حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہمدردیٔ بنی نوع انسان، صلح جوئی، اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍ اگست ۲۰۱۷ء)

یہ ایک مومن کی شان ہے کہ اس طرح کے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے۔ غصّہ کی حالت میں اپنے اوپر کنٹرول ہونا چاہئے۔ کبھی کوئی کافر اس بات پر عمل نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لئے تو یہ حیرانی کی بات ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ آتا ہے جب آپؓ نے دشمن کوپچھاڑ لیا۔ اس پر بیٹھ گئے اور قریب تھا کہ اس کو قتل کر دیتے۔ اس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ اور آپ علیحدہ ہو گئے۔ اس نے کہا کہ ایسی حالت میں آپ نے مجھے چھوڑ کیوں دیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ اس لئے کہ پہلے میں تمہیں اسلام کے دشمن ہونے کی وجہ سے قتل کرنے لگا تھا۔ اب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو میری ذات اس میں شامل ہو گئی اور میں اپنے نفس کی خاطر کسی کو قتل کرنا نہیں چاہتا۔ تو یہ اعلیٰ معیار ہیں جو ہمیں تاریخ میں نظر آتے ہیں جو ہمارے بزرگوں نے پیش کئے۔ (ماخوذ از الفخری اصول ریاست اور تاریخ ملوک مؤلفہ محمد علی ابن علی مترجم مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی صفحہ 68 مطبوعہ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور2007ء)

پس مومن کی تو یہ شان ہے کہ غصّہ دبائے اور صلح کی طرف آمادہ ہو لیکن کافر کبھی یہ نہیں سوچ سکتا۔ اور یہی وہ مومنانہ شان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہمارے ہر عمل سے اسلام کی حقیقی تعلیم کا اظہار ہو۔ اس حقیقی تعلیم کا اظہار ہو جو عفو، درگزر اور صلح پھیلانے والی تعلیم ہے۔

چنانچہ ایک موقع پر اپنی ایک مجلس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں جو اسی حدیث کی تشریح بھی ہے کہ ’’ہماری جماعت میں شَہ زور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں‘‘۔ ہمیں وہ نہیں چاہئیں جو بڑے زورآور ہوں اور پہلوان ہوں۔ فرمایا کہ ’’بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیلِ اخلاق کے لئے کوشش کرنے والے ہوں۔‘‘ اپنے اخلاق کو بدلنے اور اعلیٰ معیاروں تک لے جانے والے ہوں۔ فرمایا’’یہ ایک امر واقعی ہے کہ وہ شہ زور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑ کو جگہ سے ہٹا سکے۔ نہیں نہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیل اخلاق پر مقدرت پاوے۔‘‘ جو اپنے آپ پر کنٹرول رکھتا ہو اور اخلاق کو اعلیٰ اپنانے کی طاقت رکھتا ہو۔ فرمایا کہ ’’پس یاد رکھو کہ ساری ہمت اور قوت تبدیل اخلاق میں صَرف کرو کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ 140۔ ایڈیشن 1984ء)پس یہ ہمارا مقصد ہونا چاہئے۔

