تقریر جلسہ سالانہ

تقریر برموقع جلسہ سالانہ امریکہ ۲۰۲۴ء: ذکر حبیبؑ۔ اخلاق احمد علیہ السلام

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰٮہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا۔ (سورۃ الفتح:30)محمد رسول اللہؐ اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کفار کے مقابل پر بہت سخت ہیں (اور) آپس میں بے انتہا رحم کرنے والے۔ تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا۔ وہ اللہ ہی سے فضل اور رضا چاہتے ہیں۔

وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ وَمَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِیۡمٍ۔ (حٰمٓ السجدہ آیات 35 تا 36)ترجمہ : نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی۔ اور تو برائی کا جواب نہایت نیک سلوک سے دے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ شخص کہ اس کے اور تیرے درمیان عداوت پائی جاتی ہےوہ تیرے حسن سلوک کو دیکھ کر ایک گرم جوش دوست بن جائے گا۔اور یہ مقام عطا نہیں کیا جاتا مگر اُن لوگوں کو جنہوں نے صبر کیا۔ اور یہ مقام عطا نہیں کیا جاتا مگر اُسے جو بڑے نصیب والا ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب صحابہؓ ایک دوسرے سے ملتے تو کہتے تھے کہ اِجْلِسْ بِنَا نُؤمِنْ سَاعَةً۔(صحیح بخاری کتاب الایمان باب بنی الاسلام علی خمس )یعنی آؤ !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے اپنے ایمان تازہ کریں۔

اسی طرح آج کی اس مجلس میں ہم بھی،اسی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے ایمانوں کو تازہ کریں گے۔ خاکسار اس وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق عالیہ کی ایک جھلک آپ کے سامنے رکھے گاجوکہ دراصل اخلاق محمدیہؐ کی ہی ایک جھلک ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت حدیثوں میں یہ نشانی بھی آئی ہے کہ مہدی موعود خَلق اور خُلُق میں آنحضرتﷺ کا ہم رنگ ہو گا۔ آپ علیہ السلام اس بارے میں خطبہ الہامیہ میں فرماتے ہیں :مَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ الْمُصْطَفٰی فَمَاعَرَفَنِیْ وَمَا رَاٰی (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259)یعنی جس نے مجھ میں، اور محمد مصطفیٰﷺ میں تفریق کی اس نے نہ تو مجھے پہچانا ہے اور نہ ہی (حقیقت حال کو) دیکھا ہے۔

پس رسول اللہﷺ کی سنت اور آپؐ کے اسوہ کی کامل پیروی سے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے آقا و مولیٰ آنحضرتﷺ سے ایسی یگانگت رکھتے ہیں کہ آپ کی سیرت اخلاق محمدؐ ہی کا عکس اور پرتَو ہیں۔

اسی لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:

احمدؑ کو محمدؐ سے تم کیسے جدا سمجھے

آپ علیہ السلام کا ہر فعل، ہر قول، ہر عمل، آپ کی ہر حرکت و سکون اپنے پیارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہی تھی۔ اور آپؑ کے اخلاق عالیہ کی باتیں سن کر ہم بجا طور پر کہہ سکیں گے کہ

ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے

اس قسم کی مجالس کے بارے میں آنحضرتﷺ نے اپنے ایک صحابی عبداللہ بن رواحہؓ کے بارے میں فرمایا کہ وہ تو ایسی مجالس کو پسند کرتا ہے (یعنی ذکرِ حبیب) جس پر فرشتے بھی فخر کرتے ہیں۔ (رواہ الامام احمد 13796)

خاکسار نے جب گذشتہ ریکارڈ دیکھا تو معلوم ہوا کہ خلافت اولیٰ میں جب 1913ء میں جلسہ سالانہ ہوا تو اس موضوع ’’ذکر حبیب‘‘ پر پہلی مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے تقریر فرمائی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جماعت احمدیہ میں خدا کے فضل سے شروع ہوا۔ (الفضل انٹرنیشنل 27؍جولائی تا 12 اگست 2021ء صفحہ 11)

سامعین کرام ! یہ زمانہ آخرین کا وہی زمانہ ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’معاملات شدت اختیار کر جائیں گے۔ دنیا اخلاقی پستی میں بڑھتی چلی جائے گی اور لوگ حرص و بخل میں ترقی کرتے چلے جائیں گے۔ ‘‘(ابن ماجہ کتاب الفتن۔ الفضل 16؍اپریل 2024ء صفحہ 1)

پھر یہ وہی زمانہ ہے جس کے متعلق مخبر صادق ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے خبر دی تھی کہ میری امت پر بھی ایک ایسا وقت آئے گا کہ ان میں اسلام صرف نام کا رہ جائے گا۔ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ایسی جماعت پیدا کرنے کے لیے مبعوث فرمایا جو آنحضرتﷺ اور صحابہؓ  کا نمونہ اور رنگ رکھنے والی ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ آخرین کی اس جماعت کو بنانے کی غرض یوں بیان فرماتے ہیں:’’ اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بےجا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دِقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہیے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لیے دردِ دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔ جیسے دنیاکے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑ تی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 99۔ایڈیشن 1988ء)

