سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

براہین احمدیہ کی مالی معاونت کرنے والے خوش بخت

(گذشتہ سے پیوستہ )الغرض باربار حضرت اقدس علیہ السلام ہندوستان کے امیروں اورنوابوں کو اس مالی جہاد کی طرف بلاتے رہے۔آوازیں دیتے رہے۔ان کی غیرت کو جگانے کے لئے کون ساحیلہ تھا جو نہیں آزمایا لیکن ؎

گئی تیمور کے گھر سے

وہ لوگ نام کے مسلمان ثابت ہوئے۔عیش وعشرت میں وہ ایسے مگن تھے کہ قرآن،اسلام اورمحمدرسول اللہﷺ کی عزت وناموس کا انہیں کچھ پاس ہی نہ تھا۔ حضرت اقدسؑ نے یہ سب کچھ مشاہدہ کرنے کے بعد ان روحانی مُردوں اورمجذوموں کی کیفیت کا براہین احمدیہ میں ہی ایک جگہ یوں نقشہ کھینچاہے۔آپؑ فرماتے ہیں :’’…بلکہ اس جگہ صرف یہ غرض ہے کہ آریہ قوم کیسی اولوالعزم اور باہمت اور اتفاق کرنے والی قوم ہے کہ ایک ادنیٰ بات پر بھی کہ جس کی مذہب کے رُو سے کچھ بھی اصلیت نہیں پائی جاتی وہ اتفاق کرلیتے ہیں اور ہزارہا روپیہ چندہ ہاتھوں ہاتھ جمع ہوجاتا ہے۔ پس جس قوم کا ناکارہ خیالات پر یہ اتفاق اور جوش ہے اس قوم کی عالی ہمتی اور دلی جوش کا مہمات عظیمہ پر خود اندازہ کرلینا چاہئے۔ پست ہمت مسلمانوں کو لازم ہے کہ جیتے ہی مرجائیں۔ اگر محبت خدا اور رسول کی نہیں تو اسلام کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں کیا خباثت کے کاموں میں اور نفس امارہ کی پیروی میں اور ناک کے بڑھانے کی نیّت سے بےاندازہ مال ضائع کرنا اور اللہ اور رسول کی محبت میں اور ہمدردی کی راہ میں ایک دانہ ہاتھ سے نہ چھوڑنا یہی اسلام ہے، نہیں یہ ہرگز اسلام نہیں۔ یہ ایک باطنی جذام ہے۔ یہی ادبار ہے کہ مسلمانوں پر عاید ہورہا ہے۔ اکثر مسلمان امیروں نے مذہب کو ایک ایسی چیز سمجھ رکھا ہے کہ جس کی ہمدردی غریبوں پر ہی لازم ہے اور دولتمند اس سے مستثنیٰ ہیں۔ جنہیں اس بوجھ کو ہاتھ لگانا بھی منع ہے۔ اس عاجز کو اس تجربہ کا اسی کتاب کے چھپنے کے اثناء میں خوب موقعہ ملا کہ حالانکہ بخوبی مشتہر کیا گیا تھا کہ اب بباعث بڑھ جانے ضخامت کے اصل قیمت کتاب کی سو روپیہ ہی مناسب ہے کہ ذی مقدرت لوگ اس کی رعایت رکھیں کیونکہ غریبوں کو یہ صرف دس روپیہ میں دی جاتی ہے سو جبر نقصان کا واجبات سے ہے مگر بجز سات آٹھ آدمی کے سب غریبوں میں داخل ہوگئے۔ خوب جبر کیا ہم نے جب کسی منی آرڈر کی تفتیش کی کہ یہ پانچ روپیہ بوجہ قیمت کتاب کس کے آئے ہیں یا یہ دس روپیہ کتاب کے مول میں کس نے بھیجے ہیں تو اکثر یہی معلوم ہوا کہ فلاں نواب صاحب نے یا فلاں رئیس اعظم نے ہاں نواب اقبال الدولہ صاحب حیدر آباد نے اور ایک اور رئیس نے ضلع بلند شہر سے جس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے ایک نسخہ کی قیمت میں سو سو روپیہ بھیجا ہے اور ایک عہدہ دار محمد افضل خان نام نے ایک سو دس اور نواب صاحب کوٹلہ مالیر نے تین نسخہ کی قیمت میں سو روپیہ بھیجا اور سردار عطر سنگھ صاحب رئیس اعظم لودھیانہ نے کہ جو ایک ہندو رئیس ہیں اپنی عالی ہمتی اور فیاضی کی وجہ سے بطور اعانت…بھیجے ہیں۔ سردار صاحب موصوف نے ہندو ہونے کی حالت میں اسلام سے ہمدردی ظاہر کی۔ بخیل اور ممسک مسلمانوں کو جو بڑے بڑے لقبوں اور ناموں سے بلائے جاتے ہیں اور قارون کی طرح بہت سا روپیہ دبائے بیٹھے ہیں اس جگہ اپنی حالت کو سردار صاحب کے مقابلہ پر دیکھ لینا چاہئے جس حالت میں آریوں میں ایسے لوگ بھی پائے گئے ہیں کہ جو دوسری قوم کی بھی ہمدردی کرتے ہیں اور مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی کم ہیں کہ جو اپنی ہی قوم سے ہمدردی کرسکیں تو پھر کہو کہ اِس قوم کی ترقی کیونکر ہو۔ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:12)

