جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۴ء کے دوسرے اجلاس کی روداد
جلسہ سالانہ کے دوسرے اجلاس کی صدارت کے فرائض مکرم و محترم موسیٰ میوا صاحب امیر جماعت احمدیہ سیرالیون نے سر انجام دیے۔ کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا، مکرم مبارک عدلیکے صاحب نے سورہ نمل کی آیات 60 تا 64کی تلاوت کی اور اس کا ترجمہ مکرم صباحت کریم صاحب نے پیش کیا۔مکرم عمر شریف صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے منظوم کلام
اِسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ یہی ہے
اَے سونے والو جاگو! شمس الضّحٰی یہی ہے
سے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔
جلسے کی پہلی تقریر مکرم ایاز محمود خان صاحب مربی سلسلہ وکالت تصنیف لندن کی تھی جس کا موضوع تھا ’’احمدیت کا سفر۔نو مبائعین کے واقعات کی روشنی میں ‘‘۔ انہوں نے آغاز میں سورة الجمعہ کی آیات ۴-۵کی تلاوت کی اور کہا کہ جب سورۃ الجمعہ کی ان آیات کا نزول ہوا تو نبی کریم ﷺ نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر رکھا اور فرمایا:لو کان الایمان عند الثریا لنا لہ رجل من ھؤلاء۔ یعنی اگر ایمان ثریا ستارہ تک بھی جا پہنچے تو ان کی قوم میں سے ایک شخص اسے واپس لائے گا۔
اور یوں آنحضرت ﷺ نے آخری زمانہ میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی عظیم الشان پیشگوئی فرمائی۔
آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت راشدہ کابابرکت دور آیا اور اس کے بعد امت کو ایک اندھیرے زمانہ نے ڈھانپ لیا جس میں بزرگان امت اور مجددین ملت آسمان میں ستاروں کی مانند اپنے اپنے محدود دائروں کو روشن کرتےرہے۔لیکن پھرآسمان میں اُس بدر کا طلوع ہوا یعنی حضرت بانئ جماعتِ احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہودؑ۔
مقرر نے کہا کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود مخلوق خدا آپ کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہوتی گئی اور آپ کے بعد خلافت احمدیہ کے ہر دور میں اسی طرح مخلص احباب جماعت میں داخل ہوتے گئےاور آج بھی ہو رہے ہیں۔
ہر دور میں نو مبائعین کو روکا گیا، ڈرایا گیا، دھمکایا گیا، انہیں شدید تکلیفیں دی گئیں، ان کو گھروں سے نکالا گیا ان کے مال ان سے چھینے گئے حتی کہ ان کی جانیں بھی ان سے چھین لی گئیں۔ لیکن انہوں نے اپنے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دی۔ امام وقت سے جڑ کے اپنے اندر ایسا روحانی تغیر پیدا کیا کہ جن سے واقعی صحابہ کا زمانہ تازہ ہوگیا۔
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
مقرر نے اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑکے دور میں بیعت کے واقعات کی درج ذیل مثالیں پیش کیں۔
حضرت منشی جلال الدین صاحبؓ نے خواب میں حضرت اقدسؑ کی زیارت کی اور خواب میں ہی آپؑ نے انہیں اپنا نام اور جائے قیام کا پتا بتایا۔جس کے بعد آپ قادیان تشریف لائے اور بیعت سے مشرف ہوئے۔
حضرت مولوی حافظ فضل دین صاحبؓ کی نظروں سے ایک اشتہار گزرا اور یوں آپ کو بیعت کی توفیق ملی۔
حضرت میاں محمد دین صاحب پٹواریؓ نے کتاب براہین احمدیہ پڑھ کر بیعت کی۔
حضرت مولوی قطب الدین صاحبؓ نے لدھیانہ کے ریلوے سٹیشن پر حضرت اقدسؑ کا چہرہ مبارک دیکھا اور طبیعت نے پلٹا کھایا۔حضرت میاں عبد اللہ صاحب سنوریؓ بھی فرماتے ہیں کہ جب قادیان آیا تو کوئی دلائل نہیں سنے بلکہ میری ہدایت کا موجب صرف حضورؑ کا چہرہ مبارک ہی ہوا۔
حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحبؓ کے سامنے ایک شخص نے حضرت صاحبؑ کو منہ پر کافی دیر تک گالیاں دیں لیکن حضرت صاحبؑ سر نیچا کیے خاموشی سے سنتے رہے آپؑ کی یہی ادا تھی جو حضرت یعقوب بیگ صاحب کی ہدایت کا باعث ہوئی۔
پھر مقرر نے حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہیدؓ آف کابل کی بیعت اور بیعت کے بعد ثبات کا یہ عالم بتایا کہ وہ قید کیے گئے اور سنگسار کیے گئے تاہم وہ اپنی بیعت پر قائم رہے۔
