی۔ اس طرح احمدیت کی برکت سے مجھے نئی زندگی ملی۔ بعد میں پتہ چلا کہ گاؤں میں ہمارے کھیت میں بجلی گرنے اور میری گمشدگی کی وجہ سے اعلان کر دیا گیا تھا کہ میری وفات ہو چکی ہے۔ کہتے ہیں بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہے اور ہم مرتے دم تک اس سے وابستہ رہیں گے۔ یہ نشان ہے میرے لیے۔ کس طرح اللہ تعالیٰ ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت ثابت فرماتا ہے اور جس کی فطرت نیک ہو وہی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بدفطرت علماء تو نہیں فائدہ اٹھا سکتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کیے گئے وعدے کے مطابق

اللہ تعالیٰ خود کس طرح لوگوں کی راہنمائی فرماتا ہے،

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے لوگوں کے آپؑ کے زمانے میں احمدیت قبول کرنے کے بہت سے واقعات بیان کیے ہیں لیکن یہ سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ آج بھی ہم ایسے بےشمار واقعات دیکھتے ہیں۔ بعض واقعات پیش کر دیتا ہوں۔

کتونو شہر کے قریب علاقہ ہے ہویدو پسیجا۔ ایک عیسائی دوست جن کا تعلق عیسائیت کے فرقہ سلیست (Celeste) سے ہے وہ ہماری مسجد میں آئے اور اسلام کے متعلق بعض سوالات کیے۔ انہیں اسلامی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کے حوالے سے سمجھایا گیا۔ کہنے لگے کہ میں جماعت احمدیہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ سمجھاؤ نہ مجھے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے خود میری راہنمائی کی ہے۔ کہتے ہیں کہ

چند دن قبل میں نے خواب میں دو بزرگوں کو دیکھا تھا۔ ان میں سے ایک نے مجھے اشارہ کرکے کہا کہ جس مذہب پر تم قائم ہو وہ ہدایت کا راستہ نہیں اور دوسرے جو بزرگ تھے وہ خواب میں مستقل اللہ اکبر! اللہ اکبر! کا ورد کر رہے تھے۔

اس لیے خواب کے بعد مجھے یہ اشارہ مل گیا کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے۔ بہرحال اس کے بعد

انہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اور میری تصویر دکھائی تو حیرت سے کہنے لگے کہ یہی تو دونوں تھے جنہوں نے خواب میں میری راہنمائی کی تھی۔

چنانچہ یہ بھی اپنے سارے خاندان سمیت عیسائی مذہب چھوڑ کر اسلام احمدیت میں داخل ہو گئے اور اپنے گھر کے قریب ان کا جو چرچ تھا اس کو انہوں نے مسجد میں تبدیل کر لیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی نصرت کے لیے لوگ بھیجتا ہے۔

البانیہ

یورپ کا علاقہ ہے یہاں ایک نوجوان تھے جافیر صاحب۔ اکنامکس میں انہوں نے ماسٹرزکیا ہوا ہے۔ پہلے تو انہوں نے جماعت کے بارے میں انٹرنیٹ سے سنا تھا اور جماعت کے خلاف ہر قسم کا جو مواد تھا اس کا انہوں نے مطالعہ کیا۔ اس لیے جب مسجد آتے تھے تو کئی قسم کے سوالات لے کے آتے تھے کیونکہ مخالفت میں مطالعہ کیا ہوا تھا۔ نائب صدر صاحب ہیں وہاں کے بُیار رامائے صاحب۔ انہوں نے تفصیلی گفتگو کی، دلائل کے ساتھ ان کے سوالوں کے جوابات دیے۔ اس نوجوان سے کہا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب غور سے مطالعہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے کتب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ حقیقی اسلام کی حقیقت ان پہ واضح ہونا شروع ہو گئی۔ احمدیت کے بارے میں ان کو پتہ لگا، حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے بارے میں ان کو پتہ لگا۔ پہلے باتوں میں مرزا صاحب کہا کرتے تھے اس کے بجائے پھر انہوں نے The Messiahکا لفظ بولنا شروع کر دیا۔ مزید تحقیق کرنے لگے۔ آخر انہوں نے جب اسلامی اصول کی فلاسفی کا البانین ترجمہ پڑھا تو یہ ان کو اس قدر اچھی لگی کہ دو دفعہ انہوں نے شروع سے آخر تک اس کو پڑھا۔ اسی دوران

انہوں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ جس میں حضور علیہ السلام نے انہیں خلافت سے وابستہ ہونے کا پیغام دیا۔

