ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (جلد کے متعلق نمبر ۱۰) (قسط ۷۸)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
انسولینInsulin
زخم، چھالے، بیڈ سور، کاربنکل وغیرہ جو ذیا بیطس کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ان میں اچھا اثر دکھاتی ہے۔ (صفحہ467)
ایسا خارش والا ایگزیما جس میں جگر کی خرابی کی شکایت بھی موجود ہو اور کسی اور دوا سے آرام نہ آئے، اس میں انسولین استعمال کرنی چاہیے۔ اسی طرح اگر مریض کو بار بار پیشاب آئے اور جلدی امراض پھوڑے پھنسیوں کا بھی رجحان ہو تو یہ دوا اکثر فائدہ دیتی ہے۔(صفحہ۴۶۷)
آیوڈمIodum
کالی آیوڈائیڈ میں بھی آیوڈین کی کچھ علامتیں پائی جاتی ہیں۔ اس کا مریض بہت چلتا ہے اور چلنے سے تھکتا نہیں۔ اگر کسی دن نہ چلے تو اعصاب میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اس کے مزاج میں بھی گرمی پائی جاتی ہے۔البتہ ایک فرق ہےکہ اس کے جسم میں گہرے زخم بن جاتے ہیں جو ناسور بننے کا رجحان رکھتے ہیں جبکہ آیوڈین میں غدودوں کے اندر کی سوزش اور ان کے سخت ہونے کی علامت پائی جاتی ہے۔ تپ دق کارجحان بھی ملتا ہے۔ (صفحہ۴۷۰)
کالی آیوڈائیڈ (Kali iodide) بھی گردوں کےلیے مفید دوا ہے لیکن اس میں السر بننے کا رحجان ہوتاہے جبکہ آیوڈم میں السر کا رحجان نہیں ہوتا۔(صفحہ۴۷۱)
آئرس ٹینکس
Iris tenax
سر کی جلد میں جلن اور خارش ہوتی ہے۔ یہ عام خارش نہیں ہے بلکہ جلن کے ساتھ عارضی طور پر ہوتی ہے۔ یہ کوئی مستقل بیماری نہیں ہے۔(صفحہ۴۸۰)
آئرس ورسیکولر
Iris versicolor
ناشتے کے بعد چہرہ پر اعصابی درد، زبان اور منہ کے اندر جلنے کا احساس، لعاب دہن کوکس (Coccus)کی طرح ریشے دار اور تیزاب کی زیادتی کی وجہ سے اوپر سے لے کر نیچے تک تمام نظام ہضم میں جلن پائی جاتی ہے۔ پیٹ میں بہت ہو ابنتی ہے۔ جس کی وجہ سے درد کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ کبھی قبض اور کبھی اسہال شروع ہو جاتے ہیں۔ہرپیز (Herpes) میں بھی یہ مفید دوا ہے بشرطیکہ معدے کی خرابی سے اس کا تعلق ہو۔ اس میں ہر قسم کی جلدی امراض بھی پائی جاتی ہیں لیکن محض جلدی امراض کی علامتوں کے ذریعہ اس کی پہچان ممکن نہیں۔ اسے زیادہ تر معدے کی علامتوں سے پہچانا جاتا ہے۔(صفحہ۴۸۴،۴۸۳)
کالی بائیکروم
Kali bichromicum
(Bichromate of Potash)
پوٹاشیم کے تمام نمکیات عضلات اور اعصاب کے لیے مقوی (Tonic)کے طور پر مفید ہیں۔ ان سب نمکیات میں زخم بننے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ معدہ میں تیزابیت زیادہ ہو جائے تو زخم بننے لگتے ہیں۔ انتڑیوں میں یا کہیں اور زخم یا ناسور پائے جائیں تو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ مریض کی علامات کسی پوٹاشیم کے نمک سے تو نہیں ملتیں۔ ایک مریض کے پاؤں پر بہت گہرا اور پرانا ناسور تھا۔ اسے میں نے کالی آیوڈائیڈ دی تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ ناسور غائب ہو گیا۔ اس سے پہلے وہ بہترین فوجی ہسپتالوں میں داخل ہو کر علاج کروا چکا تھا۔ میں نے محض اس لیے یہ دوا تجویز کی تھی کہ اس کی باقی علامات پوٹاشیم سے ملتی تھیں۔ (صفحہ۴۸۶)
کالی با ئیکروم کے زخم بہت گہرے اور ان کے کنارے ابھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ کوئی ممتاز کرنے والی علامت نہیں، بعض اور دواؤں میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے۔ (صفحہ487)