سامعین کرام !اللہ تعالیٰ نے بہت سے الہامات میں بھی آپؑ کے اعلیٰ اخلاق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ آپؑ کو مخاطب کرکے فرمایا:تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَ تَرَحَّمْ عَلَيْهِمْ یعنی لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور ان پر رحم کر۔(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ605)اور فرمایا: يَا أَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْکَ اے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی ہے۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ267)

ان الہامات سے واضح ہوتا ہے کہ آپؑ کی زندگی میں ایسے واقعات اور حالات پیش آنے والے تھے کہ آپ کے اس خُلق کا ظہور ہو گا۔ اور وہ ہوا۔ چنانچہ آپؑ کی زندگی کے بہت سے واقعات اس کی زبردست شہادت ہیں کہ دنیا کے معاملات میں آپ کو کسی پر غصہ نہ آتا اور آپ اپنے خطا کاروں کو موقع اور محل کے لحاظ سے ہمیشہ معاف کر دیتے تھے آپ نے بے محل اس خُلق کا کبھی استعمال نہیں کیا اگر آپ کسی پر غصہ اور خفا ہوئے تو وہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب قرآن مجید کے لیے غیرت کا مقام ہوتا تھا نہ کہ کچھ اور۔

چند مثالیں پیش خدمت ہیں جو اخلاق احمدؑ پر بڑے احسن رنگ میں روشنی ڈالتی ہیں کہ آپ کے ساتھ خواہ کیسا ہی ناروا، استہزا سے پُر، ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا، لیکن آپ اخلاق محمدیؐ سے ایک لحظہ کے لیے بھی جدا نہ ہوئے۔

ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگا کہ میں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعویٰ کی تحقیق کے لیے آیا ہوں اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور وہ بڑے تکلف سے خوب بنا بناکر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتاتھا۔ اس کے جواب میں جو حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کرکہنے لگا کہ آپ کومسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر آپ الفاظ کا تلفظ بھی اچھی طرح نہیں ادا کر سکتے۔ اس وقت مولوی عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ بھی مجلس میں حضرت صاحبؑ کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آ گیا اور انہوں نے اِسی جوش میں اُس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مولوی عبداللطیف صاحب کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور پھر کسی دوسرے وقت جبکہ مولوی عبداللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے فرمانے لگے کہ اُس وقت مولوی صاحب کوبہت غصہ آ گیا تھا۔ چنانچہ میں نے اِسی ڈر سے کہ کہیں وہ اِس غصہ میں اُس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا۔(سیرت المہدی از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ جلد اول حصہ دوم صفحہ337 روایت نمبر 366)

حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحبؓ سے جب یہ واقعہ پیش آیا، تو حضرت علیہ السلام نے اپنی جماعت موجودہ کو خطاب کر کے فرمایا:’’میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ و شتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا کرنا چاہئے۔ کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے۔ ہمارا کیا حق ہے کہ ہم اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مریدوں سے چاہتے ہیں۔ یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے باتیں کر یں۔‘‘وہی ہندوستانی مولوی پھر کچھ دن اور ٹھہرے۔ اور صبح و شام حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کرتے رہے اور جواب سنتے رہے۔

ایک موقع پر ان مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان الفاظ میں کلام کیا:’’میں سچ عرض کرتا ہوں کہ مَیں بہت بُرا ارادہ کر کے آیا تھا۔ کہ میں آپ سے استہزا کروں اور گستاخی کروں۔ مگر خدا نے میرے ارادہ کو ردّ کر دیا۔ میں اب اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ کہ جو فتویٰ آپ کے خلاف دیا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے…اور میں کسی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ آپ مسیح موعود ہیں۔ جہاں تک میری عقل اور سمجھ تھی۔ میں نے آپ سے فیض حاصل کیا ہے۔ اور جو کچھ میں نے سمجھا ہے۔ میں ان لوگوں پر ظاہر کروں گا۔ جنہوں نے مجھے منتخب کر کے بھیجا ہے۔ کل میری اور رائے تھی اور آج اور ہے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 451تا 453)

حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص جو دنیا کے فقیروں اور سجادہ نشینوں کا شیفتہ اور خُوکردہ تھا۔ہماری مسجد میں آیا۔ لوگوں کو آزادی سے آپؑ سے گفتگو کرتے دیکھ کر حیران ہوگیا۔ آپ سے کہا۔ کہ آپ کی مسجد میں ادب نہیں! لوگ بے محابا بات چیت آپ سے کرتے ہیں۔‘‘ آپؑ نے فرمایا:’’میرا یہ مسلک نہیں۔ کہ میں ایسا تُندخُو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں۔ جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں۔ اور مَیں بُت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں۔ مَیں توبُت پرستی کے ردّ کرنے کو آیا ہوں۔ نہ یہ کہ میں خود بُت بنوں۔ اور لوگ میری پوجا کریں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا۔ میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بُت پرست اور خبیث نہیں۔ متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی صفحہ 41، 42)(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ۔ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 325)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عملی نمونہ کے ذریعہ ان اخلاق فاضلہ کو قائم کیا۔ آپؑ خود فرماتے ہیں: ’’میری تویہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہواور میں نماز میں مصروف ہوں میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوےتو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کربھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ بھی اس کے لیے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔ اپنے تو درکنار میں تو کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو۔ لا ابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جارہا تھا۔ ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھا وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔ راستہ میں ایک بڑھیا کوئی 70 یا 75 سال کی ضعیفہ ملی اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑکیاں دے کر اسے ہٹا دیا میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ اس نے وہ خط مجھے دیا۔ میں اس کو لے کر ٹھہرگیا۔اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا۔ اس پر اسے بہت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 305 ایڈیشن 2010ء)