مقرر نے کہا کہ آج بھی زمانہ کے امام کو قبول کرنے کے جرم میں دنیاکےمختلف ملکوں میں احمدیوں کو ظالمانہ طریق پر شہید کیا جا رہا ہے لیکن کیا اس سے جماعت کے قدم کبھی رکے ہیں؟ ہر گز نہیں۔مسیح محمدی کے وفا شعاروں نے باغ احمد کو جو اپنے خون سے سینچا تو ان کی قربانیوں کا پھل یہ ملا کہ ان جیسے ہزاروں لاکھوں مخلصین حضرت مسیح موعودؑاور آپ کے خلفاء کو عطا کیے جارہے ہیں۔ اور احمدیت کا پیغام دور دراز ملکوں میں بھی پہنچ رہا ہے اورہر رنگ و نسل کے لوگ اس الٰہی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔
اس کے بعد مقرر نے قدرتِ ثانیہ کے ادوار کا نقشہ کھینچا کہ کس طرح خدا تعالیٰ خود نو مبائعین کو احمدیت کی آغوش میں لاتارہا اور احمدیت کا قافلہ بھی خلافت کی شاندار قیادت میں ترقیات کی منازل طے کرتا ہوا فتوحات کے نئے ابواب میں داخل ہوتا رہا۔
جب حضرت مسیح موعودؑکا وصال ہوا تو اخبارات میں بڑی تحدی سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب یہ سلسلہ تباہ ہوجائے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے تمام اندرونی اور بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف نظام خلافت کا حقیقی ادراک بخشا بلکہ مختلف علاقوں میں تبلیغی وفود بھیجےاور کثرت سے لوگ جماعت میں شامل ہوتے رہے۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے نصف صدی پر محیط دور خلافت کا ایک ایک دن معجزہ سے کم نہیں۔آپ بھی کاروانِ احمدیت کی ترقیات کی شاہراہوں پر راہنمائی کرتے رہے۔ نظارتوں کا قیام ذیلی تنظیمیں تحریک جدید، وقف جدید، مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم، آپ کے دروس القرآن اور ہزاروں صفحات پر محیط ہر موضوع پر آپ کے لیکچر اور کتب کا ایک بے نظیر علمی خزانہ، اور سب سے بڑھ کے دور دراز ممالک میں تبلیغ اسلام۔ آپ کے دور خلافت میں بھی ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں نو مبائعین بیعت کرکے جماعت میں داخل ہوئے۔
پھر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لیے وسیع پروگرام بنایا۔نصرت جہاں سکیم کے تحت غریبوں کے لیے سکول اور ہسپتال بنائے گئے اور مغربی دنیا میں بھی آپ نے اسلام کی برتری ثابت کی۔پھر ۱۹۷۴ء کے پر خطر حالات میں آپ کے زیر سایہ جماعت ہر سازش سے محفوظ رہی۔مخالفین نے سوچا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر وہ اس کی ترقی کو روک دیں گے لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہوسکے؟بالکل نہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا طاہر احمدصاحب خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کے ذریعے جب ایم ٹی اے کا آغاز فرمایا تو آسمان کی فضاؤں کے ذریعہ خلیفۃ المسیح ہر گھر میں نازل ہونے لگے اور تبلیغ احمدیت کے ایک نئے سنہری دور کا آغاز ہوا۔ کیمرہ کی آنکھ نے عالمی بیعت کی تقریب میں ہر سال دنیا کو دکھا دیا کہ کس طرح لاکھوں کی تعداد میں نئے شاملین جماعت کا حصہ بنتے رہے۔ دنیا میں پھیلے ہوئے لوگ جو یوں تو خلیفہ وقت سے ملاقات نہیں کر سکتے تھے ان کی ہر روز ملاقات ہونے لگی اور اس عظیم مرد خدا کا چہرہ دیکھ کے اس کی باتیں سن کے بہتوں نے قبول احمدیت کی سعادت پائی۔
پھر جب قدرت ثانیہ کے پانچویں مظہر آسمان میں چاند کی طرح طلوع ہوئےاور ایک مرتبہ پھر خوف کے اندھیروں میں امن کے اجالے نصیب ہوئے۔ مخالفین نے سوچا کہ اب احمدیت کا قافلہ رک جائے گا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے خلافت خامسہ میں بھی لاکھوں کی تعداد میں نو مبائعین کو ہمارے آقا اور امام حضرت مرزا مسرور احمدصاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر جمع کردیا۔
