امنِ عالم کے قیام کے لیے جماعت احمدیہ کے تجویز کردہ اصول اورخدمات
ایک انوکھا اعلان
1980ء میں سپین کی سرزمین نے ایک ایسا اعلان سنا جو اس کی سینکڑوں سالہ تاریخ میں بالکل انوکھا اور منفرد اعلان تھا۔نفرتوں اور عداوتوں سے جھلسی ہوئی اس دنیا میں وہ اعلان ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اور ایک ابر نو بہار تھا جس نے ہر طرف جل تھل کردیا۔ وہ ایک جملہ جس جس نے سنا حیرت زدہ ہوتا چلا گیا اور اخبارنویس اسے شہ سرخیوں کے ساتھ اخباروں پر سجاتے رہے وہ عہد آفریں اعلان یہ تھا Love For All Hatred For None۔یعنی محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں۔ وہ کون تھا جو کُل عالم کو محبت کا پیغام دے رہا تھا۔ وہ جماعت احمدیہ کا امام تھا حضرت مرزا ناصر احمدؒ جسے مغرب نے محبت کے سفیر کے نام سے یاد کیا۔
یہ جذبات اور یہ فقرہ جماعت احمدیہ کی تخلیق نہیں تھی یہ تو رحمت عالم محمد مصطفیٰﷺکے فیض کے چشمے کا ایک قطرہ تھا۔حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺنے ہر دکھ کو راحت سے اور ہر نفرت کو محبت سے بدلا اور صدیوں کے دشمنوں کو بھائی بھائی بنادیا اور تمام دنیا کو قرآن اور اپنی سنت کے ذریعے امن اور سلامتی کا درس دیا۔ اسی حسن سے گھائل ہو کر حضرت مسیح موعودؑ بانی سلسلہ احمدیہ نے اعلان فرمایا:’’میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے‘‘۔ (اربعین، روحانی خزائن جلد17 صفحہ344)
احمدیت کا مقصد
جماعت احمدیہ کے قیام کے مقاصد بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے ایک مقصد یہ بیان فرمایا کہ دنیا میں امن اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کو قائم کیا جائے۔ فرماتے ہیں:’’خدائے تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الٰہی اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلاوے‘‘۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ562)
ان عظیم الشان دعاوی کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ نے امن عالم کے اصول قرآن سے سیکھ کر بیان فرمائے اور الہام کی روشنی میں وہ تفصیلی سکیم دنیا کے سامنے رکھی جس کے نتیجہ میں دنیا امن سے بھر سکتی ہے۔ اور پھر اپنی جماعت کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ انفرادی اور اجتماعی رنگ میں امن کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ اس منشور کے نمایاں نکات یہ ہیں۔
بانیان مذاہب کی تعظیم
دنیا میں شیطان فتنہ و فساد کے لیے سب سے زیادہ مذہب کی آڑ لیتا ہے۔ حالانکہ تمام سچے مذاہب ایک خدا کے ہاتھ سے قائم ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلٌ(یونس:48)وَلَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلًا(النحل:37) وَلِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ( رعد:8) حضرت مصلح موعودؓ سورہ نحل کی آیت 124 کی تفسیر میں فرماتے ہیں: سر ولیم میور اس آیت پر لکھتا ہے کہ محمدؐ صاحب پر اس جہالت کے زمانہ میں یہ علم منکشف ہو گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی رسالت اور نبوت تمام قوموں میں مسلسل طور پر جاری ہے (اللہ تعالیٰ بعض دفعہ دشمن کے منہ سے بھی حق کہلوا دیتا ہے) (تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 270)
اس لیے امن کے قیام کا سب سے بڑا ذریعہ اہل مذاہب کا اتحاد اور رواداری ہے۔ اور اس کی بنیادی اینٹ یہ ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والے دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو عزت اور احترام کی نظر سے دیکھیں۔ اس مقصد کے لیے حضرت مسیح موعود نے قرآنی تعلیم کی روشنی میں یہ امن آفریں نظریہ پیش فرمایا۔ آپؑ نے فرمایا:’’خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت مذہب پھیل گئے ہیں اور استحکام پکڑ گئے ہیں اور ایک حصۂ دنیا پر محیط ہوگئے ہیں اور ایک عمر پاگئے ہیں اور ایک زمانہ ان پر گزر گیا ہے ان میں سے کوئی مذہب بھی اپنی اصلیت کے رو سے جھوٹا نہیں اور نہ ان نبیوں میں سے کوئی نبی جھوٹا ہے۔ کیونکہ خدا کی سنت ابتداء سے اسی طرح پر واقع ہے کہ وہ ایسے نبی کے مذہب کو جو خدا پر افترا کرتا ہے اور خدا کی طرف سے نہیں آیا بلکہ دلیری سے اپنی طرف سے باتیں بناتا ہے کبھی سرسبز ہونے نہیں دیتا۔ اور ایسا شخص جو کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں حالانکہ خدا خوب جانتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے نہیں ہے خدا اس بےباک کو ہلاک کرتا ہے اور اس کا تمام کاروبار درہم برہم کیا جاتا ہے اور اس کی تمام جماعت متفرق کی جاتی ہے اور اس کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہوتا ہے کیونکہ اس نے خدا پر جھوٹ بولا اور دلیری سے خدا پر افترا کیا۔ پس خدا اس کو وہ عظمت نہیں دیتا جو راستبازوں کو دی جاتی ہے اور نہ وہ قبولیت اور استحکام بخشتا ہے جو صادق نبیوں کے لئے مقرر ہے۔ (تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ256)
ایک مشہور حدیث میں ایک لاکھ 24 ہزار نبیوں کا ذکر ملتا ہے (مسند احمد جلد 36 صفحہ 618۔حدیث نمبر 22288) مگردوسری روایت میں ہے اِنِّیْ خَاتَمُ اَلْفِ اَلْفِ نَبِیٍّ اَوْ اَکْثَر یعنی میں 10؍لاکھ سے زیادہ نبیوں کا خاتم ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ 397)
تمام انبیاء سچے ہیں
اس اعلان کے نتائج کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:’’یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑ ہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی۔ اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے‘‘۔ (تحفہ قیصریہ،روحانی خزائن جلد12 صفحہ259)
اس اصول کی روشنی میں جماعت احمدیہ تمام مذاہب کے بانیوں اور بزرگ شخصیات کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ بلکہ تمام قوموں کے نمائندوں، لیڈروں اور سربرآوردہ شخصیات کی جو کسی طرح کے فساد میں ملوث نہیں تعظیم کرتی ہے۔ اس لحاظ سے آج دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو نہ صرف مذہبی رواداری اور احترام کو فروغ دیتی ہے بلکہ سیاسی اور سماجی طور پر بھی قوموں کے دلوں سے نفرتیں کم کرکے امن کی راہ پر ڈالتی ہے۔
