اسلام کی داستانِ ناگفتہ: ایک تجزیہ (قسط اول)
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
(ڈاکیومنٹری Islam: The Untold Story پر محاکمہ)
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے مذہبی تاریخ کے معروف پروفیسر ٹام ہالینڈ نے سال 2012ء میں دین اسلام کے بارے میں اپنی تحقیق ایک ڈاکیومنٹری کی صورت میں پیش کی جو مشہور برطانوی نشریاتی ادارے ‘‘چینل 4’’ پر Islam: The Untold Storyکے عنوان سے نشر کی گئی، جس میں ناظرین کو مبینہ طور پر یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ دین اسلام کے آغاز کی تاریخ مشکوک ہے۔ یوں مختلف شکوک و شبہات پھیلاکر عقائد اسلامی کی بے توقیری ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس پیش کش میں تاریخ اسلامی پر سوالات اٹھا کر ایسا تاثر دیا گیا کہ مذہب اسلام، اس کی ابتدائی تاریخ یقینی نہیں بلکہ اس کی بنیاد محض ظنی باتوں اور سنے سنائے امو رپرہے۔ اس ڈاکو منٹری کے پیش کاروں نے تو نہایت مہارت سے کہانی یوں بُنی کہ ناظرین یہی سوچتے رہ جائیں کہ دین اسلام ایک محض قصہ کہانی ہے، لیکن کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
خدا کے محبوب دین یعنی اسلام کی ثقاہت اوراس کی تاریخی حیثیت پر اس صریح حملہ میں بھی اہل اسلام کے واسطے خیر و برکت کے پہلو نکل سکتے ہیں اگر وہ اس موقع پر فائدہ اٹھا کر مختلف ماخذوں کو اچھی طرح کھنگال کر اسلام کی ابتدائی تاریخ کے تائیدی حوالے مزید پختہ کرلیں اور مغربی محققین اور مورخین کے اٹھائے ہوئے درج ذیل سوالات کی کھوج لگالیں کہ
٭…کیابانی اسلام نبی کریم محمد ﷺ کا حقیقی طور پر کوئی وجود گزرا ہے؟
٭…کیا قرآن کریم کا نزول ہوا تھا یا یہ محض نبی کریم ﷺ کی خودکلامی تھی جس کو بعد میں صحابہ نے مجموعےکی شکل میں محفوظ کرلیا تھا؟
٭…کیا عصر حاضر میں وہی مذہب اسلام رائج ہے جو بانی اسلام ﷺ نے قائم فرمایا یا یہ آئندہ زمانوں میں مفتوح اقوام کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے موجود ہ شکل میں سامنے آیا ہے؟
یہاں مصنف مضمون ہذا، اس ڈاکومنٹری کے خالق ٹام ہالینڈ کا ممنون ہے کہ اس نے مسلمانوں کو ان مذکورہ بالا امو رکی طرف متوجہ کیا:
Islam: The Untold Story”, n.d., www.youtube.com/watch?v=dm8xKh8eQqU
زیر نظر مضمون میں اس بابت علمی اور تحقیقی پہلوؤں سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسلام کے تاریخی شواہد
یاد رہے کہ دین اسلام روز اوّل سے ہی مخالفین و معاندین کے نشانے پر رہا ہے، لہٰذا مسلمانوں کے لیے ٹام ہالینڈ کی یہ تحقیق اور اس قبیل کی دیگر کوششیں ذرہ بھر بھی موجب حیرت نہیں ہیں۔ اور نہ ہی محقق مذکور کو اسلام کے بارہ میں ایسی غلط فہمیاں پھیلانے میں کوئی خصوصی امتیاز یا اولیت حاصل ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیں Patricia Crone اور Michael Cook کا 1970ءکی دہائی میں سامنے آنے والا تحقیقی مواد)
کیونکہ عرصہ درازسے نام نہاد مغربی مورخین نے گروہ در گروہ ہوکر ایساماحو ل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو دراصل دین اسلام کو کڑے تحقیقی اور اعلیٰ علمی پیمانوں سے پرکھنے اور دنیا کو دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور ایسے میدان سجا کر وہ اتنا ہی ثابت کرپائے ہیں ۔دین اسلام کی تاریخی حیثیت کا معاملہ کسی بھی قدیم تہذیب کے مطالعہ کی مانند ہے۔
