بنیادی مسائل کے جوابات (قسط ۷۹)
٭…یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
٭… اسلام میں قَسموں کا کیا تصور ہے؟
سوال: تیونس سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ایک شخص کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ایک بیٹا اس کی زندگی میں فوت ہو گیا، جس کے دو بچے ہیں۔ اس شخص نے اپنی زندگی میں اپنے زندہ بیٹوں کے لیے مکان بنوائے لیکن مرحوم بیٹے کی اولاد کے لیے کچھ نہیں بنایا۔ اس شخص کا ایک پانچواں مکان بھی ہے لیکن اس نے وصیت کی کہ یہ مکان اس کی بیٹی کو دے دیا جائے۔ حالانکہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ اس شخص کے مرحوم بیٹے کے بچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں دادا کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملتا۔ مجھے اس شرعی حکم سے تسلی نہیں۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے تا کہ یتیم پوتے محروم نہ رہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ4؍فروری 2023ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب: وصیت کے بارے میں اسلامی تعلیم یہی ہے کہ کوئی شخص اپنے وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتاجیسا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کے لیے اس کا حق مقرر فرما دیا ہے اس لیے وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔(سنن ابی داؤد کتاب الوصایابَاب مَا جَاءَ فِي الْوَصِيَّةِ لِلْوَارِثِ) لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے کسی وارث کے حق میں وصیت کرتا ہے تو ایسی وصیت کالعدم سمجھی جائے گی اور جس چیز کی وصیت کی گئی تھی وہ تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہو گی۔
علاوہ ازیں اسلام کا یہ بھی حکم ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد میں ہبہ کرنا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدل سے کام لے۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کے حق میں کچھ ہبہ کیا اور اس پر آنحضورﷺ کو گواہ بننے کی درخواست کی تو حضورﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو ایسا ہی ہبہ کیا ہے؟ ان کے انکار پر حضورﷺ نے یہ اصولی ہدایت فرمائی کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل سے کام لو۔ چنانچہ انہوں نے یہ ہبہ واپس لے لیا۔ (بخاری كِتَاب الْهِبَةِ بَاب الْإِشْهَادِ فِي الْهِبَةِ)پس اس شخص کا اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کو مکان بنوا کر دینا اور بیٹی کو کچھ نہ دینا بھی اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ جب اس نے اپنے بیٹوں کو کچھ ہبہ کیا ہے تو بیٹی کو بھی ضرور کچھ ہبہ کرتا۔
باقی جہاں تک اس شخص کے اس کی زندگی میں فوت ہوجانے والے بیٹے کی اولاد کے اس شخص کے ترکہ میں سے حصہ کا تعلق ہے تو اس معاملہ میں اسلامی تعلیم یہی ہے کہ یتیم پوتے پوتیوں کو دادا کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملتا۔ البتہ دادا اگر ضروری سمجھے تو اپنے ان یتیم پوتے پوتیوں کو اپنی زندگی میں جو کچھ چاہے دے سکتا ہے۔ نیز اپنے مرنے کے بعد وصیت کے ذریعہ بھی انہیں کچھ دے سکتا ہے۔ لیکن یہ اختیار دادا کو حاصل ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر کسی اور کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ مرنے والے شخص کے ترکہ میں سے ورثاء کی اجازت کے بغیر از خود ان یتیم پوتے پوتیوں کو کچھ دے۔ البتہ دادا کے وارث اگر اپنے ان یتیم بھتیجے بھتیجیوں کو کچھ دینا چاہیں تو اس میں بھی کوئی روک نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرب صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ شریعت اسلام میں پوتے کے واسطے کوئی حصہ وصیت میں نہیں ہے۔ اگر ایک شخص کا پوتا یتیم ہے تو جب وہ مرتا ہے تو اس کے دوسرے بیٹے حصہ لیتے ہیں اور اگرچہ وہ بھی اس کے بیٹے کی اولاد ہے مگر وہ محروم رہتا ہے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا:دادے کا اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دیدے بلکہ جو چاہے دیدے اور باپ کے بعد بیٹے وارث قرار دیئے گئے کہ تا ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ کہا جاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو اور پھر آگے اس کی اولاد ہو تو وہ وارث ہو۔ اس صورت میں دادے کا کیا گناہ ہے۔یہ خدا کا قانون ہے اور اس سے حرج نہیں ہوا کرتا ورنہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں تو ہم کو چاہیے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کریں۔چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جا کر کمزوری ہو جاتی ہے اور آخر ایک حد پر آکر تو برائے نام رہ جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اور ناطہ میں ہو جاتی ہے اس لئے یہ قانون رکھا۔ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر خدا تعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے جیسے قرآن شریف میں ہےوَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُوْلُوْا الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنُ فَارْزُقُوھُمْ مِّنْہُ وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۔(النساء:۹)(یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خویش و اقارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو ان کو کچھ دیا کرو) تو وہ پوتا جس کا باپ مرگیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رحم کا ہے اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں (جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا) خدا تعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتہ میں کمزوری بڑھتی جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے۔(البدر نمبر10، جلد1، مورخہ2جنوری 1903ء صفحہ76)
قرآنی تعلیم اس خدا کی طرف سے نازل فرمودہ ہے جس کا علم لامتناہی،غیر محدود اور ہر چیز پر حاوی ہے۔ اور اس کایہ علم مستقبل کے معاملات پر بھی اسی طرح محیط ہےجس طرح ماضی کے واقعات کا وہ احاطہ کیے ہوئے ہے۔خداتعالیٰ نے اس تعلیم کو کسی انسان کی تسلی کے لیے نازل نہیں فرمایا، بلکہ جس تعلیم کو اس نے انسانوں کی بھلائی اور بہتری کے لیے ضروری سمجھا، اسے نازل فرمایا ہے۔ انسانی عقل اگر اس تعلیم کے کسی پہلو کی حکمت کو نہیں پا سکتی تو اس میں اس تعلیم کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس میں انسان کی نہایت محدود سمجھ اور عقل کا دخل ہے۔
سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ اسلام میں قَسموں کا کیا تصور ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍فروری 2023ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: قسم کھانا اصل میں ایک طرح سے کسی بات پر گواہی دینا ہوتا ہے۔ جو شخص کسی بات کو اﷲ کی قسم کھا کر بیان کرتا ہے وہ گویا اپنے بیان کی سچائی پر اﷲ کی ذات کو گواہ بناتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک معاملہ میں مخالف فریق کے موقف کا ردّ کرتے ہوئے قسم کی حقیقت اور فلاسفی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:یہ امر بالکل غلط ہے کہ اسلام میں قسم کھانا منع ہے تمام نیک انسان مسلمانوں میں سے ضرورتوں کے وقت قسم کھاتے آئے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی ضرورتوں کے وقت قسم کھائی ہمارے رسول اللہﷺنے بھی بارہا قسمیں کھائیں۔ خود خدا تعالیٰ نے قرآن میں قسمیں کھائیں۔آنحضرتﷺ کی عدالت میں مجرموں کو قسمیں دلائی گئیں۔ قسموں کا قرآن شریف میں صریح ذکر ہے۔ شریعتِ اسلام میں جب کسی اور ثبوت کا دروازہ بند ہو یا پیچیدہ ہو تو قسم پر مدار رکھا جاتاہے۔(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 339 حاشیہ، مطبوعہ 2019ء)
لیکن اسلام نے اپنے متبعین کو لغو، بلا وجہ اور جھوٹی قسمیں کھانے سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَایُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَلٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا کَسَبَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ۔ (البقرہ:226)یعنی اللہ تمہاری قسموں میں (سے) لغو (قسموں) پر تم سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ ہاں جو (گناہ) تمہارے دلوں نے (بالارادہ) کمایا اس پر تم سے مؤاخذہ کرے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بُردبارہے۔
اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:لغو قسم سے مراد وہ قسم ہے جو عادت کی وجہ سے کھائی جائے۔ جیسے بعض کو بلا سوچےوَاللّٰہِ! بِاللّٰہکہنے کی عادت ہوتی ہے۔ یا وہ قسم جس کے کھانے والا یقین رکھتا ہو کہ وہ درست ہے لیکن اس کا یقین غلط ہو یا شدید غصہ میں قسم کھا لینا کہ جب ہوش و حواس ٹھکانے نہ ہوں یا حرام شے کے استعمال یا فرض و واجب عمل کے ترک کے متعلق کسی وقتی جوش کے ماتحت قسمیں کھا لینا یہ سب قسمیں لغو ہیں۔ اور ان کے توڑنے پر کوئی کفارہ نہیں بلکہ ان کے کھانے پر توبہ اور استغفار کا حکم ہے کیونکہ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (مؤمنون: ۴) کے خلاف ایسی قسمیں ہیں پس ان کے کھانے والا مخطی یا گنہگار ہے اسے اپنے گناہ پر توبہ اور ندامت کا اظہار کرنا چاہیے نہ یہ کہ ان کے توڑنے کے لیے کسی کفارہ کی ضرورت ہے۔ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیےلَایُؤَاخِذُکُمْ کے الفاظ بیان فرمائے ہیں۔ یعنی اگر وقتی جوش کے ماتحت ایسی قسم کھائی جائے تو گناہ نہ ہوگا۔ اگر جان بوجھ کر ایسی قسم کوئی کھالے تو اسے گناہ بھی ہوگا۔(تفسیر صغیر صفحہ 53 حاشیہ زیر آیت سورۃ البقرہ :226)
لیکن اگر کوئی سنجیدہ قسم کھا کر اسے توڑے تو ایسے شخص کو قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ جو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ اس (کے توڑنے) کا کفارہ دس مسکینوں کو متوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے (ایسا کھانا) جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کا لباس یا ایک (غلام کی) گردن کا آزاد کرنا۔ پھر جسے (یہ بھی) میسر نہ ہو تو (اس پر) تین دن کے روزے (واجب) ہیں۔(سورۃ المائدہ:90)
آنحضورﷺ نے جھوٹی قسم کھانے پر شدید انذار فرمایا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے تین بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ جھوٹی قسم کھانے کو قرار دیا۔(بخاری كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِبَاب الْيَمِينِ الْغَمُوسِ)نیز آپؐ نے فرمایا جو شخص کسی کے حق کو جھوٹی قسم کے ذریعہ کھانا چاہے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہو گا۔(بخاری کتاب الایمان و النذور بَاب عَهْدِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ) اور ایک اور حدیث میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اُس پر جنت کو حرام اور جہنم کی آگ کو اس کے لیے واجب کردے گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام بَاب مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَاجِرَةٍ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالًا)
