جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۴ء: اجلاس مستورات کی کارروائی
’’قرآن کریم۔ ہماری مشعل راہ‘‘، ’’دورِ حاضر اور ماؤں کے لیے تربیت اولاد میں در پیش دشواریاں‘‘ اور ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف میرا سفر کیسے شروع ہوا‘‘ کے موضوعات پر سیر حاصل تقاریر
جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کا آغاز تین بج کر دس منٹ پر نماز تہجد اور فجر کی ادائیگی سے ہوا۔ ناشتہ صبح آٹھ بجے سے ضیافت مارکیوں میں پیش کیا گیا جس کے بعد ممبرات اجلاس میں شامل ہونے کے لیے مین مارکی اور بچگان کی مارکیوں میں تشریف لے آئیں۔
آج مستورات کی جلسہ گاہ میں کارروائی کا آغاز صبح دس بجے ہوا۔ اجلاس کی صدارت نیشنل صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ یوکے مکرمہ ڈاکٹر قرۃالعین صاحبہ نے کی۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرمہ سجیلہ نعیم صاحبہ نے سورۃ التوبہ کی آیات ۷۱و۷۲ مع اردو ترجمہ پیش کیں۔ درثمین سے منظوم اردو کلام ’’نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلیٰ نکلا ‘‘ مکرمہ وجیہہ باجوہ صاحبہ نے خوش الحانی سے پیش کیا ۔
مستورات کے اجلاس کی پہلی تقریر محترمہ ڈاکٹر ملیحہ منصور صاحبہ معاونہ صدر برائے واقفاتِ نو، لجنہ اماء اللہ یوکے کی تھی جس کا عنوان تھا: قرآن کریم ہماری مشعلِ راہ۔
ڈاکٹر صاحبہ نے آغاز میں سورة البقرۃ آیت ۳ کی تلاوت و ترجمہ پیش کیا اور کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آ رہا تھا تو آنحضرت ؐنے قلم اور کاغذ منگوایا کہ کچھ لکھ دیں لیکن جب حضرت عمرؓ نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے پاس قرآن ہے تو اس پر آنحضرت ؐپُر سکون ہوئے، کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔امام الزماں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ قرآنِ شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ ہے اور نجات کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس نعمت کی قدر کرو جو تم کو ملی۔
مقررہ نے کہا کہ علم آج کی دنیا کی دولت ہے۔ یورپ اور امریکہ سیکولر علم کے حصول اور دنیاوی ترقی کے عروج پر ہیں۔ اس کے برعکس مغرب کی اخلاقی حالت افسوسناک ہے۔ راستبازی کے بغیر قرآن کریم کی روشنی نہیں ملتی اور پیچیدگیوں کی کھڑکیاں نہیں کھلتیں، حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے اور اس کا علم اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پس راستبازی اس علم کے حصول کی سیڑھی ہے۔ سو اس چشمے سے صحیح معنوں میں پانی پینے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں تاکہ ہم اس روشنی کے مستحق بن سکیں۔
مقررہ نے کہا کہ پیاری بہنو، آئیے ایک لمحے کے لیے غور کریں کہ دنیا کے ان تمام خزانوں کے بارے میں جو ہمیں نصیب ہوئے ہیں، قرآن مجید ہمارے خزانوں کی فہرست میں کہاں ہے؟ اگر کوئی اپنی جیب میں سونا رکھتا ہے لیکن اس سونے کی قیمت نہیں جانتا ہے، تو وہ بھوکا رہ سکتا ہے یا بے گھر ہوسکتا ہے اس حال میں کہ اپنی جیبوں میں سونا رکھتا ہے۔
۱۹۴۷ء میں جماعت کے صدر دفتر کی قادیان سے پاکستان ہجرت کے نازک وقت میں ایک احمدی پائلٹ سید محمد احمد کہتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓنے انہیں اپنے دفتر میں بلایا اور کہا کہ آج انہیں آپؓ کی زندگی کی سب سے قیمتی چیز لے کر جانا ہے۔ نوجوان پائلٹ نے سوچا کہ شاید حضرت مصلح موعودؓ انہیں جواہرات سے بھرا ایک ڈبہ دیں گے۔ لیکن وہ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں کاغذات سے بھرا ہوا ایک چھوٹا سا سفری بیگ دیا، یہاں تک کہ بیگ کی زپ بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ چونکہ قرآن مجید کی تفسیر لکھنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن تھا اس لیے جب بھی انہیں قرآن مجید کی کسی آیت کے بارے میں کوئی نیا خیال آتا تو وہ اسے کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر اس تھیلے میں ڈال دیتے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک کاغذ کے یہ ٹکڑے زمین کے کسی بھی زیور سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ اسی لیے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ جو لوگ قرآن کی عزت کرتے ہیں وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔
مقررہ نے قرآن کریم کی لفظی خوبصورتی کے بارے میں بتایا کہ ایک لفظ لباس ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں لکھا ہے کہ ’’پہننے کی کوئی چیز‘‘ لیکن قرآن مجید میں اس لفظ کو شوہر اور بیوی کے درمیان تعلق کی عکاسی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۔ آئیے ایک لمحے کے لیے غور کریں کہ لباس کس مقصد کے لیے ہوتا ہے۔ یہ گرم یا سرد موسم کے اوقات میں ہماری حفاظت کرتا ہے، یہ ہمارے ننگے پن، ہماری خامیوں کو ڈھانپتا ہے، اور یہ ہماری زینت کا ایک ذریعہ ہے، ہماری خوبصورتی کا ایک ذریعہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید اس ایک لفظ کے ساتھ ایک صالح شادی کی بہت سی خوبیوں کا احاطہ کرتا ہے۔
یہاں ہم نے ایک لفظ کی مثال لی لیکن اس ادبی شاہکار کا ہر حرف عظمت کا اظہار کرتا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی کتاب سے ایک حرف پڑھے تو اسے دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الف لام میم ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔
پھر مقررہ نے بتایا کہ آج کل عورتوں کے حوالے سے قرآن کریم کا سب سے متنازعہ حکم حجاب کے حوالے سے ہے۔ قرآن کریم میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ پردے کے حکم کے ذریعے اپنی حفاظت کریں۔ آج کے نام نہاد آزاد معاشرے کی خواتین کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سروے سے پتا چلا ہے کہ تمام عمروں میں، ۷۰فیصد خواتین نے کہا کہ انہیں عوامی طور پر جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ می ٹو (Me Too) مہم نے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ان ہولناک جرائم کے لیے انصاف کی امید میں آگے آتے دیکھا ہے۔ دوسری جانب ہمارا اللہ شروع سے ہی ہماری حفاظت کرتا ہے۔ ایک مومن عورت کسی بھی غیر اخلاقی گھومنے پھرنے والی ہوس بھری آنکھ کی خوشنودی کے نمائش کے لیے آزاد شے نہیں ہے، بلکہ وہ ایک قیمتی موتی ہے، جسے اس کے حجاب میں محفوظ کیا گیا ہے۔ وہ اپنا کاروبار کرتی ہیں، اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں، وہ اپنی پڑھائی میں مہارت حاصل کرتی ہیں اور اپنے کام میں انسانیت کی خدمت کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حفاظت یعنی ان کے حجاب میں ہے۔
پھر مقررہ نے پردہ کے حوالہ سے قرآنی تعلیم کا ذکر کیا۔ اور آج کل کی حقوق کی مہموں کے بارہ میں کہا کہ حالیہ دنوں میں صنفی مساوات کے لیے ایک عظیم تحریک چلائی گئی ہے جس میں بے شمار احتجاج اور عدالتی مقدمات شامل ہیں۔ سنہ ۱۸۷۰ء تک برطانیہ میں عورت کی جانب سے کمایا جانے والا کوئی بھی پیسہ فوری طور پر اس کے شوہر کی ملکیت بن جاتا تھا لیکن ۱۴۰۰ سال پہلے قرآن مجید میں پوچھے بغیر عورتوں کو وراثت کا حق دے دیا تھا۔ قرآن مجید میں بیٹیوں کو ان کے والدین سے وراثت کا حق دیا گیا ہے، بیویوں کو شوہروں کی وراثت پر حق دیا گیا ہے؛ ماؤں کو اپنے بچوں کی وراثت پر حق حاصل ہے، اگر وہ ماں سے پہلے وفات پا جائیں۔ اسی طرح بعض حالات میں بیٹیاں اور بہنیں اپنے بھائیوں کی وارث ہوتی ہیں۔ اسلام سے پہلے کسی اور مذہب نے عورتوں کے حقوق کو اس طرح قائم نہیں کیا۔
مقررہ نے سوشل میڈیا کے حوالہ سے کہا کہ مادہ پرستی آج دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ بغیر کسی روک ٹوک کے، کوئی بھی سوشل میڈیا فیڈ کے ذریعے لامتناہی سکرول شروع کر دیتا ہے۔ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کی مصنوعی اور من گھڑت زندگیوں کی پیروی کرنے کے دباؤ میں نوجوانوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ چودہ سو سال پہلے نازل ہونے کے باوجود قرآن مجید اس جدید دور میں کتنی خوبصورتی سے ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ہمیں مسلسل یاد دلاتا ہے کہ یہ زندگی صرف ایک عارضی زندگی ہے۔ ہمارے گھر، گاڑیاں اور املاک صرف اس زندگی کا سامان ہیں۔ آخرت بہتر اور دائمی ہے۔ قرآن مجید ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ہم مادیت کے عادی نہ بنیں۔
مقررہ نے کہا کہ کیا ہم اپنے بچوں کی پرورش احمدیت کے خادم بننے کے لیے کر رہے ہیں؟ کیا ہمیں فخر ہوتا ہے جب وہ جماعت کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں اور فرائض انجام دینے جاتے ہیں؟ کیا ہم انہیں روک کر چاہتے ہیں کہ وہ ہماری خدمت کریں اور دنیا کمائیں۔پھر مقررہ نے حضرت مریمؑ اور تحریک وقف نو کی مثال پیش کی۔
