پرندوں کی مہمان نوازی
ایک دفعہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہوگئی۔ رات اندھیری تھی۔ قریب کوئی بستی اُسے دکھائی نہ دی اور وہ ناچار ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے واسطے بیٹھ رہا۔ اُس درخت کے اوپر ایک پرند کا آشیانہ تھا۔ پرندہ اپنی مادہ کے ساتھ باتیں کرنے لگا کہ دیکھو یہ مسافر جو ہمارے آشیانہ کے نیچے زمین پر آ بیٹھا ہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں۔ مادہ نے اس کے ساتھ اتفاق کیا اور ہر دو نے مشورہ کرکے یہ قرار دیا کہ ٹھنڈی رات ہے اور اس ہمارے مہمان کو آگ تاپنے کی ضرورت ہے اور تو کچھ ہمارے پاس نہیں، ہم اپنا آشیانہ ہی توڑ کر نیچے پھینک دیں تاکہ وہ ان لکڑیوں کو جلاکر آگ تاپ لے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور سارا آشیانہ تنکا تنکا کرکے نیچے پھینک دیا اس کو مسافر نے غنیمت جانا اور اُن سب لکڑیوں کو تنکوں کو جمع کرکے آگ جلائی اور تاپنے لگا۔ تب درخت پر اس پرندوں کے جوڑے نے پھر مشورہ کیا کہ آگ تو ہم نے اپنے مہمان کو بہم پہنچائی اوراُس کے واسطے سینکنے کا سامان مہیا کیا۔ اب ہمیں چاہئے کہ اُسے کچھ کھانے کو بھی دیں۔ اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں۔ہم خود ہی اس آگ میں جا گریں اور مسافر ہمیں بھون کر ہمارا گوشت کھالے۔ چنانچہ اُن پرندوں نے ایسا ہی کیا اور مہمان نوازی کا حق ادا کیا۔
(ذکرحبیب صفحہ 85تا 87)