صحت

الائیڈ ہیلتھ (Allied Health) ایک تعارف

(ڈاکٹر طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

گذشتہ چار پانچ دہائیوں میں جدید طب کے شعبہ میں بے انتہا ترقی ہوئی ہے۔قدیم زمانہ میں طبی معالج فلاسفر بھی ہوتے تھے، ماہر فلکیات بھی اور ماہر جغرافیہ و طبیعات بھی۔اب یہ عالم ہے کہ معالج کو جسم انسانی کے کسی واحد نظام مثلاً امراض جلد کے اندر ہی اتنا مصروف رہنا پڑ جاتا ہے کہ اس کے لیے کسی اور بیماری پر مکمل عبور حاصل کرنا تقریباً ناممکن سا ہو چکا ہے۔ ہاں کسی کو شوق ہو تو وہ اور بات ہے۔اسی لیے ناگزیر طورپراب نت نئی اقسام کی سپیشیلٹی (Specialities) بھی ترقی پا گئی ہیں اور ساتھ ہی ان کے معاون و مددگارایسے طبی شعبے بھی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر گئے ہیں جنہیں اصطلاحاً الائیڈ ہیلتھ کہا جاتا ہے۔جنرل پریکٹیشنر (GP) کو، جسے فیملی فزیشن (Family Physician) بھی کہا جاتا ہے، عموماً ہرفن مولا (Jack of All) سمجھا جاتا ہے لیکن وقت کی قلت کی بنا پر وہ بھی اپنے مریضوں کی تمام طبی ضروریات پوری نہیں کرسکتا اورمریض کی کل جہتی (Hollistic) بہتری کی خاطربجا طورپرسپیشلسٹوں کے علاوہ الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلزکی مدد پر انحصارکرتا ہے۔

جدید ترقی یافتہ ممالک میں یہ رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے کہ زیرِ تعلیم اور دیگرافراد بھی اب الائیڈ ہیلتھ کو بطور پیشہ ترجیح دے رہے ہیں۔ خدمت انسانیت بھی، ڈاکٹر کی نسبت ذمہ داری بھی کم اور پھر مالی کشائش، ہر تین صفات سے متصف الائیڈ ہیلتھ کے چند شعبوں کا تعارف نوجوان نسل نیزافادہ عام کی خاطرپیش کیا جاتاہے۔

فزیو تھیراپی (Physiotherapy)

یہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔فزیوتھیراپی کا مقصد کسی چوٹ،فالج،فریکچر،ہارٹ اٹیک، بائی پاس،عمومی فٹنس،مصنوعی اعضا لگنے کے بعد ورزش، یا پھر کھلاڑیوں کو کھیلوں کی تیاری وغیرہ میں مدد اور پھر ان کا فالو اپ شامل ہے۔ ایکسرسائز فزیو تھیراپسٹ اپنا جم بھی کھول سکتے ہیں، جہاں فٹنس کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور اچھی خاصی کاروباری منفعت بھی حاصل کی جاتی ہے۔فزیوتھیراپی کے بہت سے کورسز دستیاب ہیں،جن میں پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فزیو تھیراپی) تک شامل ہیں۔

سپیچ پیتھالوجی اور سپیچ تھیراپی

Speech Pathology & Speech Therapy

بعض بچے صحیح بول نہیں سکتے،یا دیر سے بولنا شروع کرتے ہیں۔اسی طرح بعض افراد کو زبان یا حلق کا فالج ہوجاتا ہے، بعض خوراک نہیں نگل سکتے،مریض کے ناک، حلق، نرخرے یا زبان کی بوجہ کینسر سرجری ہوئی ہوتی ہے اور انہیں نئے سرے سے بولنا، آواز نکالنا سیکھنا پڑتا ہے۔

بعض لوگ اجنبی زبان کا تلفظ صحیح طرح سے ادانہیں کرسکتے وغیرہ۔ ان تمام عوارض میں سپیچ پیتھالوجسٹ مدد کرتے ہیں جسے سپیچ تھیراپی کہا جاتا ہے۔ فی زمانہ ان کی بڑی مانگ دیکھنے میں آرہی ہے۔

آڈیالوجی(Audiology)

