خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 2؍ اگست 2024ء
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جلسہ اپنوں کے لیے تربیت اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنا ہے وہاں غیروں کو بھی اسلام کی تعلیم کے سمجھنے اور انہیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا ذریعہ بنا ہے۔ پس اس کے لیے جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکنا چاہیے، اس کا شکرگزار ہونا چاہیے وہاں اس عہد پر بھی قائم رہنا چاہیے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو پہنچانے کے لیے پہلے سے بڑھ کر کوشش کرتے رہیں گے
مَیں کارکنان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے جلسہ سے پہلے بھی، جلسہ کے دوران بھی اور جلسہ کے بعد بھی ان انتظامات کے کرنے اور سمیٹنے میں اپنا کردار ادا کیا اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت، عورتیں، مرد، بچے ان سب کی یہ ایسی خوبی ہے جس کی غیر بھی تعریف کرتے ہیں اور یہ خاموش تبلیغ ہوتی ہے
ہر لحاظ سے ہر شعبہ جو جلسہ سالانہ میں کام کرتا ہے بڑا فعال نظر آتا ہے اور شکریہ کا مستحق ہے
اس سال برطانیہ کے کارکنان کے ساتھ ماریشس سے بھی پہلی دفعہ بڑی تعداد میں خدام اور کارکنان آئے اور بڑا اچھا کام کیا۔ اسی طرح کینیڈا سے خدام آئے ہیں جو وائنڈ اَپ میں مدد کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے
اس جلسہ میں شامل ہو کر خاکسار کا ایمان یقین میں تبدیل ہو گیا ہے کہ یہ سچی جماعت ہے اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ہے۔ اگر ہم نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک نہ کہتے ہوئے مسیح موعودؑ کو امام الزمان نہ مانا تو ہم گمراہ ہو جائیں گے (اسماعیل بیلن، فرنچ گیانا)
دنیا کے سو سے زائد ممالک کے لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوں تو کئی چیزیں مختلف نظر آتی ہیں، کئی مسائل آ سکتے ہیں مگر یہاں ہر ایک کے اخلاق اور رویّے ایک جیسے نظر آئے(یوشیدا صاحب، جاپان)
میں آپ کی جماعت کے افرادسے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنا کردار بھرپور ادا کروں گا اور اپنے زیرِ اثر لوگوں کے سامنے اپنے ذاتی تجربات ظاہر کروں گا کہ احمدی نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ بہترین اور مثالی مسلمان ہیں (عمر دیگور صاحب، چلی)
اگر دنیا میں ہر شخص انسانیت کے لیے زیادہ شعور، بیداری اور ہمدردی پیدا کرے جیسے جماعت کر رہی ہے تو یقینی طور پر عالمی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں(مسز پیٹریشا، ہالینڈ)
مَیں نے دنیا کے بہت سے ممالک میں بہت بڑی بڑی کانفرنسز میں شرکت کی ہے لیکن اتنی بڑی کانفرنس کبھی نہیں دیکھی جس کا انتظام رضا کار انجام دے رہے ہوں( ڈاکٹر کرسٹی چانگ صاحبہ، تائیوان)
ہم اس عہد کے ساتھ اس جلسہ سے واپس جا رہے ہیں کہ اپنے اہل وطن کو بتائیں کہ جماعت احمدیہ بہت پُرامن اور بہت منظم اور بااخلاق جماعت ہے (ڈاکٹر فرینک صاحب، تائیوان)
مجھے بتایا گیا کہ جماعت احمدیہ دنیا میں قیام امن، سلامتی اور انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے لیے کام کر رہی ہے تو مجھے شروع میں یہی محسوس ہوا کہ یہ سب کچھ صرف بیانات تک محدود ہے لیکن جلسہ میں شرکت کر کے اپنے تجربے سے دیکھا اور تصدیق کی کہ جماعت جو غیروں کو بیان دیتی ہے خود اس پر عمل بھی کرتی ہے (لورینا ویلا صاحبہ، کوسٹاریکا)
جماعت کے علم کے حصول اور علم کو پھیلانے کی کاوشوں نے میرے پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس بات نے بھی مجھ پر گہرا اثر چھوڑا کہ تینتالیس ہزار افراد کی شمولیت کے باوجود پردے کا لحاظ رکھا گیا اور مرد اور عورتیں اپنی اپنی جگہ پر کام کر رہے تھے(سلیمان با صاحب، آئس لینڈ)
بالعموم مذہبی تنظیمیں ڈپلومیٹس یا سیاستدانوں کو خصوصی externalتقریبات کے لیے صرف مدعو کرتی ہیں اور تقریب کے مخصوص حصہ میں دعوت دے کر پھر الوداع کر دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس یہ بہت غیر معمولی اور قابلِ تعریف امر ہے کہ آپ کی جماعت نے ہم سب غیر از جماعت مہمانوں سے کوئی پردہ نہیں رکھا (برطانیہ میں ارجنٹائن کی سفیر مارینہ پلازا صاحبہ)
جلسہ میں ایک روحانی ماحول محسوس کیا جا سکتا ہے اور امام جماعت بھی جب کچھ بولتے ہیں تو سامعین کی مکمل خاموشی اور توجہ حیران کن ہوتی تھی۔ ایک گہرا روحانی ماحول قائم ہو جاتا تھا(روبرٹو کاتالونو، اٹلی)
میں نے ماضی میں کئی مذہبی پروگراموں میں شمولیت کی ہے لیکن میں ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے جانتی تھی کہ میری زندگی میں کچھ روحانی پہلوؤں کی کمی ہے لیکن جلسہ وہ تقریب تھی جس کی وجہ سے میری زندگی میں جو بھی کمی تھی وہ بھی پوری ہو گئی (اگاتھے میری صاحبہ، روڈرگز آئی لینڈ)
جلسے کے ماحول کو جنّت سے مشابہت دی جا سکتی ہے۔ اگر اتنے بڑے مجمع میں ایسا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے تو بعید نہیں کہ پوری دنیا میں ایسا ماحول بنایا جا سکے لیکن صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو یہ کام کر سکتی ہے(پروفیسر آربگ زکراج کوسوو)
میرے لیے سب سے یادگار لمحہ مردوں کو اللہ تعالیٰ سے دعا کے وقت روتے ہوئے دیکھنا تھا(یوراگوئے سے تعلق رکھنے والی صحافی خاتون)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اندازاً چھیالیس ملین سے زائد لوگوں نے جلسہ سالانہ کی خبر دیکھی اور سنی
جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر بے لوث خدمات بجا لانے والے کارکنان کے لیے اظہارِ تشکّر نیز جلسہ میں شامل ہونے والے بعض غیروں کے تاثرات
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 2؍اگست 2024ء بمطابق 2؍ظہور 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ ہفتے جلسہ سالانہ یوکے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دکھاتا ہوا اختتام کو پہنچا۔
یہ تین دن بڑے برکتوں والے دن تھے جس نے اپنوں اور غیروں سب پر ایک مثبت اثر چھوڑا۔
بعض غیروں کے تاثرات
بیان کروں گا لیکن اس سے پہلے
مَیں کارکنان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے جلسہ سے پہلے بھی، جلسہ کے دوران بھی اور جلسہ کے بعد بھی ان انتظامات کے کرنے اور سمیٹنے میں اپنا کردار ادا کیا اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت، عورتیں، مرد، بچے ان سب کی یہ ایسی خوبی ہے جس کی غیر بھی تعریف کرتے ہیں اور یہ خاموش تبلیغ ہوتی ہے
