خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍اگست ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے موضوع کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء:59)یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ امانت ان کے اہل کے سپرد کرو۔پھر ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ کوئی عہدہ اورایسامقام جس میں لوگوں کے معاملات دیکھنے کااختیاردیاگیاہو یا لوگوں کا نگران مقرر کیا گیا ہوتو یہ بھی ایک امانت ہے ،پس اس لحاظ سے ہمارے جماعتی نظام میں بھی ہر عہدہ یا کوئی خدمت جس پر کسی کو مامور کیا جاتا ہے امانت ہیں۔ہماری جماعت میں جماعتی نظام میں ہر سطح پر ہم اپنے عہدیدار منتخب کرتے ہیں،مقامی سطح سے لے کر مرکزی، ملکی سطح تک۔اسی طرح مرکز میں ہیں،پھر ذیلی تنظیموں میں اسی ترتیب سے مقرر کیے جاتے ہیں،اور عموماًیہ انتخاب کے ذریعے ہوتا ہے ۔پس اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب تم یہ عہدیدار منتخب کروتو ایسے لوگوں کو منتخب کروجو بظاہر نظریعنی تمہاری نظر میں اس کام کے لیے بہترین ہیں۔اور اپنے کام کی امانت کا حق ادا کرسکتے ہیں۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعتی عہدیداران کومنتخب کرنے کے کیامعیاربیان فرمائے ؟
جواب: فرمایا: ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے میں سے بہترین لوگ منتخب کریں اور دعا کر کے منتخب کریں۔بہرحال عام طور پر یہ کوشش ہوتی ہے کہ جو شخص کسی کام کے لیے مقرر کیا جا رہا ہے وہ ایسا نہ ہو جوآگے بڑھ بڑھ کر صرف اس لیے آ رہا ہے کہ میں عہدیدار بن جاؤں۔اگر بعض دفعہ ایسے شخص کا نام جماعت کے افراد کی طرف سے کسی عہدے کے لیے تجویز ہو کر آ بھی جائے تو مرکزکویا خلیفہ وقت کو اگر اس کے حالات کا پتا ہو تو اسے کام نہیں دیا جاتا۔اور یہ بات عین آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہے ۔ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے رُو برو دو شخص آئے اور کہا کہ ہمیں فلاں کام سپرد کردیا جائے ہم اس کے اہل ہیں آپﷺ نے فرمایا کہ جس کو میں کسی کام کے لیے مقرر کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور جو خواہش کر کے خود کام اپنے سر پر لے تو اس کی پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نہیں ہوتی اس کے کام میں برکت نہیں پڑتی۔اس لیے کبھی عہدے کی خواہش کر کے عہدہ لینے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے ،ہاں خدمت دین کا شوق ضرور ہونا چاہیے مجھے موقع ملے میں خدمت دین کروں،اور یہ خدمت کسی بھی رنگ میں ملے اسے بجالانے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے ۔پس عہدے کی خواہش کرنا،کسی کام کا نگران بن کر اسے کرنے کی خواہش کرنا پسندیدہ نہیں ہے ،ہاں خدمت کا جذبہ ہونا چاہیے ،چاہے وہ کسی بھی رنگ میں ہویہ پسندیدہ امر ہے ۔پس یہ باتیں منتخب کرنے والوں کو بھی ہمیشہ سامنے رکھنی چاہئیں۔قرآن کریم کے حکم کو اور آنحضرتﷺ کے ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ تمہاری نظر میں دعا کے بعد جو اہل ترین لوگ ہیں کسی خدمت کے لیے انہیں منتخب کرو۔ اور دوسرے یہ کہ اگر کوئی کسی عہدے کے لیے خواہش رکھتا ہو تو جماعتی نظام میں اور ہر انتخابی فورم میں اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اورمنتخب کرنے والے کوانصاف سے اپناانتخاب کرنے کاحق استعمال کرناچاہیے ۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ذیلی تنظیموں کے انتخاب کی بابت کیاہدایت فرمائی؟
جواب: فرمایا:عموماً انتخاب کا یہ طریق ہے کہ ملکی مرکزی سطح پر عہدیداران کے منتخب کرنے کی رائے انتخاب کے نتائج کے ساتھ خلیفہ وقت کو پیش کی جاتی ہے اور خلیفہ وقت کو اختیار ہے کہ وہ چاہے کثرت رائے سے پیش کیے ہوئے نام کو منتخب کرے یاکسی کم ووٹ حاصل کرنے والے کو منتخب کرے۔ بعض دفعہ اس شخص کے بارہ میں بعض معلومات اور بعض ایسے حالات کا مرکز اورخلیفہ وقت کو علم ہوتا ہے اور عام آدمی کو نہیں ہوتا تو بہرحال یہ ضروری نہیں ہے کہ کثرت رائے والے کو ضرورمنتخب کیا جائے اسی طرح ملکی جماعتوں کے جو انتخاب ہیں ان میں حسب قواعد بعض کی منظوری مقامی مرکزی انتظامیہ دے دیتی ہے اور اگرکوئی تبدیلی کرنی ہو توخلیفہ وقت سے پوچھ لیتے ہیں کوشش تو بہرحال یہ کی جاتی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اچھے کام کرنے والے عہدیدار میسر آئیں۔