متفرق مضامین

زمانۂ امام الزمانؑ کے جلسہ ہائے سالانہ اور حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ روایات

(’م م محمود‘)

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1891ء میں خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر جس جلسہ کی بنا رکھی اور جس جلسہ کے سفر کا آغاز75؍ افراد سے شروع ہواآج بفضلہ تعالیٰ خلافتِ خامسہ کے بابرکت دور میں یہ قافلہ لاکھوں رہروانِ عشق میں تبدیل ہو چکا ہے۔

جلسہ سالانہ میں عشق کا پُر لطف نظارہ

حضرت مصلح موعودؓ جلسہ سالانہ سے متعلق فرماتے ہیں:

’’ہمارے جلسہ میں عشق کی نمائش ہوتی ہے جو دوسرے پر اثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ ہمارے ملک کے شاعر لیلیٰ مجنوں یا ہیر رانجھا وغیرہ کے قصے پڑھ کر عاشقانہ رنگ ظاہر کرتے ہیں لیکن یہاں عملاً عاشقانہ رنگ ٹپکتا ہے جو ضروری ہے کہ اثر کر کے رہے۔ یہاں عجیب نظارہ ہوتا ہے لوگ راتوں کو جاگتے ہیں پھر بھی تہجد کے وقت پہلی صفوں میں جگہ لینے اور ذکر الٰہی کرنے کے لیے سب سے پہلے مسجد میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہ سردی کی پرواہ ہے نہ بیماری کی نہ معلوم وہ آرام کس وقت کرتے ہیں اور کس وقت سوتے اور کس وقت جاگتے ہیں۔ غرضیکہ ایسا پُرلطف نظارہ ہوتا ہے جو دنیا کے پردہ پر اور کہیں نظر نہیں آتا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍دسمبر1929ء، الفضل 13؍ دسمبر 1929ء، خطبات محمود جلد 12صفحہ22۱،22۰)

اگر یہ تین دن ضائع ہو گئے تو سارا سال ضائع ہو گیا

ایک موقع پر آپؓ نے فرمایا:

’’آخر سوچنا چاہیے کہ ہمارا یہ جلسہ تین دن کیوں ہوتا ہے۔ اگر صرف میری تقریریں سننا ہی کافی تھا تو تین دن جلسہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اتناہی کافی تھا کہ ایک دن جلسہ کر لیا جاتا اور اس میں مَیں یا آئندہ جو خلیفہ ہو وہ تقریر کر دیتا مگر ایسا نہیں بلکہ تین دن جلسہ رکھا گیا ہے اور اس میں حکمت یہی ہے کہ مختلف دماغوں سے مختلف باتیں نکلتی ہیں اور سب سے مشترکہ طور پر دوستوں کو فائدہ پہنچانا مدنظر ہوتا ہے۔ پس وہ دوست جو خطبہ سن رہے ہیں اس امر کو اچھی طرح یاد رکھیں کہ یہ دن سال میں صرف تین ہوتے ہیں ان کو اس طرح مضبوطی سے پکڑنا چاہیےجس طرح ایک پھسلنے والی مچھلی کو پکڑا جاتا ہے، جس طرح مچھلی اگر پھسلے تو فوراً دریا میں چلی جاتی ہے اسی طرح اگر یہ تین دن ضائع ہو گئے تو سمجھ لو کہ تمہارا سارا سال ضائع ہو گیا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍دسمبر1941ء، الفضل 3؍جنوری 1942ء، خطبات محمود جلد 22 صفحہ710)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دَور میں قریباً بارہ جلسہ ہائے سالانہ کا انعقاد ہوا۔گو کہ سلسلہ کی تاریخ میں امام الزمان مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دورِمسعود میں منعقدہ جلسوں کا مفصل ذکر نہیں ملتا تاہم ان جلسوں کے انعقاد کے موقع پر حضرت مسیح موعودؑ کی مصروفیات،آپؑ کے جذباتِ مبارک،جلسہ کے انتظامات،ایامِ جلسہ میں قادیان کی گلی کوچوں کا حال اور عشاقانِ مسیح موعودؑ کی بے پناہ فدائیت کے مختصر سے اظہار کا ایک ماخذسیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی تحریرات اور خطابات ہیں۔

ذیل میں حضرت مصلح موعودؓکی قلمِ فرخند سے تحریر اور زبانِ مبارک سے بیان فرمودہ ایسی ہی روایات کا ذکر ہے جن سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کے جلسہ ہائے سالانہ کا احوال عیاں ہوتا ہے۔

شاملینِ جلسہ نشانِ الٰہی ہیں

’’ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا اور اس وقت کو دیکھنے والے بہت لوگ موجود ہیں جب قادیان کے چاروں طرف جنگل ہی جنگل تھے۔ حضرت اقدس کے وقت میں جلسہ سالانہ پر اتنے آدمی بھی نہیں آتے تھے جتنے کہ اس وقت مسجد میں بیٹھے ہیں۔ حضرت صاحبؑ نے اس وقت سے بہت عرصہ پہلے خدا سے خبر پاکر اطلاع دی یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ تیرے پاس دُور دُور سے لوگ آئیں گے اور دُوردُور سے پہنچیں گے حتّٰی کہ جن راستوں پر سے آئیں گے ان پر گڑھے پڑ جائیں گے۔ سو خدانے یہ نظارہ ہمیں اپنی آنکھوں سے دکھایا اگر پہلے نہیں دیکھا تو اب بھی یہ نظارہ نظر آتا ہے۔ اس لیے قادیان میں ہر ایک آنے والا اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہوتا ہےاور اسی لیے وہ ایک نشان ہوتا اور شعائر اﷲ میں داخل ہوتا ہے اس لیے کیا بلحاظ مہمان ہونے کے اور کیا بلحاظ نشان الٰہی ہونے کے یہاں کی جماعت کو ان کی مہمان نوازی کی فکر کرنی چاہیے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍دسمبر1919ء، الفضل 18؍دسمبر 1919ء، خطبات محمود جلد6 صفحہ350)