جو یہ کارکنان اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے کر رہے ہوتے ہیں۔ جلسہ کے تمام شعبہ جات کے کارکنان کا اس میں اہم حصہ ہے چاہے وہ داخلی راستوں پر ہیں، گیٹ پر ہیں، چیکنگ پر ہیں، پارکنگ میں ہیں، کھانا کھلانے پر ہیں، کھانا پکانے پر ہیں، صفائی پر ہیں۔ بچوں کی ڈیوٹیاں ہیں پانی پلانے کی اس پہ ہیں یا اَور بچے جو مختلف جگہوں پر ڈیوٹی دے رہے ہیں
ہر لحاظ سے ہر شعبہ جو جلسہ سالانہ میں کام کرتا ہے بڑا فعال نظر آتا ہے اور شکریہ کا مستحق ہے۔
چھوٹی موٹی کمزوریاں ہوتی ہیں بعضوں کو نظر بھی آتی ہوں گی لیکن اتنے بڑے انتظام میں ایسی کمزوریوں کو صَرفِ نظر کیا جانا چاہیے۔ بہرحال یہ جو ساری ڈیوٹیاں ہیں وہ دینے والے جو ہیں وہ علاوہ مہمانوں کی خدمت کے ایک خاموش تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ اس بارے میں تعریفی کلمات کارکنان کے لیے کہتے ہیں، لکھ کے بھیجتے ہیں، مہمان بھی جو غیر آئے ہوئے ہوتے ہیں اپنے تاثرات میں چھوڑ کے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں مختلف ممالک میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی شکر گزار ہیں کہ ہمیں جلسہ کا پروگرام احسن رنگ میں پہنچایا۔ پس
ان سب کارکنان کا مَیں بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس سال برطانیہ کے کارکنان کے ساتھ ماریشس سے بھی پہلی دفعہ بڑی تعداد میں خدام اور کارکنان آئے اور بڑا اچھا کام کیا۔
اسی طرح کینیڈا سے خدام آئے ہیں جو وائنڈ اَپ (wind-up) میں مدد کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔
پریس اور میڈیا کی کوریج
بھی اس سال بہت اچھی ہوئی ہے۔ اسی طرح ٹریفک کا انتظام بھی بہت اچھا تھا۔ ہمسائے بھی خوش رہے۔ ہر سال ان کی طرف سے شکایات آتی ہیں اس سال شکایات نہیں آئیں بلکہ ان کے خیال میں شاید گذشتہ سال سے حاضری کم تھی جو اتنے آرام سے ٹریفک چلتی رہی حالانکہ حاضری گذشتہ سال سے دو ہزار زیادہ تھی اور جب ان کو یہ بتایا گیا تو اس بات پہ بڑے حیران تھے۔ ماشاء اللہ بہت اچھا انتظام تھا۔ اس علاقے کے ہمارے ایک کونسلر ہیں، جو احمدی ہیں، مربی بھی ہیں، انہوں نے سب ہمسایوں سے تعلقات اور ٹریفک پلاننگ میں بڑا اچھا کردار ادا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے۔
بہرحال اب میں تاثرات بیان کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان تاثرات بیان کرنے والوں کے دلوں کو بھی کھولے اوروہ احمدیت کے پیغام کے حقیقی معنی کو سمجھنے والے ہوں
اور ہم اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد تھا۔ صرف یہ تین دن ہی نہیں بلکہ ان چیزوں کو ہم اپنی زندگیوں کا حصہ بھی بنائیں۔
فرنچ گیانا
سے اسماعیل بیلن صاحب جو جلسہ میں شامل ہوئے ان کا جماعت سے پرانا تعلق ہے لیکن بیعت نہیں کی ہوئی تھی۔ ان کو جلسہ کے دوران بیعت کی بھی توفیق مل گئی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنی زندگی میں اس طرح کی تقریب جہاں دنیا کی تمام بڑی زبانیں اور نسلیں جمع ہوں کبھی نہیں دیکھی۔
اس جلسہ میں شامل ہو کر خاکسار کا ایمان یقین میں تبدیل ہو گیا ہے کہ یہ سچی جماعت ہے اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ہے۔ اگر ہم نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک نہ کہتے ہوئے مسیح موعودؑ کو امام الزمان نہ مانا تو ہم گمراہ ہو جائیں گے۔
کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو اس رستہ پر ہدایت دی ہے اور آج اگر مسلمان متحد ہونا چاہتے ہیں تو ان کے لیے یہی ہے کہ جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر خلافت کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس بابرکت جماعت میں شامل ہو جائیں۔ پھر کہتے ہیں جلسہ سالانہ کے انتظامات بھی لاثانی تھے۔ ہر کارکن ہمیشہ مسکراتا ہوا نظر آیا اور ان کے چہروں پر کوئی منافقت نہیں تھی۔ ہر کارکن دلی خوشی سے مہمانوں کی خدمت کر رہا تھا۔ میں کسی کو نہیں جانتا تھا مگر ہر کوئی ایسے مل رہا تھا جیسے ہم سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ سے پہلے بھی میں کئی سالوں سے مسلمان تھا، میں مسلمان ہو گیا تھا اور اسلامی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا مگر ہمیشہ لگتا تھا کسی چیز کی کمی ہے مگر اس جلسہ میں شامل ہو کر مجھے محسوس ہو ا کہ میری وہ کمی پوری ہو گئی ہے۔
جاپان سے آئے ہوئے بدھ مت کے چیف پریسٹ
یوشیدا صاحب کہتے ہیں ہم نے جلسہ کے تمام سیشنز میں شرکت کی۔ میری اہلیہ خواتین کی مارکی میں بھی گئی۔ ہم نے نمائشیں بھی دیکھیں اور کچھ دیر کے لیے بازار کی طرف بھی گئے۔ ہر جگہ ایک بات مثالی تھی کہ خدمت کرنے والے رضاکار مستعد اور چوکس نظر آتے۔ پہلے دن سے لے کر آخری دن کے آخری لمحات تک کارکنان کا جوش و جذبہ ویسا ہی قائم و دائم تھا۔ جلسہ میں شامل ہونے والے احمدی احباب بھی نہایت مہمان نواز اور ملنسار تھے۔
دنیا کے سو سے زائد ممالک کے لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوں تو کئی چیزیں مختلف نظر آتی ہیں، کئی مسائل آ سکتے ہیں مگر یہاں ہر ایک کے اخلاق اور رویّے ایک جیسے نظر آئے۔
جہاں کسی کو روک دیا گیا وہ وہیں رک گیا اور جہاں نماز کے لیے یا جلسہ کے لیے بلایا گیا وہاں بلاتاخیر پہنچ گئے۔ کہتے ہیں ہمارے لیے جلسہ کا یہ نظارہ ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے مجھ سے بھی ملاقات کی تھی اور مَیں نے ان کو کہا تھا کہ ایک خدا پر ایمان ضروری ہے۔ اس بارے میں سوچیں اور غور کریں اور اسی طرح انسانیت سے محبت کی تلقین بھی کی۔ کہتے ہیں کہ میں بدھ مت کا پیروکار ہونے کی وجہ سے روایتی طور پر تو ایک خدا کو نہیں مانتا مگر میرا دل یہی کہتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق اورمالک ہے اور ہم سب اس کی مخلوق ہیں اور ہم اس خالق و مالک ربّ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں۔ بہرحال کچھ نہ کچھ ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانے کا خیال پیدا ہوا۔
کوسوو
