متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ میں بیان فرمودہ بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبات جمعہ فرمودہ ۱۴، ۲۱ اور ۲۸؍جون۲۰۲۴ءمیں غزوہ بنونضیر کے واقعات کا تفصیلی ذکر فرمایا۔ بنو نضیر کی مدینہ میں آبادکاری اور رسول اللہؐ کی جنگی حکمت عملی سے متعلق کچھ تفصیل پیش ہے۔

غزوہ بنو نضیر

رسو ل اللہﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے کے وقت مدینہ میں مختلف خاندان اور قبائل شہر کی طرح اکٹھے ایک آبادی کی صورت میں نہ رہتے تھے بلکہ کچھ فاصلے پر مختلف خاندانوں کے الگ محلے،گڑھیاں اور حسب ضرورت قلعے وغیرہ بنے ہوئے تھے۔ان کے گھروں کے ارد گر د باغ وغیرہ لگے ہوتے تھے اور پانی کا انتظام بھی قلعوں کےاندر کنوؤں کی صورت میں ہوتا تھا۔ زیادہ تر مکانات حرّة کے پتھروں(لاوے کے کالے پتھر) سے بنے ہوتے تھے۔ بنو نضیر کامحلہ حرّة شرقیہ (واقم) میں مسجد نبوی کے جنوب مشرق میں تھا۔ان کے اور بنوقریظہ کے محلے کے درمیان عوالی کے باغ حد فاصل تھے۔ان لوگوں کی تعداد بظاہر دو اڑھائی ہزار سے زائد نہ تھی۔بنو نضیر کا محاصرہ کرتے وقت رسول اللہﷺ نے ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا کہ بنو قریظہ سے مدد کی توقع نہ رہے۔چنانچہ ایک مسجد شمس جس کو اب مسجد الفضیخ کہا جاتا ہے،اب تک اس پڑاؤ کی یادگار ہے۔دوسری ایک تفصیل جس کا قرآن کریم میں بھی اشارةً ذکر ہے وہ تیراندازی ہے۔ جن کی بعض ضرورتوں سےان کے باغوں کے کچھ درخت کاٹنے پڑے تھے۔ بنو نضیر کی بستی کے موجودہ آثار میں سے اب صرف کعب بن اشرف کے قلعے کے پرانے آثار باقی ہیں۔(ماخوذ از عہد نبویؐ کے میدان جنگ از ڈاکٹر حمید اللہ) کعب بن اشر ف کا قلعہ بنو نضیر کے گھر وں سے باہر ایک اونچی جگہ پر بنا ہوا تھا۔بنو نضیر کے گھر مسجد نبویؐ سے تقریباً ۴کلو میٹر کے فاصلے پر موجود تھے۔موجودہ زمانے میں یہ تمام علاقہ شہری آبادی میں شامل ہو چکا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے تقریباً پندرہ روز ان کے قلعوں اور گھر وں کا محاصرہ جاری رکھا۔ اس کے بعد یہود کی درخواست پر ان کو ان کے مال و متاع کے ساتھ جلاوطن کر دیا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button