پھر نومبائعین کی ایک بھاری تعداد ہے جو خلیفہ وقت کے قبولیت دعا کے نشانات سے بیعت کی سعادت پانے والی ہے۔فلسطین کے ایک زیر تبلیغ دوست کے خلیفہ وقت کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے حیران کن طور پر تمام مسائل حل فرمادیے۔چنانچہ اس کے بعد وہ جماعت میں شامل ہوگئے۔
برکینا فاسو میں ایک نو احمدی شدید بیمار ہوگئے۔جب انہیں ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ حالت بہت تشویشناک ہے۔علاج ناممکن ہے۔ اسی روز انہوں نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں خط لکھ دیا۔تو کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کو خط لکھنے کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ شخص جو موت کے کنارے کھڑے تھے صحتیاب ہونے لگے اور انہیں مکمل شفا ہوگئی۔
مراکش سے الحسنی صاحب لکھتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ہدایت کا ارادہ کیا تو انہیں ایم ٹی اے کا پتا چلا۔جب وہ حضرت مسیح موعودؑکے عربی قصائد سنتے تو دل گواہی دیتا کہ یہ کلام کسی عام انسان کا نہیں ہوسکتا۔یہ تو دل میں اترنے والا کلام ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں ایمان لے آیا۔
تیونس سے منیہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میں پریشان تھی اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتی۔ایک روز چینل بدلتے ہوئے ایم ٹی اے مل گیا۔ دوسرے چینلز کے برعکس میزبان اور شرکاء کی گفتگو بڑی پُر وقار تھی۔میں ایم ٹی اے باقاعدگی سے دیکھتی رہی اور معلوم ہوا کہ مسیح موعود ظاہر ہوگئے ہیں۔بس پھر دل نے سچائی کو پہچان لیا اور انہوں نے بیعت کرلی۔
مقرر نے کہا کہ آپ یقین جانیے ایم ٹی اے اللہ تعالیٰ کی ایک انمول نعمت ہے اور احمدیت کی ترقیات کے سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس چینل کی زینت اور محور حضرت خلیفۃ المسیح ہیں جن کے لبوں سے نکلا ایک ایک لفظ مجسم تبلیغ ہے۔
فرانس سے ایک دوست کہتے ہیں کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس میرے گھر میں تشریف فرما ہیں اور مجھے نصائح فرما رہے ہیں۔اسی دوران میرے والد مرحوم نے دروازے پر دستک دی اور جب میں نے انہیں سامنے کھڑے دیکھا تو کہنے لگے دیکھو بیٹا یہ شخص جو تمہارے گھر میں بیٹھے ہیں یہ اللہ کا صحیح پیغام دینے والے ہیں۔تم ان کے پیچھے چل پڑو۔ جس پر موصوف نے بیعت کرلی۔
مقرر نے آخر میں کہا کہ اس زمانہ میں اگر ہم دنیا کی آلائشوں اور اس کے اندھیروں سے نجات چاہتے ہیں تو یہی ایک راہ ہے کہ ہم مسیح موعود کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیں اور خلافت احمدیہ کا دامن پکڑلیں۔دنیا کے کونے کونے میں، ہر ملک میں دُور دراز علاقوں میں، ہر رنگ و نسل کے لوگوں میں احمدیت کا پیغام پہنچنا، خود خوابوں کے ذریعہ مسیح موعود اور آپ کے خلیفہ کے نورانی چہروں کو دیکھنا، اور شدید مخالفتوں کے باوجود جماعت کی غیر معمولی ترقی اور مقبولیت، کیا یہ سب اتفاق ہے؟ کیا یہ انسانی کوشش ہے؟ یہ خدا کا الٰہی سلسلہ ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر انگریزی زبان میں مکرم ڈاکٹر عزیز احمد حفیظ صاحب چیئر مین ہیومینٹی فرسٹ برطانیہ کی تھی جس کا موضوع تھا : قبولیتِ دعا۔ خدا تعالیٰ کی ہستی کی بہترین دلیل۔
ڈاکٹر صاحب نے ابتدا میں سورة البقرة آیت ۱۸۷ کی تلاوت کی ۔
خدا کا وجود اور اس کے ساتھ تعلق ایک ایسا سوال ہے جس نے صدیوں سے انسان کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں تقریر کا آغاز کروں یہ واضح کر دوں کہ میں کوئی عالم دین نہیں ہوں بلکہ ایک عام مقامی برطانوی شخص ہوں جس نے یہاں پرورش پائی ہے جیسا کہ آپ میں سے بہت سےلوگوںنے یہاںپرورش پائی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
