حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نمازوں سے متعلق بعض مسائل اور آداب (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍ جنوری ۲۰۱۷ء)

پھر ایک سوال ہوتا ہے کہ نماز میں انسان قیام میں ہاتھ باندھ کر جب کھڑا ہوتا ہے تو اُس وقت ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ  لکھتے ہیں کہ مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کے پاس کسی کا خط آیا (کیونکہ بعض لوگ ناف سے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں، بعض درمیان میں رکھتے ہیں، بعض بہت زیادہ اوپر رکھتے ہیں تو اس بارے میں حضرت خلیفہ اول کے پاس ایک خط آیا کہ جب انسان نماز کے لئے نیت باندھ کے کھڑا ہو تو اس وقت ہاتھ کس طرح باندھنے ہیں۔ خط آیا) کہ کیا نماز میں ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی ہے؟ حضرت مولوی صاحب نے یہ خط حضرت صاحب کے سامنے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے) پیش کیا اور عرض کیا کہ اس بارہ میں جو حدیثیں ملتی ہیں وہ جرح سے خالی نہیں۔ (ان پر بحث ہوئی ہوئی ہے۔ کوئی ان کو صحیح کہتا ہے کوئی غلط کہتا ہے۔) حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ تلاش کریں۔ ضرور مل جائے گی۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ) کیونکہ باوجود اس کے کہ شروع عمر میں بھی ہمارے ارد گرد سب حنفی تھے مجھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کبھی پسندنہیں ہوا۔ (اپنے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے کبھی پسندنہیں ہوا کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوں ) بلکہ ہمیشہ طبیعت کا میلان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی طرف رہا ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ) اور ہم نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ جس بات کی طرف ہماری طبیعت کا میلان ہو وہ تلاش کرنے سے ضرور حدیث میں نکل آتی ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ) خواہ ہم کو پہلے اس کا علم نہ ہو۔ پس (آپؑ نے حضرت خلیفہ اول کو فرمایا کہ) آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی۔ (کیونکہ میرا میلان جس طرف ہے عموماً میں نے دیکھا ہے کہ حدیثیں اس بارے میں مل جاتی ہیں۔) مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس پر حضرت مولوی صاحبؓ گئے اور کوئی آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ خوش خوش ایک کتاب ہاتھ میں لئے آئے اور حضرت صاحب کو اطلاع دی کہ حضور حدیث مل گئی ہے اور حدیث بھی ایسی ہے کہ جو علی شرط الشیخین ہے (یعنی اس پہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر دونوں کا صاد ہے اور یہ امام بخاری اور مسلم کی شرط پہ ہے) جس پر کوئی جرح نہیں ہے۔ (اس پہ کوئی بحث نہیں ہے۔) پھر کہا کہ یہ حضورؑ ہی کے ارشاد کی برکت ہے۔ (یعنی یہی حدیث ملی کہ ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل زیادہ تھا۔) (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 92 روایت نمبر 115)

حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ نماز میں ہاتھ کس جگہ باندھیں؟ (بعض لوگ باریکیوں میں پڑ جاتے ہیں اور اسی چیز کو لے بیٹھتے ہیں۔ ایک جگہ تو آپ نے یہ بحث فرمائی، یہ ہدایت فرمائی کہ تلاش کریں ضرور مل جائے گی کیونکہ میرا رجحان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے میں ہے۔ دوسری جگہ ایک اور شخص نے آ کر سوال کیا اور وہاں اصلاح مطلوب تھی تو اس کو آپؑ نے جواب دیا کہ) ’’ظاہری آداب بھی ضروری ہیں۔‘‘ (ٹھیک ہے نماز کے ظاہری آداب ہیں وہ ضروری ہیں ) آپؑ نے فرمایا کہ ’’مگر زیادہ توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نماز میں رکھنی چاہئے‘‘۔ (اصحابِ احمد جلد 10 صفحہ 246۔ نیاایڈیشن بحوالہ فقہ المسیح صفحہ 77)۔ یہ چیزیں بھی ٹھیک ہیں لیکن اپنی توجہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رکھو جو بنیادی مقصد ہے۔