چنانچہ اس کے بعد انہوں نے بیعت کے بعد جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کر لی اور اس کے بعد سے یہ باقاعدہ جماعت کی ویب سائٹ کا مطالعہ کرتے ہیں، قرآن مجید کی آیات کی جماعت کی طرف سے کی جانے والی تفسیر کا بھی انتظار کرتے رہتے ہیں۔ کب وہ آئے اور میں پڑھوں۔ بڑے اخلاص سے شامل ہوئے۔

تنزانیہ

کی بھی ایک اَور جماعت لُہوہا ہے۔ یہاں کی ایک خاتون نے آ کے بتایا کہ

روزانہ خواب میں ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ اسلام قبول کر لو اور امن میں آ جاؤ۔ ان کو ہمارے معلم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی تو اس خاتون نے کہا کہ یہی وہ شخص ہے جو میرے خواب میں آتا ہے

چنانچہ انہیں اسلام اور احمدیت کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا۔ جس پر انہوں نے بیعت کی۔

قرغیزستان

روسی ریاستوں میں سے ہے۔ یہاں بشکیک سے سرجانووا صاحبہ کہتی ہیں میں قرغیزستان کے سابقہ مفتی چوباک حاجی جلیلوو کو سنا کرتی تھی اور نماز بھی پڑھتی تھی۔ مسلمان تھیں۔ وہاں بہت ساری مسلمان سٹیٹس ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ میرے بھائی تورار بیک نے بھی نماز پڑھنا شروع کر دی ہے اور اس میں اچھی تبدیلی آ گئی ہے۔ مجھے پتہ چلا کہ اس کا ایک دوست ہے جو کہ احمدی ہے اور وہی اس کو مذہب کے بارے میں بتاتا رہتا ہے۔ پھر ایک دن میرا بھائی دجال کے بارے میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ پوچھنے پر اس نے دجال کی حقیقت کے بارے میں مجھے بتایا۔ اس وقت تو میں نے سوچا کہ میرا بھائی غلط راستے پر ہے لیکن اس کے باوجود مجھے اس کے حوالے سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد میرے بھائی کے احمدی دوست نے مجھے بھی مذہب اور احمدیت کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ اس نے قرآن و حدیث سے ثابت کیا کہ احمدیت ہی صحیح راستہ ہے۔ اس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مذہب کوئی کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ پھر کہتی ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے بھائی کا وہی احمدی دوست مجھے جماعت احمدیہ مسلمہ میں لے کر جا رہا ہے۔ اس پر میں نے احمدیت قبول کر لی اور اس بات پر ایمان لے آئی کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں۔

انڈونیشیا

کے ایک نو احمدی ہیں کہتے ہیں مجھے بتایا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ گمراہی میں مبتلا ہے۔ میں جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی بجائے ایک ایسی جماعت میں شامل ہو گیا جو حکومت کی مخالفت کرنے والی جماعت تھی۔ 1992ء میں اس جماعت کا امیر پکڑا گیا تو میں نے اس کے جانشین کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ اس وقت میں نے استخارہ کیا۔ ایک بزرگ کو دیکھا انہوں نے کہا کہ میں ہی امام مہدی ہوں۔ میں مرزا غلام احمد ہوں۔ اس خواب کے ایک ہفتے کے بعد جب میں نے چھوڑنا چاہا تو مجھے مجبور کیا گیا کہ تم اس کی بیعت میں رہو گے ورنہ قتل کر دیے جاؤ گے۔ بہرحال کہتے ہیں اس کے ایک سال کے بعد ایک احمدی سے ملاقات ہوئی۔ اس نے مجھے تبلیغ کی۔ اس وقت میں نے اس کو کہا کہ اگر تمہارا امام نبی ہے تو ضرور اس نے کچھ دعوے بھی کیے ہوں گے، کتابوں میں بھی لکھے ہوں گے، وہ مجھے دو۔تو بہرحال انہوں نے مجھے کتاب دی۔ اسی رات ایک بار پھر میں نے خواب میں ایک مسجد دیکھی جس پر احمدیہ لکھا ہوا تھا۔ وہاں ایک انڈین لباس پہنے آدمی کھڑا تھا جو مجھے کہنے لگا تم اس میں داخل ہو جاؤ۔ بہرحال تین دن کے بعد مجھے کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی بھی اس نے دی۔

جب میں نے کتاب کھولی تو شروع میں ہی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی تصویر تھی۔ ان کا چہرہ دیکھ کر یاد آیا یہ تو بالکل وہی بزرگ ہیں جنہیں پچھلے سال میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ پس میں نے اس کتاب کو اوّل سے آخر تک پڑھا اور بیعت کر لی۔

انڈونیشیا

سے ہی ایک نوجوان کو تبلیغ کی گئی اس نے فوراً بیعت کرلی۔ وہاں کا واقعہ ہے۔ واپس جانے سے پہلے کچھ کتابیں دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر والے بروشر بھی دیے۔ جب نوجوان گھر پہنچا تو اس کے والد نے اس سے پوچھا یہ کیا ہے اس میں کس کی تصویر ہے۔ جب اس نے بتایا کہ یہ امام مہدی کی تصویر ہے اور میں نے بیعت کر لی ہے تو اس نے کہا کہ اچھا پھر میں بھی بیعت کرتا ہوں۔ فوری اللہ تعالیٰ نےاس کاسینہ کھول دیا۔

مالی

میں ایک جگہ ہے سکاسو ریجن میں وہاں ایک آدم صاحب بیعت کے لیے مشن ہاؤس آئے۔ جب ان سے بیعت کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ریڈیو احمدیہ بہت شوق سے سنتے ہیں۔ ایک دن ریڈیو سنتے سنتے ان کی آنکھ لگ گئی۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بھاگتے بھاگتے ایک انتہائی خوبصورت باغ میں پہنچے ہیں جہاں ہر قسم کے پھول اور پھل موجود ہیں۔ اسی باغ میں ایک طرف انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خلفائے کرام اور اصحاب کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔

جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کر کے ایک شخص کا بتایا کہ وہ امام مہدی علیہ السلام ہیں جا کر ان کی بیعت کرو۔

آدم صاحب نے کہا کہ اس خواب کے بعد اگر ابھی بھی بیعت نہ کروں تو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا بنوں گا۔ اس لیے فوری طور پر میری بیعت لیں۔

پس کیا یہ تائیدات اور یہ تائیدی نشانات اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی وہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جن کے آنے کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ اگر دل صاف ہو، فطرت نیک ہو تو ان نام نہاد علماء کے پیچھے چلنے کی بجائے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور اللہ تعالیٰ سے راہنمائی حاصل کرے اور بجائے مخالفت کرنے کے جماعت کے بارےمیں صحیح فیصلہ کرے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلہ کو بڑھائے۔پس کون ہے جو اسے روک لے؟

کیا تم نہیں جانتے کہ بادشاہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ پھر وہ جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے کب تھک سکتا ہے۔ آج سے پچیس برس بلکہ اس سے بھی بہت پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ایسے وقت میں کہ ایک شخص بھی میرے پاس نہ تھا اور کبھی سال بھر میں بھی کوئی خط نہ آتا تھا۔ اس گمنامی کی حالت میں مَیں نے جو دعوے کئے ہیں وہ براہین احمدیہ میں چھپے ہوئے موجود ہیں اور یہ کتاب مخالفوں موافقوں کے پاس موجود ہے بلکہ ہندوؤں عیسائیوں تک کے پاس بھی ہے۔ مکہ مدینہ اور قسطنطنیہ تک بھی پہنچی۔ اسے کھول کر دیکھو کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یعنی تیرے پاس دُور دراز جگہوں سے لوگ آئیں گے اور جن راستوں سے آئیں گے وہ راہ عمیق ہو جائیں گے۔ پھر فرمایا کہ یہ لوگ جو کثرت سے آئیں گے تو ان سے تھکنا نہیں اور ان سے کسی قسم کی بداخلاقی نہ کرنا۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب لوگوں کی کثرت ہوتی ہے تو انسان ان کی ملاقات سے گھبرا جاتا ہے اور کبھی بے توجہی کرتا ہے جو ایک قسم کی بداخلاقی ہے پس اس سے منع کیا اور کہا کہ ان سے تھکنا نہیں اور مہمان نوازی کے لوازم بجا لانا۔ ایسی حالت میں خبردی گئی تھی کہ کوئی بھی نہ آتا تھا اور اب تم سب دیکھ لو کہ کس قدر موجود ہو۔ یہ کتنا بڑا نشان ہے؟ اس سے اللہ تعالیٰ کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ایسی خبر بغیر عالم الغیب خد اکے کون دے سکتا ہے۔ نہ کوئی منجم نہ کوئی فراست والا کہہ سکتا ہے۔ ان حالات پر جب ایک سعید مومن غور کرتا ہے تو اسے لذت آتی ہے۔ وہ یقین کرتا ہے کہ ایک خد اہے جو اعجازی خبریں دیتا ہے۔ غرض اس خبر میں اس نے کثرت کے ساتھ مہمانوں کی آمد و رفت کی خبر دی۔ پھر چونکہ ان کے کھانے پینے کے لئے کافی سامان چاہئے تھا اور ان کے فروکش ہونے کے لیے مکانوں کا انتظام ہونا چاہئے تھا۔پس اس کے لیے بھی ساتھ ہی خبردی یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔‘‘ آج اب قادیان کو دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بےشمار گیسٹ ہاؤسز بن چکے ہیں اور تعمیرات ہو چکی ہیں۔ ’’اب غور کرو کہ جس کام کو اللہ تعالیٰ نے خود کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور ارادہ کر لیا ہے کون ہے جو اس کی راہ میں روک ہو۔ وہ خود ساری ضرورتوں کا تکفل اور تہیہ کرتا ہے۔ یہ بات انسانی طاقت سے باہر ہے کہ اس قدر عرصہ پہلے ایک واقعہ کی خبردے کہ ایک بچہ بھی پیدا ہو کر صاحب اولاد ہو سکتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان معجزہ ہے۔ یہی وجہ ہے جو خدا تعالیٰ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ صادق کی نشانی پیشگوئی ہے اور یہ بہت بڑا نشان ہے جس پر غور کرنا چاہئے۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان تدبر اور غور سے بڑھتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نشانوں پر غور نہیں کرتے ان کا قدم پھسلنے والی جگہ پر ہوتا ہے۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ انسان اپنے ایمان میں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جبتک خدا تعالیٰ کے اقوال، افعال اور قدرتوں کو نہ دیکھے۔