پس حقیقت یہ ہے کہ بانیانِ مذاہب کی عزت کا قیام ایک بیش قیمت تحفہ ہے جو آج کی دنیا میں مذاہب عالم کے اکھاڑے کو جشن مسرت میں بدل سکتا ہے۔ کاش دنیا اسے قبول کرلے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’خلاصہ یہ کہ دنیا کی بھلائی اور امن اور صلح کاری اور تقویٰ اور خداترسی اسی اصول میں ہے کہ ہم ان نبیوں کو ہرگز کاذب قرار نہ دیں۔ جن کی سچائی کی نسبت کروڑہا انسانوںکی صدہابرسوں سے رائے قائم ہوچکی ہو اور خدا کی تائیدیں قدیم سے ان کے شامل حال ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک حق کا طالب خواہ وہ ایشیائی ہو یا خواہ یوروپین ہمارے اس اصول کو پسند کرے گا اور آہ کھینچ کر کہے گا کہ افسوس ہمارا اصول ایسا کیوں نہ ہوا‘‘۔ (تحفہ قیصریہ،روحانی خزائن جلد 12 صفحہ261)
انہی اصولوں کے ماتحت چین کے حضرت کنفیوشس، ایران کے حضرت زرتشت، ہندوستان کے حضرت کرشن۔حضرت رام چندراور حضرت بدھ کو نبی کہا گیا ہے حضرت مسیح موعودؑ کرشن اور رام چندر کے متعلق فرماتے ہیں:
حضرت کرشن بھی…انبیا٫ میں سے ایک تھے ( ملفوظات جلد۱۰صفحہ۱۴۳) خدا تعالیٰ نے مجھ پرایسا ہی ظاہر کیا ہے کہ راجہ رام چندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راستباز بندے تھے (ملفوظات جلد 4 صفحہ 163۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء) ہر ایک فرقہ میں نذیر آیا ہے جیسے قرآن سے ثابت ہے۔ اسی لیے رام چندر اور کرشن وغیرہ اپنے زمانہ کے نبی وغیرہ ہوں گے۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 142۔ ایڈیشن۱۹۸۸)
حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت حمورابی کو نبی قرار دیا ہے فرمایا: ’’سموری قوم سب سے قدیم ہے۔ ان کی حکومت سب سے پہلے تھی پھر سامی قوم ہوئی جن میں حمورابی سب سے مشہور آدمی گزرا ہے جس کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی تھا۔ یہ مسیح ؑسے دو ہزار سال قبل اور حضرت موسیٰ ؑسے چھ سو سال قبل تھا۔ بائیبل سے اس کی تعلیم اس قدر ملتی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بائیبل کی تعلیم اس سے چرائی گئی ہے ‘‘ (تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 203 سورہ ہود آیت 51۔ ایڈیشن۲۰۰۴ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی شہرہ آفاق تصنیف Revelation, Rationality, Knowledge and Truth میں حضرت مسیح موعود کے اس اصول کی روشنی میں تحقیق کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے الفضل انٹرنیشنل 17،20؍نومبر 2020ء)
سچی صلح کا پیغام
ہندوستان قدیم سے مذہبی منافرت کی آماجگاہ ہے۔ صدیوں کا جنگ و جدل اس بات پر شاہد ناطق ہے۔ بیسیویں صدی میں جب مواصلات اور ابلاغ کے ذرائع بڑھنے کے نتیجہ میں ہندو مسلم خلش بڑھتی جارہی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ہندوؤں کو امن کی دعوت دیتے ہوئے ایک اور تاریخی اعلان فرمایا۔
’’کیا آپ لوگ اس بات کے لئے طیار ہیں یا نہیں کہ صلح کی بنیاد ڈالنے کے لئے اس پاک اصول کو قبول کرلیں کہ جیسے ہم سچے دل سے آپ کے بزرگ رشیوں اور اوتاروں کو صادق جانتے ہیں جن پر آپ کی قوم کے کروڑہا لوگ ایمان لاچکے ہیں اور ان کے نام عزت سے زبانوں پر جاری ہیں۔
ایسا ہی آپ لوگ بھی صدق دل سے اس کلمہ پر ایمان لے آئیں کہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ تا جس اتحاد اور صلح کے لیے ہم نے قدم اٹھایا ہے اس میں آپ بھی شریک ہو کر اس تفرقہ کو دور کردیں جو ملک کو کھاتا جاتا ہے۔ ہم آپ سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرتے جس سے ہم نے پہلے خود حصہ نہیں لیا اور ہم آپ سے کوئی ایسا کام کرانا نہیں چاہتے جو ہم نے آپ نہیں کیا۔ سچی صلح اور کینوں کے دور کرنے کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ جیسا کہ ہم آپ کے بزرگ اوتاروں اور رشیوں کو صادق مانتے ہیں۔ اسی طرح آپ بھی ہمارے نبیﷺکو صادق مان لیں اور اس اقرار کا آپ ہماری طرح اعلان بھی کردیں‘‘۔ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23 صفحہ384۔۳۸۵)
پھر آپ نے اس معاہدہ کو ٹھوس شکل دیتے ہوئےفرمایا:’’اگر اس قسم کی صلح تام کے لئے ہندو صاحبان اور آریہ صاحبان طیار ہوں کہ وہ ہمارے نبیﷺ کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آئندہ توہین اور تکذیب چھوڑ دیں تو میں سب سے پہلے اس اقرار نامہ پر دستخط کرنے پر طیار ہوں کہ ہم احمدی سلسلہ کے لوگ ہمیشہ وید کے مصدق ہوں گے اور وید اور اس کے رشیوں کا تعظیم اور محبت سے نام لیں گے اور اگر ایسا نہ کریں گے تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی، ہندو صاحبوں کی خدمت میں ادا کریں گے اور اگر ہندو صاحبان دل سے ہمارے ساتھ صفائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ایسا ہی اقرار لکھ کر اس پر دستخط کردیں اور اس کا مضمون بھی یہ ہوگا کہ ہم حضرت محمد مصطفیٰ رسول اللہﷺکی رسالت اور نبوت پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو سچا نبی اور رسول سمجھتے ہیں اور آئندہ آپ کو ادب اور تعظیم کے ساتھ یاد کریں گے جیسا کہ ایک ماننے والے کے مناسب حال ہے اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی احمدی سلسلہ کے پیش رو کی خدمت میں پیش کریں گے۔ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد23 صفحہ455)
اگر یہ پیشکش مان لی جاتی تو سینکڑوں خونریز فساد نہ ہوتے لاکھوں انسانوں کا خون نہ بہتا۔ نیزوں میں سر نہ پروئے جاتے اور ان کی انیوں پر بچے نہ اچھالے جاتے اور یہ خطہ حرب امن کا گہوارہ بن جاتا۔
جلسہ ہائے سیرة النبیﷺ
حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے دوسرےخلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد مصلح موعودؓ نے 1928ء میں جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ کی بنیاد ڈالی جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ احمدیہ پلیٹ فارم سے تمام فرقوں اور تمام مذاہب کے لوگ آنحضرتﷺ کی خوبیاں اور عظمتیں بیان کریں۔ آپؐ کے پاکیزہ اخلاق کا تذکرہ کریں جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں نیکی اور رواداری کا ماحول پیدا ہو۔ چنانچہ پہلا یوم سیرة النبی 17؍جون 1928ء کو منایا گیا۔ یہ ایک نہایت ایمان افروز تقریب تھی جس پر اخبار ’’کشمیری‘‘ لاہور نے 28؍جون 1928ء کو یہ تبصرہ کیا:’’یہ تجویز کہ 17؍جون کو آنحضرتﷺ کی پاک سیرت پر ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں لیکچر اور وعظ کئے جائیں باوجود اختلافات عقائد کے نہ صرف مسلمانوں میں مقبول ہوئی بلکہ بے تعصب امن پسند صلح جو غیر مسلم اصحاب نے 17؍جون کے جلسوں میں عملی طور پر حصہ لے کر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ 17؍جون کی شام کیسی مبارک شام تھی کہ ہندوستان کے ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر بیک وقت و بیک ساعت ہمارے برگزیدہ رسولﷺکی حیات اقدس ان کی عظمت ان کے احسانات و اخلاق اور ان کی سبق آموز تعلیم پر ہندو، مسلمان اور سکھ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔ اگر اس قسم کے لیکچروں کا سلسلہ برابر جاری رکھا جائے تو مذہبی تنازعات و فسادات کا فوراً انسداد ہوجائے۔ 17؍جون کی شام صاحبان بصیرت و بصارت کے لئے اتحاد بین الاقوام کا بنیادی پتھر تھی۔ ہندو اور سکھ مسلمانوں کے پیارے نبی کے اخلاق بیان کرکے ان کو ایک عظیم الشان ہستی اور کامل انسان ثابت کررہے تھے۔ بلکہ بعض ہندو لیکچرار تو بعض منہ پھٹ معترضین کا جواب بھی بدلائل قاطع دے رہے تھے۔