مثلاً جولیس سیزر کی جنگوں اور معرکہ آرائی سے توسب واقف ہیں لیکن ان رزم گاہوں کی تعیین اور جنگوں کے اوقات اور دورانیے کی اتنی معین تاریخ اور اعداد وشمار نہیں ملتے ہیں جتنی معلومات امریکہ کی دہشت گردی کے نام سے شروع کردہ جنگوں کی میسر اور موجود ہیں۔ اب اگرکوئی جولیس سیزر کی فتوحات کوہی مشکوک قرار دینے لگ جائے تو یہ غیر منصفانہ استدلال ہوگا۔
یہاں ایک اور اہم فرق بھی ملحوظ خاطر رہے کیونکہ دین اسلام اور دیگر تہذیبوں کامطالعہ اور باہمی موازنہ ادھوری تحقیق کی بنیاد بن رہا ہے محققین نہیں جانتے کہ اسلام وہ مضبوط اور پر اثر عقیدہ ہے کہ جس نے دنیا کی ایک عظیم الشان تہذیب کی بنیاد رکھی۔
(Julius Wellhausen, The Arab Kingdom and Its Fall: Orientalism (Taylor & Francis, 1927); Irfan Shahid, “Pre-Islamic Arabia,” in The Cambridge History of Islam, Vol. 1A: The Central Islamic Lands from Pre-Islamic Times to the First World War, ed. P. M. Holt, Ann K. S. Lambton, and Bernard Lewis Cambridge University Press, 1977
زیر نظر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ مضمون سے انصاف کا حق ادا کرتے ہوئے مذہب اور تہذیب و ثقافت کے متعلقہ حدود کو باہم خلط ملط کیے بغیر نفس مضمون کو قارئین کے لیے مہیا کردیا جائے۔
مغربی تہذیب میں پروان چڑھنے والا فرد اولاً یہ تقاضا کرے گا کہ اسے اسلامی تہذیب کے تاریخی شواہدسے مطلع کیا جاوے، اور قرین قیاس بھی یہی ہے کہ انسان خالی الذہن ہوکر سوچے کہ کس طرح اس عالمی اسلامی تہذیب نے جنم لیا، کیونکر صحرائے عرب میں محمد ﷺ نامی ایک اُمی انسان سے اسلامی تہذیب کا آغاز ہوا۔
اس سوال کے جواب کی تلاش میں دوراسلامی کے آغاز کے زمانہ کے جزیرہ نماعرب کو سمجھنا ضروری ہے۔کیونکہ دنیا میں کروڑ ہا کروڑ مسلمان اپنی مذہبی کتاب قرآن کریم کو پڑھتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، زیر نظر مضمون کے ذریعہ محققین کے لیے اس آفاقی کتا ب کے نزول کے زمانے کو سمجھنا مفید رہے گا تا کہ تاریخی شواہد مہیا کیے جاسکیں۔
زمانہ قبل از اسلام کا ملک عرب
چھٹی صدی عیسوی میں جزیرہ نما عرب چاروں طرف سے بڑی بڑی عظیم الشان سلطنتوں کے درمیان گھرا ہوا تھا۔ جیسا کہ اس کی سمت میں بازنطینی یا مشرقی رومی سلطنت چھائی ہوئی تھی اور دوسری سرحدوں پر ساسانی یا ایرانی براجمان تھے۔ یوں جزیرہ نما کی حیثیت دونوں عظیم سلطنتوں کے باہمی تجارتی اسفار کی گزرگاہ سے زیادہ اہمیت کی حامل نہ تھی۔ طاقت ور اور ترقی یافتہ سلطنتوں کی ہمسائیگی کے باوجود ملک عرب پسماندہ محض تھا۔
ایک سلطنت کی سی ترقی تو کجا ملک عرب میں اتنا سا بھی سماجی ڈھانچہ مربوط نہ تھا جو اسے منظم معاشرہ بناسکتا۔ اہل عرب کے لیے زیادہ سے زیادہ یہی تنظیم بندی تھی کہ وہ کسی ایک قبیلہ اور شاخ سے منسلک ہوجائیں کیونکہ ملک عرب میں قبائلی نظام ہی رائج تھا۔
(Fred McGraw Donner, The Early Islamic Conquests (Princeton, N.J: Princeton University Press, 1981), 20.)
مزید برآں ملک عرب میں نہ ہی کوئی منظم فوجی گروہ تھا جو ملکی سلامتی اور سالمیت کا ضامن کہلاسکے۔ ملکی دفاع کی ذمہ داری قبائلی سطح پر ہی نبھائی جارہی تھی۔
(Donner, The Early Islamic Conquests, 31.)