پس بوقت ضرورت انسان اللہ تعالیٰ کی قسم کھا سکتا ہے لیکن کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور چیز کی قسم کھائے۔چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں منع فرمایا ہے کہ تم اپنے آباءواجداد کی قسم کھاؤ، جس نے قسم کھانی ہو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔ (بخاری کتاب الایمان و النذوربَاب لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ)اسی طرح فرمایا کہ تم نہ اپنے باپوں کی،نہ اپنی ماؤں کی اور نہ ہی غیر اللہ کی قسم اٹھاؤ۔صرف اللہ کی قسم اٹھاؤ، اور اللہ کی قسم بھی اس وقت اٹھاؤ جب تم سچے ہو۔ (سنن ابی داؤد کتاب الایمان و النذور بَاب فِي كَرَاهِيَةِ الْحَلْفِ بِالْآبَاءِ)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے قسم کھانے کابھی ذکر ہے، جن میں بہت سی قسمیں اللہ تعالیٰ کے سوا مختلف اشیاء کی بھی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ اور انسان کی قسموں کا فرق نیز اللہ تعالیٰ کے ان اشیاء کی قسم کھانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ جلّ شانہٗ کی قسموں کا انسانوں کی قسموں پر قیاس کر لینا قیاس مع الفارق ہے خداتعالیٰ نے جو انسان کو غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے تو اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان جب قسم کھاتا ہے تو اِس کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی ہے اس کو ایک ایسے گواہ رویت کا قائم مقام ٹھہراوے کہ جواپنے ذاتی علم سے اس کے بیان کی تصدیق یا تکذیب کر سکتا ہے کیونکہ اگر سوچ کر دیکھو تو قسم کااصل مفہوم شہادت ہی ہے۔ جب انسان معمولی شاہدوں کے پیش کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر قسم کا محتاج ہوتا ہے تا اُس سے وہ فائدہ اٹھاوے جو ایک شاہد رویت کی شہادت سے اُٹھانا چاہیے لیکن یہ تجویز کرنا یا اعتقاد رکھنا کہ بجز خداتعالیٰ کے اور بھی حاضر ناظر ہے اور تصدیق یا تکذیب یا سزادہی یا کسی اور امر پر قادر ہے صریح کلمہ کفر ہے اِس لئے خداتعالیٰ کی تمام کتابوں میں انسان کے لیے یہی تعلیم ہے کہ غیراللہ کی ہرگز قسم نہ کھاوے۔
اب ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کی قسموں کا انسان کی قسموں کے ساتھ قیاس درست نہیں ہو سکتا کیونکہ خداتعالیٰ کو انسان کی طرح کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آتی کہ جو انسان کو قسم کے وقت پیش آتی ہے بلکہ اُس کا قسم کھانا ایک اور رنگ کا ہے جو اُس کی شان کے لائق اور اُس کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے اور غرض اُس سے یہ ہے کہ تا صحیفہ قدرت کے بدیہات کو شریعت کے اسرار دقیقہ کے حل کرنے کے لیے بطور شاہد کے پیش کرے اور چونکہ اِس مدعا کو قسم سے ایک مناسبت تھی اور وہ یہ کہ جیسا ایک قسم کھانے والا جب مثلًاخداتعالیٰ کی قسم کھاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ میرے اِس واقعہ پرگواہ ہے اِسی طرح خداتعالیٰ کے بعض کُھلے کُھلے افعال بعض چھپے ہوئے افعال پر گواہ ہیں اِس لئے اس نے قسم کے رنگ میں اپنے افعال بدیہیہ کو اپنے افعال نظریہ کے ثبوت میں جابجا قرآن کریم میں پیش کیا اور اس کی نسبت یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے غیراللہ کی قسم کھائی۔ کیونکہ وہ درحقیقت اپنے افعال کی قسم کھاتا ہے نہ کسی غیر کی اور اُس کے افعال اُس کے غیر نہیں ہیں مثلًا اُس کا آسمان یا ستارہ کی قسم کھانا اس قصد سے نہیں ہے کہ وہ کسی غیر کی قسم ہے بلکہ اِس نیت سے ہے کہ جو کچھ اُس کے ہاتھوں کی صنعت اور حکمت آسمان اور ستاروں میں موجود ہے اس کی شہادت بعض اپنے افعال مخفیہ کے سمجھانے کے لیے پیش کرے۔سو درحقیقت خداتعالیٰ کی اِس قسم کی قسمیں جو قرآن کریم میں موجود ہیں بہت سے اسرار معرفت سے بھری ہوئی ہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں۔ قسم کی طرز پر ان اسرار کا بیان کرنا محض اِس غرض سے ہے کہ قَسم درحقیقت ایک قِسم کی شہادت ہے جو شاہد رویت کے قائم مقام ہو جاتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ کے بعض افعال بھی بعض دوسرے افعال کے لیے بطور شاہد کے واقع ہوئے ہیں سو اللہ تعالیٰ قسم کے لباس میں اپنے قانونِ قدرت کے بدیہات کی شہادت اپنی شریعت کے بعض دقائق حل کرنے کے لیے پیش کرتا ہے۔ تا قانونِ قدرت جو خداتعالیٰ کی ایک فعلی کتاب ہے اس کی قولی کتاب پر شاہد ہو جائے اور تا اس کے قول اور فعل کی باہم مطابقت ہوکر طالب صادق کے لیے مزید معرفت اور سکینت اور یقین کا موجب ہو اور یہ ایک عام طریق اللہ جلّ شانہٗ کا قرآن کریم میں ہے کہ اپنے افعال قدرتیہ کوجو اُس کی مخلوقات میں باقاعدہ منضبط اور مترتب پائے جاتے ہیں اقوال شرعیہ کے حل کرنے کے لیے جا بجا پیش کرتا ہے تا اِس بات کی طرف لوگوں کو توجہ دلاوے کہ یہ شریعت اور یہ تعلیم اُسی ذات واحدلاشریک کی طرف سے ہے جس کے ایسے افعال موجود ہیں جو اُس کے اِن اقوال سے مطابقت کلّی رکھتے ہیں کیونکہ اقوال کا افعال سے مطابق آ جانا بلاشبہ اِس بات کا ایک ثبوت ہے کہ جس کے یہ افعال ہیں اُسی کے یہ اقوال ہیں۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 95 تا98 حاشیہ)
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ قسموں کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:قرآن شریف میں جہاں کہیں قسموں کا ذکر ہوتا ہے۔ اسکی تہہ میں کوئی نہ کوئی بڑی بڑی حکمت خدائے تعالیٰ نے رکھی ہوتی ہے۔ وہ حکمت جاہلوں۔ عالموں۔ صوفیوں سب کے لیے ہوتی ہے اور سب کے واسطے یہ قسمیں فائدہ بخش ہوتی ہیں۔عام لوگوں کی فطرتوں میں اور بالخصوص اہل عرب کے دلوں میں یہ بات مرکوز ہے کہ جوشخص بھی جھوٹی قسمیں کھاتا ہے وہ برباد۔ ذلیل۔ ناکام اور نامراد ہو جاتا ہے۔
ایک طرف تو مشرکین عرب آنحضرتﷺ کو کافر سمجھتے تھے۔ دوسری طرف ان کی زبان سے یہ قسمیں سنتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ قسمیں کھانےوالا اگر جھوٹا ہوتا تو ضرور تباہ ہو جاتا لیکن جبکہ نبی کریمﷺ کی کامیابیاں دن بدن ترقی پذیر تھیں تو ان سے ثابت ہوا کہ یہ راست باز ہے۔
فلاسفروں کو ان قسموں سے یہ فائدہ ہوا کہ جہاں کہیں قرآن کریم میں قسم کھائی جاتی ہے۔ اس کی تہ میں فلسفیانہ ثبوت ضرور ہوتا ہے۔ اس جگہ فَلَا اُقْسِمُ میں یہ بات ہے کہ نبی کریمؐ کے ساتھ اہل عرب میں سے کس قسم کے اور کس مزاج کے لوگ شامل ہوتے تھے اور کس طرح حضرت نبی کریمﷺ کے جھنڈے کے نیچے لوگ جمع ہوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا نہیں کہ تم میں سے کام کے شخص اس کے ساتھ ملتے جاتے ہیں۔ آیا اس کو کامیابی حاصل ہو رہی ہے یا نہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہےکہ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ۔قسم قائمقام شہادت کے ہوتی ہے۔ اور قرآن شریف کی قسمیں ان امور پر دلائل ہیں جن کے لیے وہ کھائی گئی ہیں۔ مرئی اور مشہود اشیاء اور غیر مرئی اشیاء غرض بجمیع الاشیاء یہ شہادت پیش کی گئی ہے کہ یہ نبی سچار سول ہے۔(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 202)