ہے ازل سے یہ تقدیرِ نمرودیت
’’سب سے پہلے میں قربانی دوں گا، میں قربانی دوں گا، میں قربانی دوں گا‘‘ آج سے چالیس سال قبل 27؍اپریل 1984ء کو مسجد مبارک ربوہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے یہ جلالی الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں اور وہ نظارہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جب یہ الفاظ سن کر لوگوں کی چیخیں نکل گئی تھیں اوروہ بچوں کی طرح بلک بلک کررونے لگے تھے۔ ہر گردن اُس وقت کٹنے کو تیار تھی۔ ہر دل کی یہ آواز تھی کہ اے جان سے پیارے آقا ! جب تک ہماری گردنیں سلامت ہیں کوئی بدبخت ہاتھ آپ تک نہیں پہنچ سکتا۔ مسجد مبارک، مسجد نہیں میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی اور ایسی آہ و بکا اور ایسی گریہ و زاری تھی جو عرش کے کنگروں کو ہلا رہی تھی اور عرش سے واپس پہنچتی بھی نظر آرہی تھی۔ اس جنگ کا پانسہ کس کے حق میں رہا یہ بتانے یا ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔
اُس روز جمعہ تھا اور احمدی اپنے پیارے امام کا خطبہ بھی نہیں سُن پائے تھے کیونکہ ایک روز قبل 26؍اپریل 1984ء کو وہ رُسوائے زمانہ اور ظالمانہ و بہیمانہ آرڈیننس جاری ہوا تھا جس نے احمدیوں سے ان کے بنیادی حقوق بھی چھین لیے تھے اور ہر احمدی کی گردن پر ہروقت تلوار لٹکنے لگی تھی۔ جس کا نشانہ کوئی بھی گردن ہوسکتی تھی مگر اس آرڈیننس کا اصل مقصد خلافت احمدیہ کو ختم کرنا تھا اور یہ سب جانتے تھے۔ اسی لیے احمدیوں کو اپنی فکر نہیں تھی۔ فکر تھی تو صرف یہ کہ ہمارے پیارے آقا ؒکی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی نہ دیکھنے پائے۔ جمعہ کے وقت مسجد اقصیٰ ربوہ بھری ہوئی تھی۔ میں بہت پہلے مسجد پہنچ گیا تھا تب بھی چوتھی یا پانچویں صف میں ہی جگہ ملی جبکہ میں پہلی صف میں بیٹھنے کا خواہش مند تھا۔
حضورؒ مسجد کے منبر پر تشریف لائے اور ہاتھ ہلایا۔ حضورانورؒ کو دیکھتے ہی مسجد اقصیٰ میدانِ کربلا بن گئی اور ایسے مذبح خانہ کا منظر پیش کرنے لگی جہاں لوگ بکروں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہوں۔ حضورؒ احمدیوں کے معاملہ میں بہت رقیق القلب تھے مگر اُس وقت صبر کا پہاڑ بنے احمدیوں کو تسلیاں دے رہے تھے۔ بغیر کچھ فرمائے دائیں بائیں دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر رہے تھے۔ لیکن آپ کے دل کی کیا کیفیت تھی یہ اللہ ہی جانتا ہے؎
صبر کا درس ہو چکا اب ذرا حالِ دل سُنا
کہتے ہیں تجھ کو ناصحا چین نہ ایک پل پڑے
خطبہ حضورؒ کی بجائے مولانا بشیر احمد شاد صاحب مربی سلسلہ نے حضورؒ کی موجودگی میں دیا اور نماز بھی انہوں نے ہی پڑھائی کہ آرڈیننس کا اصل مقصد یہی تھا کہ براہِ راست خلیفۃ المسیح پرہاتھ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ آئے اورخلافت کا جماعت سے رابطہ کاٹ دیا جائے۔ وہ کچھ نہ کہہ سکے اور اگر کہے تو قانون کے تحت گرفتاری عمل میں لائی جائے ۔ دنیا بھر کے احمدی سخت پریشانی اور فکر میں تھے۔ انہیں اپنی نہیں، جان سے عزیزآقاکی فکر تھی۔ وہ دشمن کے عزائم جانتے تھے اور دشمن بھی جانتا تھا کہ اگر جماعت کو ختم کرنا ہے تو خلافت کو ختم کر دو۔ صلیب تیارتھی اور ابنِ مریم بھی۔