جدید دنیا double-blind controlled trialکو سائنسی نظریات کی جانچ اور نتائج کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے قابل عمل ٹھہراتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اس دور کے مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمدؑ ہی ہیں جنہوں نے جدید سائنسی دنیا میں اس طریقہ کار کو استعمال کرنا شروع کرنے سے پہلےدعا کی افادیت کے بارے میں اس طرح کی double-blind randomised controlled studyتجویز فرمائی تھی۔
مقرر نے کتاب آسمانی فیصلہ کے حوالہ سے بتایا کہ آپؑ دعا کی طاقت پر اس قدر پختہ اور غیر متزلزل یقین رکھتے تھے کہ آپؑ نے دعا کی قبولیت کو جانچنے کے لیے ایک تجربہ کا طریق پیش فرمایا۔ اس کی تجویز میں شامل تھا کہ ایک اعلان کے ذریعہ ایسے رضاکار جمع کیے جائیں جو مختلف سنگین بیماریوں اور مصائب میں مبتلا، بلا تفریق کسی بھی عقیدے کے ہوں۔ اس ٹرائل کا طریقہ کار یہ ہو کہ رضاکاروں کے نام دو فہرستوں کے طور پر جمع کر کے ایک ایک فہرست ہر فریق کو پیش کی جائے۔ پھر دونوں پارٹیاں اپنی فہرست کے لیے لوگوں کا انتخاب کرنے کے لیے قرعہ ڈالیں اور ایک بورڈ کی طرف سے فہرست مرتب کی جائے۔ اس ٹرائل کی مدت ایک سال ہوگی۔ ہر فریق اپنی فہرست میں شامل متاثرین کے لیے دعا کرے گا۔ کامیابی کے لیے رضاکاروں کی بڑی تعداد کی شفایابی کی ضرورت ہوگی۔ درحقیقت حکیم خدا نے جیسے قانون قدرت کے ساتھ ساتھ دواؤں کو افادیت سے آراستہ کیا ہے، اسی طرح اس نے دعاؤں کو بھی ان کے اثرات کے ساتھ شامل کیا ہے جو ہمیشہ حقیقی تجربات سے ثابت ہوتے ہیں۔
مقرر نے کہا کہ اس عظیم الشان جلسہ سالانہ میں آپ کا بیٹھنا بذات خود خدا کے وجود کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعودؑ سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل ہے جب اس نے الہام کیا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔
مقرر نے کہا کہ آج میں آپ کے ساتھ خدا کے وجود کی ان گنت نشانیاں شیئر نہیں کروں گا جو اس نے خود قرآن میں دی ہیں۔میں انسانی آنکھ کی ترقی، یا انسانی جنین کی ترقی، یا سورج اور چاند کے مدار یا سمندروں کی گہرائیوں میں اندھیرے کے بارے میں بات نہیں کروں گا جن سے ہمارے پیارے خدا نے 1400 سال پہلے ہمیں آگاہ کیا تھا۔
مقرر نے کہا کہ آج میں آپ کے سامنے وہ بصیرت پیش کرنا چاہتا ہوں جو آج بھی ہم سب کو خدا کو دیکھنے اور اس کے وجود کو ایک زندہ خدا کے طور پر تجربہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
ان دنوں خلافت احمدیہ کی برکات سے ہم دعا کی عظیم طاقت کے گواہ ہیں جو ہمیں اپنے پیارے خدا کا چہرہ دکھاتی ہے۔ آج میں آپ کے ساتھ اس محدود وقت میں صرف ایک مختصر انتخاب پیش کرتا ہوں۔ میں جو پیش کرنے جا رہا ہوں وہ کوئی پریوں کی کہانیاں نہیں ہیں۔ دنیا بھر کے ان گنت احمدی مسلمان اس کے گواہ ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک شعر میں فرمایا:
نشان ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں
ہمارے دین کا قصوں پہ ہی مدار نہیں
مقرر نے حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کا واقعہ پیش کیا جب وہ پھل خریدنے کے لیے حضرت مولوی فضل دین صاحب کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ جنہیں انگور کی خواہش ہوتی ہے لیکن مولانا صاحب نہیں لیتے۔ گھر پہنچنے سے قبل راجیکی صاحبؓ مڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر انگور ہی لینے تھے تو خود ہی کہہ دیتے اللہ تعالیٰ سے کیوں کہلوایا۔
مقرر نے دوسرا واقعہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئیے چند سال پہلے قادیان سے پانچ ہزار میل دور مغربی افریقہ میں گنی کناکری جاتے ہیں۔ جہاں ہمارے مبلغ مولانا طاہر عابد صاحب اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک جنگ کے سبب اپنے گھر میں بموں اور گولیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اللہ پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اللہ سے مدد کے لیے دل سے دعا کرتے ہیں اور اپنے پیارے امام کو دعاؤں کے لیے لکھتے ہے۔ اس دوران انہیں لندن کے مرکز سے ہدایت ملتی ہے کہ وہ جلد از جلد سیرالیون چلے جائیں۔ انہیں کچھ لوگ ملتے ہیں جو ان سب کو سرحد پار اسّی میل اور تقریباً ۲۰گھنٹے کا سفر کرانے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور فی شخص پانچ ہزار ڈالر طلب کرتے ہیں۔ مولانا صاحب سوچتے ہیں کہ میری زندگی جماعت کے پچیس ہزار ڈالر کے برابر نہیں ہے اور اس پیشکش کو مسترد کردیتے ہیں۔ ذرا تصور کریں ان کی حاملہ بیوی اور ان کے بچے خوفزدہ تھے۔ کچھ دنوں کے بعد جب بندوقیں خاموش ہو جاتی ہیں، اور وہ دوبارہ کوشش کرنے کے لیے باہر نکلتے ہیں تو انہیں ایک ڈرائیور ملتا ہے جو ان سب کو صرف چند سو ڈالر کے عوض سرحد پار لے جانے کو تیار ہوجاتا ہے۔
مقرر نے بتایا کہ جب جماعت ہمیں رضاکاروں کے طور پر دنیا بھر کے غریبوں، ضرورت مندوں، آفت زدہ لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے بھیجتی ہے تو سب سے پہلے یہ محسوس ہوسکتا ہے کہ ہم ان کی ایک عظیم خدمت کر رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل میں یہ ہم ہیں جن کی مدد کی جا رہی ہے اور ہمیں ایک زندہ خدا کی نشانیاں دکھائی جا رہی ہیں جو دعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ ایک زندہ خدا جو آپ اس کے افعال سے دیکھ سکتے ہیں۔ احسان ہم پر کیا جا رہا ہے نہ کہ اس کے برعکس۔
پھر مقرر نے عراق کے شہر موصل کے بارے میں بتایا کہ ہیومینٹی فرسٹ ٹیم نے شمالی عراق میں بے گھر افراد کو طبی امداد، صفائی ستھرائی اور کپڑے فراہم کرنے کے لیے عراق کا دورہ کیا۔ اس ضمن میں مقرر نے حضور انور ایدہ اللہ کی دعاؤں اور ہدایت کی وجہ سے ایک بڑے جانی نقصان سے بچنے اور حفاظت کا ذکر کیا۔
اس کے بعد مقرر نے مغربی افریقہ کے ملک بینن میں ایک میڈیکل کیمپ میں پیش آمدہ واقعہ کا ذکر کیا۔ کہ کیسے اللہ تعالیٰ پر یقین، دعا اور صدقے سے بچہ چلنے کے قابل ہوگیا۔
پھر مقرر نے حالیہ خدمات میں اس تجربہ کے حوالہ سے بتایا کہ غزہ میں جنگ کے نتیجے میں ۳۷؍ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہر روز موت، تباہی اور اذیت کے درمیان ہم اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی رحمت کو دیکھتے ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کے مٹھی بھر بندے اپنے ہم وطنوں کی خدمت لگن اور جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں۔جنگ سے پہلے اس چھوٹی سی ٹیم کے پاس بڑے پیمانے پر منصوبوں کے انعقاد کا محدود تجربہ تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے یہ ٹیم اب غزہ بھر میں منصوبے چلا رہی ہے جس میں ہزاروں لوگوں کو پینے کا صاف پانی، ہزاروں کو پناہ، ہزاروں بچوں کو تعلیم اور نفسیاتی مدد فراہم کی جا رہی ہے اور پورے شمالی غزہ میں کھانے کے پارسل فراہم کرتے ہیں۔جب جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں بمباری میں شدت آئی اور انخلا کے احکامات جاری کیے گئے تو اس ٹیم کو بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ وہاں سے نکلنا پڑا جنہوں نے اپنی زندگیاں اپنے ساتھیوں کی خدمت کے لیے وقف کر دیں۔محدود سامان اور انتہائی خطرناک حالات میں جانے کے بعد انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ انہیں کوئی ایسی جگہ تلاش کرنے میں مدد دے جہاں وہ تقریباً پچاس افراد کے لیے اپنی پناہ گاہ بنا سکیں۔ انخلا کا علاقہ جسے المواسی کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک چھوٹا سا بنجر علاقہ ہےجہاں دس لاکھ سے زیادہ افراد پناہ لیے ہوئے ہیں اور وہاں سر رکھنے کے لیے بھی جگہ نہیں ملتی۔ ان حالات میں ان کی دعاؤں کو حضرت امیر المومنین کی دعاؤں سے تقویت ملتی ہے کیونکہ حضور کو روزانہ ان کے حالات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