قبائلی سردار ہی اپنے لوگوں کی حفاظت کے سزاوار ہوتے تھے۔عوام الناس کا باہمی بدلہ لینےاور انتقام کا جذبہ اورقانون ہی ملک میں قیام امن کا پس پردہ محرک بنا ہوا تھا۔اسی وجہ سے ہر فرد واحد کے لیے لا بدی امر تھا کہ وہ کسی نہ کسی قبیلے یا گروہ سے منسلک رہے۔ مورخین اس امر پر متفق ہیں کہ یہی قبائلی نظام تھا جس میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی اور صدیوں سے رائج اسی قبائلی نظام کی بدولت متنوع پس منظر کے لوگ ایک لڑی میں پروئے گئے جو ہر پہلو سے ایک معجزہ سے کم نہیں۔ سال 570ء میں خانہ کعبہ پر قبضہ کی نیت سے اہل حبشہ کی ملک عرب پر چڑھائی تک یہی قبائلی نظام ہی تھا جس کے تحت اہل عرب زندگیاں گزار رہے تھے، اور مورخین کے نزدیک اہل حبشہ کا ملک عرب پر حملہ ایک جانی مانی تاریخی بات ہے۔ اور مورخین یہ بات بھی مانتے ہیں کہ سال 632 عیسوی تک اہل عرب ایک مضبوط، مہذب معاشرے کی سیڑھیاں چڑھ کر ایک سلطنت کا درجہ حاصل کر چکے تھے جس کی حدود جزیرہ نما عرب سے نکل کر ہمسایہ علاقوں میں بھی قائم ہوچکی تھیں۔
Marshall G. S. Hodgson, The Venture of Islam, Volume 1: The Classical Age of Islam (University Of Chicago Press, 1977), 187
مذکورہ بالا امو رکی روشنی میں پٹریشا کرون(Patricia Crone)اور ٹام ہالینڈ اوران جیسے دوسرے محققین کی رائے درخور اعتنا نہیں رہتی ہے جو اس مفروضے کو ہوا دے رہے ہیں کہ 570ء سے 632ء کے درمیانی سالوں میں برپاہونے والے معجزہ کے حق میں کچھ بھی تاریخی شواہد نہیں ملتے ہیں۔
اب مغربی دنیا میں رہنے والے اہل دانش اقرار کرتے ہیں کہ عرب سلطنت میں 632 عیسوی سے ایک قمری کیلنڈر رائج ہوگیا تھا جو ہجری اس وجہ سے کہلاتا تھا کیونکہ 632ء میں مکہ سے مدینہ ہجرت کو 10برس بیت چکے تھے۔ اب یورپی محققین اس نئے اور منفرد کیلنڈر کے اجرا پر کوئی خاص سوال نہیں اٹھاتے ہیں کہ کیونکر یہ کیلنڈر شروع ہوا، وغیرہ۔ کیونکہ قریبا ًسب اس بات کے مِقر ہیں کہ بانی اسلام حضرت محمد ﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے حوالہ سے اس قمری کیلنڈر کی نسبت ہے۔ اب مورخین کو 570ء سے ماقبل ملک عرب کو ‘‘زمانہ قبل از اسلام’’ قرار دینے اور مابعد دور کو ‘‘ ملک عرب میں اسلام کا پڑاؤ’’ قرار دینے میں کوئی خلش نہیں ہونی چاہیے۔
(Irfan Shahid, “Pre-Islamic Arabia,” 3)
اب بغیر کسی شک و شبہ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہی وہ دور تھا جس میں اہل عرب کے مذہبی تشخص میں ایک فیصلہ کن تبدیلی آئی۔ اور اسی تبدیلی نے اہل عرب کے قومی کردار کو ایسا ڈھالا کہ وہ فاتح عالم بننے کی راہ پر چل نکلے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بادیہ نشینوں نے مجموعی طور پر ایام عرب کے عنوان سے محفوظ شعلہ بیان اور قادر الکلام عرب شعراء کےشاعری کے زیر اثر ایک نفسیاتی تبدیلی حاصل کرلی تھی جس نے عربوں میں قومیت کو پروان چڑھایا جس سے کلاسیکل عرب ادب نے جنم لیا۔ اس طرح جزیرہ نما عرب کے بادیہ نشین اس نئی سوچ کے حامل بنتے گئے کہ ان کا باہمی اتحاد فطری ہے کیونکہ ان کے مفادات، ان کی مشکلات اور پریشانیاں سانجھی ہیں، یوں اہل عرب میں اہل وطن ہونے اور آپس میں ایک ملک کے باسی ہونے کا ابتدائی تصور قائم ہوا۔ اس جدید تصوّر میں مزید پختگی مکہ مکرمہ کی وجہ سے بھی آئی جو رفتہ رفتہ تجارتی قافلوں کی گزرگاہ بنتا گیا ۔ مکہ سے ہمسایہ سلطنتوں کے اموال تجارت مغربی عرب کے مخصوص تجارتی راستوں سے ہوکر گزرتے تھے، اسی برتے پر مکہ کو ایک ممتاز حیثیت حاصل تھی اور اس امتیازی برتری سے یثرب میں بسنے والے یہود اور نجران میں آباد ہونے والے عیسائی لاتعلق نہ رہ سکے، اور ان اہل کتاب کے اس تجارتی شہر میں بار بار آمد و رفت نے اہل علاقہ کے لیےبھی اس کی اہمیت دو چند کردی۔ اور اہل مکہ دیگر مذاہب کے عقائد و تعلیمات سے آشنا ہونے لگے۔ مکہ کے تجارتی اور مذہبی تشخص کی تشہیر میں قصی کا خاصہ حصہ تھا جسے مغربی محققین ایک معروف تاریخی وجود مانتے ہیں۔ تحدی اور وثوق کا دعویٰ کیے بغیر بعض محققین جو عرب تاریخ سے آشنا ہیں وہ مانتے ہیں کہ چھٹی صدی عیسوی کے اوائل میں یہ قصی اور اس کا قبیلہ قریش ہی تھے جنہوں نے مکہ کے تجارتی اور مذہبی مرکز کے طور پر تشخص کو مزید تقویت دی اور اسے معروف و ہنستا بستا شہر بنادیا۔
(Donner, The Early Islamic Conquests, 51)
مکہ کی مذہبی زندگی میں بوئے ہوئے توحید کے بیج کو پروان چڑھانے میں مورخین متفقہ طورپرقبیلہ قریش کا خاص کردار مانتے ہیں، اور قریش بانی اسلام حضرت محمد ﷺ کا آبائی قبیلہ تھا۔ اب اہل قریش کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ بنو اسماعیل بن ابراہیم علیھم الصلوٰۃ والسلام تھے تبھی تو وہ کعبہ کے متولی اور منتظم تھے۔ یوں چھٹی صدی عیسوی کے اس خاص دور کی میسر تاریخ کے تمام شواہدکا تعصب سے بالاتر ہوکر کیا گیا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسی دور میں ایک بچہ محمد (ﷺ)پیدا ہواتھا، جس کا نامی قریشی طرز پر تھا اور اس نے عبدالمطلب کے بیٹے کے گھر تولد پایا تھا۔
موقر ادارہ کیمبرج میں مرتب کی جانے والی تاریخ اسلام میں یہ تاریخی واقعہ یوں محفوظ کیا گیا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی کے مشہور و معروف تجارتی شہر مکہ میں قصی کی اولاد کے گھر میں 570 عیسوی کو محمد (ﷺ) نامی بچہ کی ولادت ہوئی جو بعد میں نبوت سے سرفراز ہوا۔ یوں ملک عرب اسلام کا گہوارہ ٹھہرا۔
(Irfan Shahid, Pre-Islamic Arabia)
ساتویں صدی عیسوی میں وقوع پذیر ہونے والے غیر معمولی امور نے اہل عرب کے مقام اور پہچان کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ وہ بادیہ نشین جو پہلے مہذب دنیا کی تاریخ کے صفحات میں کسی گنتی میں نہ شمار ہوتے تھے وہ عالمی سطح پر جہان بانی کی دوڑ میں شامل ہونے لگے اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان سے یورپ تک پھیلی سلطنتوں کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا اور پورے خطہ میں اپنے آباء واجدادکی صدیوں پرانی شناخت کو پھر سے زندہ کردیا۔ یوں اپنی عالمی ریاست قائم کرکے انہوں نے ازمنہ وسطیٰ کی سیاست میں سامی پہلو کی بنیاد رکھ دی۔ قدیم تجارتی راستوں پر صدیوں سے رواں دواں قافلے بھی جزیرہ نما عرب کے باسیوں کو بطور مسلمان شناخت کرنے لگے۔ اسی تجارتی اور مذہبی تشخص کے قیام کے ساتھ ہی مسلمانوں کی ایک ممتاز اوریکتا روزگار تہذیب و ثقافت بھی کسی سے پوشیدہ نہ رہی اور ازمنہ وسطیٰ میں سب آگاہ تھے کہ اس تہذیب کا ظاہر و باطن صرف اور صرف مذہب اسلام پر مبنی ہے۔
(Irfan Shahid, Pre-Islamic Arabia)