پھر ایک موقع پر ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’مَیں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو اپنے اخلاق سیّئہ کو چھوڑ کرعادات ذمیمہ کو ترک کر کے خصائل حسنہ کو لیتا ہے‘‘ برے اخلاق کو چھوڑتا ہے، بری عادتوں کو چھوڑتا ہے اور اچھی اخلاق اور خصلتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ فرمایا’’اس کے لئے وہی کرامت ہے۔‘‘یہ تبدیلی ہونا، اعلیٰ اخلاق حاصل کرنا اس کے لئے ایک معجزہ ہے اور ایک کرامت ہے۔ لوگ کہتے ہیں کیا کرامت ہوئی؟ بیعت میں آ کرکیا کرامت دکھائی۔ تو بیعت میں آ کر کرامت یہی ہے کہ اعلیٰ اخلاق اپنا لئے اور بری باتوں کو چھوڑ دیا۔ فرمایا کہ’’مثلاً اگر بہت ہی سخت تُند مزاج اور غصّہ وَر ان عادات بد کو چھوڑتا ہے اور حلم اور عفو کو اختیار کرتا ہے یا امساک کو چھوڑ کر سخاوت اور حسد کے بجائے ہمدردی حاصل کرتا ہے تو بیشک یہ کرامت ہے۔‘‘برائیاں چھوڑیں۔ اچھے اخلاق اختیار کئے۔ غصہ کو چھوڑا اور معافی اور حلم کی عادت ڈالی۔ کنجوسی کو چھوڑا اور سخاوت کی۔ حسد کے بجائے دوسروں سے ہمدردی کے جذبات رکھے تو فرماتے ہیں کہ یہ ایک کرامت ہے، ایک انقلاب ہے جو تمہارے اندر پیدا ہوگیا۔ فرمایا’’اور ایسا ہی خود ستائی اور خود پسندی کو چھوڑ کر جب انکساری اور فروتنی اختیار کرتا ہے تو یہ فروتنی ہی کرامت ہے۔ پس تم میں سے کون ہے جو نہیں چاہتا کہ کراماتی بن جاوے۔‘‘ فرمایا کہ ’’میں جانتا ہوں ہر ایک یہی چاہتا ہے تو بس یہ ایک مُدامی اور زندہ کرامت ہے‘‘ اگر ہمیشہ قائم رہنے والی کوئی کرامت ہے تو یہی کرامت ہے۔ یہی معجزہ ہے اور یہی انقلاب ہے جو تمہیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ بدیوں کو چھوڑ کر، بداخلاقیوں کو چھوڑ کر اعلیٰ اخلاق اختیار کرو۔ فرمایا’’انسان اخلاقی حالت کو درست کرے کیونکہ یہ ایسی کرامت ہے جس کا اثر کبھی زائل نہیں ہوتا بلکہ نفع دُور تک پہنچتا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ خَلق اور خالق کے نزدیک اہل کرامت ہو جاوے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اہل کرامت بن جاؤ۔ مخلوق کے نزدیک بھی اہل کرامت بن جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ مخلوق کے حق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے رند اور عیّاش ایسے دیکھے گئے ہیں جو کسی خارق عادت نشان کے قائل نہیں ہوئے لیکن اخلاقی حالت کو دیکھ کر انہوں نے بھی سر جھکا لیا۔‘‘ مان گئے۔ بڑے بڑے مجرم، بڑے بڑے بدمعاش، بڑے بڑے عیاش تھے۔ نشانوں کو دیکھ کے تو ان کی حالت نہیں بدلی لیکن اخلاقی حالت دیکھ کر انہوں نے سر جھکا لیا، مان گئے۔’’اور بجز اقرار اور قائل ہونے کے دوسری راہ نہیں ملی‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے لوگوں کے سوانح میں اس امر کو پاؤ گے کہ انہوں نے اخلاقی کرامت ہی کو دیکھ کر دین حق کو قبول کر لیا‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ 141-142۔ ایڈیشن 1984ء)

جب آپ یہ بات بیان کر رہے تھے اس وقت آپ کی ذات سے اس کا ایک عملی اظہار بھی ہوگیا۔ پہلے بھی مَیں یہ واقعہ بیان کر چکا ہوں کہ اُس وقت دو سکھ آئے اور مجلس میں بیٹھ کر فضول گوئی شروع کر دی۔ گالیاں دینی شروع کر دیں۔ بکواس شروع کر دی اور آپؑ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے بولتے رہے۔ آپ نے کچھ نہیں کہا۔ خاموشی سے سنتے رہے۔ اس وقت سب لوگوں کے یہ جذبات تھے کہ اعلیٰ اخلاق کا کیسا عملی اظہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ حالانکہ آپ کی جگہ تھی، آپ کی مجلس تھی، احمدی لوگ تھے لیکن آپ نے کسی کو اجازت نہیں دی کہ انہیں کچھ کہے اور جو اُن کے منہ میں آیا، جو گالیاں بَک سکتے تھے بکیں، بولے اور چلے گئے۔ یا پھر بعد میں پولیس نے ان کو پکڑ لیا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ142۔ ایڈیشن1984ء)

تو یہ وہ اعلیٰ معیار تھا جس کا آپؑ نے اپنا نمونہ بھی اپنے ماننے والوں کے سامنے پیش فرمایا۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ اگر انسان کے اندر سے نفسانیت کا کیڑا نہیں نکلتا تو اس کا توحید پر بھی ایمان نہیں ہے۔…. پس خلاصہ یہ کہ انسان کے اندر سے نفسانیت کا کیڑا اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں نکل سکتا اور اللہ تعالیٰ کا فضل بغیر حقیقی توحید پر قائم ہوئے نہیں مل سکتا۔ نرا لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ منہ سے کہہ دینے سے انسان موحّدنہیں بن سکتا۔ موحّد بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کو سب طاقتوں کا مالک سمجھنا ضروری ہے اور اس کو معبود حقیقی سمجھنا ضروری ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کو سب طاقتوں کا مالک سمجھا جائے اور معبود حقیقی سمجھا جائے تو پھر دنیاوی حیلوں سے، دنیاوی بہانوں سے، مختلف طریقوں سے، انسان دوسرے انسانوں کا حق نہیں مار سکتا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button