پھرایک دفعہ تشہد میں انگلی اٹھانے کے متعلق سوال ہوا۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ التحیات کے وقت نماز میں انگشت سبابہ کیوں اٹھاتے ہیں؟ (یعنی شہادت کی انگلی)۔ تو آپ نے فرمایا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں گالیوں کے واسطے یہ انگلی اٹھایا کرتے تھے۔ (گالی دینی ہوتی تھی تو یہ انگلی اٹھاتے تھے) اس لئے اس کو سبابہ کہتے ہیں یعنی گالی دینے والی (انگلی)۔ خدا تعالیٰ نے عرب کی اصلاح فرمائی اور وہ عادت ہٹا کر فرمایا کہ خدا کو واحد لاشریک کہتے وقت یہ انگلی اٹھایا کرو تا کہ اس سے وہ الزام اٹھ جائے۔ یعنی اس کا نام جو غلط رکھا ہے گالیاں دینے والی انگلی یہ گالیاں دینے والی انگلی نہ رہے بلکہ شہادت کی انگلی ہو جاوے۔ (آپؑ فرماتے ہیں کہ) ایسے ہی عرب کے لوگ پانچ وقت شراب پیتے تھے۔ اس کے عوض میں پانچ وقت نماز رکھی۔ (البدر 20 فروری 1903ء صفحہ 66 جلد 2 نمبر 9)

پھر رکوع و سجود میں قرآنی دعا کرنے کے بارے میں سوال ہوا۔ مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی نے سوال کیاکہ رکوع و سجود میں قرآنی آیات یا دعا کا پڑھنا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے (عاجزی کا وقت ہے) اور خدا تعالیٰ کا کلام عظمت چاہتا ہے۔ ماسوا اس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دعا پڑھی ہو۔ (الحکم 24 اپریل 1903ء صفحہ 11 جلد 7 نمبر18)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اس بارے میں فرماتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور سیدنا مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دعا نماز میں بہت کرنی چاہئے۔ نیز فرمایا اپنی زبان میں دعا کرنی چاہئے۔ لیکن جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس کو انہیں الفاظ میں پڑھنا چاہئے۔ مثلاً رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اور سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ۔ وغیرہ پڑھ کر اور اس کے بعد بیشک اپنی زبان میں دعا کی جائے۔ نیز فرمایا کہ رکوع اور سجدہ کی حالت میں قرآنی دعا نہ کی جائے کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اور رکوع اور سجدہ تذلّل کی حالت ہے۔ اس لئے کلام الٰہی کا احترام کرنا چاہئے۔ (سیرت المہدی جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 166-167 روایت نمبر 1243)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے کسی نے ایک دفعہ سوال کیا کہ سجدے میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا کیوں ناجائز ہے ؟جبکہ سجدہ انتہائی تذلّل کا مقام ہے (یعنی عاجزی کا مقام ہے۔ انتہائی تذلّل کا مقام ہے تو اس میں تو پڑھنی چاہئیں تا کہ قبول ہوں۔) تو آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میرا تو یہی عقیدہ رہا ہے کہ سجدے میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا جائز ہے۔ لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسا حوالہ ملا جس میں آپ نے سجدے کی حالت میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا ناجائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح مسند احمد بن حنبل میں بھی اسی مضمون کی ایک حدیث مل گئی۔ آپ فرماتے ہیں لیکن اگر میرے عقیدے کے خلاف یہ امور نہ ملتے تب بھی یہ دلیل’’ (اس نے جو دلیل دے کے تذلّل کی حالت کا سوال پوچھا ہے) ’’مَیں معقول قرار نہ دیتا کہ سجدہ جب انتہائی تذلل کا مقام ہے تو قرآنی دعاؤں کا سجدے کی حالت میں پڑھنا جائز ہونا چاہئے۔ (یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر آپ کہتے ہیں۔ مزید وضاحت فرمائی ہے کہ یہ) امام مالک کا عقیدہ تھا کہ سمندر کی (پانی کی) ہر چیز حلال ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ سمندر میں سؤر بھی ہوتا ہے۔ کیا اس کا کھانا بھی جائز ہے۔ تو امام مالک نے فرمایا کہ سمندر کی ہر چیز کھانی جائز ہے مگر سؤر حرام ہے۔ اس نے بار بار یہی سوال کیا مگر آپ نے فرمایا اس سوال کا یہی جواب دے سکتا ہوں کہ سمندر کی ہر چیز حلال ہے مگر سؤر حرام ہے۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ فرماتے ہیں کہ یہی جواب مَیں دیتا ہوں کہ سجدہ بیشک تذلّل کا مقام ہے مگر قرآن کریم کی چیزیں، اس کی دعائیں سجدے کی حالت میں نہیں پڑھنی چاہئیں۔ دعا انسان کو نیچے کی طرف لے جاتی ہے اور قرآن انسان کو اوپر کی طرف لے جاتا ہے۔ اس لئے قرآنی دعاؤں کا سجدے کی حالت میں مانگنا ناجائز ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بات مل گئی تو پھر اس کے خلاف طریق اختیار کرنا درست نہیں گو وہ ہماری عقل میں نہ ہی آئے۔ (الفضل 16؍اپریل 1944ء صفحہ 1-2 جلد 32 نمبر 88)۔ ہم نے تو اس کے مطابق عمل کرنا ہے جو حکم ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button