جلسے کے موقع پر مامورِ زمانہ ؑسے ارادت و عشق کا اظہار

’’مجھے یاد ہے قادیان میں ایک دفعہ پشاور سے ایک مہمان آیا۔ اُس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تھے اور مہمان آپ سے ملتے تھے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے نبیوں سے ان کے متبعین کو خاص محبت اور اخلاص ہوتا ہے اورانہیں نبی کو دیکھ کر اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور وہ کسی اَور بات کی پرواہ نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے مفتی محمد صادق صاحبؓ کی روایت ہے۔ جلسہ کے ایام میں ایک دفعہ جب حضرت صاحبؑ باہر نکلے تو آپ کے ارد گرد بہت بڑا ہجوم ہو گیا۔ اس ہجوم میں ایک شخص نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور وہاں سے باہر نکل کر اپنے ساتھی سے پوچھا تم نے مصافحہ کیا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا اتنی بھیڑ میں کہاں جگہ مل سکتی ہے؟ اس نے کہا جس طرح ہو سکے مصافحہ کر۔ خواہ تمہارے بدن کی ہڈی ہڈی کیوں نہ جُدا ہو جاوے یہ مواقع روز روز نہیں ملاکرتے۔ چنانچہ وہ گیا اور مصافحہ کر آیا۔ غرض نبی کو دیکھ کر انسان کے دل میں ایک خاص قسم کا جوش موجزن ہوتا ہے اور وہ جوش اتنا وسیع ہوتا ہے کہ نبی کے خدمت گاروں کو دیکھ کر بھی اُبل پڑتا ہے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍دسمبر 1919ء،خطبات محمود جلد 11صفحہ545،544)

حضرت مسیح موعودؑ کاجلسے کے موقع پرکثرتِ ہجوم کا ذکر فرمانا

’’کیا 1907ء کے جلسہ کی یاد خدا تعالیٰ کی شان کے ظاہر کرنے کا ذریعہ نہیں۔ یہ جلسہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں آخری جلسہ تھا اس میں صرف سات سَو آدمی شامل ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کے لیے باہر نکلے تو کئی سَو کا مجمع تھا آپ واپس آ گئے اور فرمایا اب تو ان دنوں کثرتِ ہجوم سے ہم سیر کو نہیں جا سکتے۔ تو ایک وہ وقت تھا جب سات سَو لوگ آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سیر ترک کرنی پڑی کہ لوگ زیادہ ہیں حالانکہ سارے کے سارے تو سیر کے وقت ساتھ نہیں ہو گئے تھے مگر پھر بھی آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا کہ جماعت ترقی کر رہی ہے۔ اور اب کچھ سالوں سے جلسہ پر قریباً سات سَو لوگ نئے بیعت کر کے جاتے ہیں اور یہ تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ پہلے سالوں میں دو اَڑھائی سَو بیعت کرتے تھے پھر تین چار سَو پھر پانچ چھ سَو اور ایک دو سالوں سے سات سَو کے قریب کرتے ہیں۔ اس سات کے ہندسہ کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترقی سے خاص وابستگی ہے۔ رسول کریمﷺ نے ایک دفعہ مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تو کُل زن و مرد اور بچے سات سو تھے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مردم شماری کیوں کرائی ہے کیا آپ کا خیال ہے کہ ہم تباہ ہو جائیں گے اب تو ہم سات سَو ہو گئے ہیں اب ہمیں کون تباہ کر سکتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری جلسہ میں بھی سات سَو لوگ تھے۔ تو اِس سات کے ہندسہ کو دینیات سے خاص تعلق معلوم ہوتا ہے اور یہ کثرت پر دلالت کرتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍دسمبر1929ء، الفضل 13؍دسمبر 1929ء، خطبات محمود جلد 12صفحہ215)

جلسہ ہائے سالانہ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی بعض متفرق یادیں

’’سب سے پہلا جلسہ جو قادیان میں ہوااس میں شامل ہونے والوں کی تعداد اتنی قلیل تھی کہ آج اِس مسجد میں نماز جمعہ کے لیے جتنے لوگ جمع ہیں ان کا بھی چھٹا یا ساتواں حصہ ہوں گے اور اُس وقت کے لحاظ سے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بڑی عظیم الشان کامیابی ہوئی ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ پہلا جلسہ تھا یا دوسرا تیسرا یا چوتھا مگر اتنا یاد ہے کہ جہاں اب درزی خانہ ہے یعنی بک ڈپو کے سامنے کا کمرہ وہاں نیلے سے رنگ کی ایک دری بچھائی گئی تھی میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہاں کیا تقریر ہو رہی تھی کیونکہ اُس وقت میری عمر چھوٹی تھی مگر اتنا یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں گئے تھے اور لوگ صرف اتنے تھے جو سب اُس دردی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ گویا اُس جلسہ میں اتنے آدمی تھے جتنے شادی کے موقع پر عام طور پر معمولی برات میں ہوتے ہیں۔

ایک تو وہ دن تھے پھر ایک یہ دن کہ اب قادیان کی وُسعت، ہماری عمارتوں کی وُسعت،سلسلہ کی عمارتوں کی وسعت، احباب کی عمارتوں کی وُسعت اور دوستوں کی اس قربانی کے باوجود کہ وہ اپنے مکان مہمانوں کے لیے دے دیتے ہیں پھر بھی نہ صرف غیر احمدیوں سے بلکہ ہندوؤں سے بھی ہمیں مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے مکان لینے پڑتے ہیں۔

مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا آخری جلسہ یاد ہے مَیں سیر میں ساتھ تو نہیں تھا مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر سے واپس گھر آئے تو فرمایا اب تو جلسہ پر اتنے آدمی آتے ہیں کہ آئندہ جلسہ پر سیر کے لیے جانا بالکل مشکل ہو جائے گا۔ آج تو تھوڑی دُور گئے مگر اِس قدر گردوغبار اُٹھا کہ آگے جانا مشکل ہو گیا اُس وقت اندازہ کیا گیا تو قریباً سات سَو آدمی جلسہ پر آئے تھے یعنی اِس وقت جتنے اس مسجد میں بیٹھے ہیں ان سے بھی کم اُس جلسہ پر تھے۔ اُس سال کے جلسہ کی تقریریں تو مجھے یاد نہیں اتنا یاد ہے کہ اِس مسجد کے صحن میں جو قبر ہے (مزارحضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب والد حضرت مسیح موعودؑ۔ناقل) اس سے ورے مسجد کے فرش کی منڈیر تھی اُس وقت مسجد کا صحن موجودہ صحن سے بہت چھوٹا تھا اس پر لوگ بیٹھے تھے اور مسجد کے درمیانے در میں کرسی پر بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تقریر فرمائی تھی۔ ہم اس منڈیر پر بیٹھے تھے اور اُس وقت کی مسجد بالکل پُر تھی اور تمام احباب اِس ذوق شوق سے لبریز تھے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت جماعت اب بہت پھیل گئی ہے مگر آج نماز جمعہ کے لیے ہم اُس وقت سے تین گُنا زیادہ یہاں جمع ہیں…. پس یہ جلسہ کا دن ایک نشان کا دن ہے اس دن ہر طبقہ کے لوگ آتے ہیںہر قسم کی باتیں سنتے ہیں اور بہت لطف اٹھاتے ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ28؍نومبر1930ء الفضل 4؍دسمبر 1930ء، خطبات محمود جلد 12صفحہ510تا512)