مگر یہ مجال اور توفیق کسے تھی کہ وہ خلافت کو گزند پہنچا سکے۔ خدا نے اُسی سے امت کی نجا ت وابستہ کر دی تھی؎
مرے پکڑنے پہ قدرت کہاں تجھے صیاد
کہ باغ حسن محمد کی عندلیب ہوں میں
وہ خلافت جس کے قیام کی اصدق الصادقینؐ نے پیش گوئی فرمائی تھی اور مومنین نے ہزار سال سے بھی لمبی اور اندھیری رات کی دہلیز پر بیٹھ کراس سورج کے نکلنے کا انتظار کھینچا تھا ۔
گُلِ مراد کھلا تھا ہزار سال کے بعد
چمن کا ورنہ روایات پر گزارہ تھا
بیرون از ربوہ کے احمدی ربوہ کا رُخ کرنے لگے اور ربوہ والے بھی مسجد مبارک میں نماز ادا کرنے کی کوشش میں ہوتے کہ سب سے زیادہ جس کی فکر تھی اُسی کو دیکھ کر تسلی بھی پکڑتے تھے۔ حضور ؒتقریباً ہر نماز کے بعد ہی کچھ نہ کچھ فرماتے۔ حضورؒ جونہی لب کشا ہوتے تو دیوانوں کے ضبط کا بندھن ٹوٹ جاتا اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے۔
28؍اپریل کوبھی حضورؒ نےساری نمازیں پڑھائیں لیکن عشاء کی نماز کے بعد احباب جماعت سے جس طرح خطاب فرمایا، اس کا تو نظارہ ہی کچھ اور تھا۔ حضورؒ کا یہ خطاب ہجرت سے قبل آخری خطاب ثابت ہوا۔ اُس خطاب میں حضورؒ نے احباب جماعت سے وعدہ لیا کہ وہ صبر کا دامن کسی حالت میں نہیں چھوڑیں گے، فرمایا: ’’صبر کا دامن صبر کے ساتھ تھامے رکھنا ہے۔صبر روحانیت میں تبدیل ہو جایا کرتا ہے۔ہمارے پاس سب سے بڑا ہتھیار گریہ و زاری ہے۔ اتنی گریہ و زاری کریں، اتنی گریہ وزاری کریں کہ آسمان کے کنگرے بھی ہل جائیں‘‘۔
پھر کیا تھا گریہ و زاری کا ایسا شور اُٹھا جو فی الواقع عرش الٰہی تک پہنچا اور اسی گریہ و زاری نے ظالم کے خلاف آسمان پر فیصلہ لکھ دیا
آسمان پر ہو چکا تھا فیصلہ اس کے خلاف
وہ جو تھا اہل زمین نے فیصلہ لکھا ہوا
ربوہ کا آسمان اُن دنوں کجلایا ہوا تھا۔ ہر طرف اُداسی اور غمی کے بادلوں کا سایہ، شہر آباد تھا مگر شہر کی گلیاں ویران اور سنسان۔
چمن صحرا میں اور گلشن بَن میں بدل گیا
بادِ سموم سے چمن دردوں دکھوں سے لد گیا
29؍اپریل کو حضورؒ نمازوں کے لیے تشریف نہیں لائے جس پر ہر فردجماعت پریشان اور فکر مند ہوا پھر خبر سُنی کہ حضورؒ اسلام آباد تشریف لے گئے ہیں۔ اب مزید تشویش ہوئی لیکن یہ بھی یقین تھا کہ خدا کے خلیفہ کا ہر قدم خدا کے حکم سے ہی اُٹھتا ہے۔ حضورؒ کے موجودنہ ہونےسے ربوہ کی فضا غم آلود ہوجاتی تھی، اُس روز بھی یہی ہوا ۔ دیوانوں کو محبوب کی ایک پل کی جدائی بھی گوارا نہ تھی مگر اب تو دُہرا اندیشہ تھا۔ محبوب کا فراق اور پھر ظالمانہ کارروائی کا خوف۔
کچھ اور بڑھ گئی ہیں شہر کی اداسیاں
30؍اپریل کی شام اچانک یہ خبر سنی کہ حضورؒ لندن پہنچ گئے ہیں۔ پہلے تو یقین نہ آیا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ ہر طرف ظلم و ستم کا پہرہ تھا۔ جب خبر کی تصدیق ہوگئی تو حضور کی جدائی کا غم بھی کافور ہوگیا۔ چہروں پر رونق آگئی، سب خوش تھے اور ہر دل سے بےاختیار یہ صدا بلند ہوئی کہ’’نجوت من القوم الظالمین‘‘۔
