مکتوب افریقہ (جون۲۰۲۴ء) (بر اعظم افریقہ تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ)
سینیگال میں سمندر سے تیل کی پیداوار کا آغاز
۱۱؍جون ۲۰۲۴ء سے سینیگال میں پہلے آف شور آئل پراجیکٹ میں پیداوار شروع ہو گئی ہے۔ یہ پراجیکٹ ایک آسٹریلوی گروپ ووڈ سائیڈ انرجی کے پاس ہے۔Sangomar Oil Fields ساحل سمندر سے تقریباً ایک سو کلو میٹر دُور ہے۔ اس منصوبےسے یومیہ ایک لاکھ بیرل تیل پیدا ہو گا۔۲۰۱۴ءمیں سینیگال کے ساحل کے قریب سے تیل اور گیس کی دریافت نے امید پیدا کی ہے کہ یہ صنعت ترقی پذیر ملک کے لیے اربوں ڈالر کی آمدنی پیدا کر کے معیشت تبدیل کر سکتی ہے۔
حا ل ہی میں بر سر اقتدار آنے والی حکومت نے غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ تیل اور گیس کے معاہدوں پر نظرثانی کرنے کا وعدہ کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے قدرتی وسائل کے استحصال پر، جو آئین کے مطابق عوام کا ہے، حکومت کی طرف سے خصوصی توجہ دی جائے گی۔‘‘اس پراجیکٹ میں ووڈ سائیڈ انرجی کے پاس ۸۲؍فیصد حصص ہیں اور باقی بارہ فیصد سرکاری کمپنی پیٹروسن کے پاس ہیں۔
سینیگال کی تیل کی پیداوار نائیجیریا جیسے ممالک کی طرح بہت زیادہ ہونے کی امید نہیں۔ حکومت توقع کر رہی ہے کہ اگلی تین دہائیوں میں اس شعبے سے ہر سال ایک بلین ڈالرز سے زیادہ کی آمد ہو گی۔ملک کے پاس موریطانیہ کے ساتھ سرحد پر مائع قدرتی گیس کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جس کو اس سال کے آخر میں نکالنے کا منصوبہ شروع ہونا ہے۔اس پراجیکٹ میں پیٹروسین کے ساتھ برطانوی اور امریکی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ اس منصوبے سے ہر سال تقریباً اڑھائی ملین ٹن LNG پیدا ہو گی۔اس پراجیکٹ کا نام Greater Tortue Ahmeyim LNG Projectہے۔
یوگنڈا کو نوادرات کی واپسی
کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ نے ۸؍جو ن۲۰۲۴ء کو مشرقی افریقی ملک یوگنڈا کے ۳۹؍نوادرات بطور قرض واپس کر دیے ہیں۔ ان میں قبائلی نوادرات سے لے کر مٹی کے برتن تک شامل ہیں۔یہ اشیاکیمبرج کے Museum of Archaeology and Anthropology at Cambridgeکے ذخیرے میں شامل ہیں۔ انہیں ابتدائی طور پر تین سال کی مدت کے لیے یوگنڈا کوبطور قرض دیا گیا ہے۔یوگنڈا کی تقریباً پندرہ سو کے قریب نادر اور قدیم اشیاء گزشتہ ایک صدی سے کیمبرج کی ملکیت میں ہیں۔کیمبرج یونیورسٹی نے یہ اشیاء زیادہ تر نجی مجموعوں سے عطیات کے طور پر حاصل کیں۔ بہت سی اشیاءانیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں یوگنڈا میں کام کرنے والے انگریز پادری نے یونیورسٹی کو عطیہ کیںتھیں۔یوگنڈا نے ۱۹۶۲ءمیں برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی۔ان نوادرات کو اگلے سال دارالحکومت کمپالا میں یوگنڈا میوزیم میں نمائش میں پیش کیے جانےکی توقع ہے۔مقامی حکام کا کہنا ہےکہ یہ معاہدہ قابل تجدید ہے جس میں ان کو مستقل طور پر بطور قرض دینا اور شاید مقامی ملکیت کا حق دیے جانے کا بھی امکان ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی منکی پاکس کے متعلق رپورٹ اور جنوبی افریقہ میں دو افراد کی ہلاکت
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے ۳۱؍مئی ۲۰۲۴ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری ۲۰۲۲ءتا اپریل ۲۰۲۴ءمتعدد ممالک میں Mpoxکے تصدیق شدہ کیسز سامنے آئے ہیں۔اس عرصہ کے دوران WHO کے تمام چھ خطوں کے ۱۱۷؍ممالک میں ۱۸۶؍اموات بھی شامل ہیں۔لیبارٹری سے تصدیق شدہ کیسز کے اعتبار سے سب سے زیادہ متاثرہ خطوں میں امریکہ کا خطہ، افریقی علاقہ، یورپی علاقہ، جنوب مشرقی ایشیا کا علاقہ شامل تھا۔افریقہ میں سب سے زیادہ کیسز DRCمیں ہوئے۔جنوبی افریقہ ان ممالک میں شامل ہے جو اس وقت بھی Mpox کے پھیلنے کا سامنا کر رہے ہیں۔ جون ۲۰۲۴ء میں منکی پاکس سے دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ملک میں حال ہی میں چھ مزید کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔ یہ دو اموات چھ کیسز میں شامل ہیں۔محکمہ صحت کے حکام اس ضمن میں حفاظتی ٹیکوں کی مہم پربھی غور کر رہے ہیں۔یہ بیماری منکی پاکس وائرس (MPXV) کی وجہ سے ہوتی ہے، ایک orthopoxvirus جو جسمانی تعلق یا محض چھونے سے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ بعض تحقیقات کے مطابق مشرقی، وسطی اور مغربی افریقہ میں نامعلوم جانوروں سے بھی پھیل رہا ہے۔
