الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء

(گذشتہ سے پیوستہ۔ قسط۵)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں شامل مضامین کا تذکرہ گذشتہ چند اشاعتوں سے جاری ہے۔ اس اخبار میں شامل ایک مضمون میں مکرم محمدمحمود طاہر صاحب نے اخبار الفضل کے سابقہ و موجودہ مدیران اور انتظامیہ کا تعارف کروایا ہے۔ ان میں سے چند ایسے مرحومین کا ذکرخیر پیش ہے جن کا تذکرہ(الفضل کے حوالے سے) قبل ازیں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘کی زینت نہیں بن سکا۔

٭…سلسلہ احمدیہ کے معروف عالم اور سکھ مت کے مشہور سکالر محترم گیانی عباداللہ صاحب ۱۹۱۲ء میں کشمیر میں پیدا ہوئے۔ آپ وائیں قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر آپ نے بیعت کی۔ پھر سکھ مت کی تعلیم حاصل کی اور گیانی کا امتحان پاس کرکے بطور مربی سلسلہ سالہاسال تک خدمت بجالاتے رہے۔ آپ سکھ مذہب کی تعلیمات پر مکمل دسترس رکھتے تھے جس کا اعتراف سکھ علماء بھی کرتے تھے۔ آپ نے سکھ مذہب کے بارے میں قریباً دو درجن کتب بھی لکھیں۔ جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء میں ریڈیو پاکستان سے آپ نے بِلامعاوضہ ایک پنجابی پروگرام شروع کیا جو کئی سال تک جاری رہا۔ سکھ اس پروگرام کو بہت پسند کرتے تھے۔

روزنامہ الفضل کے لیے آپ کی خدمات دو دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط ہیں۔ پہلے مینیجر اشتہارات رہے اور پھر مینیجر الفضل کے طور پر خدمت بجالائے۔ خرابیٔ صحت کے باعث ۱۹۸۴ء میں آپ اپنے بچوں کے پاس امریکہ چلے گئے۔ وہاں بھی سکھ لٹریچر پر کام جاری رکھا۔ جنوری ۱۹۹۳ء میں ۸۱؍سال کی عمر میں وفات پائی اور واشنگٹن میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی اہلیہ جو حضرت چودھری عبدالرزاق صاحبؓ آف امرتسر کی بیٹی تھیں، وہ مولوی ثناءاللہ امرتسری صاحب کی قریبی رشتہ دار تھیں۔

٭…محترم چودھری عبدالواحد صاحب کو قیامِ پاکستان کے وقت قریباً دو سال مینیجر الفضل کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ یہ وہ نازک دَور تھا جب الفضل قادیان سے لاہور منتقل ہوا۔ محترم چودھری صاحب ۱۵؍اپریل۱۹۰۳ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق امرتسر سے تھا۔ آپ کے والد حضرت چودھری اللہ بخش صاحب نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی تھی اور وہ محکمہ انہار میں ملازم تھے۔ آپ نے مڈل کے بعد قادیان میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۲۷ء میں جےوی کا امتحان پاس کرکے مدرسہ احمدیہ قادیان میں انگریزی کے استاد کے طور پر خدمات کا آغاز کیا۔ سکاؤٹس کی تربیت کا کام بھی آپ کے سپرد رہا۔ اپریل ۱۹۳۶ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو ایڈیٹر ’’اصلاح‘‘ سری نگر کے لیے منتخب فرمایا۔ کشمیریوں کے ترجمان اس اخبار نے اہل کشمیر کو اُن کے حقوق دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۱۹۴۷ء میں آپ کو کشمیر حکومت کی طرف سے پبلسٹی آفیسر بھی مقرر کیا گیا۔ آپ کی خدمات کا تذکرہ مؤرخ کشمیر محمدالدین فوقؔ نے اپنی کتاب ’’تاریخ اقوام کشمیر‘‘ میں کیا ہے۔ آپ کی وفات ۸؍جولائی۱۹۶۴ء کو ضلع خوشاب میں واقع ایک گاؤں میں ہوئی جہاں آپ اپنی زمینوں پر مقیم تھے۔ وہیں آپ کی تدفین ہوئی۔

٭…ایک خادم سلسلہ مکرم مولوی عبداللہ اعجاز صاحب ابن مکرم میاں احمددین صاحب تھے جو ۱۹۱۳ء میں پیدا ہوئے۔ بی اے کرکے قادیان سے خدمات کا آغاز کیا۔ آپ ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۷ء تک حضرت مصلح موعودؓ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔ پھر آپ کو الفضل کا مینیجر مقرر کیا گیا۔ یہ خدمت ۱۹۵۴ء تک سرانجام دی۔ ’’المصلح‘‘کراچی کے بھی مینیجر رہے۔ فراغت کے بعد آپ بدوملہی اور پھر لاہور چلے گئے جہاں پرائیویٹ ملازمت سے منسلک ہوگئے۔ نویں حصے کے موصی تھے۔ ۱۸؍اکتوبر۱۹۷۵ء کو ۶۲؍سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپردخاک ہوئے۔ آپ کے ایک بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔

٭…محترم مولانا چودھری محمدشریف صاحب سابق مبلغ بلادعربیہ و گیمبیا بھی قیام پاکستان کے بعد روزنامہ الفضل کے مینیجر رہے۔ آپ ۱۲؍جنوری۱۹۱۳ء کو جھنگڑکلاں ضلع ہوشیارپور میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۲۹ء میں جامعہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے۔ مولوی فاضل اور مربی کلاس پاس کرنے کے بعد آپ کا تقرر حیفا فلسطین میں ہوا۔ ۷؍ستمبر۱۹۳۸ء کو قادیان سے فلسطین کے لیے روانہ ہوئے اور اٹھارہ سال وہاں خدمات بجالانے کی توفیق پائی۔ عربی رسالہ ’’البشریٰ‘‘ کے ایڈیٹر اور کئی عربی کتب کے مصنّف بھی رہے۔ ۲۷؍فروری۱۹۴۳ء کو آپ کی اہلیہ فضل بی بی صاحبہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑ کر فلسطین میں ہی انتقال کرگئیں اور کبابیر میں دفن ہوئیں۔ آپ نے دوسری شادی حکمت عباس عودہ صاحبہ سے کی جن سے دو بیٹے اور چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ۱۴؍دسمبر۱۹۵۵ء کو آپ مرکز ربوہ تشریف لائے اور ناظم دارالقضاء، مینیجر الشرکۃالاسلامیہ اور مینیجر الفضل کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ۱۹۶۱ء میں گیمبیا کے پہلے مبلغ کے طور پر بھجوائے گئے۔ سابق گورنر جنرل گیمبیا سر ایف ایم سنگھاٹے بھی آپ کے ذریعے احمدی ہوئے تھے جن کے ذریعے حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ پہلی بار پوری ہوئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مقامِ نعیم پر فائز جن مبلغین کا ذکر فرمایا تھا اُن میں محترم چودھری محمدشریف صاحب بھی شامل تھے۔ ۱۹۷۳ء میں آپ واپس ربوہ تشریف لائے جہاں سیکرٹری مجلس نصرت جہاں، قاضی سلسلہ، پروفیسر جامعہ احمدیہ اور زعیم اعلیٰ مجلس انصاراللہ کے طور پر خدمات بجالاتے رہے۔ ۳۰؍جولائی ۱۹۹۳ء کو ۸۰؍سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ آپ ایک بےنفس اور مستجاب الدعوات وجود تھے۔

………٭………٭………٭………

مکرم شریف احمد بانی صاحب لکھتے ہیں کہ میرے والد محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب نے ۱۹۱۸ء میں بیعت کی تو اُن کی والدہ نے چنیوٹ کے ماحول کے مطابق شدید مخالفت کی۔ وہ بڑی نیک اور دیندار خاتون تھیں، بےشمار لڑکیوں کو انہوں نے قرآن کریم پڑھایا لیکن دیانتداری سے سمجھتی تھیں کہ اُن کا بیٹا گمراہ ہوگیا ہے۔ والد صاحب کی کوئی بات سننے کے لیے وہ تیار ہی نہ ہوتی تھیں بلکہ بیٹے سے بات چیت ہی بند کردی تھی۔

