والدین سے حسن سلوک کے بارہ میں تاکید
اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسن سلوک کے بارہ میں بڑی تاکید فرمائی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکیں۔ یا شرک کی تعلیم دیں۔ اس کے علاوہ ہربات میں ان کی اطاعت کا حکم ہے۔ اور یہ حکم اس لئے ہے کہ جو خدمت انہوں نے بچپن میں ہماری کی ہے اس کا بدلہ تو ہم نہیں اتار سکتے۔ اس لئے یہ حکم ہے کہ ان کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے لئے دعا بھی کرو کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور بڑھاپے کی اس عمر میں بھی ان کو ہماری طرف سے کسی قسم کا کبھی کوئی دکھ نہ پہنچے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدمت اور دعا کے باوجود یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے ان کی بہت خدمت کر لی اور ان کاحق ادا ہو گیا۔ اس کے باوجود بچے جو ہیں اس قابل نہیں کہ والدین کا وہ احسان اتار سکیں جو انہوں نے بچپن میں ان پر کیا۔ اس ضمن میں جو دو آیات مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :اور تیرے ربّ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔ اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پَرجُھکا اور کہہ کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔… پھر ایک روایت میں آتاہے کہ ہمیں ہشام بن عُروہ نے بتایا کہ مجھے میرے والد نے بتایا کہ مجھے اسماء بنت ابی بکرؓ نے بتایا میری والدہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں میرے پاس صلہ رحمی کا تقاضا کرتے ہوئے آئی تو میں نے نبیﷺ سے اس کے بارہ میں دریافت کیا کہ کیا میں اپنی مشرک والدہ سے صلہ رحمی کروں ؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہاں ۔ (بخاری۔ کتاب الھبۃ۔ باب الھدیۃ المشرکین)
تو جہاں تک انسانیت کا سوال ہے، صرف والدہ کا سوال نہیں، اس کے ساتھ تو صلہ رحمی کا سلوک کرنا ہی ہے، حسن سلوک کرناہی ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اگر انسانیت کا سوال آئے، کسی سے صلہ رحمی کا سوال آئے یا مدد کا سوال آئے تواپنے دوسرے عزیزوں رشتہ داروں سے بھی بلکہ غیروں سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍جنوری ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍مارچ ۲۰۰۴ء)