آریہ صاحبان عام طور پر نفاق و فساد کے بانی بتائے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ یہی گروہ آنحضرتﷺکی مقدس زندگی پر اعتراض کیا کرتا ہے۔ لیکن 17؍جون کی شام کو پانی پت، انبالہ اور بعض اور مقامات میں چند ایک آریہ اصحاب نے ہی حضورﷺکی پاک زندگی کے مقدس مقاصد پر دل نشین تقریریں کرکے بتادیا کہ اس فرقہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسرے مذاہب کے بزرگوں کا ادب و احترام اور ان کی تعلیمات کے فوائد کا اعتراف کرکے اپنی بے تعصبی اور امن پسندی کا ثبوت دے سکتے ہیں‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد5 صفحہ38)
سیرت النبیﷺ کے ان جلسوں کا پہلا فائدہ یہ ہوا کہ ہندوستان کے مختلف گوشوں کے ہزارہا افراد نے وہ لٹریچر پڑھا جو آنحضرتﷺ کے مقدس حالات پر شائع کیا گیا تھا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ممتاز غیر مسلموں نے جن میں ہندو سکھ عیسائی سب شامل تھے۔ آنحضرتﷺ کی خوبیوں کا علی الاعلان اقرار کیا اور آپ کو محسن اعظم تسلیم کیا۔
تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ بعض ہندو لیڈروں نے آنحضرتﷺکی صرف تعریف و توصیف ہی نہیں کی۔ بلکہ ان پر آپ کے حالات سن کر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو نہ صرف خدا کا پیارا سمجھتے ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر اعلیٰ انسان یقین کرتے ہیں کیونکہ آپ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ محفوظ ہے مگر دوسرے مذہبی راہنماؤں کی زندگی کا کوئی پتا نہیں لگتا۔ قیام امن کے حوالہ سے ان فوائد کا اقرار ان مسلمان اور غیرمسلم لیڈروں کی تقاریر میں موجود ہے جو ان جلسوں میں کسی بھی حیثیت میں شریک تھے۔
سر شیخ عبدالقادر صاحب نے لاہور کے جلسہ کی صدارتی تقریر میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کا حاضرین کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ’’یہ مبارک تحریک نہایت مفید ہے جس سے ہندوستان کی مختلف اقوام میں رواداری پیدا ہو کر باہمی دوستانہ تعلقات پیدا ہوں گے اور ملک میں امن و اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے‘‘۔ کلکتہ میں سرپی سی رائے صاحب نے بحیثیت صدر تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’ایسے جلسے جیسا کہ یہ جلسہ ہے ہندوستان کی مختلف اقوام میں محبت اور اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں‘‘۔ اسی طرح اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر ڈاکٹر ایچ بی مانروا صاحب نے کہا:’’میں نے باوجود اپنی بے حد مصروفیتوں کے اس جلسہ میں آنا ضروری سمجھا کیونکہ اس قسم کے جلسے ہی اس اہم سوال کو جو اس وقت ہندوستان کے سامنے ہے (یعنی ملک کی مختلف اقوام میں اتحاد) صحیح طور پر حل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور اسلام میں متحد کرنے کی طاقت ایک تاریخی بات ہے غرضیکہ ہندو، مسلم اور عیسائی لیڈروں نے تسلیم کیا کہ اقوامِ ہند میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے جلسے نہایت مفید ہیں۔ (الفضل 24؍جولائی 1928ء)
جماعت احمدیہ آجکل بھی تمام دنیا میں حسب حالات و مواقع یہ جلسے منعقد کرکے امن اقوام عالم کے لیے اپنے جذبات پیش کرتی رہتی ہے۔
یوم پیشوایان مذاہب
انہی جلسوں کی ایک برکت جلسہ پیشوایان مذاہب کی شکل میں ظاہر ہوئی اور جماعت نے یہ اہتمام کیا کہ ایک ہی سٹیج پر کل مذاہب کے لیڈر اور مقررین اپنے اپنے پیشواؤں کے کارنامے اور خوبیاں بیان کریں۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کے سالانہ پروگراموں کا ایک حصہ یوم پیشوایان مذاہب پر مشتمل ہے اور یہ سلسلہ ایک تنظیم کے ساتھ ساری دنیا میں جاری و ساری ہے۔ یہ امتیاز آج احمدیت کے علاوہ کسی جماعت کو حاصل نہیں۔ان کے علاوہ بھی جماعت کی مساجد اور مشن ہاؤسز میں ایسی خیرسگالی تقاریب منعقد ہوتی رہتی ہیں جن میں مختلف مذاہب کے لوگ خوش دلی سے شرکت کرتے ہیں۔
معابد کا احترام اور حفاظت
بانیانِ مذاہب کی حرمت قائم کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت قرآنی تعلیم کے مطابق تمام مکاتب فکر کے معابد کی تعظیم اور حفاظت پر بھی یقین رکھتی ہے اور اپنے وسائل کے مطابق ان کی تعمیر و مرمت میں بھی مدد دیتی ہے۔ بشرطیکہ ان میں مشرکانہ رسوم نہ ہوں۔ ایک دفعہ قادیان کے ایک قریبی گاؤں کے سکھوں نے حضرت مصلح موعودؓ سے گوردوارہ کی تعمیر میں مدد دینے کی درخواست کی۔ چنانچہ ان کی حسب منشا امداد فراہم کر دی گئی۔ وہ سکھ بتایا کرتے تھے کہ اس گوردوارہ میں شرک کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ ایک خدا کی بڑائی بیان کی جاتی ہے اور یہ گوردوارہ مرزا صاحب کی مہربانی سے تعمیر ہوا ہے۔ (الفضل سالانہ نمبر 1990ء صفحہ41)
یہ آج کی دنیا کا حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دسمبر 2023ء میں دہشت گردوں نے جرمنی کے شہر کولون کے گرجا گھر کو تباہ کرنے کی دھمکی دی تو احمدی خدام اس کی حفاظت کے لیے کھڑے ہو گئے ان کے ہاتھوں میں یہ بینر تھا میں مسلمان ہوں اور میرا فرض ہے کہ عبادت گاہوں کو تحفظ دوں لہٰذا میں چرچ کی حفاظت کروں گا۔(اخبار احمدیہ جرمنی فروری 2024ء )اس طرح اسلام کا سچا پیغام امن دنیا بھر میں خصوصاً جرمن قوم کو پہنچا۔
جلسہ مذاہبِ عالم
جماعت احمدیہ عقیدہ رکھتی ہے کہ ہر شخص اور قوم کو اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کا حق ہے لیکن یہی تبلیغ جب نامناسب اور دل آزار طریقہ سے کی جائے تو فساد اور نفرتوں کا موجب بنتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس فطری جذبہ کی تسکین مگر ناگوار اثرات سے بچنے کے لیے ایک عجیب حل تجویز فرمایا جو جلسہ مذاہبِ عالم کی شکل میں وقوع پذیر ہوا۔ آپؑ نے تجویز فرمایا کہ تمام مذاہب کے نمائندے ایک جلسہ عام میں اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کریں اور کسی دوسرے کے عقیدہ پر کوئی اعتراض نہ کیا جائے۔ چنانچہ 1896ء میں لاہور میں منعقدہ جلسہ مذاہبِ عالم میں دس مذاہب اور مسالک کے سولہ سربرآوردہ لیڈروں نے تقاریر کیں۔ یہ جلسہ انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوا اور لوگوں کو حق پہچاننے کے لیے آزادانہ معلومات اور ماحول فراہم ہوا۔