پیدائشی بہرہ پن ہو یا کسی اور وجہ سے پیدا ہونے والےشنوائی کے عوارض کا تعلق شعبہ آڈیالوجی سے ہے۔ آڈیالوجسٹ (Audiologist) ہر قسم کے بہرہ پن کے لیے خاص مشینوں کے ذریعہ ٹیسٹ کرتے ہیں اور آلہ سماعت تجویز کرتے ہیں۔آج کل تو جدید امپلانٹ (Cochlear Implant)بھی دستیاب ہیں جو پیدائشی طورپر بہرے بچوں یا دیگربہرےافراد کی کھوپڑی پر بٹن کی صورت فٹ کردیے جاتے ہیں، لیکن یہ صرف مخصوص مریضوں کے لیے ہوتے ہیں اور ای این ٹی سرجن ہی لگاتے ہیں۔

آپٹومیٹری (Optometry)

اکثر لوگ انہیں محض ’’عینک ساز‘‘یا لینس فروش ہی سمجھتے ہیں،لیکن باقاعدہ سند یافتہ آپٹومیٹرسٹ (Optometrist) آنکھوں کی بہت سی امراض کی تشخیص بھی کرتے ہیں۔ خاص طور پرذیابیطس اور بلند فشارخون یا بڑھاپےکی وجہ سے پیدا ہونے والے اندھے پن کو اس کی ابتدا میں ہی تشخیص کر لیتے اور آئی سپیشلسٹ کو ریفر کرتے ہیں۔ آپٹو میٹری میں ڈاکٹریٹ تک کی ڈگری حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہسپتالوں میں کام کرنے کے علاوہ ان کے ذاتی کلینک بھی ہوتے ہیں۔ جدید ترقی یافتہ ممالک میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے سال میں ایک بار اپنی آنکھیں آپٹومیرسٹ سے چیک کروانا لازمی ہوتا ہے۔

پوڈائٹری (Podiatry)

انہیں معالجِ پا یعنی پاؤں کے ڈاکٹر بھی کہہ سکتے ہیں۔بہت ہی اہم شعبہ ہے۔ ذیابیطس، فالج کے مریض ہوں یا میراتھان رنر ایتھلیٹ کے دکھتے یا چھالوں بھرے پاؤں،بچوں کے پاؤں کی بناوٹ کی مناسبت سے خاص قسم کے بوٹ بنوانے ہوں یا پاؤں میں بنے بدنما گٹھے (Callus,corns) کٹوانے ہوں، یا پھرہر وقت ٹھنڈے رہنے والے، نیلے پڑتے، جلتے ہوئے یا بے حس پنجے اور سُن رہنے والے پاؤں، پوڈائٹرسٹ خاص ٹیسٹ کرکے اس کی وجہ معلوم کرسکتے ہیں۔ جدید ترقی یافتہ ممالک میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر نیز بلڈ کلاٹ یعنی انجماد خون وغیرہ کے مریضوں کے لیے سال میں ایک بار اپنے پاؤں پوڈائٹرسٹ سے چیک کروانا لازمی ہوتا ہے۔

ذیابیطس ایجوکیٹر

(Diabetes Educators)

ایک اندازہ کے مطابق صرف آسٹریلیا میں ڈیڑھ ملین افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔ان میں سے بہت سوں کو اپنے مرض کی حقیقت یا اس کو کنٹرول کرنے کی اہمیت کا علم نہیں۔اسی طرح بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ادویات صحیح طرح سے نہیں لیتے،نہ ہی باقاعدگی سے بلڈ شوگر، کولیسٹرول وغیرہ چیک کرواتے ہیں۔ ان تمام معاملات کے لیے ذیابیطس ایجوکیٹرنہایت فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں جو ذیابیطس کے ہر ایسے مریض سے رابطہ رکھتے اور اس موذی مرض کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے سارا سال ان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔انہیں حکومت کی طرف سے فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں اور یہ ایک ’’صاف ستھرا‘‘معزز پیشہ ہے۔حمل کی وجہ سے یا حمل کے دوران ذیابیطس لاحق ہو جائے تو ان ماہرین کی اہمیت وافادیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

آکوپیشنل تھیراپی

(Occupational Therapy)