پھر مقررہ نے نمازوں کی حفاظت پر زور دیا اور حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ کے قرآنی حکم کے حوالے سے وضاحت کی اور یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کی زوجہ حضرت امّاں جانؓ کے پاس ایک خاتون اپنی نوزائیدہ بیٹی کے ساتھ حاضر ہوئیں۔ حضرت امان جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نماز مکمل ہونے کے بعد آنے والی عورتوں سے پوچھا کہ کیا انہوں نے نماز ادا کی ہے؟ اس خاتون نے عذر پیش کیا کہ اس کا بچہ خود کو گیلا کر چکا ہے۔ وہ گھر جا کر نماز ادا کرے گی۔ اس موقع پر حضرت امان جانؓ نے فرمایا: اپنے بچوں کو عذر بنا کر نماز کو کبھی نہ چھوڑو۔ اس طرح آپ کی اولاد اللہ تعالیٰ کے غضب کا سبب بن جاتی ہے جبکہ حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب ہیں۔
پھر مقررہ نے عدل و انصاف اور سچی گواہی کے بارہ میں قرآنی تعلیم بطورمشعلِ راہ پیش کی اور آخر میں کہا کہ اگر قرآن مجید کی روشنی نہ ہوتی تو ہم اندھیرے میں گم ہو جاتے۔ بنی نوع انسان ہمیشہ آنحضرتؐ کا مقروض رہے گا جنہوں نے ہماری خاطر اس عظیم کتاب کا بوجھ اٹھایا۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کیا ہوتا تو یقیناً تم اللہ کے خوف سے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھتے۔ لیکن ہمارے پیارے رسولﷺ نے اس بوجھ کو اٹھا لیا۔ قرآن کی برکات حاصل کرنے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی سچی اطاعت اختیار کرنے کے بعد وہ اپنے پیروکاروں کو بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے۔ ایک مومن کے لیے قرآن ایک کھلا خزانہ ہے، یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس سے کتنی روحانی دولت لینا چاہتے ہیں۔ ہمارے پیارے امام ہمیں نصیحت کرتے ہیں کہ قرآن مجید ایک کامل تعلیم ہے۔ اسے سیکھیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ کسی بھی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ بلکہ، جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے، اس تعلیم پر عمل کریں اور دنیا کو اس کی طرف بلائیں۔ ایسے اعمال کا مظاہرہ کریں کہ آپ کے اعلیٰ اخلاقی معیار کو دیکھ کر دوسری عورتیں آپ سے راہنمائی حاصل کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کتاب کی عزت اور اس سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مستورات کے اجلاس میں دوسری تقریر محترمہ شرمین بٹ صاحبہ معاونہ صدر واقفات نو لجنہ اماء اللہ یوکے کی تھی جس کا موضوع تھا :’’دورِ حاضراور ماؤں کے لیے تربیتِ اولاد میں درپیش دشواریاں‘‘
مقررہ نے کہا کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے اور اسلام نے تو اولاد کی صحیح پرورش اور تربیت کو وہ مقام دیا ہے کہ ماؤں کے لیے اس سے جنت کا حصول وابستہ کر دیا ہے۔ سبحان اللہ۔ تربیتِ اولاد ہمیشہ سے والدین، خاص طور پر ماؤں کے لیے، آزمائشی منازل سے پُر مرحلہ رہا ہے۔ اِس بات کا ذکر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں یوں فرمایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کی تربیت کوئی آسان کام نہیں اور خاص طور پر اس زمانے میں جب قدم قدم پر شیطان کی پیدا کی ہوئی دلچسپیاں مختلف رنگ میں ہر روز ہمارے سامنے آ رہی ہوں تو یہ بہت مشکل کام ہے۔ جیسا کہ حضور نے فرمایا، یقیناً دور حاضر میں تربیتِ اولاد میں درپیش دشواریاں پہلے کی نسبت پیچیدہ اور مشکل ہو گئی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے مغربی دنیا ہو یا مشرقی، پچھلے کئی سالوں میں معاشرے میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں جن کو بہت سی وجوہات سے منسوب کیا جا سکتا ہے، مگر اِس میں شک نہیں کہ اِس تغیر میں ٹیکنالوجی کی ترقی کی بنا پر مواصلاتی ذرائع کے وسیع استعمال کے اثرات کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔مواصلاتی ذرائع جو اب گھروں میں عام استعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ موبائل فون، ٹیبلیٹس وغیرہ۔
