جلسہ سالانہ کے کارکنان اور مہمانوں کو زرّیں نصائح (خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ جولائی ۲۰۲۴ء)
خاص طورپر اِن تین دنوں میں دعاؤں اور ذکرِ الٰہی کی طرف زور دینا چاہیے
خلاصہ خطبہ جمعہ سيّدنا امير المومنين حضرت مرزا مسرور احمدخليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز فرمودہ ۲۶؍جولائي ۲۰۲۴ء بمطابق۲۶؍وفا ۱۴۰۳؍ہجري شمسي بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن، ہمپشئر، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۶؍جولائی۲۰۲۴ء کو حدیقۃ المہدی، آلٹن، ہمپشئر، یوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلی وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔ جمعہ کی اذان دينے کی سعادت عزیزم خان فرید احمد صاحب طالب علم جامعہ احمدیہ یوکے کے حصے ميں آئی۔ تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورايدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جلسہ سالانہ برطانیہ شروع ہورہا ہے اور ہزاروں لوگ یہاں دینی اور روحانی ماحول سے فائدہ اٹھانے کے لیے آئےہیں۔ ان دنوں میں یہاں حدیقة المہدی میں ایک عارضی شہر بنایا گیا ہے تاکہ
اس ماحول میں رہ کر ہم اپنی دینی، روحانی، اخلاقی حالتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔
پس ایسے حالات میں آنے والوں کو کسی بھی قسم کی سہولت میسر آنے سے زیادہ اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ کس طرح ہم اس ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ لیکن بہرحال انسان کے ساتھ بشری ضروریات اور تقاضے بھی لگے ہوئے ہیں اس لیے انتظامیہ آنے والوں کو ہرممکن آرام پہنچانے کے لیے کوشش کرتی رہتی ہے اور اس مقصد کے لیے مختلف شعبہ جات جلسہ سالانہ کے دنوں میں قائم کیے جاتے ہیں۔ ہزاروں کارکنان رضاکارانہ طورپر اپنی خدمات حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی خدمت کے لیے پیش کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں پہلے تو مَیں تمام کارکنوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی ڈیوٹیاں بہترین رنگ میں انجام دینے کی کوشش کریں۔
جلسے کے مہمانوں کو حضرت مسیح موعودؑ کے مہمان سمجھ کر خدمت کریں۔ مہمان کی طرف سے، آپ کے خیال میں، اگر کوئی زیادتی بھی ہوجاتی ہے تو اس سے صَرفِ نظر کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک میں مہمان نوازی اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ جماعت احمدیہ کا ایک خاص وصف بن چکا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑفرمایا کرتے تھے کہ مہمان کا دل تو آئینے کی طرح ہوتا ہے، جذباتی ہوتے ہیں ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہاں آنے والے اکثر احمدی تو یہ بات اچھی طرح سمجھ کر آتے ہیں کہ تکالیف اور بےآرامی برداشت کرنی پڑے گی۔ بعض مہمان جو ابھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے ان کا بہرحال خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ سب شعبہ جات کو خواہ ٹریفک ہے، پارکنگ کی ڈیوٹی ہے، کھانا کھلانے والے ہیں یا نظم و ضبط،حفاظت، صفائی، پانی سپلائی غرض کسی بھی شعبے کی ڈیوٹی ہے کوشش کریں کہ حتیٰ الوسع مہمان کی سہولت کا انتظام ہو اور اس کو کسی بھی طرح تکلیف نہ پہنچے۔
مہمانوں کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ
آپ لوگ ایک نیک مقصد کے لیے، حضرت مسیح موعودؑ کے مہمان بن کر یہاں آئے ہیں۔ دنیاوی اعزاز اور دنیاوی خدمت کی بجائے اُن اعلیٰ اخلاق میں مزید ترقی کرنے کو اپنے پیشِ نظر رکھیں جو ایک حقیقی مسلمان کا طرہ امتیاز ہے۔