سے ایک مہمان آئے تھے عزیز نذیری (Aziz Neziri) صاحب۔ کہتے ہیں پہلی بار جلسہ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ بہت خوشی ہوئی۔ ہر چیز منظّم طریقے پر چل رہی تھی۔ خاص طور پر تقاریر بہت فائدہ مند تھیں۔ خلیفہ وقت کی تقریریں سن کے میں اپنے اندر ایک روحانی تبدیلی پیدا ہوتے دیکھتا ہوں اور ان کے ساتھ میں واپس جاؤں گا۔ یہاں نمازیں پڑھنے نے میرے دل میں ایک سکون پیدا کر دیا ہے۔ کہتے ہیں میں ایک بوڑھا شخص ہوں۔ دعا ہے کہ اگلے سال مجھے پھر اس روحانی ماحول میں شامل ہونے کا موقع ملے۔ کہتے ہیں اس ماحول نے میرے اندر اسلام احمدیت کی ایک محبت بھر دی ہے۔ جہاں میں جاؤں گا اس کا ذکر ضرور کروں گا۔ لوگوں کو بھی اس طرف توجہ دلاؤں گا کہ احمدیت کی حقیقی تعلیم کو پڑھیں۔ خلیفہ وقت کے اختتامی خطاب کا جو دلائل سے لبریز تھا اس کا ذکر بھی ضرور کروں گا کیونکہ میں خود اس بات کا شاہد ہوں۔ بیعت کرنے سے قبل برشتینا نام کا جو شہر ہے وہاں جماعت کا مشن ہاؤس تھا اس کے پاس ایک دکان تھی۔ جب کبھی اس دکان میں جاتا تو وہاں دکان کا مالک جو مسلمان تھا اس کو جب پتہ چلتا کہ میں مشن ہاؤس جا کر نماز پڑھتا ہوں تو اس نے مجھے کہا کہ تم اس مسجد میں نہ جایا کرو۔ یہ قادیانی ہیں جنہوں نے ایک نیا نبی بنایا ہوا ہے۔ وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ گالیاں دیتا ہےجو ان کا نبی ہے اور اسلام میں بدعات پیدا کر دی ہیں اور اسلامی تعلیم کو بدل دیا ہے۔ لیکن میں مسلسل نمازوں پر آتا رہا اور سوالوں کے جوابات حاصل کرتا رہا اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو احمدیت کے لیے روشن کر دیا لیکن اب اس خطاب کو سننے کے بعد ایک بار پھر مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ کس طرح غیر از جماعت مخالفین لوگوں کو جماعت سے دُور کرتے ہیں۔ میں بہرحال واپس جا کر ان لوگوں کو اس خطاب کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے ہی جواب دوں گا۔
چِلّی
سے آنے والے ایک مہمان تھے عمر گیبور (Gaibur) صاحب جو چِلّی کی نیشنل حکومت میں ڈائریکٹر آف ورشپ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں میرے فرائض میں شامل ہے کہ چِلّی کی حکومت کو ملک میں قائم تمام مذہبی تنظیموں کی رجسٹریشن اور دیگر معاملات میں راہنمائی کروں۔ کہتے ہیں میں نے جماعت احمدیہ کے بارے میں ملک میں قائم مسلم تنظیموں سے رائے دریافت کی تو سب نے منفی تاثرات بیان کیے جن کا خلاصہ یہی تھا کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ میں آپ کے خلیفہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد
میں آپ کی جماعت کے افرادسے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کروں گا اور اپنے زیرِ اثر لوگوں کے سامنے اپنے ذاتی تجربات ظاہر کروں گا کہ احمدی نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ بہترین اور مثالی مسلمان ہیں۔
کہتے ہیں میں آپ کی جماعت کو چِلّی میں قائم کرنے کے اعتبار سے بھی اپنی بھرپور کوشش کروں گا۔ موصوف نے بیان کیا کہ مجھے بالخصوص خلیفہ کے پہلے دن کا خطاب بہت اچھا لگا جس میں انہوں نے ڈسپلن اور انتظامی امور پر بذاتِ خود خطبہ دیا۔ کہتے ہیں کہ میں نے کثرت سے مذہبی جلسوں میں شرکت کی ہے لیکن کبھی میں نے یہ نہیں دیکھا کہ کوئی مذہبی لیڈر خود انتظامی امور کی طرف راہنمائی کرے۔ مجھے یہ خطبہ سن کر بہت حیرت ہوئی اور ساتھ خوشی بھی کیونکہ یہ امر بتاتا ہے کہ آپ کے خلیفہ جماعت کی روحانی اور اخلاقی بہتری کے لیے اور انتظامی بہتری کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
ہالینڈ
سے ایک خاتون مسز پیٹریشیا (Patricia)کہتی ہیں۔ سب سے پہلے تو میں جلسہ یوکے 2024ء کے دوران آپ کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی اور بہت سارے لوگ، دنیا کے مختلف علاقوں کے لوگ آئے ہوئے تھے اور بھائی چارے کا ایک عجیب اظہار تھا۔ انڈونیشیا سے لے کر امریکہ تک کے ممالک کے لوگ تھے۔ کہتی ہیں میں آپ کے اجتماعات جیسے پیس واک (Peace Walk) وغیرہ ہے، امن کانفرنس وغیرہ ہے ان میں شامل ہوتی ہوں۔ اب یہ جلسہ پر آنا میرا اگلا قدم ہے۔ کہتی ہیں یہاں مَیں نے دیکھا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں شرکاء کو ہینڈل کرنا اور ایک گاؤں کا سیٹ اپ لے کر اس کی تعمیر بشمول تمام لوجسٹکس اور تمام سہولیات کا بہت اچھی طرح انتظام کیا گیا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتی نظر آئی۔ کوئی لائنیں نہیں تھیں۔ لوگ ساتھ کے ساتھ صفائی بھی کرتے جا رہے تھے۔ جلسہ کو ممکن بنانے کے لیے عملے کی پوری ٹیم اور رضاکاروں کی ٹیم کو مبارکباد۔ نوجوان طلبہ اور ہر ایک کو چھوٹے کاموں میں شامل دیکھنا، بڑے مقصد کے لیے تعاون کرتے دیکھنا ہمیشہ خوش آئند ہے۔ کہتی ہیں مختلف سیشنز میں حصہ لے کر پُرامن توانائی محسوس ہوئی خاص طور پر عالمی بیعت کی نشست زندگی بھر یاد رکھوں گی۔ کہتی ہیں
اگر دنیا میں ہر شخص انسانیت کے لیے زیادہ شعور، بیداری اور ہمدردی پیدا کرے جیسے جماعت کر رہی ہے تو یقینی طور پر عالمی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
ارجنٹائن
سے آنے والے ایک مہمان ٹامس رینل (Tomas Randle) صاحب جنہوں نے ارجنٹائن کی نیشنل سیکرٹری آف ورشپ کی نمائندگی کی بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ کی جماعت کے جلسہ کو رشک کی نگاہ سے دیکھا۔ کس عمدگی سے اور نظم و ضبط سے آپ لوگوں نے اس قدر بڑے مجمع کا انتظام کیا! کہنے لگے کہ ہمارے ملک میں ناممکن ہے بلکہ پولیس کی موجودگی میں بھی اس عمدگی سے اتنے بڑے مجمع کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور جو خلیفہ کا عورتوں سے خطاب تھا وہ اس پہلو سے بھی مجھے اچھا لگا کہ
آپ لوگ معاشرے کے دباؤ اور مغربی دنیا کے اثر کے باوجود پختگی سے اپنے اصول پر قائم ہیں۔
کہتے ہیں گو کہ بحیثیت عیسائی میں تمام بیان فرمودہ نکات سے متفق تو نہیں لیکن بالخصوص جو فیملی لائف سے متعلقہ امور بیان کیے گئے وہ میرے لیے بحیثیت غیر مسلم بھی نہایت مفید تھے۔
تائیوان
سے آئی ہوئی مہمان ڈاکٹر کرسٹی چانگ صاحبہ کہتی ہیں کہ ہمیں ایئر پورٹ سے بڑا ریسیو کیا گیا۔ بہت مہمان نوازی کا سلوک کیا گیا اور پھر ہمیں جلسہ میں شامل ہونے کا موقع ملا جہاں ہم نے دیکھا کہ ہزاروں رضا کار کام سرانجام دے رہے ہیں۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کہتی ہیں
مَیں نے دنیا کے بہت سے ممالک میں بہت بڑی بڑی کانفرنسز میں شرکت کی ہے لیکن اتنی بڑی کانفرنس کبھی نہیں دیکھی جس کا انتظام رضا کار انجام دے رہے ہوں۔
لجنہ سے خطاب میں بھی خلیفہ وقت نے احمدی بچیوں کی زندگی گزارنے کے نہایت خوبصورت انداز سکھائے۔ اس خطاب کے دوران مَیں بچیوں کے expressions نوٹ کرتی رہی۔ جس توجہ سے بچیاں ان نصائح کو سن رہی تھیں اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ احمدی بچیاں اور نوجوان نسل اپنے خلیفہ سے محبت کرتی ہے۔ میں پہلی دفعہ امام جماعت سے مل رہی تھی میرا تاثر تھا کہ ہماری ملاقات بڑی فارمل انداز میں ہوگی، کئی قسم کے تکلفات اور ہدایات کا سامنا ہو گا مگر بڑے غیر فارمل انداز میں ہماری ساری باتیں ہوئیں، حال احوال پوچھا، تائیوان کے بارے میں بھی دریافت کیا۔کہتی ہیں ہمارے بہت سارے سوال تھے لیکن ہم امام جماعت کے سوالوں کے جوابات دینے میں اتنے مگن ہوئے کہ ہمیں کچھ پوچھنے کا موقع نہیں ملا۔ بہرحال جلسہ نے ان پر نیک اثر قائم کیا۔
تائیوان