پیدائشی یا بعد میں کسی وجہ سے عارضی یا مستقل معذور ہوجانے والے افراد،نیز بڑھاپے کی وجہ سے کسی بھی پہلو سے معذوروں کی مدد کرتے ہیں۔ان کی معذوری کے دوران ہر قسم کی مدد فراہم کرنا،نیز عارضی معذوری سے جلد از جلد ریکوری، یا انہیں کسی نئے پیشہ کی تربیت دلوا کر متبادل روزگار کے قابل بنانا،ضعیف اور معذور افراد کے گھروں میں جاکر ان کی معذوری کے لحاظ سے گھر میں ایسی تبدیلیاں کروانا، مثلاً الیکٹرک لفٹ لگانا، بجلی کے سوئچ یا مثلاًچولہے، ٹوائلٹ کی بلندی کم یا زیادہ کروا کر دینا کہ ان تک پہنچ بآسانی ہوسکے،سیڑھیوں کی بجائے ڈھلوان سطح تعمیر کروانا،پلنگ پہ کھلنے بند ہونے والے جنگلے لگوادینا تاکہ سوتے میں گر نہ سکیں،ڈرائیونگ ٹیسٹ لینا، کار میں سیٹ، گیئر وغیرہ کی ایڈجسٹمنٹ اور ہر وہ سہولت جو آپ تصور میں لا سکتے ہیں۔اسی طرح ڈیمنشیا (Dementia) کی تشخیص، انشورنس کے کلیم (claims)وغیرہ میں مدد دینا وغیرہ وغیرہ۔ بہت اہم اور باعث تسکین شعبہ ہے۔

نرس پریکٹیشنر اور ڈاکٹراسسٹنٹ

(Nurse Practitioner / Doctor Assistant)

مختلف ممالک میں مختلف حیثیت کے طبی سہولت کار یہ دو مقدس پیشے ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ مکمل ڈاکٹر نہیں ہوتے لیکن بڑی حد تک ڈاکٹر کی کمی پوری کردیتے ہیں۔ ملکی قانون کے مطابق ایک حد تک ادویات بھی لکھ کر دے سکتے ہیں۔ ہر ملک کے الگ الگ قوانین ہیں جو ان کا کردار متعین کرتے ہیں۔

کلینیکل سائیکالوجی اور مینٹل ہیلتھ کونسلنگ (Clinical Psychology and Mental Health Counselling)

ان کی تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں کہ ’’آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے !‘‘۔

فورینزنک میڈیسن اور کریمینل سائیکالوجی (Forensic Medicine and Criminal Psychology)

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ان شعبوں کا تعلق جرائم اور مجرموں یا ملزموں سے ہے جو اصل مجرم تک پہنچنے اور ان کی یا مشتبہ افراد کی نفسیات کو جانچنے، ان کی سوچ بدلنے میں مدد دیتے ہیں۔

ماہرِ غذا

(Dietician/Nutritionist)

برصغیر پاک وہند وغیرہ میں تو عام دیکھا گیا ہے کہ ڈاکٹرتقریباً ڈانٹے ہوئے موٹاپے، ذیابیطس، دل یا گردہ کے مریض کو بس یہ کہہ کر رخصت کردیتے ہیں کہ ’’پرہیز کرو پرہیز‘‘، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ ’’بڑا گوشت کھانابند کردو‘‘۔

اسی طرح تکلف برطرف بعض دیسی حکیم بھی ایسے ہیں جوغذا کے معاملہ میں مریض کا جینا ہی دوبھر کردیتے ہیں، مثلاً موسم ہو یا نہ ہوتازہ بہی دانہ اورانار ضرور کھانا ہے، یا مثلاً ’’چاول، مکئی، جو اور گندم سے پرہیز لازم ہے‘‘، لیکن اس معاملہ میں ترقی یافتہ ممالک میں مریضوں کو ماہرِ غذا (Nutritionist/Dietician) کی طرف ریفر کیاجاتاہے جو بڑی تفصیل سے پہلے تو مریض کی معمول کی خوراک کا جائزہ لیتے ہیں،پھر اس کے مرض کےمطابق اس کو ’’پرہیز‘‘ کا چارٹ بنا کر آسان الفاظ میں سمجھاتے ہیں، پڑھنے کا مواد اور کھانے کا ریکارڈ رکھنےکی ’’ڈائری‘‘ بھی دیتے ہیں اور پھر ماہ بماہ یا جیسا ضروری ہو، فالو اپ کرتے اور ڈاکٹر کو مریض کی پراگریس رپورٹ بھجواتے رہتے ہیں۔ اس شعبہ میں بھی مانگ بہت زیادہ ہے۔

پیرامیڈک، نرسنگ، فارمیسی، مڈوائفری (دائی)

(Paramedic, Nursing, Pharmacy, Midwifery)