تیونس میں پانی کی قلت ایک بحران کی شکل
شمال مغربی افریقی ملک تیونس خشک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔بارشیں کم ہی ہوتی ہیں۔جنوبی صحرائی حصہ خاص طور پر پانی کی قلت کا شکار رہتا ہے۔چند سالوں سےتیونس میں پانی کا بحران بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ طلب دستیاب رسد سے زیادہ ہے۔ National Company of Water Exploitation and Distribution کے مرکزی ڈائریکٹر چاکی بن منصور نے کہا ہے کہ ’’تیونس کے ڈیموں کے ذخائر ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ تیونس کے ڈیموں میں پانی کے ذخائر، جن کا تخمینہ تقریباً ۷۲۰؍ملین کیوبک میٹر ہے، میں گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً ۲۰۰؍ملین کیوبک میٹر کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے ‘‘۔چاکی بن منصور نے شہریوں سے پانی کےاستعمال میں بچت کرنے کی اپیل کی اور بتایا کہ ادارے نے اس ضمن میں ایک آگاہی مہم شروع کی ہے تاکہ شہریوں کو خشک سالی اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے پینے کے پانی کی سنگین صورتحال سے آگاہ کیا جا سکے۔پانی کے بگڑتے ہوئے بحران کی وجہ سے حکومت نے مارچ ۲۰۲۴ء میں پینے کے پانی کی قیمتوں میں سولہ فیصد تک اضافہ کیا تھا۔
موریطانیہ میں صدارتی انتخابات
موریطانیہ میں ۲۹؍جون ۲۰۲۴ء کو صدارتی انتخابات ہوئے۔موجودہ صدر محمد ولد غزوانی نے۵۶.۱۲؍فیصد ووٹ لے کر پانچ سالہ صدارتی مدت کے لیے اپنی دوسری اور آخری مدت کا انتخاب جیت لیا۔ مخالف امیدوار کو۲۲؍فیصد ووٹ مل سکے۔ محمد ولد غزوانی ایک ریٹائرڈ فوجی جرنیل ہیں جنہوں نے ۲۰۱۹ءمیں صدارت سنبھالی۔انہوں نے افریقن یونین کے چیئر مین کے طور پر بھی کام کیا ۔ ۲۰۰۸ء تا ۲۰۱۸ء وہ بطور آرمی چیف کام کرتے رہے۔ ۲۰۱۸ء سے ۲۰۱۹ء تک وزیر دفاع کے طور پر کام کیا۔ صدر محمد ولد غزوانی اپنے پیش رو محمد ولد عبد العزیز کے قریبی اتحادی تھے۔
ملاوی کے نائب صدر کی فضائی حادثہ میں ہلاکت
۱۱؍جون ۲۰۲۴ء کو ملاوی کے نائب صدر Saulos Chilima دیگر نو مسافروں کے ساتھ ہوائی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ان کا طیارہ Mzuzu انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈنگ کی ناکام کوشش کے بعد لاپتا ہو گیا۔ بعدازاں طیارے کا ملبہ دارالحکومت Lilongwe کے شمال میں ۳۸۰؍کلومیٹر دُور ایک جنگل میں پہاڑی کے قریب سے مل گیا۔طیارہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ملکی صدر نے صحافیوں کو بتایا کہ ایئر ٹریفک کنٹرول نے نائب صدر کے طیارے کو نہ اترنے کا مشورہ دیا تھا، اور خراب visibility کی وجہ سے دارالحکومت واپس جانے کی سفارش کی تھی۔ تاہم کچھ ہی دیر بعد، حکام کا طیارے سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ Chilimaکی عمر اکاون برس تھی اور وہ دوسری مرتبہ ملک کے نائب صدر کے طور پر کام کر رہے تھے۔
نمیبیا کی اعلیٰ عدالت نے ہم جنس پرستی کے خلاف قوانین کو کالعدم قرار دے دیا