دیہاتی عورتیں ایک دن بچوں کے لیے دوائی وغیرہ لینے آئیں حضورؑ ان کو دیکھنے اور دوائی دینے میں عرصہ تک مصروف رہے اس پر مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے عرض کیا کہ’’حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح حضورؑ کا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے۔‘‘اس کے جواب میں حضورؑ نے فرمایا:’’یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔یہ مسکین لوگ ہیں۔یہاں کوئی ہسپتال نہیں۔میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا کر رکھتا ہوں،جو وقت پر کام آجاتی ہیں۔یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہ ہو نا چاہیے۔‘‘(ملفوطات جلد اول صفحہ 308 ایڈیشن 2010ء)

عہدِ دوستی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام عہد دوستی کا اس قدر پاس رکھتے تھے کہ ایک دفعہ آپؑ نے فرمایا: ’’میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مجھ سے عہد دوستی باندھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا ہاں اگر و ہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں۔ ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہواہو اور لوگوں کا ہجوم اس کے گرد ہو تو بلا خوف لَوْمَۃَ لَائِم اسے اٹھا کے لے آئیں گے۔‘‘فرمایا: ’’عہد دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے اس کو آسانی سے ضائع کر دینا نہ چاہئے اور دوستوں میں کیسی ہی ناگوار بات پیش آوے اسے اغماض اور تحمل کے محل میں اتارنا چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 311 ایڈیشن 2010ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ یہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’انسان کو حتی الوسع اپنے لیے ہمیشہ اچھے دوستوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ لیکن جب کسی کےساتھ دوستانہ تعلقات قائم ہو جائیں تو پھر ان تعلقات کا نبھانا بھی ضروری ہو تا ہے اور صرف اس وجہ سے کہ دوست کی طرف سے کوئی عملی کمزوری ظاہر ہوئی ہے یا یہ کہ اس کے اندر کوئی کمزوری پیدا ہوگئی ہے۔تعلقات کا قطع کر نا جائز نہیں ہوتا بلکہ ایسے وقت میں خصوصیت کے ساتھ ہمدردی اور محبت اور دوستانہ نصیحت کو کام میں لانا چاہیے اور یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ لوگ یہ اعتراض کر یں گے کہ ایک خراب آدمی کے ساتھ کیوں تعلقات رکھے جاتے ہیں۔مومن کو لوگوں کے گندوں کو دھونے کے لیے پیدا کیا گیا ہے اگر وہ ایسے موقعوں پر چھوڑ کر الگ ہوجائے گا تو علاوہ بے وفائی کا مرتکب ہو نے کے اپنے فرض منصبی میں بھی کوتاہی کر نے والا ٹھہرے گا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحہ 381-382۔ روایت نمبر 421)

مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب سے جماعت میں کون واقف نہیں ہے؟ براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانہ میں وہ ایک دوستانہ اور مخلص دوستانہ تعلق آپؑ سے رکھتے تھے۔ اس اخلاص میں اس نے یہاں تک ترقی کی کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کو وضو کرانا بھی اپنی عزت اور سعادت سمجھتا تھا لیکن جب آپ علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو مولوی محمد حسین صاحب نے نہ صرف اختلاف کیا بلکہ تمام ہندوستان میں سفر کر کے آپ کے خلاف کفر اور قتل کے فتوے اکٹھے کیے۔ مگر پھر بھی حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیشہ اس کے ساتھ عہدِ دوستی کی رعایت کی اور باوجود سخت مخالفت کے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے کہ اس کو کوئی تکلیف اور نقصان نہ پہنچے اور کبھی کبھی اس دوستی کی یاد میں آپ یہ بھی فرماتے کہ

وَ وَاللّٰہِ لَا اَنْسٰی زَمَانَ تَعَلُّقٍ

وَلَیْسَ فُؤَادِیْ مِثْلَ اَرْضِ تَحَجَّرُ

خدا کی قسم! میں اس تعلق کے زمانہ کو بھولتا نہیں۔ اور میرا دل سنگلاخ زمین کی طرح نہیں ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آخر میں مولوی صاحب کی حالت کچھ عجیب ہو گئی تھی۔ وہ اپنے رسالہ کی اشاعت کے لیے مختلف قسم کی مشکلات میں تھے۔ یہاں تک کہ کوئی کاتب ان کا رسالہ لکھ کر نہ دیتا تھا۔ چنانچہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو اس بات کا علم ہو اتو آپؑ نے فرمایا کہ’’اُن کو کہہ دو (یعنی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو) کہ وہ اپنی کاپیاں اور مضمون لے کر آجاویں میں اپنا کام بند کر کے ان کا کام کرا دوں گا۔ خواہ وہ میری مخالفت ہی میں ہو۔ ‘‘(سیرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 264-265)