حضرت مصلح موعودؓ کا بطور منتظم جلسہ کے موقع پر مہمان کی دلجوئی فرمانا

’’میں ایک دفعہ منتظم جلسہ تھا اور لڑکوں کو سختی سے اِس بات کی ہدایت تھی کہ ایک کمرہ کے لوگوں کو دوسرے کمرہ میں کھانا نہ کھلائیں بلکہ سب کو اپنی اپنی جگہ کھانا کھلائیں۔ ایک کمرہ میں ایک دوسرے کمرہ کا مہمان آ گیا اور بچہ نے جو اُس کمرہ میں کھانا کھلانے پر متعیّن تھا اِس ہدایت کے مطابق اسے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔

مہمان کا دل چونکہ بہت نازک ہوتا ہے اُسے یہ بات بُری لگی اور اُس نے کہا اچھا اب میں کھانا ہی نہ کھاؤں گا۔ مجھے جب اِس کا علم ہوا تو میں گیا اور اُس مہمان سے معذرت کی اور اُسے بتایا کہ یہ بچہ تو یہاں پڑھنے کے لیے آیا ہے اصل میں آپ کی خدمت ہمارے ذمہ تھی اس نے بھی اخلاص کے طور پر اپنے آپ کو اِس کے لیے پیش کر دیا اس لیے یہ ہماری غلطی ہے آپ ہم سے ناراض ہو لیں مگر اِس بچہ کو معاف کر دیں۔ خیر اُس نے کھانا کھا لیا بلکہ اخلاص سے یہ بھی کہا کہ مجھ سے ہی یہ غلطی ہو گئی تھی اور میں خود شرمندہ ہوں۔ پس جب پتہ لگ جائے کہ یہ ایک مشکل پیش آتی ہے تو کارکنوں کو اِس سے مطلع کرنا چاہیےاور بتانا چاہیےکہ یہ صورت پیش آئے تو یوں کرنا صرف قانون بنا دینے سے کام نہیں چلا کرتے۔ چونکہ استثنائی صورتیں بھی پیدا ہو جایا کرتی ہیں اس لیے خود ایسے سوالات پیدا کر کے کہ اگر انتظام میں یہ بات پیدا ہو تو تم کیا کرو گے انہیں جواب سکھانے چاہئیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍نومبر 1930ء، الفضل 4؍دسمبر 1930ء، خطبات محمود جلد 12صفحہ515،514)

اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت نے سلسلہ کو اَکنافِ عالم میں پھیلا دیا

’’ابھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا صرف 28سال ہی ہوئے ہیں کہ 1893ء میں جو جلسہ ہوا اُس میں چھوٹے بڑے حتّٰی کہ بچے بھی ملا کر 313کی تعداد ہوئی تھی مگر آج جماعتوں کے صرف نمائندوں کی تعداد 320ہے اور جو دوسرے احباب آئے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جمعہ کی نماز میں ہی اتنے لوگ شریک ہوئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے آخری سالانہ جلسہ میں اتنے نہیں تھے۔ ایک وہ زمانہ تھا جبکہ قادیان سے باہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کوئی نہ جانتا تھا لیکن آج دنیا کا کوئی براعظم نہیں جہاں کے افراد نہ جانتے ہوں اور ہر ملک میں احمدی موجود ہیں۔ آخر یہ سب کچھ کس ذریعہ اور کس طاقت سے ہؤا؟ سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے کیا چیز ہے جس نے اِس تھوڑے سے عرصہ میں سلسلہ کو اَکناف میں پھیلا دیا۔‘‘( مجلس مشاورت1932ء،خطابات شوریٰ جلد اول صفحہ486)

حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں رمضان میں جلسے کا انعقاد

’’رمضان میں سفر کا پیش آنا اور چیز ہے لیکن سفر کا موقع پیدا کرنا اَور چیز ہے۔ اگر لوگ رمضان میں شادیاں اس غرض سے رکھیں کہ انہیں سفر کرنا پڑے گا اور شریعت نے سفر میں روزہ نہ رکھنے کی جو اجازت دی ہے اِس پر عمل کر سکیں گے تو اس طرح شریعت کا منشاء پورا نہ ہو گا۔ اس کے مقابلہ میں یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ سفر ہم نہیں پیدا کر رہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا کر دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعینہٖ ایسی بات کے متعلق سفر کا موقع پیدا کیا اور اس بات کی پرواہ نہ کی۔ سفر کا یہ نیا موقع پیدا نہیں کیا جا رہا۔ ایک جلسہ رمضان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہؤا اور باہر سے لوگ اُس میں شرکت کے لیے آئے۔‘‘( مجلس مشاورت1933ء،خطابات شوریٰ جلد اول صفحہ543)

حضرت مسیح موعودؑ کے دور میں مسجدِ اقصیٰ قادیان میں جلسے کا نظارہ

’’جتنے آدمی آج میرے جمعہ میں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری جلسہ میں اس سے چوتھا حصہ جلسہ سالانہ میں تھے۔ قبر (مزارحضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب والد حضرت مسیح موعودؑ۔ناقل)سے گز بھر ورے تک مسجد تھی اور جہاں میں کھڑا ہوں صرف یہاں سے وہاں تک آدمی تھے اور آپؑ بہت خوش تھے کہ ہماری جماعت پھیل گئی ہے مگر آج اس سے چار گناہ جمعہ میں ہیں۔عورتیں اس کے سوا ہیں اگر انہیں بھی شامل کر لیا جائے تو چار گنے سے بھی زیادہ آدمی آج جمعہ میں ہیں اور غور کرو یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے پھر کوئی دن ایسا نہیں کہ جماعت میں اضافہ نہ ہو اور یہ ایسی بات ہے کہ بعض انگریزوں سے میں نے دوران گفتگو میں اس کا ذکر کیا تو وہ حیران رہ گئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم فروری 1935ء الفضل 12؍فروری 1935ء، خطبات محمود جلد 16صفحہ85)

جلسے کے موقع پر عشاق کا اپنے معشوق کی اولاد سے محبت کااظہار

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام میں سیالکوٹ کے ایک زمیندار دوست نے میرے ہاتھ پر چونّی رکھ دی مجھے یا دہے کہ اس وقت شرم کے مارے میرا جسم پسینہ پسینہ ہو گیا اور میں اس مجلس سے بھاگا اور سیدھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی خدمت میں پہنچا اور وہ چونّیآپؑ کے سامنے پیش کر دی اور شکوہ کیا کہ ایک شخص نے آج میرے ہاتھ پر یہ چونّیرکھ دی ہے۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ مجھے اس کا فعل اچھا نہیں لگا۔فرمایا: تمہیں اس کے جذبے کی قدر کرنی چاہیے اس نے جو کچھ کیا ہے محبت کے ماتحت کیا ہے،تمہاری ہتک کرنے کے خیال سے نہیں کیا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍اگست 1938ء،الفضل31؍اگست 1938ء، خطبات محمود جلد 19صفحہ536)