جلسہ مذاہبِ عالم لاہور سے پہلے حضورؑ نے قادیان میں جلسہ مذاہبِ عالم منعقد کرنے کی تجویز پر مشتمل اشتہار دیا تھا جس میں فرمایا تھا کہ یہ جلسہ ایک ماہ تک جاری رہے گا۔ ہر مذہب کے نمائندے کے حصہ میں برابر دن تقسیم کردیے جائیں گے اور ہر شخص محض اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے گا۔ حضورؑ نے پیشکش کی کہ تمام بزرگانِ مذاہب کی مہمان نوازی اور اگر وہ ضرورت محسوس کریں تو ان کو آمد و رفت کا کرایہ بھی دیا جائے گا اور آخر پر تمام تقاریر حضور کی طرف سے ایک جلد میں شائع کردی جائیں گی۔ (اشتہار 29؍دسمبر 1895ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ۷۷۔۸۳۔ ایڈیشن۲۰۱۸ء)
حضور علیہ السلام کی یہ خواہش 1896ء میں ایک حد تک پوری ہوگئی مگر آپ اسے ایک مستقل حیثیت دینا چاہتے تھے تاکہ دنیا امن کے ساتھ ایک دوسرے کے خیالات سن سکے۔ چنانچہ 28؍مئی 1900ء کے اشتہار میں آپؑ نے منارة المسیح کی اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’بالآخر میں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس منارہ میں ہماری یہ بھی غرض ہے کہ مینار کے اندر یا جیسا کہ مناسب ہو ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا کمرہ بنا دیا جائے جس میں کم سے کم سو آدمی بیٹھ سکے اور یہ کمرہ وعظ اور مذہبی تقریروں کے لئے کام آئے گا کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ سال میں ایک یا دو دفعہ قادیاں میں مذہبی تقریروں کا ایک جلسہ ہوا کرے اور اس جلسہ میں ہر ایک شخص مسلمانوں اور ہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے۔ مگر یہ شرط ہوگی کہ دوسرے مذہب پر کسی قسم کا حملہ نہ کرے۔ فقط اپنے مذہب اور اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہے تہذیب سے کہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ۶2،ایڈیشن۲۰۱9ء)
1945ء میں جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت میں یہ تجویز پھر زیر غور آئی اور طے پایا کہ ایک لاکھ افراد کی گنجائش رکھنے والا ہال بنایا جائے جس پر 25 لاکھ روپیہ کا خرچ آئے گا۔ (تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ509,507,503)مگرجلد ہی تقسیم ہند کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی بنا پر یہ منصوبہ پروان نہ چڑھ سکا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے منصب خلافت پر فائزہونے کے کچھ عرصہ بعد اس طرح کی مذہبی کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کی اور فرمایا:’’ایک مذہبی کانفرنس کی جائے جس کے اجلاس سال میں ایک یا دو دفعہ ہوا کریں۔ ان اجلاسوں میں مختلف مذاہب کے پیروؤں کو اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے بلایا جائے اور دوسرے مذاہب پر صراحتاً یا کنایتاً حملہ کرنے کی ہرگز اجازت نہ ہو۔ بلکہ ہر ایک مقرر اپنی تقریر میں مقرر کردہ مضامین کے متعلق صرف وہ تعلیم پیش کرے جو اس کے مذہب نے دی ہے یا اس پر جو اعتراض پڑسکتے ہوں ان کا جواب دے دے۔ اس کو یہ اجازت نہ ہو کہ دوسرے مذاہب پر حملہ کرے یا ان کے بزرگوں کو برابھلا کہے‘‘۔(پیغام مسیح موعود۔ انوارالعلوم جلد3 صفحہ61)
اس قسم کے چھوٹے چھوٹے اجلاس تو منعقد ہوتے رہے۔ مگر بڑے پیمانے پر اس کا موقع 1924ء میں لندن میں ویمبلے کانفرنس کے وقت پیدا ہوا جب مختلف مذاہب کے نمائندوں کو تقاریر کی دعوت دی گئی۔ جس میں امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفة المسیح الثانی مصلح موعودؓ نے بنفس نفیس شرکت فرمائی اور اپنا مضمون پڑھا جو احمدیت کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔
ایسے اجتماع ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ غلط فہمیاں دُور ہوتی ہیں۔ باہمی احترام کے جذبے پروان چڑھتے ہیں۔ اگر حضرت مسیح موعود ؑکی تجویز کے مطابق یہ سلسلہ جاری رہتا تو آج مذہبی دنیا میں بڑھتی ہوئی منافرت رواداری اور حسن سلوک میں ڈھل چکی ہوتی۔ جماعت احمدیہ کی مختلف شاخیں اپنے اپنے حالات اور وسعت کے مطابق اس نوعیت کے جلسے منعقد کرتی رہتی ہیں۔
مستند لٹریچر
مذہبی منافرت کم کرنے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے ایک سنہری اصول یہ تجویز فرمایا کہ کسی مذہب پر سنی سنائی باتوں یا غیر مستند لٹریچر کی مدد سے اعتراض نہ کیا جائے بلکہ ہر مذہب کی طرف سے اس کی مستند اور قابل اعتماد کتب کی فہرست شائع کردی جائے اور کوئی بھی اعتراض اس لٹریچر سے باہر نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے حضورؑ نے اپنی طرف سے مسلّمہ کتب کی فہرست شائع فرمادی۔
دشمنی اور نفرت کے ماحول میں آدمی دوسروں پر وہ اعتراض بھی کرتا چلا جاتا ہے جو خود اس کے مسلک پر پڑتے ہوں۔ اس کے سدباب کے لیے ایک بہت اہم اصول حضور نے یہ تجویز فرمایا کہ دوسروں کے عقائد اور مذہب پر وہ اعتراض نہ کیا جائے جو اپنے پر پڑتا ہو۔ (آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد10 صفحہ85)اگر اقوامِ عالم خصوصاً مذہبی دنیا ان تجاویز کو قبول کرلے تو کتنا امن اور سکون ہوسکتا ہے۔
آزادی ضمیر
مذہبی امن کے لیے آزادی ضمیر بہت ضروری ہے اس بارے میں قرآنی تعلیمات کا ایک خلاصہ درج ذیل ہے۔
1۔ ہر شخص کو آزادی ہے جو مذہب چاہے اختیار کرے الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْيَكْفُرْ (الکہف:30)
2۔مذہب میں شامل کرنے یا نکالنے کے لیے طاقت کا استعمال منع ہےلَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (البقرہ :257)
3۔ اسلام سے ارتداد پر دنیا میں کوئی سزا نہیں إِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا (النسا٫: ۱۳۸)
4۔ہر قوم میں نبی آئے ہیں اس لیے سب قوموں کے مذہبی پیشواؤں کی عزت کی جائے۔إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد:8)
5۔دوسروں کے مقدسین اور جھوٹے معبودوں کو بھی برا بھلا نہ کہا جائے۔وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام:109)
6۔مشترک عقائد کی بنیاد پر تعاون کی دعوت دی جائے۔قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَآءٍبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ (آل عمران:65)
7۔ بلا لحاظ مذہب و دشمنی عدل کیا جائے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلٰٓى أَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى(المائدہ:9)
8۔امن کے قیام کے لیے بلا امتیاز تعاون کیا جائے فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيْلَهُمْ(التوبہ:۵)