اہل و عیال سے حُسن سلوک

قرآن شریف نے باربار اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ شفقت و احسان کا سلوک کریں اور آنحضرتﷺ حدیث میں فرماتے ہیں خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ۔یعنی اے مسلمانو! تم میں سے خدا کی نظر میں بہترین اخلاق والا شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ماننے والوں میں بھی یہی اعلیٰ معیار دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایک صحابی چودھری نذر محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ سلسلہ احمدیہ میں منسلک ہونے سے پہلے ان کی حالت اچھی نہ تھی اور وہ اپنی اہلیہ کو پوچھتے تک نہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانہ میں ہدایت بخشی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت اور ملاقات کا موقع ملا جب حضور بالکل اکیلے تھے اور چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے حضور ؑکو دبانا شروع کر دیا اور دعا کی درخواست کی۔ اتنے میں کوئی اور دوست حضور کی ملاقات کے لیے آیا۔ جنہوں نے حضور کے سامنے ذکرکیا کہ اس کے سسرال نے اپنی لڑکی بڑی مشکلوں سے اسے دی ہے۔ اب اس نے بھی ارادہ کیا ہے کہ وہ ان کی لڑکی کو ان کے پاس نہ بھیجے گا۔ جونہی حضور نے اس سے ایسے کلمات سنے حضور کا چہرہ سرخ ہو گیا اور حضور نے غصّہ سے اس کو فرمایا کہ فی الفور یہاں سے دُور ہو جاؤ ایسا نہ ہو تمہاری وجہ سے ہم پر بھی عذاب آجاوے۔ چنانچہ وہ اٹھ کر چلا گیااور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور عرض کی کہ وہ توبہ کرتا ہے اسے معاف فرمایا جائے۔ جس پر حضور نے اسے بیٹھنے کی اجازت دی۔

چودھری نذر محمد صاحب مرحوم کہتے تھے کہ جب یہ واقعہ میں نے دیکھا تو میں دل میں سخت نادم ہوا کہ اتنی سی بات پر حضورؑ نے اتنا غصّہ منایا ہے حالانکہ ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو پوچھتے تک نہیں اور اپنے سسرال کی پرواہ نہیں کرتے یہ کتنا بڑا گناہ ہے۔ وہ کہتے تھے کہ انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے توبہ کی اور دل میں عہد کیا کہ اب جا کر اپنی بیوی سے معافی مانگوں گا اور آئندہ بھی اس سے بدسلوکی نہ کروں گا۔ چنانچہ وہ فرماتے تھے کہ جب وہاں سے واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی کے لیے کئی تحائف خریدے اور گھر پہنچ کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس کے آگے تحائف رکھ کر پچھلی بدسلوکی کی ان سے منت کر کے معافی مانگی۔ وہ حیران ہو گئی کہ ایسی تبدیلی ان میں کس طرح سے پیدا ہو گئی ہے۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہے تو وہ حضور کو بے حد و بے شمار دعائیں دینے لگی کہ حضور نے اس کی تلخ زندگی کو راحت بھری زندگی سے مبدل کر دیا ہے۔ (رجسٹر روایات صحا بہ جلد اول )

ایک اور نوجوان مرحوم محمد افضل صاحب نہایت مستقل مزاج اور مستقیم الاحوال تھے۔ان کا ذکر میں ابھی حضرت مولانا عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں کروں گا۔ مگر جو واقعہ ان کی اس تبدیلی کا محرک ہوا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے اس حصہ کو واضح کرتا ہے کہ آپ عہد دوستی اور عہد زوجیت کا احترام نہ کرنے والوں سے ناراض ہوجاتے تھے۔ لیکن وہ ناراضگی محض خدا کی رضا اور اپنے خادم کی اصلاح کے لیے ہوتی تھی۔ بابو محمد افضل افریقہ میں ملازم تھے۔ اور بہت خوشحال اور فارغ البال تھے۔ سلسلہ کے کاموں میں خصوصیت سے حصہ لیتے اور تبلیغ کا ایک جوش ان کے دل میں تھا۔

ان کی دو بیویاں تھیں اور وہ قادیان میں رہتی تھیں۔ 1899ء میں انہوں نے حضرت حکیم الامۃ الحاج مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور کچھ روپیہ بھیجا اور اپنی ایک بیوی کو افریقہ بلایا اور یہ بھی لکھ دیا کہ جو بیوی آنے سے انکار کرے اس کو طلاق دے دی جاوے۔حضرت مولوی صاحب نے یہ خط حضرت اقدسؑ کے حضور پیش کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’وہ تو جب طلاق دے گا مگر اسے لکھ دو کہ ایسے شخص کا ہمارے ساتھ تعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ جو اتنے عزیز رشتہ کو ذرا سی بات پر قطع کر سکتا ہے وہ ہمارے تعلقات میں وفاداری سے کیا کام لے گا۔‘‘ یہ ارشاد اکسیر ہوگیا اور محمد افضل کو فی الحقیقت افضل بناگیا۔ حضرت اقدس کی ناراضگی کی جب اطلاع ہوئی تو اسے سمجھ آگئی کہ باہمی تعلقات کی کیا قیمت ہوتی ہے۔ پھر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اور اپنی عیش و عشرت کی زندگی کو خیر باد کہہ کر مستقل قادیان میں آبسے۔ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 252-253)