لیکن بعض جگہ جس قسم کے لوگ میسر ہیں ان میں سے ہی منتخب کرنے پڑتے ہیں۔لیکن یہاں پھر چننے والوں کو، منتخب کرنے والوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ امانت کا اپنی استعدادوں کے مطابق بہترین رنگ میں حق ادا کرنے والے لوگ منتخب ہوں،اور کبھی کسی خواہش کرنے والے کو یا دوستی کی وجہ سے یا رشتہ داری کی وجہ سے یا یہ دیکھ کر رائے نہیں دینی چاہیے کہ اکثر ہاتھ کسی شخص کے لیے کھڑے ہوئے ہیں تو میں بھی اپنا ہاتھ کھڑا کر دوں۔یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نفی ہے اور آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی نفی ہے۔ گو جماعتی مرکزی نظام کے انتخابات تو اس سال نہیں ہونے ہو چکے ہیں لیکن ذیلی تنظیموں کے انتخابات ہونے ہیں بعض جگہ انصار کے ، خدام کے ،لجنہ کے تو ان تنظیموں کے ممبران کو چاہیے کہ جو بھی مجلس انتخاب کے ممبر بنیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا رائے دہی کا حق استعمال کریں۔اور دعا کے بعد اور انصاف سے اپنی نظر میں بہترین شخص کی سفارش خلیفہ وقت کو پیش کریں۔اگر ہم انصاف کے ساتھ اپنے اس فریضے کو سر انجام دینے والے بن جائیں گے تو تبھی جماعتی ترقی میں ہمارا کردار مثبت ہو گا،اور ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو جائیں گے ۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عہدیداران کوان کے کام اورذمہ داریوں کے حوالہ سے کیاہدایت فرمائی؟
جواب: فرمایا: میں عہدیداروں کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں بےشک جماعتی عہدیدار منتخب ہو چکے ہیں لیکن انہیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا ہے تو اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں ہر قسم کے ذاتی مفاد سے بالا ہو کر اپنے کام کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سر انجام دینا چاہیے۔ بعض عہدیداروں کے متعلق شکایات آتی ہیں کہ ان کے رویوں میں عاجزی نہیں ہوتی اور ایسا اظہار ہوتا ہے جیسے اس عہدہ کے بعدوہ کوئی غیر معمولی شخصیت بن گئے ہیں،میں یہ تو نہیں کہتا کہ فرعونیت پیدا ہو گئی۔ لیکن بہرحال اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتے ہیں خاص طور پر جن عہدیداروں کو نامزد کیا جاتا ہے ۔اور وہ واقف زندگی بھی ہیں ان میں اگر یہ بات پیدا ہو تو یہ بالکل قابل برداشت نہیں۔بعض واقفین زندگی کو جنرل سیکرٹری بنایا گیا تو ان کے بارہ میں شکایت ہے کہ بڑا متکبرانہ رویہ ہے سلام تک کا جواب نہیں دیتے ایسے رویے دکھانے والے اپنی اصلاح کریں اور اللہ تعالیٰ نے جو خدمت کا موقع دیا ہے تو زمین پر جھکیں،اور ہر بچے بڑے سے پیار اورعاجزی سے ملیں۔آپ کو مقرر کیا گیا ہے کہ افراد جماعت کی خدمت کریں نہ یہ کہ ان پر کسی قسم کی افسر شاہی کا رعب ڈالیں۔پھر بعض ایسے ہیں جو اپنے کام ہی صحیح طرح انجام نہیں دیتے یہاں میری طرف سے بھی بعض معاملات رپورٹ کے لیے جاتے ہیں تو ان کے دراز میں پڑے رہتے ہیں جب تک یاددہانی نہ کراؤ دوبارہ نہ پوچھو اور چھ مہینے بعد ایک معافی نامہ لکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے سے غلطی ہو گئی کہ ہم ان پر بروقت کارروائی نہیں کر سکے ۔اگر مرکز کے خطوط کے ساتھ،خلیفہ وقت کے خطوں کے ساتھ ان کا یہ سلوک ہے اور یہ رویہ ہے تو پھر عام فرد جماعت کے متعلق ان سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ نیک سلوک کرتے ہوں گے ،ان لوگوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے ورنہ ان کو خدمت سے فارغ کر دیا جائے گا۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عہدیداران کواحباب جماعت کے لیے نمونہ بننے کے حوالہ سے کیاہدایت فرمائی؟