ابتدائی جلسوں پر آنے والوں کے اسماء تاریخ میں محفوظ ہو گئے ہیں

’’ابتدائی جلسوں پر آنے والے مہمانوں کے نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھ دئیے ہیں۔اب خواہ کس قدر صدیاں گزر جائیں ان کے نام ان کتابوں میں موجود رہیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍نومبر 1938ء،الفضل24؍نومبر1938ء،خطبات محمود جلد 19 صفحہ826)

1907ء کا جلسہ اور مسجد اقصیٰ قادیان کا نقشہ

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے آخری سال میں جو جلسہ سالانہ ہوا اُس میں جو احمدی شامل ہوئے وہ اس مسجد کے چوتھے حصہ میں سما گئے تھے۔ ہمارے دادا کی جو قبر ہے یہ انتہائی اور آخری حد تھی اور میرے بائیں طرف دو تین گز چھوڑکر جو ستون ہے وہ اس کی ابتدائی حد تھی۔ میرے دائیں طرف مسجد کا کُل حصہ، اسی طرح بائیں طرف کا برآمدہ اور قبر سے لے کر مشرق کی طرف کا سب حصہ، یہ سب زائد ہیں۔ اس نسبت سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ حلقہ اُس وقت کے اجتماع سے چار گُنے سے بھی زیادہ ہو گا۔یہ اس وقت کے جلسہ کے لوگوں کی کُل تعداد تھی اور اس تعداد کو اتنا اہم سمجھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جلسہ میں متواتر فرمایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام دنیا میں ختم ہو چکا ہے۔‘‘( فرمودہ12؍جنوری 1940ء، الفضل 25؍جنوری 1940ء،خطبات محمود جلد 21صفحہ13،12)

حضرت مصلح موعودؓکی پہلی تقریر برموقع جلسہ سالانہ

’’یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ بعض لوگوں پر چھوٹی عمر میں ہی ایسے علوم کھول دئیے جاتے ہیں جو دوسروں کے وہم اور گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ اسی مسجد میں1907ء میں سب سے پہلی دفعہ مَیں نے پبلک تقریر کی۔ جلسہ کا موقع تھا بہت سے لوگ جمع تھے۔ حضرت خلیفہٴ اول بھی موجود تھے۔ میں نے سورہٴ لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور پھر اس کی تفسیر بیان کی۔ میری اپنی حالت اس وقت یہ تھی کہ جب میں کھڑا ہوا تو چونکہ اس سے پہلے میں نے پبلک میں کبھی لیکچر نہیں دیا تھا اورمیری عمر بھی اس وقت صرف 18سال کی تھی۔ پھر اس وقت حضرت خلیفہٴ اولؓ بھی موجود تھے انجمن کے ممبران بھی تھے اور بہت سے اَور دوست بھی آئے ہوئے تھے اس لیے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور کون نہیں۔ تقریر آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ جاری رہی۔ جب مَیں تقریر ختم کر کے بیٹھا تو مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول نے کھڑے ہو کر فرمایا۔ میاں! مَیں تم کو مبارک باد دیتا ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی۔ مَیں تمہیں خوش کرنے کے لیے یہ نہیں کہہ رہا مَیں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ مَیں بہت پڑھنے والا ہوں اور مَیں نے بڑی بڑی تفسیریں پڑھی ہیں مگر مَیں نے بھی آج تمہاری تقریر میں قرآن کریم کے وہ مطالب سنے ہیں جو پہلی تفسیروں میں ہی نہیں بلکہ مجھے بھی پہلے معلوم نہیں تھے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک نہ میرا مطالعہ وسیع تھا اور نہ قرآن کریم پر لمبے غور کا کوئی زمانہ گزرا تھا۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر اس وقت ایسے معارف جاری کر دئیے جو پہلے بیان نہیں ہوئے تھے۔ تو دوسروں سے سن کر انسان کے علم میں بہت کچھ زیادتی ہوتی ہے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ستمبر 194۱ء،الفضل 26؍ستمبر 1941ء،خطبات محمود جلد 22صفحہ473،472)

جلسے پر بعض مہمانوں کا بھوکا رہ جانا اور حضرت مسیح موعودؑ کو خدائی الہام

’’مومنوں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے۔ پہلے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم سَو ہوگئے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ پھر جب وہ سَو ہو جائیں تو کہتے ہیں ہم ہزار ہو جائیں تو ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ جب ہزار ہو جائیں تو کہتے ہیں لاکھ دو لاکھ ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔ جب لاکھ دو لاکھ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کروڑ دو کروڑ ہو جائیں تو کتنا اچھا ہو۔ جب اتنے ہو جائیں تو کہتے ہیں کوئی چھوٹا سا جزیرہ مل جائے جس پر ہماری حکومت ہو۔ جب کوئی ایسا جزیرہ مل جاتا ہے تو کہتے ہیں اس کے ساتھ دو چار اور جزائر مل جائیں تو کیسا اچھا ہو۔ اس طرح قدم بقدم وہ ساری دنیا پر غالب آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک تمام مومن جماعتوں کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے اور ہمارے ساتھ بھی اِسی طرح ہو رہا ہے۔ ہم اِسی طرح آہستہ آہستہ ترقی کرتے آئے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے۔ کوئی وہ دن تھا کہ ہماری یہ مسجد اقصیٰ اِتنی چھوٹی تھی کہ موجودہ مسجد کا ساتواں حصہ ہو گی۔ اِس مسجد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1907ء کے جلسہ سالانہ پر جو تقریر فرمائی اُس میں مَیں بھی موجود تھا۔ اُس وقت میری عمر 1۹،1۸ سال کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت جماعت کے لوگ بے حدخوش تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اب ہم بہت ہو گئے ہیں اب ہمارے لیے دنیا کو فتح کرنے میں کیا کسر باقی رہ گئی ہے۔ حالانکہ اُس وقت صرف سات سَو آدمی آئے تھے۔ مگر اُس وقت کے لحاظ سے یہ اِتنی بڑی تعداد تھی کہ جلسہ سالانہ پر لنگرخانے والے سب آدمیوں کو روٹی نہیں کِھلا سکے تھے اور بہت سے آدمی بُھوکے سوئے تھے۔ اِس پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو رات کے وقت الہام ہوا کہیَآ اَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ (تذکرۃ صفحہ 746۔ ایڈیشن چہارم )