اگلے دن جب وہ ناممکن کو ممکن ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہ جاتے ہیں۔ صرف اللہ کے فضل و کرم سے انہیں سات سو مربع میٹر کا علاقہ مل جاتا ہے جہاں وہ اپنے اہل خانہ کے لیے اپنا کیمپ قائم کر سکتے ہیں- الحمدللہ
مقرر نے کہا کہ پچھلی صدی میں دنیا بھر میں کئی تباہ کن زلزلے آئے ہیں۔ بے پناہ مصائب کے باوجود ان آفات میں حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کو بھی اپنا وقت اور کوششیں ان آبادیوں کی خدمت کے لیے وقف کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور ایسا کرتے ہوئے دعا کی قبولیت کی بے مثال مثالیں دیکھی ہیں۔ فروری ۲۰۲۳ء میں ترکی اور شمال مغربی شام میں ۷.۸شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ اس حوالہ سے مقرر نے اپنی تقریر میں تفصیل بیان کی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد ہر لمحہ شاملِ حال رہی۔ ٹیم کی روانگی کے وقت سامان کی بکنگ بلا معاوضہ ہوئی۔ ترکی میں خدمت کے بعد معجزاتی طور پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کے طفیل ٹیم کو شام میں داخلہ کی اجازت مل گئی۔ ٹیم کے چار افراد کامیابی کے ساتھ شام میں داخل ہوئے اور ہیومینٹی فرسٹ بعد میں ان گنت لوگوں کی خدمت کرنے، تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو کے لیے طبی سامان فراہم کرنے اور متاثرین کے لیے ایک نیا پرائمری اسکول تعمیر کرنے میں کامیاب رہی۔
بعد ازاں مکرم عبد الحی سرمد صاحب نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا منظوم کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعر سے ہوا
یارو مسیح وقت کہ تھی جن کی انتظار
رہ تکتے تکتے جن کی کروڑوں ہی مر گئے
اس اجلاس کی تیسری اور آخری تقریر مکرم فرید احمد نوید صاحب مربی سلسلہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ گھانا کی تھی، جس کا موضوع تھا ’’ حضرت مسیح موعودؑ کی بنی نوع انسان سے ہمدردی‘‘۔ انہوں نے آغاز میں سورة الحجرات آیت ۱۴ کی تلاوت کی اور کہا کہ
ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ ایک مرتبہ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ سامنے سے ایک جنازہ گزرا۔ حضور اپنی گفتگو روک کر اس جنازے کی تکریم کے لیے کھڑے ہوگئے اور ساتھ موجود صحابہؓ نے بھی ایسا ہی کیا۔ جب وہ جنازہ گزر گیا تو مجلس میں موجود ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ حضور نے جب یہ سنا تو فرمایا کہ اگروہ یہودی تھا تو کیا انسان نہیں تھا؟
یہ بظاہر ایک چھوٹا سا جملہ آج کی مہذب دنیا، ان کے بنائے ہوئے انسانی حقوق کے ضابطوں اور عالمی انسانی حقوق کے ہزاروں صفحات کے چارٹرز پر بھاری نظر آتا ہے۔یہ واقعہ ہمیں انسانیت کی تعظیم و تکریم کا ایک نمونہ دکھاتاہے۔
مقرر نے متلو آیت کا ترجمہ پیش کیا کہ اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یقیناً اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔
مقرر نے کہا کہ لیکن بہت ہی بد قسمتی کی بات ہے کہ انسان بحیثیت مجموعی اس سبق کو بھول چکا ہے وہ نقشے پر کھینچی ہوئی چند لکیروں کو خدائی تقدیریں سمجھ بیٹھا ہے۔ دنیاکے سینکڑوں ملکوں کے اپنے اپنے جھنڈے اور شناخت تو موجود ہے لیکن ان میں انسانیت کا عَلَم، بنی نوع انسان کا جھنڈا کہیں نظر نہیں آتا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بسا اوقات جغرافیائی لکیر کے ایک جانب مرنے والے لوگ صرف اعداد تصور ہوتے ہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ امداد کے لیے آنے والا کھانا پہلے پہنچے گا یا موت کا پروانہ۔ اور مومنوں کے علاوہ اس ظلم میں ہر ایک جانب آج کے زمانے کا انسان بحیثیت مجموعی شامل ہے۔
یہ زمانہ اس مسیح موعود کے نزول کا زمانہ ہے جس نے اِس دور میں ایمان کو ثریا سے واپس لانا تھا اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو دلوں میں راسخ کرنا تھا۔