کالی بائیکروم سر کے ایگزیما کے لیے بہت اچھی ہے۔ لیکن اگر ایگزیما میں سر کے زخموں سے زرد رنگ کا مواد خارج ہو اور چھلکے اتریں جن سے بہت بد بو آتی ہو تو یہ اولین طور پر میزیریم (Mezereum) کی علامات ہیں۔ کالی با ئیکروم میں میز یرم کی ایک اور علامت بھی پائی جاتی ہے کہ اگر ناک کی علامات ٹھیک ہو جا ئیں تو ایگزیما ہو جاتا ہے، ایگزیما ٹھیک ہو تو نزلہ شروع ہو جاتا ہے۔ (صفحہ۴۸۸)
ہونٹوں کے ناسور اور زخموں کے لیے بھی کالی بائیکروم مفید دوا ہے۔ سسٹس (Cistus) بھی ہونٹوں کے زخموں کے لیے مفید ہے خصوصاً نچلے ہونٹ کے السر میں فائدہ دیتی ہے۔ ڈلکا مارا دونوں ہونٹوں کے السر میں مفید ہے اور جلد کی بیماریوں میں بھی مفید ہے خصوصا وہ بیماریاں جو تیزی سے پھیلتی ہیں۔ Pyretic Glands کے لیے بھی مفید ہے۔ کالی بائیکروم میں ناک سے خون نکلتا ہے۔ ناک کی باریک جھلیوں میں گومڑ سے بن جاتے ہیں۔ چہرے کی جلد اور اندرونی جھلیوں کے دق میں بھی بہت مفید دوا ہے اور ان دونوں بیماریوں میں خدا کے فضل سے شافی ثابت ہوتی ہے۔ (صفحہ۴۸۹)
کالی بائیکروم میں السر بننے کارجحان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ گلے کے غدود پھول جائیں تو درد کے علاوہ اتنے متورم ہو جاتے ہیں کہ گلے کے باہر گردن پر بھی ورم نمایاں ہو جاتی ہے اور سرخی بھی پائی جاتی ہے۔(صفحہ۴۹۰)
کالی بائیکروم میں ہر قسم کی جلدی بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ ایگزیما، چھالے اور پھنسیاں نکلتی ہیں۔ اگر جلد کی تکلیفوں کو مرہم وغیرہ لگا کر دبا دیا جائے تو وہ اندرونی جھلیوں میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس لیےکالی بائیکروم کی علامتوں کے ساتھ بیرونی طور پر ادویہ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ (صفحہ۴۹۳)
کالی کارب
Kali carbonicum
ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے بعض دفعہ اعصاب کے ریشوں میں آگ سی لگ جاتی ہے اور گرمی دانے نکل آتے ہیں۔ یہ اس دوا کا طرفہ تماشا ہے کہ ٹھنڈی ہوا سے تمازت کا احساس کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتا ہے جسے گرمی سے آرام آتا ہے۔ (صفحہ۴۹۸)
خسرہ کے بعد کھانسی کا حملہ ہو تو بھی کالی کارب مفید ہوتی ہے۔ (صفحہ۵۰۰)
کالی میور
Kali muriaticum
(Chloride of Potassium)
کالی میور میں بچوں کی شیر خوارگی کے زمانے میں سر پر ہونے والے ایگزیما کی علامت بھی پائی جاتی ہے۔ سر کی خشکی میں بھی مفید ہے۔ (صفحہ۵۰۳)
کالی میور میں جلدی بیماریاں بھی ملتی ہیں۔ اس کے ایگزیما کی خاص پہچان یہ ہے کہ جلد سے موٹے آٹےکی طرح کا خشک مواد اترتاہے۔ کالی میور کی تکلیفیں ثقیل اور مرغن غذائیں کھانے سے بڑھ جاتی ہیں اور حرکت سے بھی تکلیف بڑھتی ہے۔(صفحہ۵۰۴)
کالی فاسفوریکم
Kali phosphoricum
(Phosphate of Potassium)
یہ اینٹی سورک (Anti-Psoric)دوا ہے یعنی ان امراض کی دوا ہے جو جلد پر اثر رکھتی ہوں اور جبرا ًدبا دینے کے نتیجہ میں اندرونی جھلیوں یا اعصاب پر منفی اثر ڈالیں۔ کالی فاس کو ہومیوڈاکٹر اینٹی سورک ہی بتاتے ہیں لیکن اس کا مرکزی تعلق اعصاب سے ہے۔ اعصاب کو تقویت دینا گویا اس کے مزاج کا حصہ ہے اور اسی بنا پر یہ اینٹی سورک کا کام بھی کرتی ہے۔ مثلاً اعصابی کمزوری کی وجہ سے اگر کوئی بیماری دبی رہے اور جسم میں طاقت نہ ہو کہ اسے باہر نکال سکے تو کالی فاس اسے اچھال کر جلد پر ظاہر کر دے گی۔ (صفحہ۵۰۵)