اے نبی! بھوکوں اور پیاسوں کو کھانا کِھلاؤ۔ آپ نے اٹھ کر جب پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ سو دو سو آدمیوں کے کھانے کا انتظام نہیں ہو سکا تھا اور وہ بُھوکے سو گئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن کے لیےرات کو کھانا کھلانے کا انتظام کرنے اور کھلانے کا حکم فرمایا۔ صبح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کے لیےتشریف لےجانے لگے تو مسجد مبارک کی اندرونی سیڑھیوں کے دروازہ کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا۔ (میں اُس وقت سیڑھیوں کے اندر کی طرف کھڑا تھا) کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے کبھی اِس رنگ میں ہمیں الہام نہیں کیا کہ یَآ اَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔ اَیُّھَا النَّبِیُّ کہہ کر مجھے پہلی دفعہ مخاطب کیا گیا ہے۔ غرض اُس جلسہ میں سات سَو آدمی آئے۔ مگر اُن سات سو آدمیوں کے آنے پر اِس قدر خوشی کا اظہار کیا گیا کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ حالانکہ آج ہمارے مدرسوں میں ہی اِس سے کئی گُنا زائد طالب علم پڑھتے ہیں۔ ہمارے ہائی سکول میں سولہ سو طالب علم ہیں۔ ہمارے کالج میں ڈیڑھ سو طالب علم ہیں۔ ہمارے زنانہ سکول میں پانچ چھ سو یا اس سے زائد لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ اور ہمارےجامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ وغیرہ مدارس میں اڑھائی سو کےقریب طالب علم ہیں۔ پھر ان کے علاوہ بھی ہیں جو پرائیویٹ طور پر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان سب کو ملا لیا جائے تو تین ہزا رکے قریب طالب علم بن جاتے ہیں۔ گویا آج یہ حالت ہے کہ قادیان میں صرف تین ہزار ہمارا طالب علم پایا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت ہمارے جلسہ سالانہ پر سات سو آدمی آئے اور ان سات سو آدمیوں کے آنے کو اس قدر اہم سمجھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب باہر سیر کے لیے گئے تو آپ کی جوتی بار بار لوگوں کے پاؤں لگنے کی وجہ سے گر جاتی تھی۔ کیونکہ آپ کھلی جوتی پہنتے تھے۔ (میں بھی کھلی جوتی ہی پہنا کرتا ہوں) جب بار بار اس طرح ہوا تو آپؑ نے فرمایا: اب سیر کرنے کا زمانہ نہیں رہا۔ چنانچہ آپؑ نے ریتی چھلہ میں بڑ کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر ایک تقریر فرمائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ نبی دنیا میں اپنی جماعت قائم کرنے کے لیے آتا ہے۔ چونکہ ہماری جماعت قائم ہو چکی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جس کام کے لیے میں آیا تھا وہ شاید ختم ہو گیا ہے۔ حالانکہ اس وقت سات سو آدمی تھے۔ لیکن اب اگر عورتوں کو شامل کر لیا جائے تو صرف ہمارے جمعہ میں آنےوالے لوگ ہی پانچ ہزار سے زائد ہو جاتے ہیں۔ غرض جماعت نے آہستہ آہستہ ترقی کی اور ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔ ہر قدم پر لوگوں نے سمجھا کہ اگر ہم اتنے ہو گئے تو بڑی بات ہے لیکن یہ ہماری نادانی ہے۔ کیونکہ ہم نے جو کچھ سمجھا غلط سمجھا۔ اصل بات تو وہ ہے جو خدا نے سمجھی اور خدا نے آسمان پر یہ نہیں سمجھا تھا کہ سات سو آدمی اس جماعت میں داخل ہو جائیں گے خداتعالیٰ نے آسمان پر یہ نہیں سمجھا تھا کہ تین ہزار طالب علم قادیان میں پڑھنے لگ جائیں گے۔ خداتعالیٰ نے اپنے عرش پر یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ پانچ چھ ہزار آدمی جمعہ سننے والے قادیان میں پیدا ہو جائیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر بیٹھے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ دنیا میں احمدیت ہی احمدیت قائم کر دی جائے گی۔ اور دوسری قومیں بہت قلیل تعداد میں رہ جائیں گی۔ جب تک یہ مقصد پورا نہیں ہوتا ہمارا کام ختم نہیں ہو سکتا۔ اور یہ مقصد فرشتوں نے پورا نہیں کرنا بلکہ ہم نے پورا کرنا ہے۔ فرشتے صرف ہمارے مددگار ہوں گے۔ لیکن اس کام کی تکمیل کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔ ہم میں سے ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا مرتا چلا جائے گا اور ایک زمانۂ دراز کے بعد یہ مقصد حاصل ہو گا۔ بہرحال جو لوگ اِس غرض کے لیے آگے آتے چلے جائیں گے وہی خداتعالیٰ کے مقرب اور محبوب ہوں گے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍نومبر1945ء، الفضل 17؍دسمبر 1945ء،خطبات محمود جلد 26صفحہ481تا484)

آخری جلسہ کے موقع پرحضرت مسیح موعودؑ کی سیر کا ذکر

’’آخری جلسہ سالانہ پر صرف سات سو آدمی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سیر کے لیے گئے تو ہجوم کی ٹھوکروں سے پاؤں سے جُوتی نکل جاتی اور سوٹی گر گر جاتی تھی۔ آپ ریتی چھلّے تک گئے اور پھر واپس آ گئے۔ آپ نے فرمایا نبی اُس وقت تک دنیا میں رہتا ہے جب تک وہ اپنے سلسلہ کی بنیاد قائم نہیں کر لیتا۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام ختم ہو گیا ہے۔ اور آپ اگلے سال فوت ہو گئے۔ بہرحال آخری جلسہ پر صرف سات سو آدمی تھے لیکن ریل کے بعد وہاں آنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ پچھلے سے پچھلے سال جو ہمارا جلسہ ہوا ہے اُس میں باہر سے آنے والوں کی تعداد تیس ہزار سے اوپر تھی۔ اور یہ وہ تعداد ہے جو ریل والوں نے بتائی تھی کہ اتنے آدمی ریل کے ذریعہ سے یہاں پہنچے ہیں۔ اردگرد کے علاقہ سے دوسرے ذرائع سے وہاں پہنچنے والوں کی تعداد الگ تھی۔ ان سہولتوں کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن ضروریات کو مہیا کیا جائے۔ اور ضروریات کا مہیا کرنا اُن لوگوں کا کام ہے جو اُس شہر میں رہیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اکتوبر 1948ء،الفضل 30؍جنوری 1949ء،خطبات محمود جلد 29صفحہ353)