بانی اسلام ﷺ کے معاصر اہل مکہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم قرآنی سے خوب آگاہ تھے۔ اس امر کی گواہی تاریخ اسلام کے معروف مورخ سر منٹگمری واٹ وغیرہ کی کتب سے بھی مل سکتی ہے جیسا کہ واٹ نے لکھا ہے کہ محمد ﷺ اپنے وقت میں اہل مغرب کے گمان کی طرح دین اسلام کے صرف مذہبی اور عقلی پہلوؤں کو ہی اجاگر نہیں کررہے تھے بلکہ آپ ﷺ اس دور میں اہل مکہ کو درپیش اقتصادی، سماجی اور سیاسی مسائل کا بھی حل مہیا فرمارہے تھے۔ کیونکہ آپ صرف مذہبی پہلو سے ہی غیر معمولی وجود نہ تھے بلکہ آپ نے انسانی معاشرے کے دیگر تمام پہلوؤں کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا یوں مغربی محققین آپ ﷺ کی صرف مذہبی لحاظ سے کامیابیوں کو ہی گنتے رہ جاتے ہیں اور آپ کی غیر مذہبی اور معاشرتی کامیابیاں ان سے اوجھل ہی رہ جاتی ہیں۔
Montgomery Watt, “Muhammad sa,” in The Cambridge History of Islam Volume 2, ed. P. M. Holt, Ann K. S. Lambton, and Bernard Lewis (Cambridge University Press, 1977
اسلامی تہذیب کے بارہ میں ایک اور اہم پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ چھٹی صدی کے اخیر پرظہور اسلام سے پنپنے والی اسلامی تہذیب کسی بھی گزشتہ سے قائم نمونہ یا تہذیب یا مثال سے نہیں چلی تھی اور نہ ہی یہ کسی گزشتہ تہذیب کا تسلسل تھی۔ بلکہ یہ ایک بالکل اچھوتی طرز کی تہذیب تھی جس کی بنیاد ایمانیات پر تھی۔ پس چھٹی صدی عیسوی کی تاریخ محمد ﷺ اور اسلامی تہذیب کے عالمی پھیلاؤ کے تذکرہ کے بغیر نامکمل رہے گی۔ اسی طرح ساتویں صدی عیسوی کی تاریخ کو سمیٹتے ہوئے بھی سنجیدہ مورخین کے لیے عرب اور اسلامی تاریخ کا طویل باب باندھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
اب کسی کا یہی رٹ لگانا کہ بانی اسلام ﷺ کا معین سال پیدائش اور بچپن کے ابتدائی برسوں کی معین تاریخ نہیں ملتی ایک بے وجہ ضد اور تعصب ہے اور اس کو بنیاد بنا کر یہ کہہ دینا کہ بانی اسلامﷺ کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا ناواجب حرکت ہے۔ کیونکہ ایسے ہی اصول کو بنیاد بنا کر اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کیا گیا تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا اورتمام قدیم انسانی ورثہ اور تہذیبوں اور مہذب معاشروں کے وجود کا عدم ثبوت کی بناء پر انکار کرنا پڑے گاجو یقینا ًمشرق و مغرب میں بسنے والے کسی بھی فرد کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
عمرانیات
دین اسلام کی تاریخ کے بارہ میں علم التاریخ سے شواہد پیش کرنے کے بعد اب میں کچھ دلائل عمرانیات کی رو سے لکھتا ہوں۔ گو اس بابت مضمون کی ابتدا میں اشارۃً ذکر گزر چکا ہے جہاں میں نے عرب کے قبائلی نظام کا مختصرا ًذکر کیا تھا۔اب یہاں میں کھول کر بتاتا ہوں کہ کس طرح گروہ بندیوں اور قبائل میں بٹے ہوئے ملک عرب نے متحد قومیت کا سفر طے کیا۔
(Donner, The Early Islamic Conquests, 20)
عمرانیات اور انسانی معاشروں کا گہرا مطالعہ کرنے والے محققین اس امر پر متفق ہیں کہ ظہور اسلام سے قبل ملک عرب میں قبائلی نظام رائج تھا۔
W. Robertson Smith, Kinship And Marriage In Early Arabia, ed. Stanley A Cook (Kessinger Publishing, LLC, 2007
قبائلی نظام میں ہر فرد واحد اپنے آباء و اجداد کے سلسلہ نسب سے منسلک ہوتا تھا جس کے بدلہ میں وہ قبیلہ اس فرد واحد کو معاشرتی زندگی میں عند الضرورت مدد اور تعاون مہیا کرتا تھا۔
چند خونی رشتہ داروں سے شروع ہوکر یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے ایک مضبوط قبیلہ کی تشکیل پر منتج ہوتا جہاں سب افراد قبیلہ ایک دوسرے کے لیے حفاظت اور قوت کا احساس لیے ہوئے ہوتے تھے۔
Donner, The Early Islamic Conquests; Hugh Kennedy, The Prophet and the Age of the Caliphates: The Islamic Near East from the 6th to the 11th Century, 2nd ed. Longman, 2004
کسی ایک سلسلہ نسب کے مردوں کے مجموعے سے تشکیل پانے والے قبیلہ کا تعارف اور پہچان وہ جد امجد ہوتا تھا جس سے یہ لڑی چلتی تھی، جیسے بنو ہاشم سے مراد ہے وہ تمام افراد جو ہاشم کے سلسلہ نسب میں پیدا ہوئے ۔ یوں قبیلہ وہ بڑی سے بڑی اکائی تھی جس سے منسلک ہوکر افرادوفاداری اور سالمیت کا وہ معیار حاصل کرتے تھے جو اہل قبیلہ کو باہم متحد رکھتے تھے۔ یوں دشمنوں کے حملوں کی صورت میں تمام اہل قبیلہ مل کر مقابلہ کرتے تھے اور جہاں دو یا دو سے زیادہ قبائل کو مشترکہ مقاصد یا باہمی مجبوریوں کے سبب اتحاد کرنا پڑتاتھا تب بھی وہ اپنے مشترکہ جد امجد سے ناطہ جوڑ کر یہ مقاصد حاصل کرتے تھے۔
18. Kennedy, The Prophet and the Age of the Caliphates; Donald Powell Cole, Nomads of the Nomads: The Al Murrah Bedouin of the Empty Quarter Aldine Pub. Co, 1975
تاہم فرد واحد کے ابتدائی محافظ و قابل اعتماد قریبی وہی ہوتے تھے جو اہل خاندان تھے، پھراسی طرح کنبے سے نکل کر بڑے خاندان کے افراد اور یوں بڑھتے بڑھتے ایک قبیلہ تشکیل پاتا تھا۔ لیکن جہاں اہل قبیلہ اپنے کسی عارضی مقصد یا مجبوری کی وجہ سے کسی دوسرے قبیلہ سے اتحاد کرلیتے تھے وہاں باہمی اتحاد اور الفت کا وہ درجہ نہیں ہوتا تھا جو ایک قبیلہ کے افراد آپس میں محسوس کرتےتھے۔
(19. Marshall D. Sahlins, “The Segmentary Lineage: An Organization of Predatory Expansion1,” American Anthropologist 63, no. 2 (1961): 322–345; Donner, The Early Islamic Conquests, 33.)
ایک قبیلہ کے اندر لڑی در لڑی پروئے لوگوں میں ایک شجرہ نسب اہل بیت کا ہوتا تھا ، اس امتیازی رتبہ کی تمنا تو تمام اہل قبیلہ ہی کیا کرتے تھے مگر اہل بیت صرف وہی کہلاتے تھے جو خود کو بالاتر ثابت کر پاتے تھے۔ یوں ایک قبیلہ کے اندر اہل بیت قرار پانے اور اس عظیم الشان درجہ پرعرصہ دراز تک فائز رہنے کی جہد مسلسل نظر آتی تھی کیونکہ اسی سے ہی قبیلہ کے اندر سرداری اور برتری پھوٹتی تھی۔
(Donner, The Early Islamic Conquests, 33)
یہی وہ قبائلی نظام تھا جس نے ظہور اسلام سے قبل اہل عرب کو متحد کرکے ایک ممتاز قوم کے طور پر تشخص بخشا۔ کسی فرد کی حفاظت کی ذمہ داری قبیلہ کے سپرد ہوتی تھی اور اسی نظام کے تحت قصاص کا اصول رائج تھا جو ملک عرب میں امن و امان کا واحد وسیلہ تھا۔ اور قبائل کے مابین وقتا فوقتا اٹھنے والے اختلافات اور باہمی تنازعات کے رفع کے لیے کوئی باقاعدہ بالا نظام موجود نہ تھا۔ قبائلی نظام کی تاریخ کا گہرا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ قبائل کے مابین آپس میں مستقل اتحاد کرلینا قریبا ًقریبا ًناممکنات میں سے تھا، اورجو بھی کبھی کسی دوسرے قبیلہ کا حلیف بنتا تھا وہ محض اس وقتی عارضی خطرے کا مقابلہ کرنے یا عارضی منفعت حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا کرتا تھا جس کی حاجت فریقین یکساں محسوس کررہے ہوتے تھے۔ اور ایسی باہمی شراکت کے لیے مجبور ہوتے تھے۔ اور ملک کو چلانے والے مرکزی اداروں کی غیر موجودگی کی وجہ سے یہی قبائلی نظام تھا جو ملک کو معاشرتی طور پر چلا رہا تھا۔