سے آئے ہوئے ایک اَور مہمان ڈاکٹر فرینک صاحب کہتے ہیں: بہت لمبا سفر کر کے اس کانفرنس میں شامل ہوئے۔ تائیوان سے سفر پر نکلے، بیجنگ پہنچے تھے کہ تائیوان میں طوفان کی وجہ سے فلائٹ کینسل ہو گئی مگر ہم پھر بھی سفر کرنے میں کامیاب ہوئے، بخیریت پہنچ گئے اور مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ہمارا یہ سفر معجزانہ ہے۔ کہتے ہیں جلسہ میں شامل ہو کر ہمیں لگا کہ یہ خدا کی تقدیر تھی جس کی بدولت ہم جلسہ میں شامل ہو سکے۔ جلسہ کے افتتاحی خطاب میں امام جماعت احمدیہ نے جب یہ کہا کہ یہ کوئی دنیوی جلسہ نہیں بلکہ ایک روحانی اجتماع ہے تو دوبارہ میرا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ بظاہر مشکل حالات کے باوجود جس طرح خدا نے ہمیں جلسہ میں شرکت کا موقع دیا یہ سب خدا کی عطا اور معجزے کا نتیجہ ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم میاں بیوی تائیوان سے جلسہ میں شامل ہونے والے اوّلین لوگوں میں سے ہیں۔
ہم اس عہد کے ساتھ اس جلسہ سے واپس جا رہے ہیں کہ اپنے اہل وطن کو بتائیں کہ جماعت احمدیہ بہت پُرامن اور بہت منظّم اور بااخلاق جماعت ہے
اور ہم آئندہ سالوں میں مزید مہمانوں کو جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کی تحریک کریں گے۔
کینیڈا
سے ایک ایرانی نژاد مہمان یہ مجھے یاسین احمدی صاحب لگتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ صحافی بھی ہیں۔ موصوف کہتے ہیں میں نے احمدیہ جلسہ سالانہ کو دین کی شکل میں حکمت اور عقل کا ایک پُرشکوہ مظاہرہ پایا۔ جلسہ سالانہ کی روح مسلمانوں کے درمیان برابری کے نشانات سے بھرپور تھی۔ جب مَیں نے اس جلسہ میں شرکت کی تو پہلے ہی لمحے سے مَیں نے محسوس کیا کہ مسلمان خشک اور بے لچک دینی تشریحات سے ہٹ کر زمین پر رہنے والے انسانوں کے ساتھ ہمدردی کے کھلے افق کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ جماعت کو دیکھ کے مجھے اندازہ ہوا کہ احمدیوں کی شان و وقار اور صبر و تحمل اور اسلامی تعلیمات کی معتدل تشریح صدیوں کی مذہبی خونریزی اور تشدّد کے بعد الٰہی ہدایات کے سائے میں ایک پرسکون اور پرامن زندگی کی نوید تھی۔ احمدیہ تعلیمات کا جدید تہذیب کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ان خوبصورت پہلوؤں میں سے ایک تھا جو واضح طور پر نمایاں کیا گیا تھا۔ میں امید کرتا ہوں کہ احمدیہ جماعت کے خیالات زیادہ سے زیادہ شان و شوکت اور تیزی سے مسلمانوں اور زمین پر رہنے والے دیگر لوگوں میں پھیلیں گے تا کہ ہر ایک نجات، خوشحالی اور کامیاب زندگی کا تجربہ حاصل کر سکے۔
بیلیز
سے آئے ہوئے مہمان رونلڈ ہائیڈ (Ronald Hyde) صاحب کہتے ہیں۔ وہ بیعت کی تقریب کے دوران اپنے جذبات کو بیان نہیں کر سکتے۔ انہیں اللہ کی موجودگی محسوس ہو رہی تھی۔ کہتے ہیں بہت سے مرد بغیر کسی دنیاوی فکر کے زور زور سے روتے اور اللہ کی مغفرت کی دعا مانگتے۔ بیعت کا یہ تجربہ ان کی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑ گیا ہے۔ اتنے بڑے اجتماع کو اور لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو بغیر کوئی شراب اور موسیقی کے دیکھنا واقعی حیرت انگیز تھا اور یہ دیکھنا کہ ہر کوئی صرف روحانیت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے واقعی قابل تعریف تھا۔ یہ واقعی ایک زندگی بدلنے والا تجربہ تھا۔ صرف ڈیوٹی والے ہی نہیں بلکہ جو شاملین ہیں ان کو دیکھ کر بھی ان لوگوں میں خاموش تبلیغ ہوتی ہے۔
مبلغ سلسلہ
بولیویا
کہتے ہیں کہ کارلوس ہیگو (Carlos Hugo) صاحب تیسری دفعہ جلسہ پہ آئے ہیں اور کچھ عرصہ سے اسلام کی تعلیم کا مطالعہ کر رہے تھے۔ ایک ماہ قبل انہوں نے بیعت بھی کر لی تھی اور جلسہ سالانہ میں ان کو عالمی بیعت کی تقریب میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ یوکے میری زندگی کا سب سے اہم ترین روحانی تجربہ تھا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میرا دل اور میری روح عالمی بیعت کی تقریب میں شامل ہونے کے بعد روحانیت سے بھر گئے ہیں اور میں ایک حقیقی احمدی بن گیا ہوں۔ بطور ایک نومبائع کہتے ہیں مجھے خلیفہ وقت نے یہ نصیحت کی کہ نماز توجہ سے پڑھو اور خدا کے ساتھ پختہ تعلق پیدا کرو اور جماعت بولیویا میں احمدیوں کو قرآن مجید پڑھنے کی طرف توجہ دلاؤ۔ کہتے ہیں اس پر میں خود بھی عمل کروں گا اور بتاؤں گا بھی۔
یوراگوئے
سے آئی ہوئی ایک غیر از جماعت مہمان ماریہ سولس فرینکو (Maria Sol Caballero Franco) صاحبہ کہتی ہیں۔ جلسہ سالانہ میری توقّعات سے بہت بہتر ثابت ہوا۔ سب سے پہلے مہمانوں کی رہائش مثالی تھی۔ تقریریں مسحور کن تھیں۔ پہلا سیشن میرا پسندیدہ تھا۔ ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ کے پیغام کو بڑھانا اور پھیلانا بہت اہم ہے۔ میں نے مجموعی ماحول میں برادری کا خوشگوار احساس پایا۔ انتظامیہ نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ایک بڑا ایونٹ ہونے کے باوجود اس میں کبھی بھیڑ نہیں دیکھی اور نہ یہ قابو سے باہر محسوس ہوا۔ کاروں کے لیے اچھی طرح منصوبہ بند راستے اور واضح اشارے، شاندار لاجسٹکس تھیں جس نے بلا شبہ بہت سے شرکاء کو متاثر کیا۔ جلسہ میں شرکت نے میری روحانیت پر مثبت اثر ڈالا۔ سب سے یادگار لمحات میں سے ایک اتوار کو احمدی عہد کو دہرانا تھا، یعنی بیعت، جہاں سب نے مل کر دعا کی اور آنسو بہائے۔ ایسا مضبوط ایمان کا جذبہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اگر مجھے تجویز کرنا ہو تو یہ ہو گا کہ مہمانوں کے لیے تقریبات کے درمیان مزید سرگرمیاں ہونی چاہئیں۔ مزید یہ کہ خواتین مہمانوں کو حجاب پہننے کا پابند نہیں کرنا چاہیے۔ یہ پابند تو نہیں کیا جاتا یا تو ان کو غلط فہمی ہوئی ہے یا کسی کارکن نے یونہی کہہ دیا ہو گا۔ عموماً تو میرا خیال ہے ہم یہ نہیں کہتے۔لیکن لباس بہرحال ہم کہتے ہیں کہ حیا دار ہونا چاہیے۔ بہرحال کہتی ہیں کہ حجاب دستیاب ضرور ہوں جو چاہے وہ پہن لے۔
کوسٹاریکا
سے آئی ہوئی ایک مہمان لورینا ویلا (Lorena Villa Lobos)کہتی ہیں کہ کوسٹا ریکا میں ان کا مسلم مذہبی تنظیموں سے واسطہ رہتا ہے مگر ان میں عورت کا کسی قسم کا کوئی کردار نظر نہیں آتا بلکہ صرف مرد ہی مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں جو خاص مذہبی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں مگر جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں شرکت کرکے مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ جماعت احمدیہ میں عورت کو مرد کے برابر مقام دیا جاتا ہے۔ دوسرے دن جب وہ عورتوں کے جلسہ گاہ میں گئیں تو عورتوں کا ڈسپلن اور صفائی کا معیار بہت بہتر نظر آیا۔ کہتی ہیں
مجھے بتایا گیا کہ جماعت احمدیہ دنیا میں قیام امن، سلامتی اور انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے لیے کام کر رہی ہے تو مجھے شروع میں یہی محسوس ہوا کہ یہ سب کچھ صرف بیانات تک محدود ہے لیکن جلسہ میں شرکت کر کے اپنے تجربے سے دیکھا اور تصدیق کی کہ جماعت جو غیروں کو بیان دیتی ہے خود اس پر عمل بھی کرتی ہے۔