دور حاضر میں تربیتِ اولاد میں درپیش دشواریوں میں ایک اور دشواری جو کچھ سالوں سے خصوصاً مغربی ممالک میں رہنے والے احمدی مسلمان والدین کے لیے پریشانی کا باعث ہے، وہ ہے سکولوں میں تعلیمی نظام کے تحت کچھ امور کا بتانا جس میں یہاں پر نافذ بعض قوانین بھی شامل ہیں۔ پہلے ہم ٹیکنالوجی کے بد اثرات کی طرف آتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی اِس ترقی کی بنا پر معلومات کی فوری فراہمی نے نوجوانوں اور بچوں کی ایک ایسی نسل بنا دی ہے جو چھوٹی عمر سے ہی وسیع طور پر بہت سے خیالات اور نظریات سے واقف ہو جاتی ہے۔ والدین کو بچوں پر اس کے بہت سے پیچیدہ اثرات سے نبٹنا پڑتا ہے۔ اِس حقیقت اور اِ س کے سدِباب کے بارے میں حضور انور نے فرمایا کہ جو سب سے بڑا خطرہ ہے وہ دنیا میں ہر جگہ آجکل موجود ہے۔ اور وہ خطرہ ہے دجالی طاقتوں کے غلط قسم کے کاموں کی تشہیر، جو میڈیا کے ذریعہ سے، انٹرنیٹ کے ذریعہ سے، مختلف ذرائع سے دنیا میں ہر جگہ ہورہی ہے۔ اور اُس کی وجہ سے ایک دین دار خاندان میں پیدا ہونے والا بچہ یا بچی اپنے دین کو بھی بھول رہا ہے۔ بچپن سے ہی مائیں اپنے ساتھ بچوں کو اٹیچ کریں، انہیں بتائیں کہ دین کیا ہے اور ہمیشہ ایک احمدی ماں کا کام ہے کہ اپنے بچے کے دل میں یہ ڈال دے، دماغ میں ڈال دے، راسخ کر دے اُس کو اچھی طرح کہ دین کو دنیا پر تم نے مقدم رکھنا ہے، دنیا کی جو خواہشات ہیں یا دنیا کی جو چکا چوند ہے وہ تمہیں متاثر کرنے والی نہ ہو۔ بلکہ ہمیشہ ہر موقع پر دین مقدم ہو۔
مقررہ نے کہا یاد رکھیں کہ ہم احمدی مسلمان کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس قرآن کی ہمیشہ رہنے والی عظیم تعلیم ہے، احادیثِ نبویؐ کی روشنی ہے، اور اِس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایات ہیں، اور پھر خلافتِ احمدیہ کی مستقل راہنمائی ہے جو اِس بات میں اور ہر کام میں ہمیں سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ ہم تو واقعی بہت خوش قسمت ہیں، یہاں تک کہ اگرہمیں کسی موضوع پر تقریر تک لکھنے کو کہا جاتا ہے تو ہمارے لیےتمام تر اور بہترین مواد پہلے سے موجود ہے۔ ہماری دسترس میں خلفائے احمد یت کی دی ہوئی وضاحتوں کے قیمتی انبار ہیں، مسائل کی توضیح کے قیمتی انبار ہیں، جن میں بنیادی دینی مسائل سے لے کر عصر حاضر کے مسائل کے حل شامل ہیں۔ ہمارا کام تو گویا صرف تلاش کرنا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اکثر لوگ ہر وقت سیل فون یا آئی پیڈ وغیرہ لے کر بالکل نشہ کی حالت میں رہتے ہیں اور اس کا نقصان یہ ہے کہ گھر ٹوٹ رہے ہیں بچے بگڑ رہے ہیں۔ اب گھریلو زندگی میں ہی مائیں بچوں کو کھانے پر بلاتی ہیں تو اول تو بات نہیں مانتے اور پھر آ جائیں تو اس وقت بھی ہاتھ میں فون یا اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں جس میں کھیلیں ہیں، فلمیں ہیں اور وہ ہر وقت اس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پڑھائی کی طرف بعض بچے توجہ نہیں دیتے اور مائیں پھر فکر مند ہوتی ہیں۔ اب تو بعض عقل والے دنیا دار بھی یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ ان ایجادات سے ہمارے گھر کی اِکائی ختم ہو گئی ہے۔
مزید فرمایا کہ ان چیزوں نے جہاں فائدہ پہنچایا ہے وہاں ان کے نقصانات بھی ہیں۔ فائدہ بھی یقیناً ہے۔ ہم ایم ٹی اے اور دوسرے دینی پروگرام، جماعت کے پروگرام، معلوماتی پروگرام وغیرہ ان پر دیکھ لیتے ہیں۔ وہاں ان کے غلط استعمال سے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ فساد بھی پھیلا ہوا ہے۔ پس نئی ایجادات کا فائدہ بھی اس وقت تک ہے جب ان سے جائز فائدہ اٹھایا جائے۔
مقررہ نے کہا کہ حضور انور نے ہمیشہ نہایت شفیق اور واضح انداز میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی سے پیداکردہ خطرات سے ہمیں وقت سے پہلے آگاہ کیا ہے اور اِس سے بچنے کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہمیں تو بہت زیادہ اور محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے دنیا کی لغویات اور برائیوں سے نہ صرف اپنے آپ کو بچانا ہے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا اگلی نسلوں کو بھی بچانا ہے۔
مقررہ نے کہا کہ آج کل مواصلاتی ذرائع یعنی موبائل فون وغیرہ کے بد اثرات کے علاوہ تربیتِ اولاد میں ایک بڑی دشواری جو والدین کو لاحق ہے وہ ہے مغربی ممالک کے سکولوں میں یہاں کےتعلیمی نظام کے تحت کچھ ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں جو اسلامی تعلیم کے بر عکس ہیں۔ اس بارہ میں حضور انور نے کچھ سال پہلے فرمایا کہ
