متفرق مضامین

حضرت مصلح موعودؓ کے احسانات طبقۂ نسواں پر از حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ

حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں تحریر کرتی ہیں: ہندوستان میں مستورات کی پستی ایک مسلّمہ چیز ہے۔بڑے بڑے اچھے اور با اخلاق لوگ بھی مستورات کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے یہ خیال کرتے تھے کہ وہ کوئی بڑی نیکی کا کام کر رہے ہیں۔اُن کی دینی یا دنیاوی بہبود کی طرف توجہ کرنےکا کیا ذکر حالانکہ محض بچوں کی تربیت کا ہی سارا بار نہیں بلکہ قوموں کی تربیت میں بھی عورت کا ہاتھ ایک بڑا نمایاں کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔بایں ہمہ عورتوں کا وجود مردوں کی طرف سے نا قابل التفات رہا مگر خوش قسمتی سے طبقۂ نسواں کے لئے حضور امیر المؤمنین ایّدہ اللہ بنصرہ العزیز [حضرت مصلح موعودؓ]کا وجود باجود ایک ابرِرحمت ثابت ہوا۔حضور نے عورتوں کے حصہ کی تمام شقوں کو کامل طور پر قائم فرمایا۔مثلاً شریعت کےقیام کے لئے مردوں کے ساتھ عورتوں کو برابر کا حصہ دار قرار دیا ہے۔سلسلہ عالیہ احمدیہ میں بھی ایک زمانہ تک مستورات کی طرف پوری توجہ نہیں ہوئی۔اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے طرز عمل سے اپنے گھر میں وہ تمام حقوق دے رکھے تھے جو شریعت حقہ کی رُو سے مستورات کو مل سکتےتھے۔مگر عام لوگوں کی توجہ اس طرف نہ تھی۔لیکن حضرت امیر المؤمنین ایّدہ اللہ بنصرہ العزیز[حضرت مصلح موعودؓ]نےمستورات سلسلہ کو اس قدر بلند کیا کہ وہ ہمیشہ کے لئےآپؓ کی ذات کے طفیل سر بلند ہو گئیں۔چنانچہ سب سے پہلا احسان لجنہ اماء اللہ کا قیام ہے۔1922ء میں آپ نےلجنہ اماء اللہ یعنی احمدی مستورات کی ایک انجمن قائم کی۔اس انجمن کے ذریعہ آپ نے مستورات کی تربیت فرما کر ان میں احساس پیدا کیا کہ وہ بھی بنی نوع انسان کا ایک جزو لاینفک ہیں اورقوموں کی ترقی وتنزل میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔ان میں آپ نے علمی مذاق پیدا کیا۔اُن کو اجتماع کی برکات بتلائیں۔ان میں اپنی قوتوں سے کام لینے کے ڈھنگ سکھلائےاوران کو لجنہ کےذریعہ فن تقریر سے آگاہ کیا۔(گل ہائے محبت صفحہ ۱)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button