تعارف کتاب

تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۵۳): سفر نامہ ناصر (حصہ اول) (حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی رضی اللہ عنہ )

(اواب سعد حیات)

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ1845ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم خواجہ ناصر امیر صاحب مشہور و معزز صوفی اور شاعر حضرت خواجہ میر دردؒ کے گدی نشین تھے۔ آپ ام المومنین، حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ، اماں جان رضی اللہ عنہا کے والد محترم تھے۔

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ 1892ء کے بعد اپنی ملازمت سے پنشن لے کر قادیان آبسے۔

آپؓ فرماتے ہیں کہ بندہ سرکاری نوکری سے فارغ ہوکر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں مشغول ہو گیا۔ گویا میں ان کا پرائیوٹ سیکرٹری تھا، خدمت گار تھا، مالی تھا، زمین کا مختار تھا، معاملہ وصول کیا کرتا تھا۔ ابتدا میں جب حضرت صاحبؑ باہر جاتے تو مجھے گھر کی حفاظت اور قادیان کی خدمت کے لیے چھوڑ جاتے تھے۔ آخر زمانہ میں جب کہیں سفر کرتے تھے اور گھر کے لوگ ہمراہ ہوتے تھے تو بندہ بھی ہمرکاب ہوتا۔

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے مکمل طور پر خود کو حضرت اقدسؑ کی خدمت میں وقف کر دیا ہوا تھا۔اس کتاب کے ناشر اور مہتمم حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے کتاب کے تعارفی نوٹ میں لکھا:

’’ایکہ داری مقدرت ہم عزم تائیدات دیں

لطف کن مارا نظر بر اندک و بسیار نیست

حضرت خلیفۃ المسیح سلمہ اللہ تعالیٰ کے نام سے ایک مسجد اور حضرت ام المومنین کے نام پر ایک زنانہ ہسپتال اور ناصر وارڈ مردانہ ہسپتال، غریب اور ضعیف مہاجرین کے لیے چند مکانات بنانے کی تحریک حضرت خلیفۃ المسیح رضی اللہ عنہ کے ارشاد اور منظوری سے کی گئی ہے جس کے لیے 30 ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ جس کا 10/1 حصہ پورا ہو چکا ہے۔ باقی کے لیے احباب کی خدمت میں درخواست ہے کہ وہ اس نیک اور صدقہ جاریہ کے رنگ کے کام کے لیے خود اور اپنے دوستوں سے چندہ لے کر ارسال کریں حضرت میر صاحب قبلہ اس باقی رقم کے پورا کرنے کے لیے پھر سفر کو نکلیں گے مگر اس سے پیشتر کہ وہ صورت سوال بن کر پہنچے کیا اچھا ہو کہ ہم خود اس رقم کے پورا کرنے کی فکر کریں تمام رقومات حضرت میر ناصر نواب صاحب قادیان کے نام یا محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام آنی چاہیے۔خاکسار یعقوب علی تراب‘‘

اس 36 صفحات کی کاتب کی لکھائی میں تیار ہونے والی منظوم کتاب کے آخر پر شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے ’’عرض حال‘‘میں مزید بتایا کہ ’’سیر و سیاحت اور تفریح کے لیے دنیا میں سفر کرنے والے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ مگر مبارک ہے وہ انسان جو محض رفاہ عام کی نیت سے اور خلق اللہ کے نفع کی خاطر اپنے اوقات گرامی کو وقف کرے اور گھر کے آرام وآسائیش کو چھوڑ کر سفر اختیار کرے۔ ایسے لوگ دنیا میں ہوتے ہیں جو اپنی راحت اور آرام کو دوسروں کے لیے قربان کرتے ہیں۔ انہی میں سے ہمارے مکرم معظم حضرت قبلہ میر ناصر نواب صاحب احمدی ہیں جنہوں نے موسم گرما کی سخت دھوپ اور لوؤں کی لپٹ میں اپنے آرام کو چھوڑ کر کوچہ گردی اور شہر نوردی اختیار کی۔ حضرت میر صاحب کی جو پوزیشن احمدی قوم میں ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔

اس وجاہت اور عزت کے علاوہ جو حضرت مسیح موعود و مغفور کے ذریعے آپ کو ہے،آپ حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کے نبیرہ ہیں اور گورنمنٹ پنشنرہیں۔آپ نے قادیان میں ایک وسیع ہسپتال بنانے کی تجویز کی جس کی زنانہ و مردانہ دو جدا جدا شاخیں ہوں گی۔اور ایسا ہی ایک عظیم الشان مسجد مدرسہ تعلیم الاسلام کی زمین میں حضرت خلیفۃ المسیح کے نام سے بنانے کا ارادہ کیا۔نیز ان غریب اور ضعیف مہاجرین کے لیے چند مکانات بنانے کا ارادہ کیا جو دارالامان میں رہتے ہیں یہ تمام تجاویز اور تحریکیں جیسی اعلیٰ درجہ کی نیکی اور نافع الناس ہیں وہ ناظرین اندازہ کر سکتے ہیں۔ ان تحریکوں کے لیے آپؓ نے قادیان اور اس کے نواح میں سخت دھوپ میں دورہ کر کے ایک معقول رقم جمع کی اور پھر قادیان سے باہر نکلے اور پشاور تک کا سفر کیا اس سفر کے حالات کو اپنے نہایت بے تکلف اور سلیس اشعار میں بیان کر دیا ۔

میں نے مناسب سمجھا کہ یہ سفر نامہ چھپ جاوے تا نیک لوگوں کو نیک کاموں کی تحریک کا موجب ہو۔اس سفرنامہ کی آمدنی تمام وکمال اسی چندہ میں جمع کی جاوے گی۔ امید ہے کہ احباب اس کی اشاعت میں کوشش فرمائیں گے۔

سفرنامہ کے متعلق مجھے کچھ اور کہنے کی حاجت نہیں ہے اس کی زبان پاکیزہ اور خیالات کے اظہار میں سلاست سے کام لیا گیا ہے جو ہر ایک کا کام نہیں۔خدا تعالیٰ حضرت میر صاحب قبلہ کو اس کی جزائے خیر دے۔ آمین۔

خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم قادیان 30؍جنوری 1910‘‘

بطور نمونہ اس کتاب کے بعض اشعار پیش ہیں:

غنچہ دل تو کھلا ناصر

سخن دل ربا سنا ناصر

اپنے دورہ کا لکھ ذرا احوال

تاکہ احباب بھی ہوں واقف حال

قصبہ قادیان کو کیوں چھوڑا

کیوں عزیزوں سے تو نے منہ موڑا

کیوں سفر اختیار تو نے کیا

کیوں انہیں دلفگار تو نے کیا

خوف کس کا ہے سچ بیان کردے

راز پوشیدہ کو عیاں کردے

حال دل میں زباں پہ لاتا ہوں

اپنے احباب کو سناتا ہوں

دین کے کام کے لئے میں چلا

تاجماعت سے لاؤں میں چندا

احمدی بھائیوں سے لاؤں مال

دینی کاموں پہ وہ لگاؤں مال

(صفحہ 1)

الغرض کتا ب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ محض للہ اور دینی اغراض کے لیے اختیار کردہ اس سفر کے دوران آپ کو چوٹیں بھی لگیں، بیمار بھی ہوئے، غیر معیاری، ناموافق اور بے وقت کھانا بھی کھانا پڑا ملا۔ بعض جگہ گدلا پانی پینا پڑا۔ لیکن آپ خدا کی رضا میں محو رہے۔

یوں عملاً آپ نے بڑے بڑے سفر اختیار کئے: اول نواح قادیان میں گئے، اور اپنے دوسرے سفر میں پنجاب اور شمال مغربی ہندوستان کے علاقوں کا دورہ کیا اور اپنے تیسرے سفر میں قادیان سے مشرق اورجنوب کی طرف دُور دراز کی آبادیوں میں بسنے والے احمدیوں تک بصد دقت پہنچے اوراپنے للہی مقصد میں کامیاب و کامران ٹھہرے۔تیسرے سفر کا احوال کتاب کے حصہ دوم میں آئے گا۔ ان شاء اللہ

اس کتاب کاحصہ اول پہلی دفعہ جنوری 1910ء مطبع انوار احمدیہ قادیان سے 800 کی تعداد میں شائع کروایا، جس کی قیمت 2آنے مقرر ہوئی تھی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button