پس یہ سلسلہ اسی غرض کے لیے قائم ہوا ہے تا اللہ تعالیٰ پر ایمان بڑھے …کسی دوسرے مذہب والے کو یہ حوصلہ اور ہمت کہاں ہے کہ وہ ایسے تازہ بتازہ نشان پیش کرے۔ جماعت کے لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر نشانات ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ محض خدا تعالیٰ کا کاروبار ہے کسی اَور کو اس میں دخل نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد8صفحہ 369تا 371۔ ایڈیشن1984ء)

آج آپ لوگ جو قادیان میں جلسہ میں شامل ہیں اور وہ سب لوگ جو اپنے اپنے ممالک میں جلسہ میں شامل ہیں اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام یقیناً وہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آئے اور جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمیشہ رہی ہیں اور رہیں گی۔ ان شاء اللہ۔

ہر احمدی کو بھی یہ عہد کرنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہم نے مسلسل کوشش کرنی ہے۔ اپنی ظاہری اور باطنی حالتوں کا جائزہ لیتے رہیں۔ ان کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اب اس کے بعد ہم دعا بھی کریں گے۔

دعا میں اپنے فلسطینی بھائی بہنوں اور بچوں کو یاد رکھیں۔

اللہ تعالیٰ جلد انہیں ظلم کی چکی سے نکالے۔

ان مسلمانوں کے لیے بھی دعا کریں جن کی اپنی حکومتوں نے اپنے مقاصد کے لیے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔

پاکستانی احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں اسیران راہ مولیٰ کے لیے بھی دعا کریں۔

ان شاء اللہ کل سے نیا سال شروع ہو رہا ہے۔ آج رات تہجد میں نئے سال کے بابرکت ہونے اور دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ ہونے کے لیے بھی دعا کریں۔ دنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھنے کے لیے بھی دعا کریں۔ آپؑ کو ماننے کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

قادیان کی جو

حاضری

ہے اس وقت تقریباً پندرہ ہزار ہے، 14؍ ہزار 930 اور جیساکہ میں نے پہلے کہا تھا 42ممالک کی نمائندگی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ یہ جلسہ ہر لحاظ سے بابرکت کرے اور خاص طور پر نئے سال کے ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ مسلمان امہ پر بھی رحم فرمائے اور جماعت احمدیہ کو ترقیات سے بھی آئندہ سالوں میں مزید بڑھ کر نوازتا چلا جائے ترقیات دیتا چلاجائے۔ دعا کرلیں۔ (دعا)

جو ملک اس وقت براہ راست شامل ہیں ان میں سینیگال ہے، ٹوگو ہے، گنی کناکری ہے اور گنی بساؤ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے بھی جلسے کامیاب فرمائے اور ان کے ایمان و یقین میں اضافہ فرمائے۔ السلام علیکم

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍ جولائی ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button