جماعت کے عقائد اور عمل ایک ہی ہیں۔
برونڈی
سے آئے ہوئے ایک مہمان ھَاتُونِگیْمَانَا پَونتِیے(Hatungimana Pontien) صاحب ہیں جو سیکرٹری وزارت قومی یکجہتی وسماجی امور اور انسانی حقوق برونڈی ہیں۔ اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ میرا بڑا پرتپاک استقبال ایئرپورٹ سے لے کے رہائش گاہ تک کیا گیا۔ نوجوان رضاکاروں نے مجھے خوش آمدید کہا۔ میری مسلسل شاندار مہمان نوازی کی گئی۔ تین دنوں میں جماعت احمدیہ کی طر ف سے بے لوث محبت کے ساتھ حفاظت اور بلا تفریق مذہب و ملت رنگ و نسل جو مہمان نوازی کی گئی میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ کہتے ہیں باوجود اس کے کہ میرا عقیدہ قدرے مختلف ہے لیکن ہم سب ایک اللہ کی مخلوق ہیں جو ہم سب سے محبت کرتا ہے اور ہمارا ایک خون ہے۔ جلسہ کی تقاریر اسلامی تعلیمات سے مالا مال ہیں اور احمدیہ کمیونٹی کے عقائد کے بارے میں بعض لوگوں کی غلط تشریحات پر روشنی ڈالتی ہیں یا ان کے جوابات فراہم کرتی ہیں۔
دنیا بھر میں کامیابیوں کے بارے میں آپ کی رپورٹ نے دکھایا ہے کہ آپ مخصوص ضروریات والے لوگوں کو خدمت کے منصوبے فراہم کر کے ان کی مدد کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور میں اپنے ملک برونڈی میں ان خدمات کا گواہ ہوں۔ کہتے ہیں اتنی بڑی کانفرنس کسی انسان کا کام نہیں ہے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے۔ یہ ایک وسیع و بلیغ نشانی ہے جو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اس میں ہوتا ہے اور پھریہ دعا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرتا رہے۔
آئس لینڈ
سے آئے ہوئے ایک غیر احمدی مہمان سلیمان باہ صاحب جو پیدائشی طور پر تو گیمبین ہیں کہتے ہیں جلسہ میں شامل ہو کر جماعت کے متعلق علم میں اضافہ ہوا۔ مختلف نمائشوں کی زیارت کرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ جماعت دنیا بھر میں کیا کر رہی ہے۔
جماعت کے علم کے حصول اور علم کو پھیلانے کی کاوشوں نے میرے پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس بات نے بھی مجھ پر گہرا اثر چھوڑا کہ تینتالیس ہزار افراد کی شمولیت کے باوجود پردے کا لحاظ رکھا گیا اور مرد اور عورتیں اپنی اپنی جگہ پر کام کر رہے تھے۔
کہتے ہیں میں کئی اسلامی جلسات اور پروگراموں میں شامل ہو چکا ہوں گو کہ وہاں صرف چند ہزار کی تعداد تھی۔ مردوں اور عورتوں کا میل ملاپ ہو رہا تھا لیکن جلسہ میں اتنی بڑی تعداد کے باوجود پردے کا خیال رکھا جا رہا تھا ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ بھی ایک خاموش تبلیغ ہے جو ان لوگوں کو ہمارے عمل سے ہوتی ہے، اور اس کے لیے جماعت کو داد دینی چاہیے۔ جلسہ کا انتظام اور نظام بہت اعلیٰ تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ احترام سے پیش آتے تھے۔ کارکنان خوشی سے کام کر رہے تھے اور ایک smooth نظام چل رہا تھا اور یہ سب کچھ چند دنوں کی تیاری کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک لمبا عرصہ کی تیاری جاری تھی۔ کہتے ہیں جامعہ میں جہاں میری رہائش تھی وہاں میٹرسیں بچھا دی گئی تھیں وہا ں ہم سارے سو رہے تھے اور کوئی تفریق نہیں تھی۔ مہمانوں کے ساتھ ہر ایک سے ایک طرح سے سلوک کیا جا رہا تھا۔ پھر ایک تجویز وہ دیتے ہیں کہ شاید بہتر انتظام ہو سکے کہ جلسہ گاہ میں گو اےسی کا انتظام تھا لیکن گرمی کی شدت پھر بھی محسوس ہو رہی تھی اور وینٹی لیشن، ایئر وینٹی لیشن کی کمی محسوس ہو رہی تھی جس کی وجہ سے کہتے ہیں نیند آ جاتی تھی اور میں سمجھا تھا کہ صرف مجھے نیند آ رہی ہے لیکن باقی لوگ بھی میں دائیں بائیں دیکھ رہا تھا تو وہ بھی بعض دفعہ اونگھ جاتے تھے۔ اس لیے تازہ رکھنے کے لیے ہوا کا نظام ہونا چاہیے۔
ارجنٹائن
کے مبلغ لکھتے ہیں کہ مارینہ پلازا (Mariana Plaza)صاحبہ ارجنٹائن کی یوکے میں سفیر ہیں۔ جلسہ میں انہوں نے پہلی مرتبہ شرکت کی۔ موصوفہ جلسہ کے ماحول اور تقریب سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے جلسہ کے بعد ارجنٹائن سفارت خانے میں ایک باقاعدہ ریسپشن کا انتظام کیا جس میں موصوفہ نے لیٹن (Latin) امریکہ سے جلسہ میں شامل ہونے والے غیر از جماعت مہمانوں کو دعوت دی۔ اس ریسپشن کے دوران ارجنٹائن سفیر نے بیان کیا کہ وہ بالخصوص ان حکومتی غیر از جماعت مہمانوں کا شکریہ ادا کرتی ہیں جنہوں نے جماعت احمدیہ کے جلسہ میں شرکت کی اور اس طرح جماعت کے پیغام کو پروموٹ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ موصوفہ نے کہا کہ
بالعموم مذہبی تنظیمیں ڈپلومیٹس یا سیاستدانوں کو خصوصی external تقریبات کے لیے صرف مدعو کرتی ہیں اور تقریب کے مخصوص حصہ میں دعوت دے کر پھر الوداع کر دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس یہ بہت غیرمعمولی اور قابلِ تعریف امر ہے کہ آپ کی جماعت نے ہم سب غیرازجماعت مہمانوں سے کوئی پردہ نہیں رکھا۔
اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے بلکہ آپ کی تمام تعلیمات عیاں ہیں اور جو تعلیمات آپ غیروں کو پیش کرتے ہیں وہ آپ کے اپنے اندر اندرونی عقائد اور ایجنڈے سے عین مطابقت رکھتی ہیں۔
برازیل
سے ایک اخبار کی ایڈیٹر جیکولینی (Jaqueline) صاحبہ شامل ہوئیں، خاتون ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں اس عظیم الشان جلسہ سے ہر لحاظ سے بہت متاثر ہوئی۔خاص طور پر اس کے سٹرکچر اور مختلف ممالک سے بڑی تعداد میں جو لوگ شامل ہوئے ان کا آپس میں بڑی محبت اور پیار کے ساتھ رہنا، تمام انتظامات سے جنہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب رہے۔ امن اتحاد اور محبت کی فضا سے مجھے بہت خوشی ہوئی اور امام جماعت کی پرحکمت باتوں نے میرے دل کو چھوا اور میرے ذہن کو صرف اچھی باتوں کے لیے کھولا۔ خلیفہ وقت کی باتوں میں صرف ظاہری الفاظ ہی نہیں تھے بلکہ دل سے نکلی ہوئی مخلصانہ باتیں لگ رہی تھیں۔ اس جلسہ کے دوران محبت اور عزت کو ہر لمحے محسوس کیا۔ رضاکاروں نے جس طرح دلجمعی سے کام کیا وہ یقینا ًدل پر اثر کرنے والا اور قابل تعریف ہے۔
برازیل سے ہی ایک اخبار کے جرنلسٹ کہتے ہیں۔ ایک غیر معمولی جلسہ تھا۔ میرے دل میں جماعت احمدیہ کے لیے جو عزت اور خیر خواہی کا جذبہ تھا جلسہ کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ رضاکاروں کی بے لوث خدمت نے میری توجہ کھینچ لی کہ کیسے وہ اپنے وقت، اپنی گاڑیوں اوراپنی خدمات کو مہمانوں کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ یہ بہت پیاری بات ہے۔
اٹلی