۱۹۱۸ء میں پنجاب میں انفلوئنزا کی وبا کی وجہ سے جلسہ سالانہ مُلتوی ہوکر مارچ ۱۹۱۹ء میں منعقد ہوا تو والد صاحب پہلی بار قادیان گئے۔ وہ اپنی ڈائری میں رقمطراز ہیں کہ قادیان سے بہت سی کتب اور اخبار الفضل وغیرہ خرید کر واپس چنیوٹ پہنچا تو گھر کا وہی ماحول تھا جیسے ایک مہمان جو خواہ مخواہ مقیم ہو۔ کئی عورتیں میری والدہ کے پاس میرے احمدی ہونے پر افسوس کا اظہار کرنے آتیں۔ ایسے ماحول میں مَیں نے شرائط بیعت والے کیلنڈر گھر کے تمام کمروں میں دیواروں سے چسپاں کردیے۔ گھر میں آنے والی پڑھی لکھی عورتیں انہیں پڑھتیں۔ مَیں اکیلا بیٹھا درّثمین کی نظمیں ترنم سے پڑھتا اور کبھی قرآن مجید پڑھنے کے لیے آنے والی بچیوں میں سے کسی کو الفضل دے کر اونچی آواز میں سنانے کے لیے کہتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی عملی حالت میں اصلاح کی توفیق بھی عطا فرمائی اور مَیں نماز بروقت پڑھنے لگا اور قرآن مجید کی تلاوت بالالتزام کرنے لگا۔ ان سب باتوں کا اثر یہ ہوا کہ اب جو عورتیں افسوس کے لیے آتیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں کوئی نامناسب الفاظ استعمال کرتیں تو والدہ صاحبہ ناراض ہوکر انہیں منع کرتیں اور کہتیں کہ اپنی زبان گندی نہ کرو، احمدیت ضرور کوئی نیک تحریک ہے جس نے میرے بیٹے کو فرشتہ بنادیا ہے۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد وہ اپنے چھوٹے بیٹے میاں محمد یوسف بانی کو ساتھ لے کر قادیان گئیں اور ایک ماہ تک حضرت امّاں جانؓ کی مہمان رہیں اور بیعت کرکے واپس چنیوٹ آئیں۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ الفضل کے بارے میں استاذی المکرم مولانا محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میری پیدائش جولائی ۱۹۱۴ء کی ہے اور الفضل کا اجرا ۱۹۱۳ء کا ہے۔ اس لحاظ سے الفضل قریباً میرا ہم عمر ہی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ جتنی کسی چیز کی علّت فاعلی عمدہ اور اعلیٰ ہوگی اتنی ہی وہ چیز مبارک اور اعلیٰ ہوگی۔ مثلاً قرآن کریم کی علّت فاعلی اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے۔ اسے خداتعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ یہ اللہ کا کام ہے لہٰذا یہ کتاب یکتا اور بےنظیر، علموں کا خزانہ اور غیرمحدود معارف کا سمندر ہے۔ جب ہم الفضل کی علّت فاعلی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اوّل مبارک وجود اس کے بانی حضرت مصلح موعودؓ کا نظر آتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’وہ علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا۔‘‘ پھر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ ہیں جنہوں نے اس کا نام الفضل رکھا۔ پھر اس کی آڑے وقت میں مدد کرنے والی حضرت سیّدہ اُمّ ناصرؓ اور اُن کی لخت جگر حضرت سیّدہ ناصرہ بیگم ہیں۔ پھر الفضل نام میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس کو اخلاص کے ساتھ پڑھنے والوں کے کام خدا کے فضل سے ہوتے چلے جائیں گے۔ پس یہ ایسی روحانی غذا ہے جس میں تمام روحانی وٹامن پائے جاتے ہیں۔

الفضل کی برکات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ مثلاً ایک دوست کو بیٹے کے لیے رشتے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے جائزہ لیا کہ ایک گھر میں الفضل آتا ہے جسے سب لوگ پڑھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اُن کے ہاں پیغام بھجوایا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رشتہ طے ہوا جو بہت بابرکت ثابت ہوا۔

اولاد کی تربیت میں الفضل کا بڑا کردار ہے۔ مَیں ایک جاہل معاشرے میں پیدا ہوا لیکن احمدیت کی برکت سے والدین کی تربیت، دینی کتب اور الفضل کے مطالعہ نے مجھے اس قابل بنادیا کہ خداکے فضل سے اب تک چار دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھ چکا ہوں۔ حضورعلیہ السلام کے عربی، اردو، فارسی کے سینکڑوں اشعار ازبر یاد ہیں۔ یَاعَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانٖ کا قصیدہ حفظ ہے جسے روزانہ سونے سے پہلے پڑھتا ہوں۔ اس کی برکت سے میرا حافظہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی بھی ٹھیک ہے۔

مَیں تو الفضل کو شہد سمجھتا ہوں۔ اس کے مضمون نگار اور عملہ شہد کی مکھیاں ہیں اور قرآن مجید، حدیث اور کتب حضرت مسیح موعودؑ وہ پھول ہیں جن سے مواد اخذ کرکے یہ روحانی شہد تیار ہوتا ہے جو اصلاحِ نفس اور تربیت کا مؤثر ذریعہ ہے۔

الفضل دودھ کی ایک نہر ہے اور ہر مخلص احمدی کو اس جوئے شیر کو اپنے گھر تک لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے حوالے سے مکرم عبدالصمد قریشی صاحب کا منظوم کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:

یہ ہے سبھی کے لیے اِک حسین صبحِ جمال

فروغِ حق و صداقت ہے اس کا حُسن و کمال

کہاں ہے دنیائے علم و ادب میں ایسا نگیں

کہاں ہے سارے زمانے میں اس کی کوئی مثال

جبینِ وقت پہ روشن ہیں اس کی تحریریں

نہیں ہے جن کے مقدّر میں کوئی خوفِ زوال

یہ وہ حسین دبستاں ہے عقل و دانش کا

کہ جس کی خوشبو سے مہکی ہے بزمِ فکر و خیال

یہ ترجماں ہے صداقت کا ہر زمانے میں

خدا کے فضلوں نے بخشا ہے اس کو استقلال

یہ اپنی ذات میں عزم و یقیں کا مظہر ہے

عظیم جہدِ مسلسل ہے اس کا ماضی و حال

بہارِ حُسنِ خلافت سے مالامال ہے یہ

وہیں سے اس کو ملا ہے یہ سارا حُسن و جمال

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button