’’مئی 1893ء میں ڈپٹی عبداللہ آتھم سے امرتسر میں مباحثہ تھا۔ ایک رات جبکہ خان محمد شاہ صاحب مرحوم کے مکان پر بڑا مجمع تھا۔ اطراف سے بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ حضرتؑ اس روز سر درد سے بیمار تھے۔ شام کو مشتاقانِ زیارت ہمہ تن چشم انتظار بنے ہوئے تھے۔ حضرت علیہ السلام مجمع میں تشریف لائے۔ منشی عبدالحق صاحب لاہوری پنشنر نے جو پہلے آپ سے بڑی محبت اور حسن ظنی رکھتے تھے۔ مگر بعد میں الگ ہو گئے۔ آپؑ سے آپ کی بیماری کی تکلیف پوچھی۔ اور پھر کہا:آپؑ کا کام بہت نازک اور آپ کے سر پر بھاری فرائض کا بوجھ ہے۔ آپ کو چاہئے کہ جسم کی صحت کی رعایت کا خیال رکھا کریں اور ایک خاص مقوی غذا لازماً آپ کے لیے ہر روز تیار ہونی چاہئے۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا:’’ہاں بات تو درست ہے اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں ایسی مصروف رہتی ہیں کہ اور باتوں کی چنداں پرواہ نہیں کرتیں۔‘‘

اس پر منشی عبدالحق صاحب نے کہا کہ’’اجی حضرت آپ ڈانٹ ڈپٹ کر نہیں کہتے اور رُعب پیدا نہیں کرتے۔ میرا یہ حال ہے کہ مَیں کھانے کے لیے خاص اہتمام کیا کرتا ہوں اور ممکن ہے کہ میرا حکم کبھی ٹل جائے اور میرے کھانے کے اہتمامِ خاص میں سرِمو فرق آ جائے ورنہ ہم دوسری طرح خبر لیں۔‘‘

حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے خیال کیا کہ یہ بات میرے محبوب آقا کے حق میں مفید ہے۔ اس لیے بغیر سوچے سمجھے اس کی تائید کر دی۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت مولانا کی طرف دیکھا اور تبسم سے فرمایا:’’ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پرہیز کرنا چاہئے۔‘‘

حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بڑے ذکی الحِسّ آدمی تھے وہ فرماتے ہیں:’’بس خدا ہی جانتا ہے کہ میں اس مجمع میں کس قدر شرمندہ ہوا اور مجھے سخت افسوس ہوا۔‘‘(سیرت حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ از محمود احمد عرفانی صاحب صفحہ 226-227)

حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ ایک دفعہ راولپنڈی سے ایک غیراحمدی آیا۔جو اچھا متموّل آدمی تھا۔اور اس نے حضرت صاحبؑ سے درخواست کی کہ میرا فلاں عزیز بیمار ہے۔ حضورؑ حضرت مولوی نور الدینؓ صاحب (خلیفہ اوّل )کو اجازت دیں کہ وہ میرے ساتھ راولپنڈی تشریف لے چلیں اور اس کا علاج کریں۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر مولوی صاحب کو یہ بھی کہیں کہ آگ میں گھس جاؤیا پانی میں کود جاؤتو ان کو کوئی عذر نہیں ہو گا۔لیکن ہمیں بھی مولوی صاحب کے آرام کا خیال چاہیے۔ان کے گھر میں آج کل بچہ ہونے والا ہے۔ اس لیے میں ان کو راولپنڈی جانے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں۔کہ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد حضرت مولوی صاحبؓ حضرت صاحب کا یہ فقرہ بیان کرتے تھے۔اور اس بات پر بہت خوش ہوتے تھے۔کہ حضرت صاحبؑ نے مجھ پر اس درجہ اعتماد ظاہر کیا ہے۔‘‘(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 256-257)

ایک اور واقعہ

ایک مرتبہ آپؑ بعد نماز مغرب حسب معمول شہ نشین پرتشریف فرما تھے۔ اور گرمی کا موسم تھا کہ آپ پرضعف قلب کا دورہ ہوا۔ یکا یک آپ کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ آپ نے مشک نکال کر (جو ہمیشہ رومال میں باندھ کر رکھا کرتے تھے) کھایا اور گرم پانی منگوایا گیا۔ جس میں پاؤں رکھے گئے۔ حملہ بہت سخت تھا۔ اس حالت کی خبر پیرا پہاڑیا (ملازم حضرت اقدسؑ) کو بھی ہوئی۔ وہ بھاگا آیا اور اس کے پاؤں کیچڑ میں لت پت تھے۔ اسی حالت میں آگے چلا آیا۔ کسی نے اس کو روکنا چاہا مگر آپؑ نے فرمایا مت روکو وہ کیا جانتا ہے کہ کیچڑ والے پاؤں سے فرش پر جانا ہے یا نہیں محبت سے آیا ہے آنے دو۔

یہ آپؑ کے اخلاقِ عالیہ تھے کہ آپ نے قطعاً اس بات کی پرواہ نہ کی کہ اس کے پاؤں کیچڑ میں لت پت ہیں۔ اور وہ جگہ کو گنداکر دے گا۔ آپ یہی فرماتے ہیں اسے آنے دو وہ محبت سے آیا ہے۔ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم

ایک بد زبان بھری مجلس میں

حضرت مولوی یعقوب علی صاحب عرفانیؓ فرماتے ہیں:ایک جلسہ میں جہاں تک مجھے یاد ہے ایک برہمو لیڈر (غالباً انباش موزمدار با بو تھے) حضرتؑ سے کچھ استفسار کر رہے تھے۔ اور حضرت جواب دیتے تھے۔ اسی اثنا میں ایک بد زبان مخالف آیا۔ اور اس نے حضرت کے بالمقابل نہایت دل آزار اور گندے حملے آپؑ پر کیے۔ وہ نظارہ میرے اس وقت بھی سامنے ہے۔ آپ منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے جیسا کہ اکثر آپ کا معمول تھا۔ کہ پگڑی کے شملہ کا ایک حصہ منہ پر رکھ کر یا بعض اوقات صرف ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ خاموش بیٹھے رہے …۔ آپ اس طرح پر مست اور مگن بیٹھے تھے۔ کہ گویا کچھ ہو نہیں رہا۔ یا کوئی نہایت ہی شیریں مقال گفتگو کر رہا ہے۔ برہمو لیڈر نے اسے منع کرنا چاہا۔ مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ حضرت نے ان کو فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں کہنے دیجئے۔ آخر وہ خود ہی بکو اس کر کے تھک گیا۔ اور اٹھ کر چلا گیا۔ برہمو لیڈر بے حد متاثر ہوا اور اس نے کہا کہ یہ آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے اس وقت حضور اسے چپ کرا سکتے تھے اپنے مکان سے نکال سکتے تھے۔ … مگر آپؑ نے اپنےکامل حلم اور ضبطِ نفس کا عملی ثبوت دیا۔ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 443-444)

حضرت مخدوم الملت مولانا عبدالکریم صاحبؓ نے اجمالی طور پر حضرت اقدس علیہ السلام کے ضبط نفس اور حوصلہ کے متعلق اس طرح بیان کیا ہے:’’مجلس میں آپ کسی دشمن کا ذکر نہیں کرتے۔ اور جو کسی کی تحریک سے ذکر آجائے۔ تو بُرے نام سے یاد نہیں کرتے۔ یہ ایک بیّن ثبوت ہے۔ کہ آپ کے دل میں کوئی جلانے والی آگ نہیں۔ ورنہ جس طرح کی ایذاء قوم نے دی ہے۔ اور جو سلوک مولویوں نے کیا ہے۔ اگر آپ اسے واقعی دنیا دار کی طرح محسوس کرتے تو رات دن کڑھتے رہتے۔ اور ایرپھیر کر انہی کا مذکور درمیان لاتے۔ اور یوں حواس پریشان ہو جاتے اور کاروبار میں خلل آجاتا۔ …

ایک روز فرمایا: ’’میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں۔ اور خداتعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالیاں دیتا رہے۔ آخر وہی شرمندہ ہوگا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مصنفہ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 446-447)

ایک بد زبان ہندوستانی اور حضرتؑ کا حوصلہ

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ ایک اور واقعہ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ’’ آپؑ دینی سائل کو خواہ کیسا ہی بے باکی سے بات چیت کرے، اور گفتگو بھی آپ کے دعویٰ کے متعلق ہو۔ بڑی نرمی سے جواب دیتے اور تحمل سے کوشش کرتے ہیں کہ آپ کا مطلب سمجھ جائے۔ ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا …ہماری مسجد میں آیا۔ اور حضرت سے آپ کے دعویٰ کی نسبت بڑی گستاخی سے باب کلام وا کیا۔ اور تھوڑی گفتگو کے بعد کئی دفعہ کہا آپ اپنے دعویٰ میں کاذب ہیں۔ اور میں نے ایسے مکار بہت سے دیکھے ہیں۔ اور میں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں۔ غرض ایسے ہی بے باکانہ الفاظ کہے مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا، بڑے سکون سے سنا۔ اور پھر بڑی نرمی سے اپنی نوبت پر کلام شروع کیا۔ کسی کا کلام کیسا ہی بے ہودہ اور بے موقع ہو اور کسی کا کوئی مضمون نظم میں یا نثر میں کیسا ہی بےربط اور غیر موزوں ہو۔ آپ نے سننے کے وقت یا بعد خلوت میں کبھی نفرت اور ملامت کا اظہار نہیں کیا۔‘‘(سیرت مسیح موعودؑ مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب صفحہ 44)

ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیےاور جس کا بارہا تجربہ بھی ہوچکا ہے۔ کہ اپنے عزیزوں، دوستوں، گھریلو ماحول میں یا عام باہر احباب کے ساتھ ہمارے تعلقات میں تلخی اور چپقلش اکثر بالعموم بدظنی پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر بدظنی کا عنصر ہم اپنی روزمرہ کی زندگی سے نکال دیں اور اپنی egoکو ختم کردیں تواکثر مسائل کا حل فوری نکل سکتا ہے۔ اس قسم کی ایک حکایت حضرت مسیح موعودؑ بیان فرمایا کرتے تھے جو کہ سیرت المہدی میں روایت نمبر 783 میں درج ہے۔

ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی روایت ہے کہ’’حسن ظنی کی تاکید میں ایک حکایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر سنایا کرتے تھے اور وہ حکایت یہ ہے کہ ایک شخص نے ایک دفعہ تکبّر سے توبہ کی اور عہد کیا کہ مَیں آئندہ اپنے تئیں سب سے ادنیٰ سمجھا کرونگا۔ ایک دفعہ وہ سفر پر گیا اور ایک دریا کے کنارے پہنچ کر کشتی کی انتظار کرنے لگا۔ اس وقت اس نے کچھ فاصلہ پر دیکھا کہ ایک آدمی اور ایک عورت بیٹھے ہیں۔ اور غالباً وہ بھی کشتی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے پاس ایک بوتل ہے۔ کبھی اس میں سے ایک گھونٹ وہ مرد پی لیتا ہے اور کبھی عورت پیتی ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے دل میں کہا۔ کہ یہ دونوں کس قدر بے حیاء ہیں کہ دریا کے گھاٹ پر لوگوں کے سامنے بے حجاب بیٹھے شراب پی رہے ہیں۔ ان سے تو مَیں بہرحال اچھا ہوں۔ اتنے میں دریا کے پار کی طرف سے کشتی کنارے کے قریب آئی اور لہر کے صدمہ سے الٹ گئی۔ اس میں چھ آدمی تھے۔ یہ نظارہ دیکھ کر وہ عورت کا ساتھی اُٹھا اور دریا میں کود پڑا۔ اور ایک ایک کرکے پانچ آدمیوں کو نکال لایا۔ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اب آپ بھی اس چھٹے آدمی کو نکالیں یا دُور دُور بیٹھے دوسروں پر ہی بدظنی کرنا جانتے ہیں۔ سُنئے یہ عورت میری والدہ ہے اور اس بوتل میں پینے کا پانی ہے جو ہم نے سفر میں محفوظ کر رکھا ہے۔ یہ سُن کر وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور بد ظنی سے توبہ کی۔‘‘(سیرت المہدی۔جلد اوّل حصہ سوم،حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے۔روایت نمبر783صفحہ 723)

آپ ؑکسی کی شکایت پر توجہ نہیں دیتے تھے

حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کی روایت ہے کہ’’ایک دفعہ کسی کا م کے متعلق میر صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب کا اختلاف ہو گیا۔میر صاحب نے ناراض ہو کر اندر حضرت صاحب کو جا اطلاع دی۔ مولوی محمد علی صاحب کو اس کی اطلاع ہو ئی تو انہوں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ ہم لوگ یہاں حضور کی خاطر آئے ہیں کہ تا حضور کی خدمت میں رہ کر کوئی خدمت دین کا موقعہ مل سکے لیکن اگر حضور تک ہماری شکائتیں اس طرح پہنچیں گی تو حضور بھی انسان ہیں ممکن ہے کسی وقت حضور کے دل میں ہماری طرف سے کوئی بات پیدا ہو توا س صورت میں ہمیں بجائے قادیان آنے کا فائدہ ہونے کے اُلٹا نقصان ہو جائیگا۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ میر صاحب نے مجھ سے کچھ کہا تو تھا مگر میں اس وقت اپنے فکروں میں اتنا محو تھا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے معلو م نہیں کہ میر صاحب نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا۔پھر آپ نے فرمایا کہ چند دن سے ایک خیال میرے دماغ میں اس زور کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے کہ اس نے دوسری باتوں سے مجھے بالکل محو کر دیا ہے بس ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے وہی خیال میرے سامنے رہتا ہے،میں باہر لوگوں میں بیٹھا ہوتا ہوں اور کوئی شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اس وقت بھی میرے دماغ میں وہی خیال چکر لگا رہا ہوتا ہے۔وہ شخص سمجھتا ہو گا کہ میں اس کی بات سن رہا ہوں مگر میں اپنے اس خیال میں محو ہوتا ہوں۔جب میں گھر جاتا ہوں تو وہا ں بھی وہی خیال میرے ساتھ ہوتا ہے۔غرض ان دنوں یہ خیال اس زور کے ساتھ میرے دماغ پر غلبہ پائے ہوئے ہے کہ کسی اور خیال کی گنجائش نہیں رہی۔وہ خیال کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اور اسکے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر کاربند ہواوراصلاح و تقویٰ کے رستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے تا پھر ایسی جماعت کے ذریعہ دنیا ہدایت پاوے اور خد اکا منشا ء پورا ہو۔ پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تو اگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پر غلبہ بھی پالیا اور اس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں کیونکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہوئی تو گویا ہمارا سارا کام رائیگاں گیا مگر میں دیکھ رہاہوں کہ دلائل و براہین کی فتح کے تو نمایاں طور پر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کر نے لگا ہے لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے اسکے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے پس یہ خیال ہے جو مجھے آجکل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہو رہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا۔‘‘(سیرت المہدی۔حصہ اول،حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ نمبر235، 236)