کی یونیورسٹی آف فلورینس کے انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے پروفیسر روبرٹو کاتالونو (Roberto Catalano) ہیں۔ وہ جلسہ میںشامل ہوئے۔ کہتے ہیں مَیں اس تقریب سے حیران رہ گیا۔ یہ جلسہ دنیا بھر کی قوموں سے کئی ہزار نمائندوں کو اکٹھا کرتا ہے۔ جماعت احمدیہ کے قابلِ ذکراتحاد کو ظاہر کرتا ہے۔
جلسہ میں ایک روحانی ماحول محسوس کیا جا سکتا ہے اور امام جماعت بھی جب کچھ بولتے ہیں تو سامعین کی مکمل خاموشی اور توجہ حیران کن ہوتی تھی۔ ایک گہرا روحانی ماحول قائم ہو جاتا تھا۔
رضاکاروں کی لگن بھی اتنی متاثر کن تھی کہ ہزاروں رضاکار جن میں بچے بھی شامل ہیں بہت محنت سے کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ میں خاص طورپر ایک یادگار لمحہ عالمی بیعت کا تھا جس میں خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔ یہ مقدس اور شاندار تقریب چالیس ہزار لوگوں کو ایک ساتھ جوڑتی ہے جو ان کے اجتماعی ایمان اور وابستگی کی ایک طاقتور دلیل ہے۔ کہتے ہیں خاص طور پر پاکستان میں جماعت پر مظالم اور درپیش مشکلات کے حوالے سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ان مشکلات اور مصائب کے باوجود نفرت نہ کرنے کے رویّے نے مجھے متاثر کیا ہے جو آپ کے ایمان کی ایک حقیقی گواہی پیش کرتا ہے۔
روڈرگز آئی لینڈ
سے وہاں کی ویمن افیئرز اور فیملی ویلفیئر کی کمشنر آگَاتھے مَیرِی صاحبہ بھی آئی تھیں۔ کہتی ہیں پہلی بار اتنی بڑی تقریب میں شرکت کی جہاں سو سے زیادہ ممالک کے لوگ موجود تھے اور مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ تقریباً چوالیس ہزار شرکاء کے ساتھ یہ جلسہ میرے لیے روڈرگز جزیرے کی پوری آبادی کے جمع ہونے کے مترادف تھا۔
جس چیز نے میرے دل کو پگھلا دیا وہ یہ تھی کہ جلسہ سالانہ میں شامل لوگ کتنے نظم و ضبط کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ہر کوئی مسکرا رہا تھا، ہر ایک کو سلام کر رہا تھا۔ یہ قابل تعریف ہے۔
اور امام جماعت کا لجنہ سے خطاب بھی بہت معنی خیز تھاجس سے مجھے پتہ چلا کہ جماعت احمدیہ مسلمہ میں خواتین کا کردار کتنا اہم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ خطاب میری پالیسی میں بھی مثبت تبدیلیاں لائے گا۔ میں نے اس جلسہ میں بہت کچھ سیکھا جو یقینی طور پر میری اور میرے ارد گرد کے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لائے گا۔
میں نے ماضی میں کئی مذہبی پروگراموں میں شمولیت کی ہے لیکن میں ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے جانتی تھی کہ میری زندگی میں کچھ روحانی پہلوؤں کی کمی ہے لیکن جلسہ وہ تقریب تھی جس کی وجہ سے میری زندگی میں جو بھی کمی تھی وہ بھی پوری ہو گئی۔
روحانی پہلوؤں میں کمی کا یہ اظہار بھی بہت سارے لوگوں نے کیا ہے اور ہمیں یہاں بہتر حالات ملے۔
ٹیمو اینڈرسن ہوئس (Temu Anderson Hoyce) صاحبہ ہیں۔ تنزانیہ کی طرف سے اقوام متحدہ جنیوا میں بطور سفیر متعین ہیں ،کہتی ہیں کہ
میں نے یہاں پر آ کر محبت اور مسکراہٹوں کو پایا اور ان دنوں کہیں بھی نفرت دیکھنے کو نہیں ملی۔
مستورات کے اجلاس کی کارروائی بہت معلوماتی اور متاثر کن تھی۔ میں نے جلسہ پر جو نمائشیں دیکھیں وہ بھی بہت خوبصورت تھیں جن میں جماعت کے بانی اور بزرگان کا نہایت عمدہ تعارف کروایا گیا۔ اس مضبوط جماعت کے بانی اور ہیروز کی تاریخ کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔ جماعت احمدیہ نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو نمایاں طور پر بدل دیا ہے جن میں میرا پیارا ملک تنزانیہ بھی شامل ہے۔ اس جلسہ نے انسانی ہمدردی اور محبت کے ساتھ زندگی جینے اور بغیر کسی نفرت کے اس کی قدر کرنے کا موقع دیا۔
سیرالیون کے ایک مہمان جسٹس آئیون سیسے (Ivan Sesay) کہتے ہیں۔ جلسہ سالانہ کے تین دن امن، روحانی ترقی اور عالمی یکجہتی کے دن تھے۔ جلسہ کا انتظام بہت اعلیٰ تھا۔ رنگ و نسل کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ تمام لوگ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کر رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی مجوزہ ڈیوٹی بخوبی انجام دے رہا تھا چاہے وہ بچے ہوں یا کوئی اَور۔ میں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ مقررین بشمول بڑے عمائدین علماء نے گہری بصیرت اور متاثر کن پیغامات دیے جو ہر کسی کے دل میں گھر کر گئے۔ مجھے خاص طور پر امن اتحاد اور افہام و تفہیم پر زور دینے کی تعلیم نے بہت متاثر کیا ہے۔ بے شمار سرگرمیاں اور نمائشیں بھی تھیں جنہوں نے جلسہ کو پررونق بنا دیا۔ تعلیمی نمائشیں اچھی طرح پیش کی گئیں جو تاریخی اور ثقافتی بصیرت پیش کرتی تھیں۔ پھر کہتے ہیں کہ مجھے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملنے اور بات چیت کرنے کے بےشمار مواقع ملے جس سے اتحاد اور بھائی چارے کے جذبات کو فروغ ملا۔ پھر کہتے ہیں میرے لیے ایک اہم لمحہ وہ کلیدی تقریر تھی جس میں امام جماعت نے انسانیت کی ہمدردی اور خدمت کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ سوشل میڈیا یا الیکٹرانک نیٹ ورکس کے درمیان اپنے بچوں کے لیے والدین کے کردار اور نگرانی نہ کرنے کی صورت میں بچوں پر پڑنے والے منفی اثرات پر ان کا زور ہمارے والدین کے لیے بھی مشعل راہ اور متاثر کن تھا۔ کہتے ہیں جلسہ سالانہ کے انتظامات تقاریر اور افراد جماعت کی خدمت میری توقعات سے کہیں بڑھ کر تھیں۔
قازقستان
سے ایک مہمان گل سائیراں مینگالِی صاحبہ ہیں ،کہتی ہیں: میں پہلی مرتبہ اتنے عظیم مذہبی جلسہ میں شامل ہوئی ہوں۔ بطور سابقہ سیاستدان مجھے تجربہ ہے کہ اتنے وسیع انتظام کے لیے کتنے اخراجات ہوتے ہیں اور اس اعلیٰ سطح کے انتظام کے لیے کتنی پلاننگ اور کتنے لوگوں کی انتھک محنت لگی ہوگی اور میں اس بات سے بہت متاثر ہوں کہ تمام کارکنان ہر شعبہ میں بہت جذبے اور خوشی سے کام کر رہے تھے۔ ہر کارکن انتھک محنت کرنے کے باوجود مہمانوں سے محبت، عزت اور پیار سے پیش آ رہا تھا۔ کہتی ہیں لیکن
جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ خلیفہ وقت کے خطابات تھے۔ ان خطابات میں بظاہر عام روزمرہ کی زندگی میں کام آنے والی اخلاقیات کی باتیں تھیں مگر ان کے پیچھے ایک بہت وسیع اور گہرا مضمون تھا۔
جو بات مجھے سب سے زیادہ پسند آئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بچوں کی تربیت پر سوشل میڈیا کا بد اثر بہت واضح اور صریح طور پر بیان فرمایا۔ اس بات سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب میں اس کو اپنی زندگی میں لاگو کرنے کی کوشش کروں گی کہ جب میں اپنے پوتے پوتیوں سے بات کروں گی تو ان کو سمجھاؤں گی کہ ہمیں اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی اخلاقیات کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