قرآن کریم پہلی آیت میں ہی ہمارا تعارف ایک ایسے خدا سے کرواتا ہے جو رب العالمین ہے۔اور قرآن کریم کی آخری سورت بھی ایک ایسے رب الناس کا ذکر کرتی ہے جو تمام انسانوں کا مالک اور معبود ہے۔ اورقرآن کریم بار بار یہ یاددہانی کرواتا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان سے ہمدردی کرو۔کمزوروں اور محتاجوں پر احسان اور حسن سلوک سے پیش آؤ۔ صلہ رحمی کی تلقین کرتا ہے قرآن بتاتا ہے کہ ایک انسان کو مارنا تمام انسانیت کو مارنے کے برابر ہے۔ پس سلامتی اور بنی نوع انسان کی ہمدردی پر مشتمل یہ وہ دین اسلام ہے جو اس دور میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ذریعہ سے زندہ کیا جانا مقصود تھا۔ پس آپ نے اس سلسلہ کی بنیاد رکھتے ہوئے اس امر کو اپنی شرائط بیعت میں بھی شامل فرمادیا کہ ہر بیعت کرنے والا احمدی یہ بھی عہد اور اقرار کرے گا کہ وہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور صلاحیتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے گا۔آپؑ اپنے اس مشن کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم، ہمیں بارم، ہمیں رسمم، ہمیں راہم
مقررنے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ بار ہافرمایا کرتے تھے کہ میں کسی شخص کا دشمن نہیں ہوں اور میرا دل ہر انسان اور ہر قوم کی ہمدردی سے بھرا ہوا ہے۔ فرمایا کہ
لوائے ما پنہ ہر سعید خواہد بود
یعنی ہمارا جھنڈا (بلا تفریق مذہب و ملت) ہر سعید فطرت کی پناہ گاہ ہوگا اورآج سینکڑوں ملکوں میں بھی اور اس جلسہ گاہ کے باہر بھی یہ جھنڈا اور انسانیت کی ہمدردی کا عَلَم پوری شان و شوکت سے لہرا تا ہوا نظر آرہا ہے اورحضرت مسیح پاک اور آپ کی قائم کردہ خلافت کے ذریعہ سے لہرایا جانے والا یہ جھنڈا ہر ایک قوم کے انسان کو محبت سے اپنی جانب بلا رہا ہے اور بڑی شوکت کے ساتھ یہ اعلان کر رہا ہے کہ محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ’’ہمارا یہ اصول ہے کہ کُل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔‘‘پھر فرمایاکہ میں بنی نوع انسان سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر۔
مقررنے حضرت مسیح موعودؑ کے بعض واقعات پیش کیے کہ آپ نے خود اس بارہ میں اپنے نمونے بھی قائم کرکے دکھائے۔ ایک مرتبہ کسی کے ساتھ سیر کے دوران راستے میں ایک ضعیف عورت ملی جس نے ایک خط پڑھ کر سنانے کی درخواست کی۔ دوسرے شخص نے اسے سختی سے منع کر کے پیچھے ہٹا دیا۔ حضورؑ کہتے ہیں کہ میرے دل پر اس بوڑھی عورت کی حالت دیکھ کر ایک چوٹ سی لگی۔ آپ اس عورت کے پاس ٹھہر ے اور خط پڑھ کر سمجھا دیا۔ اس پر ساتھ موجود ساتھی سخت شرمندہ ہوا۔ کیونکہ ٹھہرنا تو اسے بھی پڑا لیکن مخلوق خدا کی ہمدردی کے ثواب سے محروم رہا۔یہی نمونہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے کہ مدینہ کی ایک عورت ام زفر کی باتیں آرام اور تسلی سے بیٹھ کر سنیں۔
مقدمہ دیوار میں حضرت مسیح موعودؑ کو فتح ہوئی اور عدالت نے فریق مخالف کے خلاف خرچےکی ڈگری اور قرقی کا حکم بھی جاری کردیا۔ اُنہی مخالفین نے بڑی عاجزی سے حضور کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ بھائی ہو کر اس قرقی کے ذریعہ کیوں ہمیں ذلیل کرتے ہو؟ حضرت مسیح موعودؑ کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ اپنے وکیل پر خفا ہوئے کہ میری اجازت کے بغیر خرچہ کی ڈگری کیوں کروائی گئی ہے؟ اسے فوراً واپس لیا جائے۔ اور دوسری طرف آپ نے یہ جواب بھجوادیا کہ آپ بالکل مطمئن رہیں کوئی قرقی نہیں ہوگی۔
کیا دشمنوں سے حسن سلوک کر نے کے یہ وہی نمونے نہیں ہیں جو ہم نے دور اولین میں دیکھے تھے۔جب قحط سے مرتے ہوئے قریش کی سفارش لے کر ابوسفیان حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور کہا تھاکہ آپ کی قوم مر رہی ہے اللہ سے ان کے لیے دعا کیجئے کہ یہ مصیبت دور ہوجائے۔چنانچہ آپﷺنے ان کے حق میں دعا کی۔ اور بارش کے برسنے سے قحط کے یہ حالات دور ہوگئے۔ یہ وہی لوگ توتھے جنہوں نے حضور اکرم ﷺ اور آپ کے خاندان کو تین سال کے لیے شعب ابی طالب میں سوشل بائیکاٹ کرکے محصور کردیا تھا لیکن پھر بھی جب انسانیت کو بچانے کے لیے دعا کی درخواست کی گئی تو حضور نے بلاتوقف اسے منظور فرمالیا اور کوئی شکوہ بھی زبان پر نہیں لائے۔