جلسہ پر تعدادکا بڑھنا مامورِ زمانہ کی سچائی کا ایک نشان

’’آخری جلسہ میں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہوا`اس میں سات سو آدمی کھانا کھانے والے تھے۔اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کے لیے نکلے تو اس لیے واپس چلے گئے کہ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے گرد اڑتی ہے۔اب دیکھو اگر سات ہزار بھی جلسہ پر آئیں تو شور پڑ جائے کہ کیا ہو گیا ہے کیوں اتنے تھوڑے لوگ آئے ہیں۔ہر سال آنے والوں میں زیادتی ہوتی ہے۔پچھلے سال کی ستائیس تاریخ کی حاضری کی نسبت اس سال کی حاضری میں نو سو کی زیادتی ہے۔گویا جتنے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں آخری جلسہ پر آئے تھے اس سے بہت زیادہ آدمیوں کی زیادتی ہر سال کے جلسہ کی حاضری میں ہو جاتی ہے۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہزاروں پیشگوئیاں ہیں جو کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ کے کارنامے،انوارالعلوم جلد10صفحہ123،122)

احبابِ جماعت کا ایک دوسرے کوجلسہ پر جانے کی تحریک کرنا

’’ہمارے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے ’سلک مروارید‘ نام سے ایک ناول لکھا ہے جس میں قصہ کے طور پر ایک عورت کا ذکر کیا ہے جو بڑی بڑی بحثیں کرتی اور مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتی تھی۔ہماری کاٹھ گڑھ کی جماعت کے ایک دوست تھے۔انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو ایک دفعہ جب کہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا زمانہ تھا۔دوستوں نے ان سے پوچھا کہ کیوں بھئی! جلسہ پر چلو گے۔انہوں نے کہا۔اب کے تو کہیں اور جانے کا ارادہ ہے۔انہوں نے پوچھا کہاں جاؤ گے تو پہلے تو انہوں نے نہ بتایا۔مگر آخر اصرار پر کہا کہ اس دفعہ میرا ارادہ سہارنپور جانے کا ہے کیونکہ وہاں ایک بڑی بزرگ اور عاملہ عورت رہتی ہیں۔جن کا ذکر ’سلک مروارید‘میں ہےان کی زیارت کا شوق ہے۔(شیخ یعقوب علی صاحبؓ نے ناول میں لکھا تھا کہ وہ سہارنپور کی ہیں) انہوں نے کہا۔نیک بخت وہ تو شیخ صاحب نے ایک ناول لکھا ہے۔جس میں فرضی طور پر سہارنپور کی ایک عورت کا ذکر کیا ہے۔یہ تو نہیں کہ سہارن پور میں واقعہ میں کوئی ایسی عورت رہتی ہے۔وہ کہنے لگا۔اچھا۔تم شیخ یعقوب علی صاحب کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں جھوٹا سمجھتے ہو۔وہ کہنے لگے کہ اس میں جھوٹا سمجھنے کی کیا بات ہے۔وہ تو ایک قصہ ہے اور قصوں میں بات اسی طرح بیان کی جاتی ہے۔وہ دوست کہتے ہیں کہ پہلے تو اسے ہماری بات پر یقین نہ آیا مگر جب ہم نے بار بار اسے یقین دلایا تو کہنے لگا۔اچھا یہ بات ہے؟ مجھے قادیان پہنچنے دو۔میں جاتے ہی حضرت صاحب سے کہوں گا کہ ایسے جھوٹے شخص کو ایک منٹ کے لیے بھی جماعت میں نہ رہنے دیں۔فوراً خارج کر دیں۔میں تو پیسے جمع کر کر کے تھک گیا۔اور میرا پختہ ارادہ تھا کہ سہارنپور جاؤں گا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا۔اب اس بیچارے کے لیے یہی سمجھنا مشکل ہو گیا کہ ایسی عورت کوئی نہیں۔یہ ایک فرضی قصہ ہے جو اس لیے بنایا گیا ہے کہ تا وہ لوگ جو قصے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ اس رنگ میں احمدیت کے مسائل سے واقف ہو جائیں۔‘‘ (فضائل القرآن6، انوارالعلوم جلد14 صفحہ355,354)