طب سے وابستہ یہ شعبے ایسے ہیں، جو بعض ممالک میں ’’الائیڈ ہیلتھ‘‘میں شمار نہیں ہوتے۔لیکن بہرحال ان کا ذکر محض یاددہانی کے لیے کرنا ضروری ہے کہ یہ بھی میڈیکل سائنس سے منسلک انتہائی اہم اور اچھے پیشے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں تو ایمبولینس ڈرائیور کا پیشہ بھی مقدس شمار ہوتا ہے۔ان ممالک میں ایمبولینس ڈرائیور ہر قسم کی ایمرجنسی کو فرسٹ ایڈ مہیا کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کے لیے ایمرجنسی کی تعلیم اور تربیت لینا لازمی ہوتا ہے۔

آخر میں طب کے شعبہ سے وابستہ مزید کچھ پیشوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو اچھا ذریعہ روزگار بھی ہیں اور خدمت انسانیت بھی۔ واضح رہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں۔

کیمیکل پیتھالوجی

(Chemical Pathology)

بائیو کیمسٹری،بائیومیڈیکل وغیرہ کے طلبہ لیبارٹری سائنس کے ذریعہ کیمیکل پیتھالوجسٹ بن کر ہسپتال یا پرائیویٹ لیبارٹری یا ریسرچ میں جا سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ کم دورانیہ کے لیبارٹری ٹیکنیشین کے کورس بھی ہوتے ہیں جن کے ذریعہ کلینیکل لیب کا کام سرانجام دیا جاتا ہے۔

کلینیکل مائیکروبیالوجی (Microbiology)

سائنس کے طلبہ میڈیکل مائیکروبیالوجی میں تخصّص کرکے ہسپتالوںاور پرائیویٹ لیبارٹریوں سے منسلک ہوسکتے ہیں نیز ریسرچ میں بھی جاسکتے ہیں۔

فلیباٹومی (Phlebotomy)

یعنی ڈاکٹر جو ٹیسٹ لکھ کر دیتے ہیں تو مریض کی رگوں سے بلڈ سیمپل لینا (Blood specimen collection)۔ اس کے علاوہ عطیہ خون لینا۔ بعض مریضوں میں فولاد کی زیادتی ہوتی ہے انہیں باقاعدہ کچھ خون جسم سے نکالنا پڑتا ہے تو فلیباٹومسٹ (Phlebotomist) یہ کام کرتے ہیں۔ فل ٹائم جاب میں اچھی انکم ہو جاتی ہے۔

ڈینٹل اسسٹنٹ، ڈینٹل نرس اور ڈینٹل ہائی جینسٹ

(Dental Assistant, Dental Nurse and Dental hygienist)

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ان کا تعلق شعبہ ڈینٹسٹری سے ہے۔

ڈائلیسس ٹیکنیشین

(Dialysis Technician)

دنیا بھر میں ان کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ امراض گردہ اور ڈائیلسس کے مریضوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈائیلسس خون کی بھی ہوتی ہے اور پیٹ کے ذریعہ بھی جسے پیری ٹونئیل (Peritoneal Dialysis) ڈائیلسس کہا جاتا ہے۔

پرفیوژنسٹ (Perfusionist)

جب دل یا دل اورپھیپھڑوں کی میجرسرجری ہوتی ہے تو بعض کیسوں کو مصنوعی دل کی مشین

(Heart and Lung Machine) پہ ڈال دیا جاتا ہے۔ مریض کا سارا خون دل کی بجائے اس مشین کے اندر سے صاف اور پمپ ہوکر گزرتا ہے۔اس مشین کوچلانے والا ’’پرفیوژنسٹ ‘‘کہلاتا ہے۔ یہ نہ ہو تو اس قسم کے آپریشن نہیں ہو سکتے۔

تھیٹر اسسٹنٹ

(Theatre Assistant)

ان کا کام آپریشن تھیٹر کو ورکنگ کنڈیشن یعنی چالو حالت میں رکھنا، آپریشن کی مناسبت سے سرجیکل آلات کی ٹرالی تیار کرکے رکھنا، اور سرجن کی ہدایات پہ فوری عمل کرنا، آپریشن کے بعد استعمال شدہ و خون آلود آلات وغیرہ کو ڈسپوز کرنا شامل ہے۔

انیستھیزیا ٹیکنیشن

(Anaesthesia Technician)

ان کا کام آپریشن کے لیے مریض کو بے ہوش کرنا، دوران آپریشن اور بعد میں بھی مریض پر نظر رکھنا، تا وقتیکہ مکمل ہوش میں آکر وارڈ میں شفٹ کردیا جائے۔اگر انیستھٹسٹ ڈاکٹر(Anaesthetist) موجود ہو تو اس کی نگرانی میں کام کرنا فرائض میں شامل ہے۔