9۔ غیروں کی خوبیوں کا بھی کھلے دل سے اعتراف کیا جائے وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهٖٓ إِلَيْكَ (آل عمران:76)
10۔جو غیر مذہب کے لوگ امن سے رہنا چاہتے ہیں ان کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہ کی جائے لَا يَنْهَاكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوٓا إِلَيْهِمْ (الممتحنہ: 9 )
رحمۃ للعالمینؐ کا نمونہ
ان عظیم اصولوں کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ حسب ذیل ہے۔
٭… عام تمدنی اور معاشرتی تعلقات میں کسی قوم کا فرق نہیں کیا سب کو سلام کرتے تھے۔ (بخاری کتاب الاستیذان )
٭… غیر مسلم مہمان کو سات بکریوں کا دودھ پلایا اور اپنے اہل خانہ کو بھوکا رکھا۔(ترمذی کتاب الاطعمہ)
٭… یہودی عورت کی دعوت بھی قبول کی جس نے کھانے میں زہر ملا دیا تھا۔ (السیرۃ الحلبیہ)
٭… ایک یہودی مخیریق کے باغ کا تحفہ بھی قبول کیا۔ (روض الانف جلد 2 صفحہ 143 )
٭… یہودی بیمار نوجوان کی عیادت بھی کی۔ (بخاری کتاب الجنائز باب عیادۃ المشرک)
٭… یہودی کے جنازہ کے لیے احتراماً کھڑے ہوگئے۔ (بخاری کتاب الجنائز باب من قام لجنازۃ الیہودی)
٭… بدر میں مقتول دشمنوں کو دفن کرایا۔ (بخاری کتاب المغازی )۔
٭… خندق میں ہلاک ہونے والے سردار نوفل کی لاش کو واپس کرنے کے لیے کفار نے دس ہزار درہم کی پیشکش کی مگر آپؐ نے بغیر کسی رقم کے واپس کر دی۔(سیرۃ ابن ھشام جلد 3 صفحہ 273 ) ابولہب اور عتبہ جیسے پڑوسی کی ایذاؤں پر صبر کیا (طبقات ابن سعد)۔
٭… یہودیوں سے لین دین اور قرض کا سلسلہ بھی جاری رہا اور بوقت وفات بھی آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ (بخاری کتاب المغازی) مخالفین،بدوؤں اور یہودیوں کی سختی اور بدتمیزی بھی برداشت کی۔متعدد واقعات ہیں:معاہدہ حلف الفضول کی پابندی کرتے ہوئے ایک غیر مسلم اراشی نام کے لیے جانی دشمن ابوجہل کے پاس گئے اور قرض واپس د لوایا۔ (السیرة النبویہ ابن کثیر جلد اول صفحہ 469 قصة الاراشی داراحیاء التراث العربی بیروت)
٭… ایک قتل کے مقدمہ میں مسلمانوں کے مقابلہ پر یہودیوں کے حق میں فیصلہ کیا۔ (بخاری کتاب الجہاد)۔
٭… مدینہ کے دو یہودی قبیلوں بنو قینقاع اور بنو نضیر کو ان کے جرائم کی پاداش میں جلا وطن کیا تو سارا سامان ساتھ لے جانے کی اجازت دی گئی حتیٰ کہ ان کے وہ بچے بھی جو نذر کے طور پر یہودی بنائے گئے تھے اور درحقیقت یہودی نہ تھے وہ بھی ساتھ لے گئے۔ (ابو داؤد کتاب الجہاد)
جماعت احمدیہ انہی قرآنی تعلیمات اور سنت رسولﷺ کے مطابق آزادی ضمیر و مذہب کی علمبردار ہے۔
پُرامن ذرائع کا استعمال
جماعت احمدیہ تمام معاملات میں عدم تشدد اور پُرامن ذرائع سے کام لینے کی تعلیم دیتی ہے۔ خصوصاً اپنے مسلک کی اشاعت کے لیے کسی قسم کی زبردستی اور سختی کی قائل نہیں۔ چونکہ اس زمانہ میں مخالفین دین پر تلوار سے نہیں بلکہ زبان اور قلم سے حملہ کرتے ہیں۔ اس لیے اس کے جواب میں بھی لسانی اور قلمی جدوجہد کرتی ہے۔ قرآن کریم، احادیث نبویہ کے تراجم اور سیرت النبیﷺکی دنیا کی مختلف زبانوں میں اشاعت اس حقیقت کے مبرہن ثبوت ہیں۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس راہ میں ہر قسم کی مشکلات برداشت کرنے اور ظلم کے جواب میں ہاتھ نہ اٹھانے کی تعلیم دی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پرہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجالاؤ۔ اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ ا س عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہوجاؤ گے۔ کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے۔ سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو۔ تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے۔ کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو؟ نہیں بلکہ مذہب اس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے جو خدا میں ہے اور وہ زندگی نہ کسی کوحاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہوجائیں۔ خدا کے لئے سب پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو۔ آؤ میں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدرد نوع انسان ہوجاؤ اور خدا میں کھوئے جاؤ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اترتے ہیں۔ … دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور دردمندوں کے ہمدرد بنیں۔ زمین پر صلح پھیلاویں کہ اسی سے ان کا دین پھیلے گا۔‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17 صفحہ14۔۱۵)
اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:
اے مرے پیارو! شکیب و صبر کی عادت کرو
وہ اگر پھیلائیں بد بو تم بنو مشک تتار
گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار
تم نہ گھبراؤ اگر وہ گالیاں دیں ہر گھڑی
چھوڑ دو ان کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار
پھر اپنا نمونہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قانون شکنی کے بغیر حقوق حاصل نہیں ہوتے اور انصاف نہیں ملتا۔ حضرت مصلح موعودؓ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:’’مجھے ان لوگوں پر ہمیشہ ہنسی آتی ہے جو کہا کرتے ہیں کہ قانون شکنی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ قانون شکنی ایک بلا ہے، ایک مصیبت ہے، ایک لعنت ہے اور یقینی طور پر قانون کے اندر رہتے ہوئے ہم اپنے حقوق کو حاصل کرسکتے ہیں۔ گو بعض دفعہ حق کے حاصل کرنے میں دیر ہوجائے۔ اگر قانون شکنی کی وجہ سے ایک حق ہمیں سال میں حاصل ہوسکتا ہو اور قانون کی پابندی کرکے دو یا تین سال میں تو میں کہوں گا کہ دو یا تین سال قانون کے ماتحت کوشش کرو۔ مگر قانون شکنی کے قریب بھی مت جاؤ۔ پس اپنے مذہبی اصول کو کبھی مت چھوڑو ہمارے اصول خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ان کی پابندی سے ہی تم اپنے مقاصد حاصل کرسکتے ہو‘‘۔ (خطبات محمود جلد16 صفحہ479)
پھر فرمایا:’’اسلام نے ایسے طریق بتائے ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ہم اپنے حقوق لے سکتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر قرآن کریم کے بتائے ہوئے گروں پر عمل کیا جائے تو قانون کے کامل احترام کے باوجود ان شرور کا جو خواہ حکومت کی طرف سے ہوں اور خواہ رعایا کی طرف سے ہم ازالہ کرسکتے ہیں اور اپنے لئے ترقی کے راستے کھول سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود نے ہمیں قانون کے احترام کی تعلیم دی ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد16 صفحہ698)