ابتدائی جلسوں کے موقع پرقادیان کی حالت کا بیان

’’آج سے قریباً چالیس سال پہلے اُس جگہ پر جہاں اب مدرسہ احمدیہ کے لڑکے پڑھتے ہیں، ایک ٹُوٹی ہوئی فصیل ہؤا کرتی تھی۔ ہمارے آباء و اجداد کے زمانہ میں قادیان کی حفاظت کے لیے وہ کچی فصیل بنی ہوئی تھی جو خاصی چوڑی تھی اور ایک گڈّا اس پر چل سکتا تھا۔ پھر انگریزی حکومت نے جب اسے تُڑوا کر نیلام کر دیا تو اُس کا کچھ ٹکڑا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مہمان خانہ بنانے کی نیت سے لے لیا تھا۔ وہ ایک زمین لمبی سی چلی جاتی تھی۔ میں نہیں کہہ سکتا اُس وقت 1893ء تھا یا 1894ء یا 1895ء۔ قریباً قریباً اسی قسم کا زمانہ تھا، یہی دن تھے، یہی موسم تھا، یہی مہینہ تھا۔ کچھ لوگ جو ابھی احمدی نہیں کہلاتے تھے کیونکہ ابھی احمدی نام سے یہ جماعت یاد نہیں کی جاتی تھی مگر یہی مقاصد اور یہی مدّعا لے کر وہ قادیان میں جمع ہوئے۔ میں نہیں کہہ سکتا آیا وہ ساری کارروائی اسی جگہ ہوئی یا کارروائی کا بعض حصہ اس جگہ ہوا اور بعض مسجد میں۔ کیونکہ میری عمر اُس وقت سات آٹھ سال کی ہو گی اِس لیے مَیں زیادہ تفصیلی طور پر اِس بات کو یاد نہیں رکھ سکا، میں اُس وقت اِس اجتماع کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا، مجھے اتنا یاد ہے کہ میں وہاں جمع ہونے والے لوگوں کے اِرد گرد دَوڑتا اور کھیلتا پھرتا تھا۔ میرے لیے اُس زمانہ کے لحاظ سے یہ اچنبھے کی بات تھی کہ کچھ لوگ جمع ہیں۔ اُس فصیل پر ایک دری بچھی ہوئی تھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیٹھے ہوئے تھے اور اِردگِرد وہ دوست تھے جو جلسہ سالانہ کے اجتماع کے نام سے جمع تھے ممکن ہے میرا حافظہ غلطی کرتا ہو اور دری ایک نہ ہو، دو ہوں لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔ایک ہی دری تھی۔ اُس ایک دری پر کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ ڈیڑھ سَو ہوں گے یا دو سَو اور بچے ملا کر اُن کی فہرست اَڑھائی سَو کی تعداد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شائع بھی کی تھی۔ وہ لوگ جمع ہوئے تھے اِس نیت اور اِس ارادہ سے کہ اسلام دنیا میں نہایت ہی کمزور حالت میں کر دیا گیا ہے۔ اور وہ ایک ہی نور جس کے بغیر دنیا میں روشنی نہیں ہو سکتی اُسے بجھانے کے لیے لوگ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں اور ظلمت اور تاریکی کے فرزند اسے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اِس ایک ارب اور پچیس تیس کروڑ آدمیوں کی دنیا میں دو اڑھائی سَو بالغ آدمی جن میں سے اکثر کے لباس غریبانہ تھے، جن میں سے بہت ہی کم لوگ تھے جو ہندوستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی متوسّط درجہ کے کہلا سکیں، جمع ہوئے تھے اِس ارادہ اور اِس نیت سے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا جسے دشمن سرنگوں کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ اس جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دیں گے بلکہ اسے پکڑ کر سیدھا رکھیں گے اور اپنے آپ کو فنا کر دیں گے مگر اسے نیچا نہ ہونے دیں گے۔ اِس ایک ارب پچیس کروڑ آدمیوں کے سمندر کے مقابلہ کے لیے دو اڑھائی سَو کمزور آدمی اپنی قربانی پیش کرنے کے لیےآئے تھے جن کے چہروں پر وہی کچھ لکھا ہوا تھا جو بدری صحابہؓ کے چہروں پر لکھا ہوا تھا۔ جیسا کہ بدر کے صحابہؓ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! بے شک ہم کمزور ہیں اور دشمن طاقتور مگر وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو رَوندتا ہوا نہ گزرے۔ اُن کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ انسان نہیں بلکہ زندہ موتیں ہیں جو اپنے وجود سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کے دین کے قیام کے لیےایک آخری جدوجہد کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ دیکھنے والے اُن پر ہنستے تھے، دیکھنے والے اُن پر تمسخر کرتے تھے اور حیران تھے کہ یہ لوگ کیا کام کریں گے۔ میں خیال کرتا ہوں وہ ایک دری تھی یا دو دَریاں بہرحال اُن کے لیے اتنی ہی جگہ تھی جتنی اِس سٹیج کی جگہ ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کیوں مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ دری تین جگہ بدلی گئی۔ پہلے ایک جگہ بچھائی گئی اور تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے اُٹھا کر اُسے کچھ دُور بچھایا گیا، تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے تبدیل کر کے ایک اور جگہ بچھایا گیا اور پھر تیسری دفعہ اُس جگہ سے بھی اُٹھا کر کچھ اَور دُور وہ بچھائی گئی۔ اپنی بچپن کی عمر کے لحاظ سے میں نہیں کہہ سکتا آیا ان جمع ہونے والوں کو لوگ روکتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارا حق نہیں کہ اِس جگہ دری بچھاؤ یا کوئی اور وجہ تھی۔ بہرحال مجھے یاد ہے کہ دو تین دفعہ اس دری کی جگہ بدلی گئی…

سو آپ لوگ جو آج اِس موقع پر موجود ہیں، وہ اُن آہوں اور اُس گریہ وزاری کا نتیجہ ہیں جو اِس جگہ پر اُن چند لوگوں نے کی تھی جو دنیا داروں کی نگاہ میں متروک اور مطرود تھے اور جن کو دنیا حقیر اور ذلیل سمجھتی تھی۔ خداتعالیٰ نے اُن کو نوازا اور اُن کے آنسوؤں سے ایک درخت تیار کیا جس درخت کا پھل تم ہو۔ وہ گٹھلی جس سے یہ درخت پیدا ہواکتنی شاندار اور عظیم الشان تھی۔ اگر اُن اڑھائی سَو گٹھلیوں سے آج اتنا وسیع باغ تیار ہو گیا ہے تو اے میرے بھائیو! اگر ہم بھی اُسی اخلاص اور اُسی درد سے اسلام کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں تو کتنی گُٹھلیاں ہیں جو پھر اسلام کے پھیلانے میں نئے سِرے سے مدد دے سکتی ہیں۔ پس آؤ کہ ہم میں سے ہر شخص اِس نیت اور اِس ارادہ سے خداتعالیٰ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دے کہ میں اس کی دُنیوی جنت کے لیے ایک گُٹھلی اور ایک بیج بن جاؤں گا۔ تا میں اکیلا ہی دنیا میں فنا نہ ہو جاؤں بلکہ میری فنا سے ایسا درخت پیدا ہو جسے مجھ سے بہتر یا کم از کم میرے جیسے پھل لگنے لگیں۔ وہ اَڑھائی تین سَو گُٹھلیاں آج لاکھوں بن گئی ہیں۔‘‘(خطاب فرمودہ 26؍دسمبر1936ء برموقع افتتاح جلسہ سالانہ، انوارالعلوم جلد14 صفحہ321تا323)

ابتدا میں جلسہ ہائے سالانہ کا طریق

’’جلسہ کے اوقات تو ضرورت کے مطابق بدلتے رہے ہیں اور بدل سکتے ہیں۔ تاریخیں جلسہ کی ہم نے وہی رکھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے ابتدائی زمانہ سے چلی آ رہی ہیں مگر جلسہ کا موجودہ روزانہ کا پروگرام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے ثابت نہیں۔ اس وقت پروگرام مختلف رنگ میں ہوتا تھا بعض دفعہ ایسا ہوتاتھا کہ اصل تقریر تو حضرت صاحبؑ کی مقرر ہو جاتی تھی اور بیچ میں کبھی لوگ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے پاس چلے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ ہمیں کچھ سمجھائیں اور نصیحت کر دیں تو وہ کر دیتے تھے۔ کبھی حضرت صاحب کو کہتے تھے کہ وقت فارغ ہے تو آپ خود ہی فرما دیتے تھے کہ آج مولوی نور الدین صاحب کا لیکچر ہو گا، کبھی مولوی عبدالکریم صاحبؓ لیکچر کر دیتے تھے، کبھی کوئی اور دوست لیکچر کر دیتے تھے بہرحال وہ زائد باتیں ہوا کرتی تھیں۔ اصل تقریر وہی ہؤا کرتی تھی جو خصوصاً 27 تاریخ کو نماز ظہر و عصر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام فرمایا کرتے تھے۔‘‘( افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1954ء، انوارالعلوم جلد24 صفحہ499،498)

