تعارف کتاب

تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط۵۴) سفر نامہ ناصر (حصہ دوم) (حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی رضی اللہ عنہ)

(اواب سعد حیات)

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ جو ام المومنین حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اماں جان رضی اللہ عنہا کے والد محترم تھے اور 1892ء کے بعد اپنی ملازمت سے پنشن لے کر قادیان آبسے۔

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے خود کو مکمل طور پر حضرت اقدس مسیح موعود ؑ اور آپؑ کے بعد خلفائے احمدیت کی خدمت،احباب جماعت کی بہبود اور مرکز احمدیت قادیان کی ظاہری اور انتظامی ترقی کے لیے وقف کر دیا تھا۔

تاریخ احمدیت کی جلد سوم میں فاضل مؤلف نے جنوری 1910ءسے دسمبر 1910ء کے واقعا ت کے بیان میں ’’قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر‘‘کے موضوع کے تحت محلہ دارالعلوم، مسجد نور، بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول، تعلیم الاسلام ہائی سکول وغیرہ کی تفصیلات درج کی ہیں۔ جس میں ایک جملہ ہے ’’مسجد نور پر پانچ ہزار روپیہ کے قریب صرف ہوا، جس میں سے اڑھائی ہزار روپیہ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے جماعتوں میں گھوم کر بطور چندہ وصول کیا۔…‘‘ (صفحہ 312)

یہ زیر نظر کتاب اس مندرجہ بالا مختصر سے جملے کی تفصیل ہے کہ کس طرح حضرت میر صاحب نے جماعتوں کا دورہ کرکے چندہ جمع کیا۔(اس سفرنامہ کے حصہ اول کا تعارف پہلے ہی قارئین کے لیے پیش کیا جا چکا ہے ) اس حصہ دوم میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کے قادیان سے نکل کر کلکتہ، حیدر آباد اور بمبئی کے سفر کامنظوم احوال ہے۔

کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ محض للہ اور دینی اغراض کے لیے اختیار کردہ اس دوسرے سفر کے دوران بھی آپؓ کو متفرق مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 67 صفحات کی اس منظوم کتاب میں آپ نےاپنے سفر کا نہایت دلکش اور پُر اثر انداز میں احوال لکھا ہے، مقامی احباب اور جماعتوں کی کارگزاری، مستعدی اور اخلاص و وفا کا بھی بیان ہے اور اس بزرگ مجاہد کی جانفشانی اور مضبوط عزم و ہمت کا بھی نقشہ ہے۔

صفحہ 2 کے مطابق آپؓ قادیان سے25؍جون کو نکلے۔ آپ نے دوسرا سفر قادیان سے کلکتہ، حیدر آباد اور بمبئی تک کیا۔ اس سفر میں ایک دوست مکرم سمیع اللہ صاحب آپ کے ہمراہ تھے۔ راستہ میں درج ذیل مقامات پر اترے، کہیں احباب سے ملاقات ہوئی، اور کبھی دوبارہ بلکہ سہ بارہ اسی شہر، قصبہ میں وارد ہوئے تا اپنی اگلی منزل کی طرف جاسکیں۔ آپ قادیان سے چلے۔ بٹالہ پہنچے۔ بس پر سوار ہوکر دریائے بیاس پار کیا۔ کرتار پور پہنچے۔ تانگہ پر بیٹھ کر کپورتھلہ گئے۔ بگھی خانہ میں خان صاحب سے ملے۔ اگلی صبح سلطان پور گئے۔ آلوپور، بھاگورائیں، سلطان پور، کپورتھلہ، جالندھر، پھگواڑہ، بنگہ، کریام، راہوں، بیرسیاں، کریم پور، لنگڑوعہ، کاٹھ گڑھ کا سفرکیا،کاٹھ گڑھ میں چند دن کا قیام کیا۔ سڑوعہ اور پنام گئے۔ بارشوں کی وجہ سے آمد ورفت میں مشکلات تھیں، راستے خراب بلکہ بندتھے۔مقامی احباب کے مشورہ اوراصرار پر بعض کھنڈرات دیکھنے بھی گئے۔ گڑھ شنکر۔ ماہل پور کی مقامی جماعتوں کے آسودہ حال اور بعض مفلوک الحال احباب کا مشاہدہ کیا۔ شنکر، نوا ں شہر، کریام، بنگہ، کھماچوں کا دورہ کیا۔