مولانا ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی غلام یاسین مولانا ابو النصر آہ تھے۔ آپ سے صدہا آدمیوں نے بیعت کر رکھی تھی۔ وہ بمبئی میں وائی ایم سی کے پریچنگ ہال میں ہر ہفتے جاتے اور غیرمسلموں سےنہایت سرگرم مباحثے کرتے تھے۔ ان مباحثات میں وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر سے استفادہ کرتے تھے۔ اور ان کی بڑی خواہش تھی کہ قادیان میں آکر کسی وقت حضورؑ کی زیارت کا شرف حاصل کریں۔ حضرت اقدس علیہ السلام سے اپنی ملاقات کے احوال بیان کرتے ہوئے آپ روایت کرتے ہیں:’’میں نے اور کیا دیکھا ! قادیان کی بستی دیکھی ! اور جناب مرزا صاحب مسیح موعود سے ملاقات کی اور ان کا مہمان رہا۔ جناب مرزا صاحب قادیانی کے اخلاق عالی اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ حضرت مرزا صاحب کی صورت نہایت ہی شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی اور دل کو فریفتہ کر لیتا ہے۔ آنکھوں میں خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے۔ مزاج بہت ٹھنڈا مگر دلوں کو گرمانے والا ہے۔ آپ کے مریدوں میں بڑی عقیدت اور بڑا اخلاص دیکھا۔ حضرت مرزا صاحب کی وسیع اخلاقی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام اور مہمان نوازی کی متواتر نوازشوں پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا کہ ہم آپ کو اس وعدہ پر جانے کی اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں۔ میں جس شوق کو لے کر گیا تھا اسے ساتھ لایا اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ قادیان لے جائے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 390 اور 391 )

مسٹر والٹر قادیان میں

اب میں ایک ایسی شہادت پیش کرتا ہوں جو وَالْفَضْلُ مَا شَہِدَتْ بِہِ الْاَعْدَاءُ کی مصداق ہے۔

جنوری 1916ء کے پہلے ہفتہ میں مسٹر والٹر (سیکرٹری کرسچن ینگ مین ایسوسی ایشن لاہور) سلسلہ احمدیہ کی تحقیق کے لیے قادیان آئے۔ مسٹرہیوم (ایجو کیشنل سیکرٹری) اور مسٹرلیوکس (وائس پرنسپل فورمین کرسچن کالج لاہور) بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ان سب صاحبوں نے دوبارہ حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کر کے بعض مذہبی امور دریافت کیے اور حضورؓ نے بڑی تفصیل سے ان کے جواب دیے۔ اس پر انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ گفتگو میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور قاضی عبد الحق صاحب ترجمان تھے۔

اسی دوران میں مسٹر والٹر حضرت منشی اروڑے خاں صاحبؓ تحصیلدار کپورتھلہ سے بھی ملے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدیم صحابی اور معمر بزرگ تھے۔ انہوں نے حضرت منشی صاحبؓ سے چند رسمی باتوں کے بعد دریافت کیا کہ آپ پر مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا۔ حضرت منشی صاحب نے جواب میں فرمایا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں اور زیادہ علمی دلیلیں نہیں جانتا۔ مگر مجھ پر جس بات نے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا۔ کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ باقی میں تو ان کے منہ کا بھوکا ہوں مجھے زیادہ دلیلوں کا علم نہیں یہ فرما کر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یاد میں اس قدر بے چین ہوگئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ اور ان کے چہرہ کا رنگ ایک دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سفید ہو گیا۔

مسٹرو الٹرنے بعد کو’’ احمد یہ موومنٹ‘‘کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں اپنے تاثرات ان الفاظ میں لکھے کہ ’’میں نے بعض پرانے احمدیوں سے ان کے احمدی ہونے کی وجہ دریافت کی تو اکثر نےسب سےبڑی وجہ مرزا صاحب کے ذاتی اثر اور جذب اور مقناطیسی شخصیت کو پیش کیا۔ میں نے 1916ء میں قادیان جا کر (حالانکہ اس وقت مرزا صاحب کو فوت ہوئے آٹھ سال گزر چکے تھے ) ایک ایسی جماعت دیکھی جس میں مذہب کے لیے وہ سچا اور زبردست جوش موجزن تھا۔ جو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں آج کل مفقود ہے۔ قادیان میں جاکر انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایک مسلمان کو محبت اور ایمان کی وہ روح جسے وہ عام مسلمانوں میں بے سُود تلاش کرتا ہے احمد کی جماعت میں بافراط ملے گی۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد نمبر4 صفحہ188-189 ایڈیشن 2007ء قادیان)

اسی طرح انہوں نے مزید لکھا کہ’’یہ بات ہر طرح ثابت ہے کہ مرزا صاحب اپنی عادات میں سادہ اور فیاضانہ جذبات رکھتے تھے۔ ان کی اخلاقی جرأت جو انہوں نے اپنے مخالفین کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذارسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقیناً قابل تحسین ہے۔ صرف ایک مقناطیسی جذب اور دلکش اخلاق رکھنے والا شخص ایسے لوگوں کی دوستی اور وفاداری حاصل کر سکتا ہے جن میں سے کم از کم دو نے افغانستان میں اپنے عقاید کے لیے جان دے دی مگر مرزا صاحب کادامن نہ چھوڑا۔ میں نے بعض پرانے احمدیوں سے ان کے احمدی ہونے کی وجہ دریافت کی تو اکثر نے سب سے بڑی وجہ مرزا صاحب کے ذاتی اثر اور ان کے جذب اور کھینچ لینے والی شخصیت کو پیش کیا۔ ‘‘ (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 268-269 روایت نمبر 297)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان اوصاف کو اپنانے کی توفیق دے۔ اور ہم اس مشن کو پورا کرنے والے ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔ کہ ہمارا تزکیہ نفس ہو۔ اور جس کے لیے اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے۔ اور اُن اخلاق کو دوبارہ قائم کیا تا جماعت احمدیہ دنیا میں امن، پیار اور محبت و سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔

اللّٰھم صلّ علٰی محمد و علیٰ عبدہ المسیح الموعود

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button