آج جماعت احمدیہ دنیا کے 213 ممالک میں موجود ہے اور اس کے کروڑوں ممبر دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں مگر کسی ایک مرحلہ پر بھی قانون شکنی یا کوئی سختی نہیں کی گئی۔ بلکہ مخالفتوں کے مقابل پر جماعت کا صبر اور برداشت ان کے دلوں کو فتح کرنے کا موجب بن گیا اور بنتا رہتا ہے۔جماعت احمدیہ ساری دنیا میں پیس سمپوزیم بھی اسی مقصد کے لیے منعقد کرتی ہے بلکہ احمدیہ مسلم پیس پرائز بھی دیتی ہے۔
عالمی حب وطن کا تصور
احمدیت کا پیغام عالمی پیغام ہے۔ دنیا کا ہر احمدی عالمی احمدی معاشرہ کا فرد ہے اور چونکہ جماعت احمدیہ دنیا کے اکثر ممالک میں موجود ہے اور اس کا امام تمام دنیا کے احمدیوں کا سربراہ ہے۔ اس لیے جماعت احمدیہ ساری دنیا کی قوموں اور ملکوں سے پیار کرتی ہے۔ جماعت احمدیہ عالمی حب وطن کا ایک نیا تصور پیش کرتی ہے جو اس سے قبل کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا۔ ہر ملک اور ہر قوم میں احمدی موجود ہیں اس لیے کوئی احمدی کسی دوسرے خطہ ارض کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ محبت کا یہ ہتھیار اور امن کا یہ گلدستہ آج صرف جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہے۔
ظالم کا ہاتھ روکو
فساد اور بدامنی ختم کرنے کا ایک طریق ظالم کا ہاتھ روکنا ہے۔ جس کے متعلق رسول کریمﷺ کی جامع تعلیم یہ ہے کہ اُنْصُرْاَخَاکَ ظَالِماً اَوْ مَظْلُوْماً۔( بخاری کتاب المظالم باب انصر اخاک ظالما او مظلوما۔حدیث نمبر 2443 ) اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم اور جب پوچھا گیا کہ ظالم کی مدد کس طرح کریں تو فرمایا اس کا ہاتھ روکنا ہی اس کی مدد ہے۔ اس ارشاد کے تابع جماعت کل عالم میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے اور ہر قسم کے قانونی اور اخلاقی دباؤ سے کام لیتی ہے۔ عالمی تنازعات خصوصاً جنگ عظیم اول، دوم، کشمیر، فلسطین، عراق، لبنان جنگ کے دوران جہاں جہاں ناانصافیاںہوئیں جماعت کے خلفاء نے ان کے متعلق ظالم قوتوں کو متنبہ کیا۔ (مزید دیکھیے خلیج کا بحران۔از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
اقوام متحدہ کے چارٹر کی اصلاح
دنیا میں قوموں کے تنازعات حل کرنے کے لیے لیگ آف نیشنز اور پھر اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی گئی مگر ان کی تعمیر میں خرابی کی کم ازکم دو ایسی صورتیں رکھ دی گئیں جو مستقلاً ظلم اور بے انصافی کا عنوان ہیں اور اسی وجہ سے یہ دونوں ادارے اپنے بنیادی مقاصد میں ناکام رہے۔ اس کے متعلق جماعت احمدیہ کے امام نے پہلے سے متنبہ کردیا تھا۔ ایک معاملہ تو عدالتی یا ثالثی فیصلہ نہ ماننے والی قوم کے خلاف کارروائی ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:جب لیگ آف نیشنز قائم ہوئی ان دنوں میں انگلستان گیا ہوا تھا۔ میں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ کیونکہ قرآن کریم نے یہ شرط رکھی ہے کہ جب دو قوموں میں اختلاف ہوجائے اور ان میں سے کوئی تمہارا فیصلہ نہ مانے تو باقی سب حکومتیں اس پر مل کر لشکر کشی کردیں۔ لیکن لیگ آف نیشنز میں اس قسم کی لشکر کشی کی کوئی صورت نہیں رکھی گئی اور اب جو یونائیٹڈ نیشنز کی انجمن بنی ہے اس کے متعلق بھی میں وہی کچھ کہتا ہوں کہ یہ بھی کبھی کامیاب نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اپنے قواعد نہ بدلے۔ کیونکہ اس میں بھی وہ شرائط پورے طور پر نہیں پائی جاتیں جواسلام نے تجویز کی ہیں۔ اس میں لشکر کشی کے لئے اختیارات تو رکھے ہیں مگر پھر بھی کوئی معین فیصلہ نہیں کیا گیا اور پھر اس میں بعض حکومتوں کو شامل کیا گیا ہے اور بعض کو شامل نہیں کیا گیا۔ مثلاً سپین کی حکومت ہے اس کو انہوں نے شامل نہیں کیا۔ جب وہ کہتی تھی کہ میں تمہارے احکام ماننے کے لئے تیار ہوں تو چاہئے تھا کہ اسے بھی شامل کرلیتے۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اسی طرح بعض کو کم اختیارات دیئے گئے ہیں اور بعض کو زیادہ۔ گویا اب بھی ایسے امتیازات رکھے گئے ہیں جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے یہ بھی کامیاب نہیں ہوگی۔ آج یورپ بڑا خوش ہے کہ اس نے ایسا قانون مقرر کردیا ہے۔ مگر اسے کیا معلوم کہ وہ قانون جو ہرلحاظ سے مکمل اور قابل عمل ہے۔ آج سے تیرہ سو سال پہلے کی نازل شدہ قرآنی آیات میں موجود ہے۔ا گر اس قانون پر عمل کیا جائے تو وہ جھگڑے جنہوں نے آج دنیا کو ہلاکت اور بربادی کے گڑھے میں گرارکھا ہے بالکل دُور ہوجائیں اور دنیا ایک بار پھر امن اور اطمینان کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائے۔ (تفسیر کبیر جلد10 صفحہ313)
دوسرا معاملہ ویٹو پاور کا ہے جس نے امن عالم پر قیامت ڈھا رکھی ہے عالمی طاقتوں نے ہر موقع پر اپنے قومی، سیاسی، علاقائی مفادات اور اپنی خارجہ پالیسی کی برتری برقرار رکھنے کے لیےبے دریغ ویٹو کا استعمال کیا ہے۔ مارچ 2024ء تک کے ڈیٹا کے مطابق293؍مرتبہ ویٹو کا اختیار استعمال کیا گیا ہے۔سوویٹ یونین کے خاتمے کے بعد واحد عالمی طاقت امریکہ نے تا دم تحریر 85؍بار ویٹو کا اختیار استعمال کیا ہے۔امریکہ نے سب سے زیادہ (42؍مرتبہ) اسرائیل کے حق میں، اسرائیلی فوج کے مظالم، غیر قانونی قبضوں، مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کے قیام، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقیدی قراردادوں اور فلسطین کی رکنیت کے خلاف ویٹو کو استعمال کیا ہے۔ 2002ء کے بعد سے امریکہ نےفلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف تقریباً تمام قراردادوں اور اقدامات کو ویٹو کر دیا ہے۔ ویٹو پاور کے متعلق حضرت خلیفةالمسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:بین الاقوامی تعلقات کو اخلاق کی بنیادوں پر اسلام نے قائم کیا ہے۔ اس لئے اسلام کے نزدیک کوئی طاقت خواہ روس جتنی بڑی خواہ امریکہ جتنی بڑی طاقتور کیوں نہ ہو اسے Veto کا حق نہیں ملنا چاہئے۔ بین الاقوامی تعلقات اخلاق پر مبنی ہونے چاہئیں اور کسی قوم کی طاقت زائد حقوق کا حقدار اسے نہیں بناتی…۔ اسلام کی نگاہ میں سب انسان برابر ہیں خواہ ان کا تعلق کسی مذہب سے ہو یا کسی ملک سے ہو یا کسی قوم سے ہو یا کسی رنگ سے ہو۔ قرآن کی نگاہ میں اور اللہ کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ (الفضل 9؍اگست 1967ء)