مقرر نے طاعون کے ایام کا ایک واقعہ بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کو علیحدگی میں نہایت درد اور رقت کے ساتھ یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ الہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔مولوی صاحب کہتے ہیں کہ آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پِتّہ پانی ہوتا تھا۔
مقرر نے واقعہ طائف سے تقابل کرتے ہوئے کہا کہ کیا طائف کا واقعہ بنی نوع انسان سے اسی ہمدردی کی ایک مثال نہیں ہے۔جب حضور ﷺ پر اس قدر پتھر برسائے گئے تھے کہ آپ کا سارا بدن خون سے رنگین ہوگیا تھا۔ لیکن جب اُسی ظالم قوم کو سزا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ آپ کے پاس بھیجا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں میں ان کی ہلاکت نہیں چاہتا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں میں خدا کی عبادت کرنے والے وجود پیدا کردے گا۔ پھر بالآخر ایسا ہی ہوا اورطائف کے رہنے والے بنو ثقیف بھی نبی پاک کی غلامی میں آگئے۔
مقرر نے مخالف سے ہمدردی کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب آریہ قوم میں سے اسلام کا ایک بہت بڑا دشمن پنڈت لیکھر ام حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا تو آپؑ نے فرمایا کہ ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لیے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا۔ زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آ جاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لیے دعا کرتا۔ اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہوجاتا۔
ایک ہندو پنڈت( لچھمن داس )نے حضور کے پاس جاکر کہا کہ مرزا صاحب لوگ ایک طرف تو آپ سے بہت فائدہ حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف باہر جاکر آپ کو بُرا بھلا بھی کہتے ہیں۔ آپؑ نے جواباً فرمایا کہ پنڈت صاحب!ہماری مثال تو بیری کی سی ہے کہ لوگ آتے ہیں، اسے ڈھیلے بھی مارتے ہیں اور بیر بھی لے جاتے ہیں۔یہ اعلیٰ اخلاق بھی تو اسی نبی کامل کے سکھائے ہوئے تھے جنہیں ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے گلے میں کپڑا ڈال کر زور سے کھینچا اور مال طلب کیا۔ آپ نے مسکرا کر اسے جو اور کھجور سے لدے ہوئے دو اونٹ عطا فرمادیے۔ جنہیں لے کر وہ خوشی خوشی واپس اپنے گھر چلا گیا۔
مقرر نے کہا کہ آج کے زمانے میں جہاں چند معمولی فوائد کی خاطر انسانی حقوق کی پامالی کو امن کی بحالی کا نام دے کر بستیاں اور شہر اجاڑ دیے جاتے ہیں۔ کچے گھر گرا دیے جاتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے دل اور بھی توڑ دیے جاتے ہیں۔ آنسو برساتی ہوئی بے رنگ و نور آنکھوں کی ویرانی اور تاریکی اور بھی بڑھا دی جاتی ہے۔ اگر یہ زمانہ مسیح موعود کی آمد کا زمانہ نہیں ہے تو پھر ہمیں ماننا ہوگا… ماننا ہوگا کہ بد قسمتی سے ایسا کوئی بھی زمانہ کبھی بھی آنے والا نہیں ہے۔
مقرر نے کہا کہ اگر کوئی تعصب کی عینک اتار کر زیرزبر کی بحث سے آگے نکل کر اس زمانے کے تمام حالات و واقعات کا جائزہ لے تو اسے ختم نبوت کے حقیقی معنی بھی سمجھ میں آجائیں گے۔ کہ کس طرح آنحضرت ﷺ نے اپنی پاک تعلیم کا نقش نہ صرف دور اولین میں بلکہ دور آخرین میں پیدا ہونے والوں پر بھی ثبت کردیا ہے اور قیامت تک یہی وہ نقش ہے جو دنیا کی فلاح و بہبود اور انسانیت کی بقا کا ضامن ہے اور اس دورآخرین میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بنی نوع انسان سے محبت اور ان کی ہمدردی کا غیر معمولی جذبہ بھی دراصل اسی مہر نبوت کا ایک حسین نقش ہے۔