کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔ انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول۔ (اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۳۴۴،۳۴۳)

یہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ مختلف فرقوں کوایک قوم بنا دے اور ان مذہبی جھگڑوں کو ختم کر کے آخر ایک ہی مذہب میں سب کوجمع کر دے … دنیا کے مذاہب کا بہت شور اٹھے گا اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر ایسا پڑے گا جیسا کہ ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے اور ایک دوسرے کوہلاک کرنا چاہیں گے تب آسمان وزمین کا خدا اس تلاطمِ امواج کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے بغیر دنیوی اسباب کے ایک نیا سلسلہ پیدا کرے گا اور اس میں ان سب کو جمع کرے گا جو استعداد اور مناسبت رکھتے ہیں۔ تب وہ سمجھیں گے کہ مذہب کیا چیز ہے اور ان میں زندگی اور حقیقی راستبازی کی روح پھونکی جائے گی اور خدا کی معرفت کا ان کو جام پلایا جائے گا… اورضرور ہے کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ یہ پیشگوئی کہ آج سے تیرہ سو برس پہلے قرآن شریف نے دنیا میں شائع کی ہے پوری نہ ہو جائے۔(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۱۸۳،۱۸۲)

منجملہ ان اصولوں کے جن پر مجھے قائم کیا گیا ہے ایک یہ ہے کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت مذہب پھیل گئے ہیں اور استحکام پکڑ گئے ہیں اور ایک حصۂ دنیا پر محیط ہوگئے ہیں اور ایک عمر پاگئے ہیں اور ایک زمانہ ان پر گذر گیا ہے ان میں سے کوئی مذہب بھی اپنی اصلیت کے رُو سے جھوٹا نہیں اور نہ ان نبیوں میں سے کوئی نبی جھوٹا ہے۔ کیونکہ خدا کی سنت ابتدا سے اسی طرح پر واقع ہے کہ وہ ایسے نبی کے مذہب کو جو خدا پر افترا کرتا ہے اور خدا کی طرف سے نہیں آیابلکہ دلیری سے اپنی طرف سے باتیں بناتا ہے کبھی سرسبز ہونے نہیں دیتا۔ اور ایسا شخص جو کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں۔ حالانکہ خدا خوب جانتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے نہیں ہے خدا اس بے باک کو ہلاک کرتا ہے اور اس کا تمام کاروبار درہم برہم کیا جاتا ہے۔ اور اس کی تمام جماعت متفرق کی جاتی ہے اور اس کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہوتا ہے کیونکہ اس نے خدا پر جھوٹ بولا۔ اور دلیری سے خدا پر افترا کیا۔ پس خدااُس کووہ عظمت نہیں دیتا جو راستبازوں کو دی جاتی ہے اور نہ وہ قبولیت اور استحکام بخشتا ہے جو صادق نبیوں کے لئے مقرر ہے۔

اور اگر یہ سوال ہو کہ اگر یہی بات سچ ہے تو پھر دنیا میں ایسے مذہب کیوں پھیل گئے جن کی کتابوں میں انسانوں یا پتھروں یا فرشتوں یا سورج اور چاند اور ستاروں اور یا آگ اور پانی اور ہوا وغیرہ مخلوق کو خدا کر کے مانا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے مذہب یا توان لوگوں کی طرف سے ہیں جنہوں نے نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ الہام اور وحی کے مدعی ہوئے بلکہ اپنی فکر اور عقل کی غلطی سے مخلوق پرستی کی طرف جھک گئے۔ اور یا بعض مذہب ایسے تھے کہ درحقیقت خدا کے کسی سچے نبی کی طرف سے ان کی بنیاد تھی لیکن مرور زمانہ سے ان کی تعلیم لوگوں پر مشتبہ ہوگئی۔ اور بعض استعارات یا مجازات کو حقیقت پر حمل کر کے وہ لوگ مخلوق پرستی میں پڑ گئے۔ لیکن دراصل وہ نبی ایسا مذہب نہیں سکھاتے تھے۔ سو ایسی صورت میں ان نبیوں کا قصور نہیں کیونکہ وہ صحیح اور پاک تعلیم لائے تھے۔ (تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۵۷،۲۵۶)

یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی۔ اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔ (تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 259)

وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کےرشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دُور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ ( لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۱۸۰)

اسلام وہ پاک اور صلح کا ر مذہب تھاجس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا۔ اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا۔ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ۴۵۹)

کیوں بھولتے ہو تم یَضَعُ الْحَرَب کی خبر

کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر

فرما چکا ہے سیدِ کونین مصطفٰےؐ

عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا

جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا

جنگوں کے سِلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ78)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button