نمیبیا کی ایک اعلیٰ عدالت نے ۲۱؍جون ۲۰۲۴ء کو نوآبادیاتی دور کے دو قوانین کو غیر آئینی قرار دے دیا جس میں مردوں کے درمیان ہم جنس پرستانہ فعل کو جرم قرار دیا گیا۔یہ مقدمہ نمیبیا کے فریڈل داؤساب نے برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم Human Dignity Trustکی مدد سے دائر کیا تھا۔ یہ قوانین ۱۹۲۷ءمیں نو آبادیاتی دور میں نافذ کیے گئے تھے جن میں مردوں کے درمیان ہم جنس پرستانہ کارروائیوں کو جرم قرار دیا گیا تھا۔نمیبیا کے ہمسائے ملک جنوبی افریقہ میں۲۰۰۶ء میں ہم جنس شادیوں کو جائز قرار دے دیا گیا۔ براعظم افریقہ میں جنوبی افریقہ واحد ملک ہے جس نے LGBTQ جوڑوں کو بچے گود لینے، شادی کرنے اور سول یونین میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔گذشتہ سال یوگنڈا نے سخت اینٹی LGBTQقانون نافذ کیا تھا جس کی مغربی ممالک نے بڑے پیمانے پر مذمت کی تھی۔
صومالیہ سے آنے والے تارکین وطن کی کشتی الٹنے سے ۴۹؍افراد ہلاک،۱۴۰؍لاپتا
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق۱۰؍جون کو یمن کے ساحل پر صومالیہ سے آنے والے ۲۶۰؍تارکین وطن کی کشتی الٹنے سے کم از کم ۴۹؍افراد ہلاک اور دیگر ۱۴۰؍لاپتا ہیں۔یہ کشتی بوساسو سے مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح تقریباً تین بجے روانہ ہوئی، جس میں ۱۱۵؍صومالی شہری اور ۱۴۵؍ایتھوپیائی باشندے سوار تھے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ یمن کے علاقے محافظة شبوة کے الغریف مقام کے قریب خلیج عدن میں کشتی الٹ گئی۔چھ بچوں سمیت۷۱؍زندہ بچ جانے والوں کو فوری طورپر طبی امداد فراہم کرنے کے لیے طبی ٹیموں کو بھجوایا گیا۔مقامی ماہی گیروں نے ان کو بچانے میں بہت تعاون کیا۔ سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہارن آف افریقہ سے یمن کی طرف تارکین وطن میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سخت موسم اور قحط سالیوں نے غریب عوام پر بہت اثر ڈالا ہے۔حا ل ہی میں جبوتی کے پاس دو بحری جہازوں کی تباہی میں کم از کم ۶۲؍تارکین وطن کی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
افریقن سینئر اتھلیٹکس چیمپین شپ
جون ۲۰۲۴ء میں کیمرون نےاپنے ملک میں دوسری مرتبہ افریقن سینئر ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کا انعقاد کیا۔چھ روزہ چیمپئن شپ کیمرون کے سب سے بڑےشہر DoualaکےJapoma اسٹیڈیم میں منعقد ہوئی۔ چیمپئن شپ مقابلہ جات کے ۲۳ویں ایڈیشن میں پورے براعظم سے تقریباً آٹھ صد ایتھلیٹس نے حصہ لیا۔ کھلاڑیوں کے مطابق سہولیات اور گراؤنڈز کا معیار بہت غیر معیاری تھا۔ مقابلہ جات میں جنوبی افریقہ نے بیس تمغوں کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی۔کینیا نے انیس تمغے جیتے اور نائیجیریا پندرہ تمغوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ افریقن سینئر اتھلیٹکس چیمپئن شپ کا اگلا ایڈیشن ۲۰۲۶ءمیں گھانا میں ہو گا۔
آلودگی سے لڑتا ہوا، دریائے نیل
دریائے نیل دنیا کا طویل ترین دریا ہے جو گیارہ ممالک کو فیضیاب کرتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کی لائف لائن آج شدید ماحولیاتی خطرے سے دوچار ہے۔ ماحولیاتی ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بار بار اور شدید گرمی کی لہریں نیل کے بہاؤ کو ۷۵؍فیصد تک کم کر سکتی ہیں۔پانی کے وسائل اور خوراک کے عدم تحفظ پر تنازعات کو بڑھا سکتی ہیں۔نیز پانی کے ساتھ رہنے والی شہری اور دیہاتی آبادی ہر طرح کا فضلہ،گندا اور زہریلامواد دریا میں بہا رہی ہے۔پلاسٹک کی مصنوعات اور دھاتوں کی باقیات آلودگی کی ایک بڑی مثال ہیں۔صرف مصر کےچند علاقوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ قاہرہ اور اسوان کے درمیان ۳۴؍بڑے صنعتی اداروں کے اخراج کی وجہ سےسالانہ تین سو ملین کیوبک میٹر سے زیادہ صنعتی مائع سیوریج دریائے نیل میں گرتاہے۔حکومت شہریوں پر آلودگی کو دریا میں پھینکنے اور عدم تعاون کا الزام عائد کرتی ہے اور شہری شکایت کرتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے فیکٹریوں کو اپنے فاضل مواد کی ری سائیکلنگ کے قوانین کا پابند نہیں کیا جارہا۔ماہرین کے مطابق نیل کو بچانے کے لیے مشترکہ اور منضبط کوششوں کی ضرورت ہے۔ قوانین کو سختی سے لاگوکرنے اور گندگی پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