(Donner, The Early Islamic Conquests, 33)
پھر مذہب اسلام کا ظہور ہوا جس نے لوگوں کو قبائلی نظام کو ترک کرکے اس آفاقی دین میں داخل ہونے کے لیے بلایا۔یہ اہل عرب کے واسطے ایک عجوبہ روزگار معاملہ اور ملک کی میسر تاریخ میں پہلی دفعہ ہورہا تھا کہ کوئی فرد اپنے قبیلہ کی وفاداری کو ترک کرکے محض ایمان کی بنیاد پر تشکیل پانے والے گروہ میں داخل ہوجائے۔
(Donner, The Early Islamic Conquests, 23)
روایات میں ایسے شواہد ملتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دَور میں اہل عرب اپنے کسی فرد قبیلہ کے قبول اسلام پر حیرت و استعجاب میں ڈوب جایا کرتےتھے کہ کوئی کس طرح اپنے قبیلہ کی ضمانت دی گئی حفاظت کو ترک کرکے ایک بالکل اجنبی گروپ یعنی اسلام کا رکن بن رہا ہے۔ دور اوّل میں دین اسلام اپنی بالکل کمزوری کی حالت میں تھا اور اسے کسی طاقت ورقبیلہ اور گروہ کی تائیداور حمایت بھی حاصل نہ تھی۔ اہل عرب کی حیرانیوں میں مزید اضافہ کرنے والا اگلا امر یہ تھا کہ ان کے ہم قبیلہ لوگ اپنی قبائلی حفاظت و حمایت کو ترک کرکے ایک ایسے آدمی سے منسلک ہوتے جارہے تھے جو امی محض تھا، گو وہ شخص ایک ممتاز اور معزز قبیلہ کا رکن تھا لیکن اس کی شناخت اپنے ہی قبیلہ اور خاندان کے سربراہ اور قائد کے طور پر نہ تھی، چہ جائیکہ وہ ایک نئے خود مختارمذہب کا بانی بن گیا۔ اور اس پر طرفہ تماشہ یہ تھا کہ عرب کے قبائلی معاشرہ میں لوگ جس نئے دین میں شامل ہورہے تھے اس پر تہمت تھی کہ وہ ملک عرب کے روایتی بتوں اور مذہبی روایات سے متصادم اور توہین آمیز تعلیم کا حامل ہے۔ یہ نیا دین نہ تو ملک عرب میں رہنے والے مشرک بادیہ نشینوں کو قابل قبول تھا اور نہ ہی ملک میں آباد توحید پرست مذاہب عیسائیت اور یہودیت کے لیے کسی طور سے قابل توجہ تھا۔
اب دنیا نے ایک عجیب معجزہ دیکھا کہ یہ نوزائیدہ مذہب بالکل کمزور آغاز سے اٹھا، اوردیکھتے ہی دیکھتے قوت اور مضبوطی حاصل کرتا گیا، اس نے عرب معاشرہ کو یک سر بدل کر رکھ دیا، قبائلی معاشروں میں بٹے ہوئے ملک کے باسیوں کو ایک متحد قوم میں بدل دیا جو ترقی کرتے کرتے ایک عظیم الشان عالمی تہذیب بنا اور اس خارق عادت کارنامے کو اس مذہب نے سرانجام دیا جس کی بنیاد میں یہ اصول مضمر تھا کہ گزشتہ تمام مذاہب اور عقائد اپنے اپنے وقت پر درست تھے، اور اس جدید دین نے اپنے ماننے والوں کو مکمل ضابطہ حیات دیا جو ان کو سیاسی، معاشی، معاشرتی اور روحانی پہلوؤں سے تشنہ نہیں رہنے دیتا ۔
اس عظیم الشان معجزےپر مسلمان اور مغربی مورخین یکساں حیران ہیں کہ کس طرح یہ ناممکن کام ممکن ہوگیا ،یہ محققین انگشت بدنداں ہیں کہ کیونکر صدیوں سے قبائلی نظام میں بکھرے عرب معاشرے نے ایسی کروٹ لی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دین اسلام نے اپنی روشنی سے اسے عالم تاب بنا ڈالا۔