مورخہ ۹؍مارچ ۲۰۲٤ء کو جماعتِ احمدیہ برطانیہ کی جانب سے منعقد ہونے والی اٹھارھویں امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ ادارے بھی جنہیں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے بنیادی مقصد کے ساتھ قائم کیا گیا تھا تیزی کے ساتھ اپنی ساکھ کھوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ ایک کمزور اور تقریباً بے اختیار ادارہ بن گیا ہے جہاں چند اثرورسوخ رکھنے والے ممالک تمام اختیارات پر اجارہ داری رکھتے ہیں اور اکثریت کے خیالات کو آسانی سے مسترد کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ نمائندہ ممالک ہر مسئلے کو حقائق اور میرٹ کی بنیاد پر طے کرنے کی بجائے اپنے اپنے اتحادیوں اور اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے طے کرتے ہیں۔ بالآخر، اہم فیصلے اُن چنیدہ ممالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جن کے ہاتھ میں ویٹو پاور ہے… لہٰذا واضح رہے کہ جہاں ویٹو پاور موجود ہے وہاں انصاف کا ترازو کبھی متوازن نہیں ہو سکتا…جب تک ویٹوپاور موجود ہے دنیا میں حقیقی امن کا قیام ناممکن ہے…یوکرین،رشیا جنگ اور اسرائیل، فلسطین جنگ کے معاملات طے نہ پاسکنے کی ایک وجہ ویٹو پاور کا ہونا بھی ہے کیونکہ ویٹوپاور بالفاظ دیگر انصاف کی روح کے خلاف اور جمہوریت اور مساوات کے اصول کی سراسر نفی ہے۔(الفضل انٹرنیشنل 20؍اپریل 2024ء)
ہر احمدی اپنے ملک کا وفادار ہے
امن عالم کے قیام کے لیے جماعت احمدیہ کا ایک سنہری اصول یہ ہے کہ ہر احمدی اپنے ملک کا وفادار ہے۔ اور اس کی بہتری اور بہبود کے لیے کوشاں رہتا ہے اور اپنے ملک کی حکومت کے خلاف کسی بغاوت یا فساد یا مظاہرے میں حصہ نہیں لیتا۔ ہاں قانونی اور اخلاقی ذرائع اختیار کرتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں جماعت کو عوامی مخالفت کے علاوہ حکومتی استبداد کا بھی سامنا ہے۔ جماعت کو ہر قسم کے انسانی اور شہری حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ مادیت، قتل و غارت اور تشدد معمول ہے۔ مگر جماعت کی ۱۳۵؍سالہ تاریخ کسی بھی قسم کے فساد سے مبرا ہے۔ جماعت نے کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’بعض جماعتیں ایسی ہیں جو بغاوت کی تعلیم دیتی ہیں، بعض قتل و غارت کی تلقین کرتی ہیں، بعض قانون کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتیں، ان معاملات میں کسی جماعت سے ہمارا تعاون نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ہماری مذہبی تعلیم کے خلاف امور ہیں اور مذہب کی پابندی اتنی ضروری ہے کہ چاہے ساری گورنمنٹ ہماری دشمن ہوجائے اور جہاں کسی احمدی کو دیکھے اسے صلیب پر لٹکانا شروع کردے پھر بھی ہمارا یہ فیصلہ بدل نہیں سکتا کہ قانون شریعت اور قانون ملک کبھی نہ توڑا جائے۔ اگر اس وجہ سے ہمیں شدید ترین تکلیفیں بھی دی جائیں تب بھی یہ جائز نہیں کہ ہم اس کے خلاف چلیں ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس ملک کو چھوڑ دیں اور کسی اور ملک میں چلے جائیں‘‘۔ (خطبات محمود جلد16 صفحہ478)
ہندوستان ٹائمز کلکتہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے:’’سیاسی لحاظ سے احمدیہ جماعت کا یہ اصول اور طریق ہے کہ احمدی جس ملک یا علاقہ میں بھی رہتے ہیں۔ وہاں کی قائم شدہ حکومت کے وفادار ہوتے ہیں اور ہر رنگ میں ملک کے قانون اور دستور کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ بات ان کے بنیادی اصولوں اور مذہبی عقائد میں شامل ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور کسی صورت میں بھی سٹرائیک (ہڑتال) تحریک عدم تعاون یا کسی بغاوت یا غیر قانونی کارروائی میں شامل نہ ہوں۔ (ہندوستان ٹائمز کلکتہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۵۱ء)
امن اور روحانیت
1952ء کی بات ہے انٹر نیشنل ورلڈ پیس ڈے (بین الاقوامی یوم امن) منانے کے لیے جاپان کی ایک انجمن نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا کہ جماعت احمدیہ بھی قیام امن کی کوشش میں شریک ہو اور اس اہم مقصد کے لیے ایک معین دن مقرر کرکے دعائیں کریں۔ حضورؓ نے دنیا بھر کی جماعتوں کو ہدایت کی کہ وہ 2؍اگست 1952ء بروز جمعہ قیام امن کے لیے دعا کریں۔ عام راہنمائی کے لیے حضورؓ نے ایک نہایت جامع دعا مندرجہ ذیل الفاظ میں تجویز فرمائی:’’اے خدا ہمیں سیدھا رستہ دکھا۔ ایسا رستہ جس پر مختلف اقوام کے چنیدہ لوگ جنہوں نے تیری رضا مندی کو حاصل کرلیا تھا چلے تھے۔ ہمارے ارادے پاکیزہ ہوں۔ ہماری نیتیں درست ہوں۔ ہمارے خیالات ہربدی سے پاک ہوں۔ ہمارے عمل ہر قسم کی کجی سے منزہ ہوں۔ سچائی اور صداقت کے لئے ہم اپنی ساری خواہشات اور رغبتیں قربان کردیں۔ ایسا انصاف جس میں رحم ملا ہوا ہو ہمارے حصہ میں آئے اور ہم تیرے ہی فضل سے دنیا میں سچا امن قائم کرنے والے بن جائیں۔ جس طرح کہ تیرے برگزیدہ بندوں نے دنیا میں امن قائم کیا اور تُو ہمیں ایسے کاموں سے محفوظ رکھ جن کی وجہ سے تیری ناراضگی حاصل ہوتی ہے اور تو ہمیں اس بات سے بچا کہ ہم جوش عمل سے اندھے ہو کر ان فرائض کو بھول جائیں جو تیری طرف سے عائد ہوتے ہیں اور ان طریقوں سے بے راہ ہوجائیں جو تیری طرف لے جاتے ہیں‘‘۔ (الفضل 9؍جولائی 1952ء)
مذکورہ بالا انجمن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر الفریڈ ڈبلیو مارکر نے حضور کی یہ دعا اپنے ہیڈ کوارٹر (جاپان) بھجوائی جہاں سے ان کے ماہنامہ میں تعریفی کلمات کے ساتھ شائع کی گئی اور حضور کی خدمت میں مذکورہ رسالہ اور کچھ اور لٹریچر بھی بھجوایا گیا۔ حضور نے ان کے لٹریچر کی رسیدگی سے مطلع کرتے ہوئے انہیں مندرجہ ذیل جواب دیا جس میں قیام امن کے سلسلہ میں دین فطرت کے اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں اس بہترین طریق پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی۔
’’…یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ امن عالم کے قیام کے لئے جو میری دعا کے متعلق تجویز تھی وہ آپ کے اخبار میں شائع ہوئی ہے۔ حقیقتاً دنیا اس بات کی محتاج ہے کہ اس کے اندر سچا امن پیدا کیا جائے لیکن سچا امن کبھی بھی روحانیت کے درست ہوئے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔ دنیا کوشش کررہی ہے کہ ہتھیاروں کے ساتھ صلح کو قائم رکھے۔ قانون کے ساتھ صلح کو قائم رکھے یا عقل کے ساتھ صلح کو قائم رکھے لیکن یہ تینوں چیزیں ناقص ہیں گو اپنے اپنے دائرہ میںضروری ہیں۔ یہ تینوں چیزیں جب تک روحانیت کے ساتھ نہ ملیں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ہتھیاروں کے ساتھ اس لئے امن قائم نہیں رکھا جاسکتا کہ ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے اور پھر یہ عادت ایسی پڑجاتی ہے کہ صلح کے بعد صلح کرانے والی قومیں ہتھیار جمع کرتی چلی جاتی ہیں۔ کیونکہ اپنے ہمسایہ سے ڈرنے کی عادت انہیں پڑجاتی ہے اور کافی ہتھیاروں کے بغیر ان کے دل اطمینان نہیں پاتے۔ قانون اس لئے امن قائم نہیں کرسکتا کیونکہ قانون ظاہر پر حکومت کرتا ہے۔ باطن پر نہیں اور عقل اس لئے امن قائم نہیں کرسکتی کہ عقل اخلاق کے تابع نہیں ہوتی وہ یہ دیکھتی ہے کہ میرا یا میرے دوست کا فائدہ کس میں ہے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ بعض ظاہری فائدے باطنی نقصان کا موجب ہوتے ہیں اور قریب کی دوستی بعید کو خراب کردیتی ہے لیکن روحانیت ہی ایک ایسی چیز ہے جو کہ انسان کو دائمی طور پر نیکی کی طرف مائل رکھتی ہے کیونکہ روحانیت نام ہے جذبات کے اخلاقی رنگ میں ڈھلنے کا اور جب جذبات اخلاقی رنگ میں ڈھل جائیں تو لازماً عقل بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے اور ایک ایسا دوام پیدا ہوجاتا ہے جس کو کوئی لالچ یا کوئی حرص یا کوئی خوف اپنے مقام سے ہلا نہیں سکتا‘‘۔ (الفضل 28؍ نومبر 1989ء)