میڈیکل امیجنگ

(Medical Imaging)

اس شعبہ کی مزید کئی شاخیں ہیں،مثلاً سونو گرافی (الٹراساؤنڈ کرنا)، ایکس رے، سی ٹی سکین، ایم آئی آر وغیرہ۔ ان شعبوں سے وابستہ افراد کا کام صرف مریض کو تیار کرنا اور الٹراساؤنڈ،ایکسرے وغیرہ کا امیج (Image)لینا اور اسے ریڈیالوجسٹ کو بھیجنا ہوتا ہے۔ باقی رپورٹ وغیرہ لکھنے کا کام ریڈیالوجسٹ کا ہوتا ہے ٹیکنیشین کا نہیں۔ ایک اچھا ذریعہ روزگار ہے۔مختلف قسم کے کورسز دنیا بھر میں دستیاب ہیں۔

میڈیکل ٹرانسکرپشن

(Medical Transcription)

دنیا میں کہیں بھی گھر بیٹھے ہی یہ جاب کی جا سکتی ہے۔ ملکی زبان مثلاً انگلش، جرمن یا فرنچ وغیرہ اچھی ہونی چاہیے اور جدید طبی اصطلاحات(Medical Terminology) کا ایک سرٹیفیکیٹ کورس پاس کرنا لازمی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اپنی رپورٹ، خط وغیرہ کی ریکارڈنگ آڈیو (Audio) فائل کی صورت میں بھیج دیتے ہیں۔ آپ کا کام اسے سن کر ٹائپ شدہ فائل (Word or PDF File) کی لکھی ہوئی صورت میں ڈاکٹر کو واپس بھجوا دینا ہے۔

اب تو ایسی ایپ (Apps) یا سوفٹ ویئر دستیاب ہوچکے ہیں کہ آپ بولتے ہیں اور کمپیوٹر ٹائپ کرتا جاتا ہے لیکن، کمپیوٹر کے لکھے ہوئے کو بھی تصحیح اور نظرثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

طبی مترجم یعنی میڈیکل انٹرپریٹنگ (Medical Interpreting)

اگر آپ ایک سے زائد زبانوں پہ مہارت رکھتے ہیں، مثلاً انگلش، جرمن یا فرنچ اور ساتھ اپنی مادری زبان پہ بھی خوب عبور رکھتے ہیں تو ذاتی طور پر حاضر ہوکر یا بذریعہ فون ہسپتالوں، کلینکس وغیرہ کے لیے ان مریضوں اور ان کے لواحقین کے لیے دنیا بھرمیں مترجم کا کام کرسکتے ہیں جو آپ ہی کے ہم زبان ہیں لیکن انگلش، فرنچ وغیرہ زیادہ نہیں جانتے۔ اس کے لیے ایک تو میڈیکل ٹرمینالوجی کا سرٹیفیکیٹ چاہیے ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ مختلف ممالک کے لحاظ سے انٹرپریٹنگ کا امتحان پاس کرکے (یا اس سے استثنا حاصل کرکے) بطور مترجم باقاعدہ رجسٹرڈ ہونا پڑتا ہے۔ رجسٹریشن کے بعد کسی انٹرپریٹنگ کمپنی کے ساتھ منسلک ہواجاسکتاہے جو آپ کو گھر بیٹھے پارٹ ٹائم، فل ٹائم یا اس سے زیادہ کا کام دلوا سکتی ہے۔ اس کام میں بھی اچھا خاصا پیسہ کمایاجا سکتا ہے اور خدمت کا ثواب الگ۔ کام بھی صرف بولنے کا ہوتا ہے۔ ہونے والی تمام گفتگو کا ریکارڈ بھی محفوظ رکھا جاتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ فی زمانہ میڈیکل کا شعبہ ایک کثیرجہتی ٹیم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس ٹیم میں ڈاکٹروں کے علاوہ مذکورہ بالا تمام شعبہ جات سے وابستہ افراد مل کرمریض کی خدمت کررہے ہوتے ہیں، سب ایک دوسرے کے لیے انتہائی اہم اور ناگزیر ہوتے ہیں۔ مواقع موجود ہیں اور در وا،آپ یا آپ کے عزیزبھی اس ٹیم کا حصہ بن کر ایک کامیاب روزگار اپنا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button