I.M. Lapidus, “The Arab Conquests and the Transformation of the Islamic Society,” in Studies on the First Century of Islamic Society, ed. G. H. A. Juynboll (Southern Illinois University Press, 1982), 49
عمرانیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ گروہ بندیوں سے تشکیل پانے والے عرب معاشرے میں باہمی اختلافات، تنازعے اور جنگ و جدال ہی زندگی کا دوسرا نام تھا۔ لیکن یہ قدم قدم پر جھگڑے ہی تھے جنہوں نے اہل عرب کے لیے پس پردہ محرک کا کام کیااورانقلاب عظیم کی راہ ہموار ہوئی یوں وہ نبی کریم ﷺ کی قیادت اور روح پرور تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔
I.M. Lapidus, “The Arab Conquests and the Transformation of the Islamic Society,” 66
حضرت محمد ﷺ جو آفاقی تعلیم لائے وہ قرآن کریم کی شکل میں مسلمانوں کو رشد وہدایت کے ذریعہ کے طور پر ملی، اس جدید تعلیم نے ملک عرب کے اندر اور باہر بسنے والوں کے تمام اخلاق حسنہ کو اپنے اندر سمویا ہوا تھا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دین اسلام نے عرب قبائل اور اپنے وقت کی دنیا کی تمام تہذیبوں کی تمام ضروری سچائیوں اور مثبت امور کو اپنے اندر محفوظ کر لیا، تو غلط نہ ہوگا۔
اب اہل عرب سمجھنے لگے کہ اسلامی معاشرے نے انسانوں کی قبائلی شناخت کو محض شناخت اور پہچان کی خاطر قبول کیا اور جاری رکھا ہے لیکن قیادت اور سیادت کے لیے تقویٰ کو شرط اوّل قرار دیا ہے۔
ابراہیمی ادیان سے اہل عرب کو ملنے والی وحدانیت پسندی اور مذہبی جذبات کو اسلامی معاشرے کے ڈھانچے میں مرکزی حیثیت مل گئی جو اہل عرب کے واسطے کوئی اجنبی بات نہ تھی۔ پھر اسی طرح تجارت جو اہل عرب کا وسیلہ معاش اور ہمسایہ سلطنتوں سے رابطے کا ذریعہ تھی، کو اسلام کی مذہبی تعلیم نے امانت ، دیانت، باہمی رضامندی اور حسن سلوک سے مزین کرکے مزید قابل قدر بناڈالا۔ مزید برآں، اسلام نے گروہ بندیوں کے شکار عرب معاشرہ کو سیاسی وحدت اپنا کر ایک قوم بننے کی راہ دکھائی جو قبل ازیں ایک مشترک ایمان کی غیر موجودگی اور ایک مذہب کی پیروی کے بغیر محالات کی طرح تھا۔ مذکورہ بالا تمام اموربظاہر نظر آسان اور سادہ تھے لیکن ظہور اسلام سے قبل کے عرب معاشرہ کے واسطے ناممکنات کی طرح تھے۔
دین اسلام کے نام سے شہرت پانے والے اس مذہب کی بنیاد، جسے بعض لوگ صرف سلطنت اور بعض ایک تہذیب کے طور پر پہچانتے ہیں، جس شخص نے رکھی اس کا نام نامی محمدﷺ تھا، وہ عرب کے شہر مکہ میں چھٹی صدی عیسوی میں پیدا ہواتھا۔ اس نے نبی اللہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا، اب کوئی اس دعویٰ کو قبول کرے یا نہ کرے، یہ ایک بالکل الگ بحث ہے کیونکہ اختلاف رائے ہوسکتا ہے اور ہے کہ سلطنت اسلامی کو قائم کرنے کے پیچھے کلام اللہ کی برتری ثابت کرنا تھا یا بعض کے نزدیک دین اسلام کے بانی کی نگاہیں ملک عرب کے اندر اور ارد گرد بسنے والے عرب قبائل پر تھیں اور بعض تو بانی اسلام کی تمام جانفشانی کو نفسانی اغراض کی خاطر سیاسی برتری کے حصول کی جدوجہد بھی قرار دیتے ہیں۔ ان تمام بحثوں سے قطع نظر ، ڈاکو منٹری کے پیش کار ٹام ہالینڈ کی طرح یہ کہنا کہ نبی کریم محمدﷺ کبھی ہوئے ہی نہیں اور اسلام کا آغاز اور ابتدا کا دور نامعلوم ہے ، جہاں علم تاریخ کے طالب علموں سے ایک مذاق سے کم نہیں وہاں بطور مورخ ایک علمی بددیانتی کے ارتکاب کے مترادف ہے۔
………………………………………………(باقی آئندہ)