ایک تو یہ ہے کہ بچوں سے دوستی پیدا کریں تا کہ بچے ہر بات آپ کے ساتھ شیئر کریں۔ جب وہ شیئر کریں گے تو آپ ان کو شرمانے کے بجائے جواب دیں۔ بچوں میں ایک تو یہ عادت ڈالیں کہ وہ ہر بات آپ سے شیئر کریں، دوستانہ ماحول ہو۔ دوسرے جو ان کی اچھی باتیں ہیں ان کو اختیار کریں اور جو ایسی باتیں ہیں جو ہمارے اخلاق پہ اثر ڈالنے والی ہیں یا دین کے خلاف ہیں اس سے ان کو بچائیں اور یہ بتائیں، یہ ذہنوں میں ڈال دیں کہ تم احمدی ہو۔ اور احمدیت کیا چیز ہے؟ حقیقی اسلام ہے۔
اب دیکھیں کس کمال شفقت اور آسان پیرائے میں ایک پیچیدہ بات کی راہنمائی فرما دی تا احمدی مائیں اِس مرحلہ سے گزر سکیں اور اِس کا رَد کر سکیں۔ اسی طرح حضور انور کا ایک اور اقتباس آپ کے سامنے رکھتی ہوں۔ احمدی ماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ پس احمدی ماؤں کو اس وقت کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے یہاں کے ماحول کے اثرات کو دیکھتے ہوئے بچوں کو برے اور بھلے کی تمیز اور فرق بتاتے ہوئے تربیت کریں۔ ہر احمدی کو بڑی فکر کے ساتھ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی عورت کو اپنے نمونوں کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ ایسی عمدہ اور اعلیٰ معیار کی تربیت کی ضرورت ہے کہ کہا جا سکے کہ یہ مائیں تو ایک ایسا وجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹ کر اپنی اولاد کو ایک قیمتی سرمائے کی صورت میں جماعت کو دے رہی ہیں۔ یہ اولادیں، یہ بچے آپ کے پاس جماعت کی امانت ہیں اور ان کی تربیت کی وجہ سے یہ سب بچے خدا تعالیٰ کے پسندیدہ مال بن چکے ہیں۔
مقررہ نے حضور انور کی راہنمائی کا ا یک اور اقتباس پیش کرتے ہوئے کہا کہ چاہیے کہ ہم اسے بار بار پڑھیں اور سنیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتےہوئے اپنے بچوں کی تربیت کی کوشش کریں۔ حضور انور نے فرمایا تھا کہ سکولوں میں بچوں کو آزادی کے نام پر غلط قسم کی باتیں بتائی جاتی ہیں اس کا توڑ اور ردّ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب مائیں پہلے خود اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق نیکی اور بدی کا علم حاصل کریں اور پھر بچوں کو ان برائیوں کے بارے میں بتائیں۔ اسی طرح یہ باپوں کا بھی کام ہے۔ معاشرے کی برائیوں کے بارے میں کھل کر اپنے بچوں کو بتانے کی ضرورت ہے۔ اگر نسلوں کو سنبھالنا ہے تو اس بارے میں اب شرمانے کی ضرورت کوئی نہیں ورنہ یہ نسلیں دین سے دور چلی جائیں گی۔نیکی کی تلقین نسلوں کو اچھا شہری بنانے کے لیے کریں۔ انہیں بتائیں کہ بعض ایسی باتیں جو قانوناً یہاں جائز ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بُری ہیں اور ایک مومن کو اس سے بچنا چاہیے۔ ہاں ملک و قوم کی خدمت کا یہ تقاضا ہے کہ ہر احمدی کو اعلیٰ اخلاق کا حامل ہونا چاہیے۔ خدمت انسانیت کے لیے ہر احمدی کو صفِ اول میں ہونا چاہیے۔
مقررہ نے کہا کہ کچھ ہفتہ پہلے اِسی مسئلہ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا:
پہلی بات تو یہ ہے کہ والدین کا کام ہےیہ کہ گھروں میں بچوں کو بتائیں۔ بچوں کے ذہنوں میں اگر کوئی سوال اُٹھتا ہے، اُن کو پھر طریقہ سے سمجھاؤ کہ یہ تمہاری عمر نہیں تم یہ باتیں سمجھ نہیں سکتے، یہ ایک علم ہے اور اس کا علم تمہیں تب ہو گا جب تم اس عمر پر پہنچو گے۔ اس لیے گو سکول نے تمہیں بتا تو دیا ہے تب بھی تمہیں اس کی سمجھ نہیں آ سکتی صحیح طرح، بجائے اس کے کہ سختی سے اُسےرد کرنے کے۔
مقررہ نے کہا کہ حضور انور کی نصائح اور تمام دوسرے اقتباسات میں، جن سے میں نے اس تقریر کو باندھا ہے، وہ ساری زریں باتیں موجود ہیں جن میں ہمیں دور حاضر میں بچوں کی پرورش اور تربیت کی دشواریوں سے گزرنا سکھایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اِس خزانے سے استفادہ کرنے والے ہوں۔ آمین۔
بعد ازاں نصرت جہاں ادریس صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے منظوم کلام
ہے شکر رب عز و جل خارج از بیاں
جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں
سے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔
اس اجلاس کی تیسری اور آخری تقریر عاصمہ رانا صاحبہ کی تھی۔