یہ خبر تازہ اور مست ہوا کے جھو نکے کی طرح آئی ۔موسم بدل گیا، ایک لمحہ کے لیے چمن پر بہار آگئی، کلیاں کھل اٹھیں، چشم حزیں مسکرا اُٹھی۔ دل میں خوشی کے دیپ جلنے لگے۔ بےقراروں کو ایک لمحہ کے لیے قرار آگیا۔ تشنہ لبوں کی پیاس بجھی۔ مگر ظالم کے دل کی آگ مزید بھڑک اٹھی تھی۔ اُس نے احمدیوں پر مزید ظلم ڈھانے شروع کیے۔نت نئے ہتھکنڈے آزما کر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔
ان مظالم کی تفصیل اخبارات، رسائل، کتابوں اور تقریروں میں بیان ہوچکی ہے کہ کس طرح معصوم اور بےگناہ احمدیوں کو ستایا گیا اور کیسے کیسے عذاب دیے گئے اور کیسے کیسے مقدمات بنائے گئے۔ سکھر اور ساہیوال کے اسیرانِ راہ مولیٰ کے مقدمہ کا فیصلہ تو آمرِ وقت نے خود لکھوایا تھا اور سزائے موت سنائی تھی۔ اُن کی گردنیں تو خدا نے آزاد کر دیں مگر وہ فیصلہ اُس کی اپنی موت کا فیصلہ ثابت ہوا۔ وہ جو کہتا تھا کہ میں قادیانیت کے کینسر کو ختم کروں گا، اُس کا جسم تک محفوظ نہ رہا۔ کینسر کے مریض کی لاش تدفین کے قابل ہوتی ہے مگر اُس کے تو ٹکڑے ہوا میں اُڑ گئے یا جل کر راکھ ہوگئے۔ میڈیا میں اس خبر کا خوب خوب چرچا ہوا ۔ کئی دنوں تک یہ خبریں اخبارات اور ٹی وی پر چلتی رہیں کہ جہاز کہاں سے اُڑا، کہاں گرا، کیسے گرا اور کیوں کر گرا۔ یہ خبریں کیوں نہ نشر ہوتیں کہ پہلے سے مقدر تھا کہ
خدا اُڑا دے گا خاک ان کی ،کرے گا رُسوائے عام کہنا
زیر نظر مضمون میں تصویر کے دوسرے رُخ پر روشنی ڈالنا بھی ضروری ہے جس کا تعلق شکرانِ نعمت سے ہے۔
جامع ترمذی میں حضرت علیؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ آنحضرت ﷺنے ماہ محرّم میں روزہ رکھنے کے بارے میں فرمایاکہ محرم میں روزے رکھا کرو کہ اس مہینے میں ایک ایسا دن آتا ہے کہ جس میں خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی توبہ قبول کی اور فرعون کو غرق کیا اور آخرین میں بھی یہ واقعہ دہرایا جائے گا ۔(جامع ترمذی ،کتاب الصوم )۔ ایک اور موقع پر فرمایا جس دن فرعون غرق ہوا وہ بدھ کا روز تھا ۔(الدر المنثور للسیوطی )
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنی ایک رؤیا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں خود کوعلی مرتضیٰ سمجھتا ہوں اور آنحضرتﷺ مجھے فرماتے ہیں کہ یَا عَلِی دَعْھُمْ وَ اَنْصَارَ ھُمْ وَ زِرَاعَتَھُمْ…بعد اس کے میری طبیعت الہام کی طرف منحدر ہوئی کہ ایک شخص مخالف میری نسبت کہتا ہے۔ ذَرُوْنِی اَقْتُلْ مُوْسیٰ یعنی مجھ کو چھوڑ، تا میں موسیٰ یعنی اس عاجز کو قتل کر دوں۔ یہ خواب رات کے تین بجے قریباً بیس منٹ کم میں دیکھی تھی اور صبح بدھ کا دن تھا، فالحمدللہ علیٰ ذالک۔(ماخوذ از آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۲۱۸-۲۱۹،حاشیہ)