دینی ہمدردی بجز مسلمانوں کے ہر ایک قوم کے امراء میں پائی جاتی ہے۔ ہاں اسلامی امیروں میں ایسے لوگ بہت ہی کم پائے جائیں گے کہ جن کو اپنے سچے اور پاک دین کا ایک ذرّہ خیال ہو۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ چہارم ص ’’ب،ج‘‘،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 318تا320)

یہ بڑے بڑے نواب،رئیس روحانی مجذوم اورکوڑھی نکلے۔انہیں اگر درد تھا تو دنیا کا اگر فکر تھا تو دنیا کا اگر عشق تھا تو دنیا کا اگر سودا تھا تو دنیا کا……سوائے چندخوش نصیبوں کے کہ جن کے نام نامی خداکے اس مامورنے بڑی دعاؤں کے ساتھ یہ کہتے ہوئے لکھے کہ ’’ میں نے اسی تقریرکے ذیل میں اسماء مبارک ان تمام مردان اہل ہمت اوراولی العزم کے کہ جنہوں نے خریداری اوراعانت طبع اس کتاب میں کچھ کچھ عنایت فرمایا مع رقوم عنایت شدہ ان کی کے زیب تحریرکئے ہیں اورایساہی آئندہ بھی تااختتام طبع کتاب عملدرآمدرہے گا۔کہ تاجب تک صفحۂ روزگارمیں نقش افادہ اور افاضہ اس کتاب کاباقی رہے ہریک مستفیض کہ جس کااس کتاب سے وقت خوش ہومجھ کواورمیرے معاونین کودعائے خیرسے یادکرے۔‘‘(براہین احمدیہ صفحہ ’’الف’’،روحانی خزائن جلد1صفحہ۵)

اس فہرست کے ساتھ درج ذیل 34؍خوش نصیب افرادکے نام ہیں کہ جب تک نقش افادہ اور افاضہ اس کتاب کاباقی رہے گا یعنی کہ قیامت تک کے لئے ان کے لئے دعائے خیرہوتی رہے گی۔ انشاء اللہ …ایں دعاازمن وازجملہ جہاں آمین آباد

(1)حضرت خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب بہادر وزیراعظم ودستور معظم ریاست پٹیالہ

(2)مولوی فضل حکیم صاحب

(3)خدا بخش خان صاحب ماسٹر

(4) سید محمد علی صاحب منصرم تعمیر چھاؤنی

(5)مولوی احمد حسن صاحب خلف مولوی علی احمد صاحب

(6) غلام نبی خان صاحب محرر نظامت کرم گڈھ

(7) کالے خان صاحب ناظم کرم گڈھ

(8) شیخ کریم اللہ صاحب ڈاکٹر ناظم حفظان صحت

(9) شیخ فخر الدین صاحب سول جج

(10) سید عنایت علی صاحب جرنیل

(11)بلو خان صاحب جمعدار جیل خانہ

(12) میر صدر الدین صاحب سررشتہ دار نظامت کرم گڈھ

(13) میر ہدایت حسین صاحب ساکن بسی نظامت سرہند

(14) سید نیاز علی صاحب ناظم نہر

(15) سید نثار علی صاحب وکیل کمشنری انبالہ

(16)حضرت فخرالدولہ نواب مرزا محمد علاؤالدین احمد خان صاحب بہادر فرمان روائے ریاست لوہارو

(17) جناب مولوی محمد چراغ علی خان صاحب بہادر نائب معتمد مدار المہام حیدر آباد دکن۔

(18)جناب نواب غلام محبوب سبحانی صاحب بہادر رئیس اعظم لاہور

(19)محمد عبداللہ صاحب بہاری رئیس کلکتہ۔

(20)جناب نواب مکرم الدولہ صاحب صدر المہام مالگذاری سرکار حیدر آباد

(21)جناب نواب علی محمدخان صاحب بہادر سابق رئیس جھجر

(22)وزیرغلام قادرخان صاحب بہادر ریاست نالہ گڈھ

(23)ملک یارخان صاحب تھانہ داربٹالہ

(24)عظیم اللہ خان صاحب رسائیدار ترپ پنجم رجمنٹ اول چھاؤنی مومن آباد حیدرآباد

(25)مولوی عبدالحمیدصاحب قاضی جلال آباد ضلع فیروزپور

(26)میاں جان محمدصاحب قادیان

(27)میاں غلام قادرصاحب قادیان

(28)جناب نواب احمدعلی خان صاحب بہادربھوپال

(29)مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تحصیل مظفرگڈھ

(30)میاں کریم بخش صاحب نائب منصرم تحصیل مظفرگڈھ

(31)قاضی محفوظ حسین منصرم تحصیل مظفرگڈھ

(32)میاں جلال الدین صاحب تاریخ نویس مظفرگڈھ

(33)شیخ عبدالکریم صاحب محرر جوڈیشل مظفرگڈھ

(34)میاں اکبرساکن بلہووال ضلع گورداسپور

ان مذکورہ بالاخوش نصیب ہستیوں میں سے جن کاتعارف جواس وقت تک خاکسارکومل سکا ہے پیش خدمت کیاجاتاہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button