آج دنیا میں سچی روحانیت صرف جماعت احمدیہ کے پاس ہے۔ یہ وہ واحد جماعت ہے جو اس زمانہ میں خدا کی طرف سے قائم کیے جانے کی دعویدار ہے۔ جو ایک زندہ خدا کو مانتی اور پیش کرتی ہے۔ جو خدا کے الہام اور کلام سے راہنمائی پاتی ہے۔ جو دعاؤں کی قبولیت کے نشان دکھاتی ہے۔ پس تمام کوششوں کے ساتھ دعا کا جھنڈا آج صرف جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی کے سایہ تلے امن حاصل ہوگا۔
امن کے لیے انفرادی تربیت کا جاری سلسلہ
کسی مفکر نے صحیح کہا تھا محض امن امن چلانے سے امن قائم نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کہ امن اور جنگ کسی چڑیا کا نام نہیں جو کوئی شعبدہ باز اپنے ہیٹ سے نکال لیتا ہے اور فوراً اس کو غائب کردیتا ہے۔ یہ کیفیات دراصل انسانوں کے دلوں کی مظہر اور عکاس ہیں۔ امن پہلے سینوں میں پلتا اور پھر دائیں بائیں ٹھنڈک پھیلاتا ہے۔ اور جنگ اور نفرت کے شعلے بھی پہلے دلوں میں بھڑکتے ہیں اور پھر اپنے ماحول کو جھلسا دیتے ہیں۔
اس لیے اگر کوئی قوم امن قائم کرنے کی دعویدار ہے تو اس کے لیے محض چند اصول پیش کردینا کافی نہیں بلکہ ایسے افراد اور گروہ پیدا کرنا ضروری ہے جو صلح کل اور سراپا امن ہوں۔ جو اپنے دائرہ میں خوبصورت اور حسین معاشرہ تشکیل دیں اور پھر یہ معاشرہ شمال جنوب اور مشرق و مغرب میں تسکین پھیلائے، یہی تعلیم اور نمونے نسل درنسل جاری ہوتے رہیں۔پاکستان اور بعض دوسرے ملکوں میں اسلام اور ملکی آئین کو پامال کر کے جماعت احمدیہ کو تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے مگر جواب میں صبر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔قتل و غارت اور جانی و مالی قربانیوں کے مقابل پر دعاؤں کے سوا کوئی احتجاج نہیں۔
پس جماعت احمدیہ آج امن عالم کی داعی ہے تو اس کے پاس وہ افرادی قوت بھی موجود ہے جو اس امن کی بگڑی صورت حال کو سیدھا کرسکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے جماعت میں ایک مربوط نظام تربیت قائم ہے۔ جہاں بچپن سے اس کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ احمدیت امن اور سلامتی کی علمبردار ہے اور یہ چشمہ گھر سے جاری ہوگا جو عزیزوں، رشتہ داروں، دوستوں، ہمسایوں، اہل محلہ، اہل شہر اور اہل ملک کو سیراب کرتا ہوا کُل عالم میں فیض پھیلائے گا۔
ہر احمدی کو لڑائی جھگڑوں سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے اور یہ ارشاد سنایا جاتا ہے کہ کبھی بھی ایک دوسرے سے نہ لڑو اور جھگڑے ختم کرنے کے لیے جہاں تک ہوسکے اپنے حقوق چھوڑ دو۔ ان کو عفو و درگزر، دشمنوں سے حسن سلوک بلکہ ان کے لیے دعائیں کرنا سکھایا جاتا ہے حتیٰ کہ عملی طور پر اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر مخالفین کی ہمدردی کا سبق دیا جاتا ہے۔ اس لیے جماعت احمدیہ بلاامتیاز رنگ و نسل تمام عالم کی خدمت پر یقین رکھتی ہے اور اس پر عمل پیرا ہے اور یقین رکھتی ہے کہ محبت سے ہی دل فتح کیے جاسکتے ہیں۔
محبت لازماً غالب آئے گی
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے احمدی نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’حقیقت یہ ہے کہ دین کی جان محبت ہے۔ دین کی حقیقت عشق ہے۔ وہ دین جو محبت اور عشق سے عاری ہے اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ نہ وہ زندہ رہنے کے لائق ہے، نہ وہ زندہ رکھنے کے قابل ہے۔ یہ روح ہے زندگی کی اور ادیان کا فلسفہ اس بات میں مضمر ہے کہ خدا سے محبت کی جائے اور ایسی محبت کی جائے کہ دنیا کی ہر چیز پر وہ محبت غالب آجائے۔ کوئی وجود اس سے زیادہ پیارا نہ رہے۔ کوئی ساتھی اس سے زیادہ عزیز تر نہ ہو۔ یہ محبت جب زندگی کے ہر دوسرے جذبے پر غالب آجاتی ہے تو اس وقت وہ لوگ پیدا ہوتے ہیں جنہیں خدا نما وجود کہا جاتا ہے۔ یہی سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے دنیا کے قلوب فتح کئے جائیں گے۔ یہی وہ ہتھیار ہے جس نے بہر حال غالب آنا ہے … اس لئے خدامِ احمدیت بھی محبان احمدیت ہونے چاہئیں، عاشقان احمدیت ہونے چاہئیں۔ ان کے دل میں ولولے ہوں پیار اور محبت اور عشق کے۔ کیونکہ اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی طاقت نہیں اور اس کے سوا ہم دنیا کو فتح کرنے کا کوئی اور ذریعہ اپنے ہاتھ میں نہیں پاتے۔
ایک موقع پر بریڈ فورڈ (انگلستان) میں ایک اخباری نمائندے نے مجھ سے ایک سوال کیا۔ وہ اسی نوعیت کا سوال تھا۔ خصوصاً اس پہلو سے اس نے اپنی مطلب براری چاہی کہ آپ محبت کا پیغام تو دیتے ہیں مگر آپ یہ بتائیں کہ جن لوگوں نے آپ پر مظالم کئے ہیں اور شدید مظالم کئے ہیں ان کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے؟ میں نے ان کو بتایا کہ ان کے لئے بھی ہمارے دل میں سوائے پیار اور محبت اور رحمت کے اور کوئی جذبہ نہیں…تو حقیقت یہ ہے کہ محبت ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے مقابل پر دنیا نے کبھی کوئی ہتھیار نہ ایجاد کیا ہے نہ کرسکتی ہے۔ اس نے لازماً فتح یاب ہونا ہے۔ اس لئے ہم جو آج نفرتوں کی آندھیوں میں گھرے ہوئے ہیں، ہم جو آج ایسی کمزور حالت میں اپنے آپ کو پاتے ہیں کہ جو قدم ہم اٹھائیں وہ بغض اور نفرت پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے، جو نیکی ہم کریں وہ فتنہ و فساد شمار کی جاتی ہے، جو خدمت دین کے لئے ہم اقدام کریں اسے انتہائی حسد اوربغض کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس ساری صورتحال کا علاج بھی یہی ایک لفظ ’’محبت‘‘ ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے ہمیشہ محبتوں سے نفرتوں پر فتح پائی ہے‘‘۔ (ماہنامہ خالد نومبر، دسمبر 1982ء)
امن کا عالمی پیغام
جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی امن اور محبت کا یہی پیغام کل عالم کو سنارہے ہیں۔ یورپ، امریکہ، کینیڈا، افریقہ، مشرق بعید سے یہی صلح کُل آواز بلند ہورہی ہے۔ اسلام محبت اور امن کا مذہب ہے۔ اسی کے اصولوں پر چل کر دنیا کو امن و آشتی نصیب ہوگی۔