یہاں سے اتنی متاثر تھیں کہ کہتی ہیں
اس دفعہ تو میں بطور مہمان آئی تھی مگر مجھے پورا یقین ہے کہ میں عنقریب اس جماعت میں شامل ہو جاؤں گی کیونکہ میں نے اس جلسہ میں جو باتیں سنی ہیں وہ مجھے پسند آئی ہیں۔
ملک بیلیز
سے آنے والے مہمان کَاشْ سَانکُوفَا صاحب کہتے ہیں۔ کوئی کیسے انکار کر سکتا ہے کہ احمدیت حقیقی اسلام نہیں ہے۔ میرے تمام شکوک و شبہات اور سوالات کے جواب مل گئے ہیں۔ جب میں انہیں دیکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت کی جاتی ہے۔ احمدیت ایک بہت بڑا مضبوط درخت ہے جس کی بہت سی پھلدار شاخیں ہیں۔
سپین
کی ایک مہمان آمَالیہ (Amalia) یہ یونیورسٹی آف قرطبہ کی ہیں۔ لکھتی ہیں کہ بطور پروفیسر سائیکالوجی میں نے آپ کے تجربات کو جاننے میں بہت دلچسپی رکھی۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور ان لمحوں کو مشاہدہ کیا اور اپنے دماغ میں محفوظ کر لیا جو میری یادوں کا حصہ بنیں گے اور جنہیں میں بہت محبت کے ساتھ یاد رکھوں گی۔ مجھے اس جلسہ کے تنوّع اور اس کی وسعت اور ہر کونے میں جو امن اور ہم آہنگی محسوس ہوتی ہے اس نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔
کوسوو
کی ایک یونیورسٹی کے فزکس کے پروفیسر ہیں آربیئر زِیکراج (Arber Zeqiraj)۔ کہتے ہیں میں پہلی دفعہ برطانیہ کے جلسہ میں شامل ہوا اور خلیفہ وقت کے خطبات جمعہ سننے کے بعد یہ بات دیکھنے میں آئی کہ سارا ماحول ایک دم سے بہتر ہو گیا ہے۔ کارکنان اور مہمانوں کے درمیان ظاہری طور پر محبت اور الفت کے جذبات ایک دوسرے کے لیے نظر آ رہے تھے۔ مسکراتے چہرے اور السلام علیکم کی آوازیں ہر طرف سنائی دی جا رہی تھیں۔
ایسے ماحول کو جنّت سے مشابہت دی جا سکتی ہے۔ اگر اتنے بڑے مجمع میں ایسا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے تو بعید نہیں کہ پوری دنیا میں ایسا ماحول بنایا جاسکے لیکن صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو یہ کام کر سکتی ہے۔
جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ یہ تھا کہ اگر کارکن کسی مجبوری کے باعث نہ بھی کہتے تو فوراً اس کا حل بھی پیش کر دیتے تھے تا کہ مہمان کا ہر طرح خیال رکھا جا سکے۔ کہتے ہیں تقریب بیعت کو دیکھ کر بہت حیران ہوں کہ کس طرح مختلف اقوام کے لوگ ایک ہاتھ پر اکٹھے ہوتے ہیں گویا کہ ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہوں۔
یوراگوئے
سے آئی ہوئی ایک غیر از جماعت جرنلسٹ ہیں ۔کہتی ہیں جلسہ میں شرکت سے پہلے مجھے بہت سی توقّعات اور بہت سے تعصبات تھے۔ یوراگوئے میں میرے پراجیکٹ کے لیے اسلام کو قریب سے جاننا اور خاص طور پر اس کام کو جاننا ضروری تھا جو آپ کی کمیونٹی کر رہی ہے۔ پہلے دن کی تقریر جہاں خلیفہ نے مہمان نوازی کی بات کی وہ خاص طور پر متاثر کن تھی۔ ایک مہمان کے طور پر میں سمجھتی ہوں کہ شاید ہم مہمان کسی بین المذاہب پیغام کی توقع کر رہے تھے لیکن یہ پیغام کمیونٹی کو مخاطب کر کے دیے گئے تھے۔ کہتی ہیں مَیں نے خدا کی بڑائی اور مسلسل تعریف کے ماحول میں بہت آرام محسوس کیا۔ پھر کہتی ہیں کہ میں نے احمدیہ مسلم کمیونٹی کے اندر مختلف ثقافتوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھا اور اس سے میرے بہت سے تعصبات ختم ہو گئے۔ پھر کہتی ہیں مجھے خواتین کی طرف سے کچھ ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس میں کوئی خطرہ یا حرج نہیں ہے۔ اگر تو ان کی مراد تصویروں سے ہے تو خیر وہ اچھا کیا کہ نہیں دی۔ اس کے علاوہ تو ریکارڈ کر سکتی ہیں۔ ریکارڈنگ بعد میں بھی لے سکتی ہیں جو وہ چاہتی ہیں۔ بہرحال یہ تو جو وہاں سے آئے ہوئے مربی ہیں وہ ان کو سمجھا سکتے ہیں۔ پھر کہتی ہیں کہ کوئی حرج نہیں تھا کہ اگر اجازت دی جاتی تو ہم اپنے ملک میں پھیلانے کے لیے بہتر مواد بنا سکتے تھے۔ جلسہ سالانہ میں شرکت کا میری روحانی زندگی پر خاصا اثر پڑا ہے۔
میرے لیے سب سے یادگار لمحہ مردوں کو اللہ تعالیٰ سے دعا کے وقت روتے ہوئے دیکھنا تھا۔
مجھے لگتا ہے کہ صحافیوں کی شرکت کے انتظام کو اس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے جس سے ایونٹ کی بہتر کوریج ہو سکتی ہے۔ میرا مشورہ ہے کمیونٹی کے کاموں اور کام کرنے کے طریقہ کارکو دنیا کے سامنے زیادہ پھیلایا جائے۔
پولینڈ
سے ایک خاتون مہمان اینا پیتروسکا صاحبہ شامل ہوئیں۔ وہ کسٹمر سپورٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی ہیں۔ کہتی ہیں مَیں خدا پر یقین رکھتی ہوں لیکن اپنے آپ کو کسی بھی مذہب کا حصہ نہیں سمجھتی۔ میرا جماعت کے ساتھ ایک احمدی کے ذریعہ تعارف ہوا جو کہ میرے ساتھ کام کرتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی جماعت پر بڑا فخر کرتا ہے اور اس کے متعلق دوسروں کو بتاتا رہتا ہے۔ چنانچہ مجھے بھی جماعت احمدیہ کے بارے میں کچھ مواد اور ویب سائٹ کا لنک ملا۔پھر کہتی ہیں کچھ مطالعہ کے بعد میں نے جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ میں نے جلسہ کے اعتبار سے اپنا لباس اور سکارف بھی خریدا۔جب میں نے جلسہ کی طرف سفر شروع کیا تو میرے جذبات ملے جلے تھے۔ تھوڑا ڈری ہوئی بھی تھی۔ پھر کہتی ہیں جلسہ کے پہلے دن جلسہ گاہ میں مجھے علم نہیں تھا کہ کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اس دوران ایک لڑکی نے بغیر میرے پوچھے مدد کی پیش کش کی جس نے مجھے بہت حیران کیا۔ جلسہ گاہ پہنچتے ہی اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرنے لگی باوجودیکہ وہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ تھے لیکن میں نے کوئی اوپرا پَن محسوس نہیں کیا۔ جلسہ کے موقع پر مختلف خطابات بالخصوص امام جماعت کے خطبات نے میرا جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلق مضبوط کر دیا ہے۔ میرے لیے سب سے یادگار لجنہ کا خطاب تھا جس میں راہنمائی تھی کہ بچوں کو کیسے پروان چڑھانا ہے۔ خطاب کے دوران میں اپنے بچوں کے بارے میں سوچتی رہی کہ امام جماعت نے خطاب کے دوران جن اقدار کا ذکر کیا میں اس سے مکمل اتفاق کرتی ہوں اور سب کو انتہائی اہم اور قابل ذکر سمجھتی ہوں۔
کوسوو
یونیورسٹی پَرِشٹینا (Prishtina) کے پروفیسر ہیں۔ وہ تاثرات بیان کرتے ہیں کہ پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوا۔ مجھے ہر جگہ پیار اور محبت دیکھنے کو ملی۔یہ جلسہ میرے نزدیک انتہائی کامیاب رہا خاص طور پر جو نمائشیں تھیں۔ کہتے ہیں ہم کوسوو سے ہیں اور جماعت کی دنیا بھر میں جو مخالفت ہے اس کو سن کر بہت تکلیف ہوئی۔ امام جماعت کے اختتامی خطاب نے مجھے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اسلام احمدیت کی حقیقی تعلیم کیا ہے۔ اور میرے سوالوں کے جوابات مجھے مل گئے۔ میں کوسوو جا کر ضرور ان لوگوں کو جو جماعت احمدیہ کے عقائد کے خلاف بات کرتے ہیں جوابات دوں گا۔
