دین کو دنیا پر مقدم رکھنا (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)
شریعت یہ کہتی ہے کہ عورت تمہاری عبادت کے راستے میں روک نہ ہو۔ عورتیں تمہیں نمازوں سے غافل نہ کریں۔ اگر ہمارے لڑکے اور لڑکیاں اس بات کا خیال رکھیں بلکہ ان کے ماں باپ بھی تو دین مقدم کرنے سے گھروں کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور وہ مقصد بھی حاصل ہو جائے گا جو ایک مومن کا مقصد ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔
اسی طرح لباس ہے۔ یہ ہرگز منع نہیں کہ عمدہ لباس نہ پہنو لیکن اس سے ضرور روکا گیا ہے کہ ہر وقت اتنے فیشن میں ڈوبے نہ رہو کہ دینی کام سے غافل ہو جاؤ۔ ہر جگہ تمہیں یہ احساس رہے کہ فلاں جگہ میں جاؤں گا تو میرا لباس گندا ہو جائے گا۔ گویا کسی وقت بھی دینی کام سے انسان غافل نہ ہو۔ اسی طرح نمازوں کی طرف توجہ کے بجائے اچھا لباس پہنا ہوا ہے، استری کیا ہوا لباس پہنا ہوا ہے، تو صرف اپنے کپڑوں کی شکنوں کی طرف نظر نہ رہے۔
پس اسلام یہ کہتا ہے کہ کبھی بھی تم دینی کام سے غافل نہ ہو تبھی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا حق ادا کر سکتے ہو۔ اسی طرح اعلیٰ کھانے ہیں ان سے دین نہیں روکتا لیکن ان کا دین کے راستے میں حائل ہو جانا ناجائز ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنے کاموں میں ان باتوں کو سامنے رکھنا چاہئے کہ جو چیزیں دین کے معاملے میں روک ہوں انہیں دُور کیا جائے۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو اسلام قبول کر کے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے۔‘‘ بالکل دنیا میں پڑ جاتے ہیں۔ فرمایا: ’’میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے۔ نہیں۔ صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کردے انہوں نے حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔ کوئی امر ان کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا‘‘۔ فرمایا کہ ’’جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہو جاتے ہیں۔ گویا دنیا کے پرستار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ اور قابو پا لیتا ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ترقی کی فکر میں ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہوتا ہے جو حزبُ اللہ کہلاتا ہے اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ193-194۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اور جیساکہ شروع میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس مَیں نے پیش کیا تھا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے سے بیعت کا مقصد پورا ہوتا ہے اور اس کا فہم حاصل کرنے کے لئے دنیاوی کاموں کے ساتھ دینی علم کا حاصل کرنا اور پھر اس کو اپنے پر لاگو کرنا بھی ضروری ہے۔ دینی علم حاصل کئے بغیر پتا ہی نہیں چل سکتا کہ دین ہے کیا، جسے میں نے دنیا پر مقدم کرنا ہے۔
اب نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے لیکن بہت سے مسلمان ہیں بلکہ شاید اسّی فیصد سے بھی زائد ایسے ہوں جو نمازیں نہیں پڑھتے اور اگر کبھی ایک آدھ پڑھ بھی لیں تو اس طرح بڑی تیزی میں اور جلدی جلدی جیسے زبردستی کوئی مکروہ کام کر رہے ہیں۔ اس لئے حضرت مصلح موعودؓنے لکھا ہے کہ بڑے بڑے آدمی ایسے بھی ہیں جو نمازوں میں سست ہیں بلکہ نواب اور رؤوسا کے لئے تو لکھتے ہیں کہ باجماعت نماز ایسی ہے جیسے ایک عام مسلمان کے لئے سؤر کھانا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 12صفحہ 80 خطبہ جمعہ بیا ن فرمودہ 29؍مارچ 1929ء)
یعنی بڑی کراہت سے پڑھتے ہیں اور یہ صرف اُس زمانے کی بات نہیں۔ آج بھی یہ حالت ہے جیسا کہ مَیں نے کہا امراء کی اکثریت بلکہ جن کے پاس تھوڑی سی بھی کشائش آ جائے، ان کو کشائش ہو جائے تو وہ بھی نمازوں سے غافل ہو جاتے ہیں اور اگر نمازیں پڑھ بھی لیں تو جو حالت نماز پڑھنے والے کی ہونی چاہئے اس سے وہ غافل ہیں۔ نمازیں پڑھنے والے تو انسانی اقدار کے محافظ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ نمازیں پاک تبدیلیاں تمہارے اندر پیدا کرتی ہیں۔ آجکل کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں غیراحمدیوں کی مساجد کی آبادی بہت بڑھ رہی ہے۔ لیکن اگر آبادی بڑھ رہی ہے تو ان نمازوں نے ان کے اندر کیا انقلاب پیدا کیا ہے؟ مُلّاں اور خطیب جن کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں وہ انہیں سوائے نفرتوں کے درس دینے کے اور کیا دیتے ہیں؟ اسی لئے ان نمازیوں کی تعداد میں اضافے کے باوجودنفرتوں کی آگیں مزید بھڑک رہی ہیں۔ ہمارے خلاف تو جو کرتے ہیں کرتے ہیں، خود آپس میں بھی یہ ایک دوسرے پر کچھ کم ظلم نہیں کر رہے۔ اس لئے کہ یہ عبادتیں دین کو مقدم کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ دنیا کے حصول کے لئے ہیں۔ بظاہر ایک اعلیٰ مقصد کے لئے مسجد میں جاتے ہیں لیکن باطن میں اس کے پیچھے دنیاوی ادنیٰ مقاصد ہوتے ہیں۔ پس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے سوچ کو بھی اعلیٰ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور قربانی ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتی ہے۔ پس یہ مساجد کی آبادی اگر اعلیٰ مقصد کو پیش نظر رکھ کر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ انسانیت کے حق قائم کئے جائیں، دین کی اشاعت اور اسلام کا قیام ہو تو سب بے فائدہ ہے۔ اور عام مسلمانوں کی یہ تکلیف دہ صورتحال ہمیں، ہم جو احمدی ہیں، پہلے سے بڑھ کر اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد یا مضمون ہے کس طرح سمجھا ہے یا ہمیں سمجھنا چاہئے۔