اس منظوم سفر نامہ میں بتایا کہ بعض دفعہ آپؓ دھوپ میں چل کر پریشان ہوئے تو کسی میزبان نے موسمی پھل پیش کیا تو خدا کا شکر ادا کیااور ان مخلصین کو ڈھیروں دعائیں دیں۔ مکندپور گئے۔سفر کی مشکلات بھی طرح طرح کی ہوتی تھیں مثلاً کسی جگہ عین دوپہر کو پہنچے توصاحب خانہ گھر نہ ملا وغیرہ۔

پکھاور،حاجی پور، جگراؤں، لدھیانہ، زیرہ کا دورہ کیا۔ مقامی احمدیوں کی مشکلات اوران کو مقامی سکھوں، ہندوؤں اور مقامی مسلمانوں کے پہنچنے والی تکالیف اور مخالفت کا ذکر کیا۔ مگر الٰہی نظام کے مطابق اعداء حق پر آنے والی تباہی کا احوال بھی بتایا۔ فیروز پور چھاؤنی، قصور، کھریپڑ، جوڑا گئے اور آپ کی قادیان واپسی ہوئی۔اس سفر میں آپ کو شدیدبارشوں کے موسم میں خراب اور ناقابل گزر راستوں سے تکلیف پہنچتی رہی۔

آگے چل کر بتایا کہ میں بٹالہ سے کالکااور پھر شملہ پہنچا۔ مناظر فطرت کا بہت خوب نقشہ کھینچا ہے۔ کالکا، انبالہ، سہارنپور، لکسرکے سفروں کے دوران ہندو رسم و رواج کے متعلق اپنے مشاہدات کی بنا پر اپنے دل کو پہنچنے والی تکلیف کا بتایا اور لوگوں کے طرز عمل اور رہن سہن پر تبصرہ فرمایا۔

ڈیرہ۔ راجپور۔ مسوری۔ دہرہ گئے اور وہاں موجود مزارات اور عمارتیں دیکھیں۔

امروہہ، رامپور، شاہجہانپور، شاہ آباد، لکھنؤ، لکھیم پور، الٰہ آباد، بنارس، آرہ گئے۔ ایک مزار پر دعاکی۔ منگھیر گئے اور مقامی احمدی احباب نے آپ کو مائی گنگا کے گھاٹ کی سیر کروائی۔

بھاگلپور، کلکتہ، کسمبی، جگت پور، کیرنگ اور حیدرآباد پہنچے اور پھر بمبئی گئے جہاں پانچ دن قیام کیا۔ وہاں بعض مزاروں پرمشرکانہ رسوم دیکھ کر آپ کا دل بہت دُکھا۔ایسی جہالت اور ناقابل قبول رسم و عادت کے مقابل پر احمدیت کی خوبصورت تعلیم کا اپنے اس منظوم سفرنامہ میں ذکر کیا اور توحید کے قیام کے متعلق اپنے احباب کو سمجھایا۔اس سفر نامہ میں مقامی جماعتوں کی کارگزاری، مستعدی، مشکلات کا مبصرانہ ذکر ہے، نیز بتایا کہ کس جگہ احمدیوں کی تعداد تھوڑی ہے، ان کے کیا ذرائع معاش ہیں۔ وغیرہ وغیرہ

اس سفر کے اختتام پر بذریعہ ریل بمبئی سے دہلی اور پھر امرتسر اور پھر قادیان وارد ہوئے۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ اس کتاب کاحصہ اول پہلی دفعہ جنوری 1910ء میں مطبع انوار احمدیہ قادیان سے 800 کی تعداد میں شائع کروایاگیا تھا اور اس سفر نامہ کا زیر نظر حصہ دوم بھی حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ تراب احمدی نے اغراض بالا کی امداد کے لیے مطبع انوار احمدیہ قادیان سے شائع کیا۔ حصہ دوم پہلی دفعہ مارچ 1911ء میں 800 کی تعداد میں طبع کیا گیا جس کی قیمت 3آنے رکھی گئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button