میرا نام عاصمہ رانا زوجہ محمد اطہر رانا ہے۔ ۲۰۲۰ء کے اوائل میں، میں اپنے میڈیکل کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے جارجیا چلی گئی۔ جارجیا منتقل ہونا مشکل تھا، خاص طور پر جب مجھے اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑنا پڑا۔ کووڈ ۱۹ نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا، ہماری نقل و حرکت کو محدود کر دیا اور ہماری یونیورسٹی کی پڑھائی کو آن لائن منتقل کر دیا۔ اسی دوران مجھے اسلام احمدیت سے تعارف ہوا۔ اپریل ۲۰۲۰ء میں برٹش پاکستانی مسلمان دوستوں کے ایک گروپ سے بات چیت کے دوران مجھے پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں معلوم ہوا۔ اس انکشاف نے مجھے بہت دکھ پہنچایا کیونکہ معصوم لوگوں کو ان کے عقائد کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آج ہمارے نبیؐ زندہ ہوتے تو آپؐ اس سے بہت مایوس ہوتے۔ اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ احمدی کون ہیں اور وہ کس چیز پر یقین رکھتے ہیں۔ میری ملاقات جارجیا میں ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے میرے جیسے طالب علموں کو ملک میں بسنے میں مدد کی۔ اس شخص نے نہ صرف میری تعلیم میں مدد کی بلکہ اسلام اور حضرت عیسیٰؑ کی وفات کے بارہ میں بھی گفتگو ہوئی۔ اس بارہ میں مجھے تجسس ہوا۔ ایک دن اس شخص نے حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں میرے خیالات پوچھے۔ میں عام مسلمانوں کے اس عقیدے سے متفق تھی کہ حضرت عیسیٰؑ آخری ایام میں جنت سے اتریں گے تاکہ امت مسلمہ کو دجال سے نجات دلا سکیں۔ اس پر اس شخص نے مطالعہ کے لیے یہ آیات بھجوائیں : سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۴۵، سورہ ابراہیم آیت نمبر ۵، الانبیاء آيت نمبر ۳۶ اور آخری آیت تھی المائدہ آیت نمبر ۱۱۸۔
مقررہ نے کہا کہ یہ آیات اپریل ۲۰۲۰ء میں رمضان کے دوران بھیجی گئیں اور پورے رمضان میں میں ان آیات کے معنی تلاش کر تی رہی۔ اور سوچا کہ ہمارے نبیؐ زمین پر چلنے والے سب سے بڑے انسان ہیں تو پھر اللہ نے حضرت عیسیٰؑ کو کیوں ز اللہ نے محمدؐ کو موت دی۔مقررہ نے ان آیات سے اخذ شدہ معانی پیش کیے اور کہا کہ اس سچائی نے میرے دل پر قبضہ کر لیا، اور میں سچائی کے لیے جوابات کی تلاش کو روک نہیں سکی۔ میرا دل اس بات سے پھٹا ہوا تھا کہ میں کیا جان کر بڑی ہوئی اور اب مجھے کیا پتا چل رہا ہے۔اس موقع پر مجھے مزید سچائی کی تلاش ہوئی لہذا میں نے اسی شخص سے رابطہ کیا اور مزید ثبوت مانگے، اور انہوں نے مہربانی سے کچھ کتب شیئر کیں، پہلی مسیح ہندوستان میں تھی۔ مجھے کتابیں پڑھنے میں مزہ آتا ہے اور مطالعہ سے قبل میں ہمیشہ مصنف کے بارے میں پڑھتی تھی لیکن اس معاملے میں میں نے سیدھا مطالعہ شروع کیا اور جو کچھ میں نے پڑھا اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ نصف کتاب پڑھنے پر میں نے یہ دیکھنے کا فیصلہ کیا کہ مصنف کون ہے اور میں نے پڑھا۔ یہ احمدیہ سلسلہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد (۱۸۳۵ء تا ۱۹۰۸ء) کی تحریر کردہ اردو کتاب کا انگریزی ورژن ہے۔
مقررہ نے اس بارہ میں اس شخص سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس وقت لفظ احمدیہ اور مصنف کی فکر نہ کریں اور کتاب کا مطالعہ جاری رکھیں اور آخر میں سب کچھ واضح ہوجائے گا۔ کتاب پڑھنے کے بعد مجھے لگا کہ مجھ سے ساری زندگی جھوٹ بولا گیا ہے۔ مجھے اس حقیقت کو سمجھنا بہت مشکل تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کا انتقال ہو گیا ہے کیونکہ میں نے ساری زندگی اس بات پر یقین کیا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ اب بھی آسمان میں زندہ ہیں اور وہ آخری دنوں میں دجال کا قتل کرنے کے لیے اس دنیا میں آئیں گے۔ اس وقت تک میرے ذہن میں بہت سے سوالات گردش کر رہے تھے، میرے جذبات بکھرے ہوئے تھے، اور میں نے اپنے اندر مایوسی کا ایک بہت بڑا احساس محسوس کیا۔ پھر میں نے اسی شخص کو بلایا اور انہوں نے مجھے پڑھنے کے لیے ایک اور کتاب دی جو اسلامی اصول کی فلاسفی تھی۔ جب میں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے اس کی اور اس کی تعلیمات، صداقت اور راہنمائی سے محبت ہو گئی۔ میں حیران رہ گئی کہ میں نے اس سے پہلے کبھی اس معیار کی کتاب نہیں پڑھی تھی۔ دونوں کتب نے مجھے جذباتی اور روحانی طور پر متاثر کیا تھا۔