پھر
ہالینڈ
کے ایک مہمان مسٹر چرک فان (Churk Van) کہتے ہیں کہ احمدیہ کمیونٹی کی مہمان نوازی اور ہزاروں افراد کی رضاکارانہ کوششوں سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ سب کے لیے احترام، محبت اور امن کا ماحول تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ پھر امام جماعت سے ملاقات بھی میری ہوئی۔ بڑا اچھا تجربہ تھا اور انہوں نے نہ صرف ہمارے سے ملاقات کی بلکہ اسلام کے بارے میں احمدی اور غیر مسلم دونوں کے سوالات کے جواب دینے کے لیے وقت بھی نکالا اور مجھے اس کا بڑا فائدہ ہوا۔ کہتے ہیں ان باتوں نے میرے دل میں گھر کر لیا ہے اور بغیر کسی اکتاہٹ کے انہوں نے تسلی کے ساتھ ہماری باتیں سنیں اور ہمیں جواب دیے۔
تو یہ چند تاثرات تھے جو میں نے بیان کیے۔
جلسہ سالانہ کے نتیجہ میں جو بیعتوں کی رپورٹ
ہے وہ اس طرح ہے کہ جلسہ کے پروگرام دیکھ کے گنی بساؤ کے ایک گاؤں کے نمبر دار کی پچاسی افراد کے ساتھ بیعت ہوئی۔ تنزانیہ میں ایک گاؤں کے امام مسجد کی بیعت ہوئی۔ نائیجر میں ایک مدرسے کی معلّمہ کی بیعت ہوئی۔ کانگو برازاویل میں دوران جلسہ بارہ افراد نے بیعت کی۔
گنی بساؤ کے مبلغ لکھتے ہیں گنی بساؤ میں ایک جگہ سَارِے کُوْچہ کے نمبر دار جماعت کے شدید مخالف تھے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر انہوں نے جلسہ کی کارروائی اور میرے خطابات سنے۔ ان کو دعوت دی گئی تھی کہ آ کے سن لیں۔ کہتے ہیں یہ خطاب سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کے خلیفہ اور بانی جماعت احمدیہ تو سچے عاشق رسولؐ ہیں اور
ہمیں ہمیشہ یہی بتایا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تسلیم نہیں کرتی اور اپنا نبی بنایا ہوا ہے مگر آپ کے امام کا خطاب سن کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ کی جماعت ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی صادق جماعت ہے
اور انہوں نے اسی وقت اپنے ہمراہ پچاسی لوگوں کے ساتھ احمدیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ جو مخالف تھے وہ جلسہ سن کے جماعت میں شامل ہو گئے۔ اللہ کرے کہ پاکستانی مولویوں کو بھی عقل آئے۔
تنزانیہ میں ایک گاؤں اَبُوْجَا کے امام مسجد بیان کرتے ہیں کہ میں ایم ٹی اے پر جلسہ سالانہ کے مناظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یہ منظر بہت متاثر کن تھا۔ بیعت کے دوران بہت ہی جذباتی لمحات تھے اور میں حیران تھا کہ ہر کوئی ایک امام کے پیچھے الفاظ کو دُہرا رہا تھااور پھر دعا کر رہا تھا۔ ان مناظر نے مجھے مکمل طور پر بدل دیا اور مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ انشاء اللہ میں زندگی بھر اس جماعت کا حصہ بنا رہوں گا۔ میں ایک سنّی مسجد میں امام تھا لیکن اب میں دل سے احمدی ہوں اور مکمل طور پر بدل چکا ہوں۔
شعبہ تبلیغ یوکے کی رپورٹ یہ ہے کہ
جلسہ کے دوران یوکے سے تعلق رکھنے والے بائیس احباب کو بیعت کرنے کی توفیق ملی۔
ان میں دو برٹش ہیں، دو نائیجیرین ہیں، گیارہ پاکستانی ہیں، ایک رومانی ہے، پانچ عرب ہیں اور ایک بنگالی۔ جلسہ کے موقع پر تقریباً ایک ہزار کے قریب غیر احمدی مہمان شامل ہوئے جلسہ کے دوران مختلف تبلیغی سیشنز کا انعقاد کیا گیا جن میں سوال و جواب کی مجالس بھی شامل تھیں اور اس میں مختلف لوگوں نے اپنے تاثرات بھی دیے۔
ایم ٹی اے افریقہ
کے تحت چودہ سے زائد نیشنل ٹی وی چینلز نے میرے خطابات نشر کیے۔ عالمی بیعت کی تقریب بھی لائیو نشر کی گئی جسے کئی ملین لوگوں نے دیکھا۔ افریقہ کے جو نئے چینل شامل ہوئے ان میں ملاوی کا نیشنل ٹی وی چینل، بینن میں کینال پلس ٹی وی چینل، گیمبیا ،گھانا، یوگنڈا، لائبیریا اور سیرالیون کے حکومتی چینلز ہیں۔ تقریباً تیس ملین سے زائد لوگ ان چینلز کو دیکھتے ہیں۔
چودہ مختلف ٹیلیویژن کے جرنلسٹ جلسہ میں شامل ہوئے اور ستاون رپورٹس نشر ہوئیں۔ ان رپورٹس کی پہنچ پچپن ملین سے زائد لوگوں تک ہے۔
سینیگال میں جلسہ سننے کے لیے مشن ہاؤس میں انتظام کیا گیا۔ ایک امام جو کالج میں قرآن و حدیث اور فقہ کے لیکچرر ہیں وہ جلسہ ختم ہونے کے بعد کہنے لگے کہ میں آج اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کر رہا ہوں کیونکہ آج مجھے امام مہدی کے خلیفہ کو براہ راست دیکھنے اور ان کا خطاب سننے کا موقع ملا۔ مجھے اس سے پہلے جماعت احمدیہ کے حوالے سے بہت شبہات تھے کہ احمدی نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کمی کرتے ہیں لیکن آج کی خلیفة المسیح کی تقریر سن کر میرے اس بارے میں تمام شبہات دُور ہو گئے ہیں اور آج کی تقریر سن کر میں برملا کہہ سکتا ہوں کہ جماعت احمدیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بے پناہ اخلاص و محبت کرنے والی ہے اور ساری دنیا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کا درس دیتی ہے۔
آن لائن کوریج
کے بارے میں یہ رپورٹ ہے کہ گذشتہ سال ان کی تعداد اکتالیس تھی اس سال انچاس ویب سائٹس ہوئیں جن کو پڑھنے والوں کی تعداد پندرہ ملین بتائی جاتی ہے۔ پرنٹ کوریج مضامین کی تعداد چودہ ہے۔ ان اخبارات کے قارئین کی تعداد پانچ ملین بتائی جاتی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعہ سے انیس خبریں نشر ہوئیں۔ دیکھنے والوں کی تعداد دس ملین بتائی جاتی ہے اور مختلف ریڈیو سٹیشنز پر کُل چوبیس خبریں نشر ہوئیں ان کو سننے والوں کی تعداد بھی دس ملین ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اندازاً چھیالیس ملین سے زائد لوگوں نے جلسہ سالانہ کی خبر دیکھی اور سنی
اور اگلے چند دنوں میں کہتے ہیں کہ مزید کوریج کی بھی توقع ہے اور کافی بڑے بڑے ریڈیو چینلز ایل بی سی، بی بی سی ریڈیو Solent، بی بی سی ساؤتھ ٹوڈے اور ڈیلی ایکسپریس وغیرہ مختلف لوگوں نے خبریں شائع کیں۔
اسی طرح نمائش سے بھی بہت سارے لوگ۔ مَیں نے بیان بھی کیا تھا مخزنِ تصاویر کی نمائش ہے، ہسٹری دیکھ کے، دوسری نمائشیں دیکھ کے لوگ بڑے متاثرہوئے ہیں۔ یہ سب نمائشیں بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ بنی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جلسہ اپنوں کے لیے تربیت اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنا ہے وہاں غیروں کو بھی اسلام کی تعلیم کے سمجھنے اور انہیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا ذریعہ بنا ہے۔ پس اس کے لیے جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکنا چاہیے، اس کا شکرگزار ہونا چاہیے وہاں اس عہد پر بھی قائم رہنا چاہیے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو پہنچانے کے لیے پہلے سے بڑھ کر کوشش کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍ اگست ۲۰۲۴ء