بچوں کے لیے ایک خصوصی تحریر
پیارے بچو! آپ کی دادی جان کے آنگن کی شہرت سُنی تو خیال کے گھوڑے پر سوار ہوکر میں بھی اس پاکیزہ محفل میں شمولیت کے لیے آپہنچا۔ تصّور ہی تصّور میں دروازے پر دستک دی اور تصّور ہی میں آپ کی دادی جان کی اجازت سے آنگن میں آکر چُپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ میں نے احمد کو بھی دیکھا اور گڑیا کو بھی اور ننھے محمود کو بھی۔ اُس وقت آپ لوگ جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی کی باتیں کررہے تھے۔ گڑیادادی جان سے پوچھ رہی تھی کہ اُسے ڈیوٹی پر کیا کرنا ہوگا؟ اور دادی جان نہایت شفقت کے ساتھ اُسے سمجھا رہی تھیں کہ جب وہ ذرا اور بڑی ہوجائے گی تو اُسے سب سے پہلے پانی پلانے یا کھانا کھلانے کی ڈیوٹی دی جائے گی۔
میں بڑی توجہ سے آپ کی دادی اماں کی باتیں سُن رہا تھا کہ اچانک اُن کے اس فقرے نے مجھے چونکا دیا اور میری یادیں مجھے دُور، بہت دُور پیچھے 1939ء کے جلسہ سالانہ پرقادیان لے گئیں جہاں میں پانی سے بھرا ہوا مٹی کا کوزہ ہاتھ میں تھامے مہمانوں کو کھانے کے دوران پانی پلا رہا تھا۔ ماہ دسمبر کے آخری ایام تھے اس لیے سردی بہت تھی۔ میرے ہاتھ ٹھنڈ کی وجہ سے یخ ہورہے تھے۔ اُس وقت میری عمر گیارہ برس تھی اور جہاں تک مجھے یا د ہے یہ جلسہ سالانہ پرمیری پہلی ڈیوٹی تھی۔
جلسہ سالانہ پر مہمانوں کے قیام کے لیے دیگر عمارتوں کی طرح تعلیم الاسلام ہائی سکول کی پُرشکوہ عمارت بھی خالی کردی جاتی تھی اور کمروں کے اندر کسیر جسے ہم کھوری یا پرالی بھی کہتے تھے بچھا دی جاتی تھی۔ ہر کمرے کے دروازے پر ایک کاغذ چسپاں کردیا جاتا جس پر نہایت خوشخط حروف میں اُس ضلع کی جماعت کا نام لکھا ہوتا تھا جو اس کمرے میں قیام کرے گی۔ کھانے کے وقت اُسی کمرے میں لمبے دستر خوان بچھا دیے جاتے جن کے دونوں طرف آمنے سامنے مہمان بیٹھ جاتے۔
ایسے ہی ایک کمرے میں کھانے کے دوران مہمانوں کو پانی پلانے پر میری ڈیوٹی تھی۔ ایک ہاتھ میں پانی کا کوُزہ اور دوسرے ہاتھ میں ’’آبخورہ‘‘ جو مٹی کا بنا ہوا گملا نُما گلاس ہوتا تھا، پکڑے میں قطار میں بیٹھے ہوئے مہمانوں کی خدمت میں مصروف تھاکہ ایک بزرگ دیہاتی مہمان کو پانی پلانے کے لیے رُکا۔ میں نے آبخورہ ان کو پکڑایا اور کوزے میں سے پانی ڈالنے ہی لگا تھا کہ انہوں نے میرا ٹھٹھرا ہوا (سرد) ہاتھ پکڑا اور اُسے نہایت محبت کے ساتھ اپنے ہونٹوں سے لگا کر چوم لیا۔ میں نے دیکھا کہ اُن بزرگ مہمان کی آنکھوں میں محبت اور عقیدت کے آنسو تیر رہے تھے۔
ابھی میں اس محبت بھرے نظارے سے محظوظ ہوہی رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں نے یہ آواز سُنی: ’’یہی وہ وصف ہے خدمت کے جذبے کا جو صرف جماعت احمدیہ کے ہر کارکن کا خاصہ ہے۔‘‘
میرا تصور مجھے قادیان سے واپس آپ کی دادی جان کے آنگن میں لے آیا اور یہ آواز آپ کی دادی اماں کی تھی جو آپ کو امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کے ایک خطبہ جمعہ کا اقتباس سنارہی تھیں۔ میں اُسی طرح چُپ چاپ اُسی کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس بات کی کسی کو خبر تک نہ ہوئی کہ میں اپنے خیال کے گھوڑے پر سوار ابھی ابھی اسّی(80) برس کے سفر کے بعد واپس یہاں پہنچا ہوں۔
یہ تھی جلسہ سالانہ پر میری پہلی ڈیوٹی کی داستان جس کا پہلا انعام مجھے اُسی وقت مل گیا تھا جو انمول تھا۔ میں نے ایک نظر اپنے خوش قسمت ہاتھ پر ڈالی جو اب بوڑھا ہوچکا ہے۔ عقیدت اور محبت کے جذبات کے ساتھ میں جُھکا اور بزرگ مہمان کی یاد میں اُسے خود ہی پیار سے چوم لیا۔
پیارے بچو! قادیان اور ربوہ کی بہت ساری یادیں ذہن میں اُمڈ آئی ہیں۔ اگر اللہ میاں نے توفیق اور طاقت دی تو آپ کی دادی جان کی اجازت سے پھر کبھی حاضر ہوں گے۔انشاء اللہ (حفیظ الرحمٰن واحد۔ ایڈنبرا،سکاٹ لینڈ)