مقررہ نے کہا کہ ان کتب کے بعد مزید سوالات پیدا ہوئے جن کے جوابات فراہم کیے گئے اوراسی شخص نے مشورہ دیا کہ میں حضور کو خط لکھوں۔ اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ حضور کون ہیں اور مجھے کسی کو خط لکھ کر دعا مانگنا عجیب لگا۔ میں حضور کی روحانی اہمیت اور صلاحیتوں سے بے خبر تھی۔ بہرحال میں نے بغیر کسی سوال کے حضورکو خطوط لکھنا شروع کر دیے۔ شروع میں، مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس شخص نے مجھے یاد دلایا کہ کووڈ ۱۹ کی وجہ سے بیک لاگ ہوسکتا ہے لیکن مجھے لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ چنانچہ میں حضور کو خط لکھتی رہی اور پر امید رہی۔
مقررہ نے کہا کہ میں نے اپنی ذاتی تعلیم جاری رکھی اور جماعت کے بارے میں اپنی تفہیم کو بڑھانے کے لیے ایم ٹی اے دیکھا، اللہ سے دعا کی کہ وہ مجھے حق کی طرف راہنمائی کرے۔ اسی عرصے میں میرے خوابوں کا آغاز ہوا۔ جوں جوں میں نے احمدیت کا شوق سے مطالعہ کیا، حقیقت میرے سامنے تیزی سے واضح ہونے لگی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ حضرت عیسیٰؑ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تاہم میں نے یہ تسلیم کرنے کے لیے بے پناہ جدوجہد کی کہ حضرت مسیح موعودؑ آئے اور چلے گئے، جس کا امت مسلمہ کی اکثریت کو علم نہیں تھا۔
مقررہ نے کہا کہ جب میں نے پہلی بار اپنے دوستوں سے اسلام احمدیت کے بارے میں پوچھنا شروع کیا تو انہوں نے مجھے احمدیوں سے دُور رہنے کی تنبیہ کی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ احمدی جادو کرتے ہیں، جھوٹے ہیں اور سچے مسلمان نہیں ہیں۔ ایک دوست نے یہاں تک ذکر کیا کہ احمدیوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ ان تنبیہات کے باوجود، میرے تجسس اور سچائی کی خواہش نے مجھے اپنی تحقیق کو مزید جاری رکھنے پر مجبور کیا۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ وہ مجھے سیدھے راستے پر چلائے، تہجد کے لیے بیدار ہو کر میں سجدوں میں روتی کہ میں سیدھی راہ سے کھوئی ہوئی ہوں۔ جیسے جیسے میں مزید گہرائی میں گئی، ایم ٹی اے اور اس سے متعلقہ پروگراموں کو دیکھا، احمدیت کے بارے میں میری تفہیم میں نمایاں اضافہ ہوا۔ میں نے خلفاء اور حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں سیکھا۔ جب بھی میں پیارے حضور کو دیکھتی تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ ان کے چہرے سے نکلنے والے نور نے مجھے یقین دلایا کہ وہ جادوگر نہیں ہو سکتے۔ دوسروں کی تبدیلی مذہب کی کہانیاں سن کر مجھے بہت حوصلہ ملا اور میرے اس یقین کو تقویت ملی کہ اس سفر میں دعا ہی میری تسلی اور راہنمائی ہے۔
مقررہ نے کہا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ کو مسیح موعود اور امام مہدی کے طور پر قبول کرنے سے پہلے میرے تین خواب تھے، جن سے مجھے یہ اشارہ ملتا ہے کہ احمدیت حق ہے۔ مقررہ نے اپنے خواب تفصیل سے بیان کیے اور کہا میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اس سے میں بے چین اور سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہی تھی۔ میرے دوستوں کے سوالات میرے ذہن میں گھومتے رہے۔ چونکہ میں نے ان کے سامنے احمدیت کا ذکر کیا تھا اس لیے وہ ہر روز مجھے فون کرتے تھے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ میں کسی احمدی سے بات نہیں کر رہی ہوں اور وہ دعویٰ کرتے کہ قادیانی خلیفہ ایک جادوگر ہے۔ اس سے میرا دل ٹوٹ جاتا کیونکہ جب بھی میں حضور کا چہرہ دیکھی تو میں نے صرف ایک پاکیزہ انسان دیکھا جو حکمت اور حقیقی ہدایت سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ احمدی پیغمبر اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے، لیکن میں نے جو کچھ پڑھا یا دیکھا وہ ہمارے نبیؐ کی حقیقی تعلیمات سے بالکل مطابقت رکھتا ہے۔ درحقیقت احمدی وہ تھے جو ہمارے نبیؐ کی تعلیمات پر صحیح طرح اور ایمانداری سے عمل پیرا تھے۔