دورانیہ تقاریر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ

’’میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے تین چار سال پہلے جلسہ سالانہ پر میں آپؑ کی تقاریر سنتا رہا ہوں آپ کی وفات کے وقت میری عمر19سال کی تھی اور اس سے چارپانچ سال قبل میری عمر قریباً14سال کی تھی اس لیے میں آپ کی مجالس میں جاتا اور تقاریر سنتا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر عام طور پر پچاس منٹ یا ایک گھنٹہ کی ہوتی تھی اور وفات سے پانچ سال پہلے آپ کی عمر قریباً اتنی ہی تھی جتنی اِس وقت میری ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی کسی مشیّت کے ماتحت مجھ پر ایک خطرناک بیماری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے میں اب لمبی تقاریر نہیں کرسکتا۔ پہلے میں جلسہ سالانہ کے موقع پر پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقاریر کرلیتا تھا مگر اس بیماری کے اثر کی وجہ سے مجھے جلدی ضعف محسوس ہونے لگتا ہے۔‘‘(اختتامی خطاب فرمودہ سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ 1956ء،انوارالعلوم جلد25صفحہ400)

جلسہ کے ایام میں شاملین کا اپنے آقاؑسے عشق کا دلفریب انداز

’’مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کُل سات سَو آدمی آئے تھے۔اب ایک ایک بلاک میں کئی کئی ہزار بیٹھا ہے۔ اُس وقت آپؑ کی زندگی کا آخری سال تھا اور کُل سات سو آدمی جلسہ پر آیا اور انتظام اتنا خراب ہوا کہ رات کے تین بجے تک کھانا نہ مل سکا اور آپؑ کو الہام ہوا کہ یَآ اَیُّھَاالنَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر اے نبی! بُھوکے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ۔ چنانچہ صبح معلوم ہوا کہ مہمان تین بجے رات تک لنگرخانہ کے سامنے کھڑے رہے اور ان کو کھانا نہیں ملا۔ پھر آپ نے نئے سرے سے فرمایا کہ دیگیں چڑھاؤ اور ان کو کھانا کھلاؤ۔ تو دیکھو سات سو آدمیوں کی یہ حالت ہوئی مگر ان سات سو آدمیوں کا یہ حال تھا کہ جب آپؑ سیر کے لیے نکلے تو سات سو آدمی ساتھ تھا، ہجوم بہت تھا، آنے والے بے چاروں نے کبھی یہ نظارہ تو دیکھا نہ تھا، باہر تو دوسو آدمی بھی لوگوں کو کسی روحانی بزرگ کے گرد جاتا ہوا نظر نہ آتا تھا۔میلوں میں بے شک جاتے ہیں لیکن روحانی نظاروں میں نہیں جاتے۔ اس لیے اُن کے لیے عجیب چیز تھی، لوگ دھکّے کھارہے تھے۔حضرت صاحب ایک قدم چلتے تھے تو ٹھوکر کھا کر آپؑ کے پیر سے جوتی نکل جاتی تھی۔ پھر کوئی احمدی ٹھہرا لیتا کہ حضور! جوتی پہن لیجیے اور آپؑ کے پیر میں جوتی ڈال دیتا۔ پھر آپؑ چلتے تو پھر کسی کا ٹھڈا لگتا او رجوتی پَرے جاپڑتی۔ پھر وہ کہتا کہ حضور! ٹھہر جائیے جوتی پہنادوں۔اسی طرح ہورہا تھا تو ایک زمیندار دوست نے دوسرے زمیندار دوست سے پوچھا ’’او تُوں مسیح موعود دا دست پنجہ لے لیا ہے‘‘ یعنی کیا تُو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کرلیا ہے؟ وہ کہنے لگا ’’ایتھے دست پنجہ لین دا کیہڑا ویلا ہے،نیڑے کوئی نہیں ہون دیندا‘‘ یعنی یہ مصافحہ کرنے کا کونسا موقع ہے یہاں تو کوئی قریب بھی نہیں آنے دیتا۔ اس پر وہ جو عاشق زمیندار تھا وہ اس کو دیکھ کر کہنے لگا تجھے یہ موقع پھر کب نصیب ہوگا۔ بے شک تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں پھر بھی لوگوں کے درمیان میں سے گزر جا اور مصافحہ کرآ۔

تو کُجا وہ وقت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کُجا یہ وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘( افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1956ء، انوارالعلوم جلد25صفحہ9،8)

جلسہ کے موقع پر افرادِ جماعت کا حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کا طریق

’’اِس دفعہ ملاقاتیں مختصر کی گئی ہیں امید ہے کہ دوست اس کی پروا نہیں کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تو ملاقاتیں ہؤا ہی نہیں کرتی تھیں۔ آپ سیر کو جاتے تھے دوست دیکھ لیتے تھے۔ اور اگر بعض کو موقع ملتا تو مصافحہ بھی کر لیتے تھے۔ تقریریں بھی مختصر ہوتی تھیں۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی تقریر تو پندرہ بیس پچیس منٹ ہو تی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری جلسہ کی تقریر مجھے یاد ہے کہ پچاس یا پچپن منٹ کی ہوئی تھی اور ہم بڑی باتیں کرتے تھے کہ آج بڑی لمبی تقریر ہوئی ہے اور جماعت میں بڑا شور پڑا کہ آج حضورؑ نے بڑی لمبی تقریر کی ہے۔ آپ لوگوں کو چھ چھ گھنٹے سننے کی عادت پڑی ہوئی ہے اب بیس پچیس یا تیس منٹ کی تقریر ہو تو بڑے مایوس ہو جاتے ہیں کہ بہت چھوٹی تقریر ہوئی ہے۔ لیکن اصل تقریر تو وہی ہے جس کو آپ اپنے دل میں رکھ لیں۔ جو میرے منہ سے نکل کر ہوا میں اُڑ جائے وہ کوئی تقریر نہیں چاہے وہ آٹھ گھنٹے کی ہو یا بیس گھنٹے کی ہو۔ اور جو آپ اپنے دل میں رکھ لیں وہ پانچ منٹ کی بھی بڑی ہے۔ سو دعائیں کرتے رہو، جلسہ کے ایام میں ذکرِ الٰہی کرو اور یہ بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ جو مجھے بولنے کی توفیق دے وہ صحت کے ساتھ دے۔‘‘( افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1955ء، انوارالعلوم جلد25صفحہ192،191)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button