جواب: فرمایا:عہدیداران کو بعض اور ذمہ داریوں کی طرف بھی میں توجہ دلانا چاہوں گاایک تو یہی کہ اپنے اندر عاجزی پیدا کریں اور جو ذمہ داری دی گئی ہے اسے اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ہر وقت یہ ذہن میں رہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے اوپر نگران ہے وہ ہماری ہر حرکت دیکھ رہا ہے ۔کوئی عہدہ ملنے کے بعد ہم ہر قسم کی بندشوں سے آزاد نہیں ہو گئے بلکہ ہم خدا تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے زیادہ آگئے ہیں۔لوگوں نے ہمیں منتخب کیا ہے ہم پر اعتماد کر کے خلیفہ وقت نے ہمیں اس خدمت کے لیے منظور کیا ہے تو ہمیں اس اعتماد کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اوراپنی تمام ترصلاحیتیں اس خدمت کو بہترین رنگ میں ادا کرنے کے لیے صرف کرنی ہیں،یہ سوچ ہو گی تو تبھی صحیح کام کرنے کی روح بھی پیدا ہو گی اور افراد جماعت کا بھی تعاون رہے گا۔اکثر عہدیدار جو شکایت کرتے ہیں کہ بعض شعبوں میں افراد جماعت تعاون نہیں کرتے ۔بے شک یہ افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں کو انہوں نے خود خدمت کے لیے چنا ہے ان سے تعاون بھی کریں۔لیکن ساتھ ہی عہدیداران کا بھی کام ہے کہ اپنی بہترین مثالیں لوگوں کے سامنے قائم کریں۔اب ایک عہدیدار کی رپورٹ ملی کہ وہ اپنی آمد پر صحیح چندہ نہیں دیتا اور نہ ہی کم شرح سے چندہ ادا کرنے کی اجازت لینی چاہتا ہے تو ایسا شخص پھر دوسروں کے لیے کیا نمونہ پیش کرے گا؟دوسروں کو کس طرح کہے گا کہ مالی قربانی کرو؟پس اپنے ذاتی نمونے بہت ضروری ہیں۔بہت زیادہ استغفار کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے کی ضرورت ہے ،اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے ۔اگر ایک سیکرٹری تربیت خود پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتا تو دوسروں کو کس طرح تلقین کرسکتا ہے کہ نمازوں کی طرف توجہ دو۔اسی طرح ایک واقف زندگی اور مربی خود نوافل ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہاتو افراد جماعت کو وہ کس طرح نصیحت کرسکتا ہے کہ عبادتوں کی طرف توجہ کرو۔حضرت مسیح موعودؑ نے اسی طرف تو ہماری توجہ دلائی ہے کہ غیر احمدی مولوی نصیحت کرتا ہے لیکن اس کے عمل اس کی نصیحت کے مطابق نہیں ہیں۔اس لیے اس کی باتوں کا اثر نہیں ہوتا۔پس ہمارے لیے تو ہر لمحہ بڑی فکر سے گزارنے کی ضرورت ہے ۔ہر قدم بڑا پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے ۔جب یہ ہوگاتب ہی ہم اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے ۔سیکرٹریان تربیت اگر اپنے نمونے قائم کرتے ہوئے پیار اور محبت کے ساتھ جماعت کی تربیت کریں تو افراد جماعت میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں۔ہر عہدیدار کو اپنے شعبے کی بہتری کے لیے کم ازکم دو نوافل بھی روزانہ پڑھنے چاہئیںکہ اللہ تعالیٰ برکت عطافرمائے ۔اگر تربیت کا شعبہ فعال ہوجائے توباقی شعبے خود بخود میرے اندازہ کے مطابق کم از کم ستر فیصد تک بہتر رنگ میں کام کرنا شروع کردیں گے ۔
سوال نمبر۶:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امانتوں اورعہدوں کے حقوق اداکرنے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: مومن وہ ہیں جواپنی امانتوں اورعہدوں کی رعایت رکھتے ہیں۔یعنی ادائے امانت اورایفائے عہدکے بارہ میں کوئی دقیقہ تقویٰ اوراحتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے ۔پھرآپؑ فرماتے ہیں:انسان کی پیدائش میں دوقسم کے حسن ہیں۔ایک حسن معاملہ اوروہ یہ کہ انسان خداتعالیٰ کی تمام امانتوں اورعہدکے اداکرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی عمل حتی الوسع ان کے متعلق فوت نہ ہو،امانتوں کے حق ادا کرنے میں کوئی عمل ضائع نہ ہو…ایساہی لازم ہے فرمایاکہ انسان مخلوق کی امانتوں اورعہدکی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے ۔یعنی حقوق اللہ اورحقوق عبادمیں تقویٰ سے کام لے ۔جوحسن معاملہ ہے یایوں کہوکہ روحانی خوبصورتی ہے ۔پس ہرعہدیدارکویہ بات یادرکھنی چاہیے ،ہم نے اپنے اندرروحانی خوبصورتی پیداکرنی ہے۔ہم خاص طور پر یہ عہدیدار سب سے زیادہ حضرت مسیح موعودؑ کی ان باتوں کے مخاطب ہیں ۔ہراحمدی تقویٰ پرچلنے اوردین کودنیاپرمقدم کرنے کاعہدکرتاہے ۔لیکن عہدیداروں اوروہ جن کے سپردجماعتی خدمات ہیں وہ سب سے زیادہ اس بات کے مخاطب اورذمہ دارہیں کہ اپنے عہدوں اورامانتوں کی حفاظت کریں۔جوہمارے سپردذمہ داریاں ہیں انہیں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اپنی تمام ترصلاحیتوں کے ساتھ اداکرنے کی کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کواس کی توفیق عطا فرمائے ۔