مقررہ نے کہا کہ میں نے حضور کے خطبات جمعہ اور This Week with Huzoor دیکھنا شروع کیا اور اس سے میری سمجھ مزید گہری ہو گئی۔ اس کے باوجود میں حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کرنے سے ہچکچاتی رہی ۔ مزید جاننے کے لیے میں نے حضرت مرزا غلام احمدکی کتابوں کے بارے میں ثبوت طلب کیے۔ انہوں نے مجھے کشتی نوح کے نام سے ایک کتاب بھیجی۔ اسلام احمدیہ کے بارے میں شواہد اور بصیرت کو پڑھنے کے بعد، میں خاموش ہوگئی ۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے ایک احساس بڑھا کہ مجھے سچائی کو قبول کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود، میں ضد اور ہچکچاہٹ کا شکار رہی۔ جب میں اس ہچکچاہٹ کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی والی تھی اور مجھے لگا جیسے میں سچ کو چھوڑنے والی ہوں، میں اللہ سے پکارتے ہوئے سجدے میں گر پڑی ۔ میں نے اپنے دل و جان سے دعا کی کہ اے ربّ العالمین! مجھے سیدھی راہ دکھا۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد میں بستر پر چلی گئی اور اس کے بعد مجھے خواب آیا۔خواب میں مَیں نے دیکھا کہ میں اپنے موجودہ پیارے حضور کا ہاتھ تھامے ہوئے ہوں اور میں نے دیکھا کہ سیاہ حجاب میں ملبوس لڑکیوں کی ایک قطار بھی پیارے حضور کے ہاتھ میں بیعت کر رہی تھی اور جب میں بیعت کر رہی تھی تو میں نے محبوب حضور سے کہا کہ وہ میرا نکاح پڑھائیں۔ الحمدللہ اس خواب کے بعد اور بالآخر اللہ تعالیٰ کی مدد اور رہنمائی سے میں نے ۲۵؍نومبر ۲۰۲۰ء کو اپنے دل میں احمدیت قبول کرلی اور ۲۶؍مارچ ۲۰۲۱ء کو حضور نے میری بیعت قبول کر لی۔
مقررہ نے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کرنے کے بعد میں نے سب سے پہلے یہ خبر اس شخص کے ساتھ شیئر کی جس نے میرے پورے سفر میں میری مدد کی تھی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کر لیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں اور انہوں نے جواب دیا ’’الحمدللہ، الحمدللہ‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے جارجیا مشن ہاؤس میں مربی صاحب اور ان کی اہلیہ سے میرا تعارف کروایا۔ مربی صاحب نے مجھ سے کچھ سوالات پوچھے جن کا میں جواب دینے میں کامیاب رہی ۔ میرے جواب سن کر مربی صاحب بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ مجھے آپ کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ماشاء اللہ آپ کو اسلام احمدیت کا بہت علم ہے۔
مقررہ نے بتایا کہ سمیسٹر ختم ہو نے پر انہوں نے برطانیہ واپس جانے کے لیے ٹکٹ بک کرا لیا اور کہا کہ یہ بتانا ضروری ہے کہ میں نے اسلام احمدیہ قبول کر لیا تھا جبکہ میرے اہل خانہ اس سے لاعلم تھے۔ گھر پہنچنے پر مجھے ان سے لاتعلقی کا گہرا احساس ہوا۔ جذبات سے مغلوب ہو کر میں اکثر روتی رہتی تھی کیونکہ میں اس جماعت کا خوبصورت پیغام اپنے اہل خانہ کو دینا چاہتی تھی لیکن وہ ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔اس دوران مجھے صدر جماعت پریسٹن سعدیہ صاحبہ سے رابطہ کی معلومات فراہم کی گئیں ۔ سعدیہ صاحبہ ناقابل یقین حد تک معاون تھیں اور انہوں نے اس مشکل دور میں میری مدد کی۔ یہ بہت جذباتی سفر تھا، لیکن سعدیہ صاحبہ کا تعاون انمول تھا۔
مقررہ نے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کرنے کے بعد سے میری زندگی بہتر ہو گئی ہے۔ اس کے بعد مقررہ نے اپنا ایک اور خواب بیان کیا جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میرے سفر میں ایک اور خوبصورت باب سامنے آیا۔ مجھے اس شخص کی طرف سے شادی کی تجویز موصول ہوئی جس نے مجھے اسلام احمدیت کی طرف راہنمائی کرنے میں مدد کی۔ میرا جواب یہ تھا کہ اللہ سے دعا کرو اور استخارہ کرو، میں نے بھی ایسا ہی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مزید برآں میں نے اس معاملے کے بارے میں حضور کو ایک خط لکھا ۔ مقررہ نے بتایا کہ پہلے ان کے والد نے اس رشتہ سے محض قومیت کی بنا پر انکار کردیا اور پھر حضور انور کی دعا سے یہ رشتہ قرار پاگیا۔ مقررہ نے حضور انور کا ایک خط بھی پڑھ کر سنایا۔ اور کہا کہ میرے شوہر، جو مجھے بہت عزیز ہیں، میرے سسرال والوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہیں۔ میں واقعی یقین رکھتی ہوں کہ یہ میرے قبول اسلام احمدیت کا انعام ہے۔
مقررہ نے آخر میں کہا کہ جزاک اللہ ان تمام لوگوں کو جنہوں نے اس پورے سفر میں میری مدد اور حمایت کی ہے۔ میں خاص طور پر Gillinghamکی صدر فائزہ صاحبہ کی شکر گزار ہوں کہ جب بھی ضرورت پڑی ان کی غیرمتزلزل حمایت مجھے حاصل رہی۔ نیز دعاکی درخواست ہے کہ دعا کریں کہ ایک دن میرا خاندان اس خوبصورت جماعت کو گلے لگائے۔مقررہ نے آخرپر درود پڑھ کر اپنی گزارشات کا اختتام کیا ۔
(رپورٹ: سائحہ معاذ اور ٹیم)