خدا کے لیے سفراختیار کرنے والوں کو دنیاوی آراموں کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے۔ بعض دفعہ انتظام میں کمزوریاں نظر آتی ہیں لیکن ان سے صرفِ نظر کرنا چاہیے۔ اگر ہر آنے والے احمدی مسلمان کے دل میں یہ خیال ہو کہ ہمارا مقصد روحانی مائدہ حاصل کرنا ہے تو میزبان اور مہمان دونوں محبت اور پیار سے یہ دن گزاریں گے۔
انتظامیہ کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ آنے والے تمام مہمانوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے لیکن پھر بھی بعض دفعہ کمی بیشی ہوجاتی ہے تو اس سے مہمانوں کو صرفِ نظر کرنا چاہیے۔ حضرت مسیح موعودؑ مہمانوں کی بہت عزت و تکریم فرمایا کرتے تھے مگر مہمانوں کو یہ بھی فرماتے کہ اپنی ضروریات بلا تکلّف بیان کردیا کرو؛ لیکن یہ عام حالات کی بات ہے۔ جلسے کے مہمانوں کو آپؑ فرمایا کرتے کہ ایک ہی انتظام ہو ہرمہمان کی اُسی طرح مہمان نوازی کی جائے جو ایک انتظام کے تحت ہے۔
آپؑ مہمانوں کے دل میں یہ بات راسخ فرماتے تھے کہ تمہارے یہاں آنے کی اصل غرض دین سیکھنا اور اپنے دل و دماغ کو پاک کرنا، اور اللہ تعالیٰ کے قُرب کی منازل کو طے کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ پس! یہی غرض ہے جس کے لیے آپ سب ہرسال یہاں جمع ہوتے ہیں۔
جلسہ گاہ میں بیٹھ کر جلسے کے پروگرام اور تقاریر کو غور سے سنیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔
حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ جماعت عطا فرمائی ہے جس نے ملکوں اور قوموں کی سرحدوں اور فرقوں کو ختم کردیا ہے اورایک عظیم بھائی چارے کی بنیاد پڑ چکی ہے۔
آپؑ نے جلسہ کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جماعت کے تعلقاتِ اخوت استحکام پذیر ہوں۔ اس کے لیے ظاہر ہے ایک دوسرے سے میل ملاقات بھی ہوتی ہے مگر مومن کے لیے اپنے وقت کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے اس لیے جلسے کے سارے دن کے پروگرام کے بعد جو موقع میسر آئے اس میں پھر آپس میں مل بیٹھیں، اور باتیں کریں اور تعلقات بڑھائیں مگر اس میں اتنے مصروف نہ ہوں کہ وقت ضائع ہو۔
جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوں تو بعض دفعہ بدمزگیاں بھی ہوجاتی ہیں، یاد رکھیں! کہ حقیقی مومن غصّے کو دبانے والے ہوتے ہیں، پس جلسے کے ماحول کے تقدس کو سامنے رکھیں اورایک دوسرے کی غلطیوں پرصرفِ نظرسے کام لیں۔ اگر کسی کارکن سے کوئی غلطی ہوبھی جائے تو بھی برا منانے کی بجائے حوصلہ دکھانا چاہیے اور صبر سے، درگزر سے کام لینا چاہیے۔ اگر وسعتِ حوصلہ پیدا ہوجائے تو تمام جھگڑے اور بدمزگیاں ختم ہوجائیں۔ پس
مہمانوں اور ڈیوٹی دینے والے دونوں کو کہتا ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ وسعت حوصلہ دکھائیں۔ ہر مہمان جو یہاں آیا ہے اپنے سفر کو خالصةً للہ بنانے کی کوشش کرے۔
کارکنان اور مہمان سب یاد رکھیں کہ بعض غیرازجماعت اور غیرمسلم بھی یہاں آئے ہوتے ہیں اگر اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے تو یہ خاموش تبلیغ ہوگی
اور اس کا غیروں پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے اور انہیں اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور وہ اسلامی تعلیم کی خوبیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
ایک ضروری چیز یہ ہے کہ یہاں آنے والے ایک دوسرے کو سلام کرنے کو بھی رواج دیں، زیادہ سے زیادہ اس طرف کوشش کریں۔
بڑی برکت والی اور پاکیزہ دعا ہمیں سکھائی گئی ہے۔ جب میزبان اور مہمان ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں توجہاں وہ ہر ایک قسم کے خوف اور فکر سے آزاد ہوتے ہیں وہاں یہ دعاایک دوسرے کو فیض یاب کرنے والی ہوتی ہے۔ پس اس طرف ان دنوں میں بہت توجہ دیں تاکہ ہم ہر طرف سلامتی، پیار اور محبت پھیلانے والے بن جائیں اور یہ ماحول خالصتاً للہ محبت اور بھائی چارے کا ماحول بن جائے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہر قسم کی اغراض سے اپنے آپ کو پاک کریں۔ اِن دنوں میں ایک انقلاب اپنی زندگیوں میں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلام کو رواج دیں اور اس کے لیے تم چاہے کسی کو جانتے ہو یا نہیں اُسے سلام کرو ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ آپ کو بتاتا ہوں۔ مسلمانوں اورعیسائیوں میں جنگ مقدس میں ایک مباحثہ کی تقریب تھی اور جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہرے ہوئے تھے وہاں مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے منتظمین آپؑ کے لیے کھانا رکھنا بھول گئے۔ رات کا ایک حصہ گزر گیا اور بڑے انتظار کے بعد جب آپؑ نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو سب انتظام کرنے والے بڑے پریشان ہوگئےکہ بہت دیر ہوچکی ہے، کھانا بھی رکھا ہوا نہیں ہے اور بازار بھی بند ہوچکے ہیں۔ یہ صورتحال جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں آئی تو آپؑ نے فرمایا کہ اس طرح گھبراہٹ اور تکلیف کی کیا ضرورت ہے؟ دستر خوان پہ دیکھو جو بچا ہواکھانا ہے وہی لے آؤ۔ جب وہاں دیکھا گیا تو سوائے روٹیوں کے چند ٹکڑوں کے کچھ بھی نہیں تھا۔ سالن وغیرہ بھی نہیں تھا۔ آپؑ نے فرمایا ہمارے لیے یہی کافی ہے اور آپؑ نے وہی کھالیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق اور آپؐ کی سنت پر عمل کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ نمونہ تھا۔ پس ہمیں بھی جو آپؑ کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ صبر، حوصلہ ،شکر گزاری اور جذبات ہر وقت دکھانے کی ضرورت ہے ۔
مَیں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں مختلف قسم کی نمائشیں لگی ہوئی ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کے یورپ کے دورے کواس سال سَو سال پورے ہو رہے ہیں اس لیے یُوکے کی جماعت نے مرکزی آرکائیوز کے ساتھ مل کر مختلف تصاویر کی ایک نمائش لگائی ہے اس کو ضرور دیکھیں۔
اسی طرح دیگر نمائشیں ہیں جو دیکھنے والی ہیں۔ فارغ اوقات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ان نمائشوں کو دیکھے کی کوشش کریں۔
اس وقت دنیا میں بعض جگہوں پر کووڈ (Covid)کے مریض زیادہ نظر آنے لگ گئے ہیں۔ یہاں پر مختلف جگہوں سے لوگ آئے ہوئے ہیں اس لیے حفظ ماتقدم کے لیے داخلی راستوں پر ہومیو پیتھک دوائی دینے کا انتظام کیا گیا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ ہر شخص جب اندر داخل ہو اور اگر انتظامیہ اُن کو دوائی دے تو آرام سے لے لیں بلکہ خود مانگ کے لیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو بیماری سے محفوظ رکھے، ہر شر سے بھی محفوظ رکھے۔
اِن دنوں میں سیکیورٹی کی طرف خاص توجہ دیں۔ مَیں ہر سال کہتا رہتا ہوں کہ سب سے بڑھ کر سیکیورٹی ہماری یہی ہے کہ اپنے دائیں بائیں نظر رکھیں لیکن سب سے بڑا ہتھیار ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی پناہ ہے۔ اوراس پناہ کو حاصل کرنے کےلیے
خاص طورپر اِن تین دنوں میں دعاؤں اور ذکرِ الٰہی کی طرف زور دینا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ اس پر عمل کرنے والے ہوں اور یہ جلسہ ہر ایک کے لیے بابرکت ہو۔