اس میں کئی پیشگوئیاں مضمر ہیں۔ یعنی جماعت احمدیہ پر حضرت موسیٰؑ کا زمانہ آئے گا اور وہ حضرت علیؓ یعنی چوتھے خلیفہ کا دور ہوگا اور فرعونِ وقت کو خدا بُدھ کے روز غارت کرے گا۔ آخر میں حضورعلیہ السلام نے فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک کے الفاظ لکھ کر بتا دیا کہ صرف خدا کے فضل سے ہوگا اور فرعون سے نجات تصرف الٰہی سے ہوگی لہٰذا حمد و ثنا کا مستحق صرف خداہی ہے۔حضرت موسیٰؑ کو اُن کی والدہ نے لکڑی کے تختہ پر ڈال کر پانی کی لہروں کے حوالے کر دیا تھا۔ پانی نے اُس نوزائیدہ بچہ کو منزل مقصود تک پہنچایا مگر اُسی پانی نے فرعون جیسے طاقتور اور متکبر بادشاہ کو ڈبو دیا۔بالکل ایسے ہی ایک طیارے نے خدا کے معصوم خلیفہ کو وقت کےفرعون کے پنجہ سے نجات دی اور اس سے کہیں بہتر اورمضبوط طیارے نے اُس ظالم کے ٹکڑے راکھ بنا کر فضا میں بکھیر دیے ۔ ضیاءالحق کے طیارے کے حادثے کے چند ماہ بعد خاکسار لندن گیا۔ مسجد فضل میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد ہم چند دوست حضورؒ کی رہائش گاہ کے نیچے کھڑے مباہلہ کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے خدا کے اس قہری نشان کا بڑے جوش و خروش سے ذکر کر رہے تھے اورC-130 طیارے کے گرنے اور تباہ ہوجانے کی باتیں کررہے تھے۔ ایک بزرگ جو ہماری باتیں سن رہے تھے۔ مسکرا کر کہنے لگے کہ تم لوگ کیسے فخر اور جوش و خروش سے یہ واقعہ بیان کر رہے ہو۔ پھر حضورؒ کے فلیٹ کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے کہ ’’جوش تم دکھا رہے ہو۔ خوش تم ہو رہے ہو جبکہ زور تو ’’اُس‘‘نے لگایا ہے۔‘‘
ان الفاظ میں ایسا رعب تھاکہ ہم سب شرمندہ ہو کر خاموش ہوگئے اور سوچنے لگے کہ کیا ہم نے خلافت کی اُس طرح مدد کی جیسا کہ ہمیں کرنی چاہیے تھی۔ کیا ہم نے جان، مال، وقت اور دعا سے خلافت کے ہاتھ مضبوط کیے اور کیا ہم نے خداتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا کہ اُس نے محض اپنے فضل سے ہم کمزوروں کی مدد کرتے ہوئے یہ سارے نشان دکھائے۔
رؤیا میں حضرت موسیٰ ؑکے زمانہ کا ذکر کرنے میں یہ تنبیہ بھی تھی کہ بنی اسرائیل پر خدا نے بڑے فضل کیے اور ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا اور فرعون سے بھی نجات عطا کی مگر انہوں نے ان نعمتوں کی قدر نہ کی اور نافرمانی کرکے ’’مغضوب علیھم ‘‘ کہلائے۔ ہم پر بنی اسرائیل سے کہیں بڑھ کر انعامات نازل ہوئے۔ ایک کے بعد دوسرے فرعون سے بھی نجات پائی اور پھر پُرامن علاقوں میں لا کر خدا نے ہمیں بسایا اورمالی کشائش بھی عطا فرمائی۔ خاکسار اگست 1984ء میں ہجرت کرکے یورپ آیا۔ کپڑوں کا ایک جوڑا میرے تن پر تھا جبکہ ایک جوڑا ایک چھوٹے سے بریف کیس میں تھا۔ وہ بریف کیس میں نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے تاکہ یاد رہے کہ کیسی بےسروسامانی اور بےنوائی کی حالت میں ملک چھوڑا تھا۔ میری طرح باقی سب بھی اسی طرح تہی دامن پردیس آئے تھے اور آج ہر طرح کی نعمتوں سے ان کی جھولی پُر ہے۔ کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم ان نعمتوں کا شکر ادا کریں؟ کیا ہم ’’عبدشکور‘‘ بن کر سجدئےشکر نہیں بجا لائیں گے ؟
تری نِعمت کی کچھ قِلّت نہیں ہے
تہی اِس سے کوئی ساعت نہیں ہے
شمارِ فضل اور رحمت نہیں ہے
مجھے اَب شکر کی طاقت نہیں ہے
یہ کیا اِحساں ہیں ترے میرے ہادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