کالی فاس گینگرین کے لیے بھی بہت مفید دوا ہے۔ زخم گل سڑ کر ناسور بن جائیں اور گینگرین کی شکل اختیار کر لیں تو ایلو پیتھی میں عموما ًایسے اعضاء کو کاٹ دیا جاتا ہے اور احتیاطاً اس جگہ سے کاٹتے ہیں جو ماؤف جگہ سے اوپر کی طرف اور صحت مند ہو۔ میں نے بعض ایسےمریضوں پر کالی فاس اور سلیشیا کامیابی سے استعمال کی ہیں۔ اس کے بعد انہیں کسی آپریشن کی ضرورت نہیں رہی۔اللہ تعالی نے انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف ایک دفاعی نظام پیدا کیا ہے۔ ان دفاعی خلیوں (Anti Bodies)کے بغیر شفا کا عمل ممکن نہیں ہے۔ اگر کسی بیماری کے غلبہ سے اعصاب اتنے کمزور ہو جائیں کہ ردعمل نہ دکھا سکیں تو خواہ کتنی ہی جراثیم کش ادویات استعمال کی جائیں وہ فائدہ نہیں پہنچائیں گی کیونکہ جسم رد عمل چھوڑ چکا ہوتا ہے۔ گینگرین میں بھی جسم کا یہ طبعی رد عمل ختم ہو جاتا ہے لیکن کالی فاس اس کے رد عمل کو جگا دیتی ہے اور اعصاب کو مقابلہ کی طاقت بخشتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں جسم گینگرین کا مقابلہ شروع کر دیتا ہے۔ اعصاب مضبوط ہو جائیں تو سلیشیا بھی خوب اثر دکھاتی ہے۔ (صفحہ۵۰۷،۵۰۶)
کالی فاس کی پھنسیاں اور دانے چہرے اور دیگر اعضاء پر نہیں ہوتے بلکہ پیٹ یا کمر پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے لیے صرف کالی فاس استعمال کروائیں لیکن اگر افاقہ نہ ہو تو دوسری دوائیں استعمال کریں۔اگر جلدی بیماریاں جسم کے اندر منتقل ہو جا ئیں تو بسا اوقات وہ اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔ جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور اس میں دفاع کی طاقت نہیں رہتی۔ کالی کا رب اور سورائینم کا شمار ایسی دواؤں میں ہے جو ایسے مریض کے جسم کو فورا ً گرم کر دیتی ہیں اور بیماری کو جلد پر اچھال دیتی ہیں۔ لیکن کالی فاس کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب جسم کے اندر سے شروع ہونے والا مرض مثلاً خسرہ اور کا کڑالا کڑا وغیرہ اعصابی کمزوری کی وجہ سے جلد پر ظاہر نہ ہو سکے۔ کالی فاس سورائینم وغیرہ سے بالکل مختلف دوا ہے۔ (صفحہ۵۱۳)
کالی سلفیوریکم
Kali sulphuricum
(Sulphate of Potash)
کالی سلف جلدی امراض کے علاوہ اندرونی جھلیوں کے علاج میں بھی مفید ہے۔ کالی سلف کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ لیوپس (Lupus)کے بعض مریض اس سے بکلی شفا پاگئے۔(صفحہ۵۱۶)
کالی سلف میں کانوں میں اور کانوں کے پیچھے خارش ہوتی ہے اور قسم قسم کا شور سنائی دیتا ہے۔(صفحہ۵۱۷)
کالی سلف کے ایگزیما میں دانے اور چھالے نکل آتے ہیں، جلن کا بہت احساس ہوتا ہے، جلد کا رنگ بدل کر مینڈک کی کھال کی طرح زردی مائل بے جان یا بے رنگ ہو جاتا ہے۔ عموماً جگر اور تلی کی خرابیوں کے نتیجہ میں ایسا ہوتا ہے۔ خون کی کمی اور سل کی بیماری بھی چہرہ پر بے رونقی اور زردی پیدا کر دیتی ہے۔ ایسی صورت میں چہرہ دیکھ کر بیماری کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ چہرہ اور آنکھوں کی علامتوں سے امراض کی تشخیص نے ایک باقاعدہ فن کی صورت اختیار کر لی ہے اور جرمنی میں اس کے کئی پیشہ ور ماہرین ملتے ہیں۔ (صفحہ۵۱۸،۵۱۷)
سر میں کھچاؤ ہوتا ہے، بال گرتے ہیں اور سر میں خشکی ہوتی ہے۔ ہونٹ کٹے پھٹے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کینٹ کے نزدیک اگر ہونٹ پر مسہ بن جائے تو کالی سلف سے فائدہ ہوتا ہے۔ اپی تھیلیوما (Epithelioma)میں بھی کالی سلف مفید ہے۔ (صفحہ۵۱۸)
کالی سلف میں شدید خارش ہوتی ہے۔(صفحہ۵۱۸) (نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔)